شکریہ ۔
پہلے تو اس کو ابتداء اسلام پر محمول کیا پھر اس اشکال کا خود ساختہ جواب تیار کرکے منسوخ کردیا ۔لیکن انھوں نے جو اس کو منسوخ کہا ہے ۔ اس کا دلیل نہیں دیا ہے
دعویٰ خاص کے لیے دلیل خاص کی ضرورت ہوتی ہے ۔
بھئی عجیب غیرمقلد ہیں آپ۔
دلیل دی تو ہے ، آپ نے ہی نہیں پڑھی۔
انہوں نے فرمایا تو ہے کہ منسوخ اس لئے ہے کیونکہ اگر عورت امام بن کر آگے کھڑی ہوگی تو کشف ہے۔ یعنی پردے کا مسئلہ۔
اور اگر عورتوں کے بیچ میں کھڑی ہوگی تو امامت کی جگہ کو چھوڑنا پڑے گا جو کہ آگے والی جگہ ہے۔اور یہ مکروہ ہے۔
جبکہ جماعت سنت ہے۔
اور سنت کے ارتکاب کے لئے ، مکروہ فعل انجام دینا درست نہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ عورت کا عورتوں کی جماعت کروانا درست نہیں۔
لہٰذا اب آپ غیرمقلدین ہزار صحیح احادیث پیش کر ڈالئے، ، بس سب کا کافی و شافی جواب ہو گیا۔
خبردار ، جو کسی نے مجتہد صاحب سے یہ پوچھا کہ حضرت خواتین کے لئے امامت کی جگہ آگے والی تھی ہی کب؟ جو اس کا چھوڑنا مکروہ ہوگا؟
اور خبردار، جو کسی نے ان الفاظ ،،، یعنی کہ:
"اور ام المؤمنین کا یہ فعل ابتدائے اسلام پر محمول کیا جائے گا"
کا قافیہ ، اصول کرخی کی ان عبارات سے ملانے کی گستاخی کی ، کہ:
ان کل آیتہ تخالف قول اصحابنافانھاتحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولی ان تحمل علی التاویل من جھۃ التوفیق
ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تو
اس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے۔
ان کل خبریجی بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ اوعلی انہ معارض بمثلہ ثم صارالی دلیل آخر اوترجیح فیہ بمایحتج بہ اصحابنامن وجوہ الترجیح اویحمل علی التوفیق،وانمایفعل ذلک علی حسب قیام الدلیل فان قامت دلالۃ النسخ یحمل علیہ وان قامت الدلالۃ علی غیرہ صرناالیہ ۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی ص374)
ہروہ خبر جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی
تو وہ نسخ پر محمول کی جائے گی،یاوہ اسی کے مثل دوسری حدیث کے معارض ہوگی توپھرکسی دوسرے دلیل سے کام لیاجائے گایاجس حدیث سے ہمارے اصحاب نے استدلال کیاہے اس میں وجوہ ترجیح میں سے کوئی ایک ترجیح کی وجہ ہوگی یاپھر دونوں حدیث میں تطبیق وتوفیق کا راستہ اختیار کیاجائے گا اوریہ دلیل کے لحاظ سے ہگا۔ اگر دلیل معارض حدیث کے نسخ کی ہے تونسخ پر محمول کیاجائے گا یااس کے علاوہ کسی دوسری صورت پر دلیل ملتی ہے تو وہی بات اختیار کی جائے گی۔
کیونکہ ایسا وہی ناہنجار کر سکتا ہے جس کا علم اردو کی چند کتب کے مطالعہ تک محدود ہو، جو کنویں کا مینڈک ہو، اور ایسا کرنا ہی اس کے روایتی قلت فہم کی نشانی بھی قرار پائے گا۔ ظاہر ہے جب یہ حضرات آیات و صحیح احادیث کے ساتھ قولاً و فعلاً یہ رویہ روا رکھتے ہیں ، تو غیرمقلدین بھلا کس کھیت کی مولی گاجر ہیں۔