• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورتو ں کے حقوق کے نام پر … ’’فتنہ ٔنازَن‘‘

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(3) اسلام نے وراثت میں عورتوں کے لیے نصف حصہ قرار دیا ہے ۔ اس کی حکمتیں مسلم ہے۔ لیکن ہماری مغرب زدہ بیگمات اس حکمت کو تسلیم کر نے کے لیے تیا ر نہیں ہیں وہ ہر صورت میں وراثت میں مردو زَن میں خیالی مساوات قائم کرنے پر مصر ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(4) اسلام کے خاندانی نظام میں مرد کو خاندان کے سربراہ کادرجہ دیاگیا ہے، لیکن یہ روشن خیال بیگمات اس طرح کی سربراہی کوعورتوں کی غلامی کا ذریعہ سمجھتی ہیں۔
(5) اسلام نے مر دکو ہی طلاق کاحق دیا ہے لیکن عاصمہ جہانگیر یہ حق برابر ی کی بنیاد پر عورتوں کو دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگار ہی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(6) اسلام نے عورت کا اصل مقام اس کے گھر کوقرار دیا ہے ۔ تحریک ِنازن کی پرچارک تنظیموں کااصل مقصد او رایجنڈا ہی ترقی کے نام پر عورتوں کو گھر سے نکال کر عام منڈی میں لانا ہے ۔
(7) قرآنِ مجید میں عورت او رمرد کے خفیہ تعلقات ،رومان ،اورعشق بازی کو بیہودہ اعمال قرار دیکر ان کے ارتکاب سے منع کیا گیا ہے ۔لیکن عاصمہ جہانگیر کے تمام ادارے انہی لغواعمال کو عورت کی پسند یا محبت کانام دے کر فروغ دے رہے ہیں۔ بلا شبہ اسلام نے شادی کے معاملے میں عورت کی پسند یا ناپسند کو مدنظر رکھنے کاکیا ہے ، لیکن عشق بازانہ تعلقات کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ حتی کہ صائمہ کیس میں جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے بھی عشق بازانہ تعلقات کی حوصلہ شکنی کے لیے قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا ہے چونکہ یہ بات عاصمہ جہانگیر کے خیالات سے متصادم ہے، اسی لیے وہ اس کی کبھی بات نہیں کریں گے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(8) اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی مسلمان عورت کاکسی غیر مسلم مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے ۔ عاصمہ جہانگیر اپنے آپ کو مسلمان کہلانے پر مصر ہیں ، لیکن وہ ایک قادیانی کے نکاح میں ہے ۔ اس تعلق سے ان کا ’’اسلام‘‘ متاثر ہوتا ہے ،نہ ان کی مسلمانی مجروح ہوتی ہے ۔
(9) عاصمہ جہانگیر نے حال ہی میں ایک نوجوان جوڑے کی نکاح خوانی کا فریضہ انجام دیکر اسلامی شعائر کی سخت تضحیک کی ہے ۔ پوری اسلامی تاریخ میں کسی عورت نے نکاح نہیں پڑھایا ، لیکن ان تاریخی حقائق کی عاصمہ کو قطعاً پروا نہیں ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(10) اسلام نے غیر محر م مردوں سے عورتوں کی ملاقات کو منع کیا ہے ۔ لیکن عاصمہ جہانگیر شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ،گھر سے فرار ہو کر ’’دستک‘‘ میں داخلہ لینے والی لڑکیوں سے کئی کئی گھنٹوں تک ان کے آشناؤں سے ملاقات کو قابل اعتراض نہیں سمجھتی۔بلکہ یہ ان لڑکیوں کا عین حق سمجھتی ہیں۔ سمیعہ عمران کیس اس کی تازہ ترین مثال ہے ۔
(11) اسلام نے والدین کے حقوق کو اولاد کے حقوق پر اولیت دی ہے ۔ لیکن عاصمہ جہانگیر والدین کے حقوق کوسرے سے تسلیم کرنے کے لیے آمادہ ہی نہیں ہے ۔ وہ اس کے نزدیک حقوق محض ان لڑکیوں کے ہیں جو خاندانی نظام سے بغاوت کر کے بھاگ آئیں۔ ’’دستک‘‘ کا ادارہ دراصل انہی حقوق کے تحفظ کی عملی مثال ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عورتوں کے حقوق کے نام پر مغرب میں برپا کی جانے والی تحریک ِآزادیٔ نسواں اپنے نتائج کے اعتبار سے ’’سازشِ بربادیٔ نسواں‘‘ معلوم ہوتی ہے۔ اس تحریک کا اصل ہدف خاندانی نظام کی تباہی اور مرد وزَن کا آزادانہ اختلاط ہے۔ یورپ اور امریکہ کے سنجیدہ دانشور خاندانی اقدار کی بحالی کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔لیکن اسلام کے نظریہ پر قائم ہونے والی ریاست پاکستان میں عاصمہ جہانگیر مغرب کی تحریک ِنازن کے اتباع میں ایک بہت خطرناک فتنہ کی بنیاد رکھ رہی ہیں۔ مغربی لابی کے سرمایہ پر پاکستان میں قائم ہونے والا NGOs کا نیٹ ورک اس خطرناک تحریک کا دست وبازو بنا ہوا ہے۔ اسلام او رمشرقی اقدار پر یقین رکھنے والے پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت اس غیرملکی ایجنٹ متحرک اقلیت(Vocal Minority) کی لادین اور ملک دشمن سرگرمیوں پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔ وہ غالباً یورپ کی طرح پاکستان میں حرامی بچوں کی ایک نسل کے پروان چڑھنے کی منتظر ہے۔ اس سے پہلے کہ خاندانی اَقدار کا جنازہ نکل جائے، بے حد ضروری ہے کہ اس خطرناک فتنہ کی سرکوبی کے لئے مؤثر جوابی مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا جائے۔ یہی وہ احساس ہے جس سے مجبور ہوکر راقم الحروف اپنی استعداد کے مطابق پاکستانی عوام کو اس تباہ کن تحریک کے مضمرات سے آگاہی کا فریضہ انجام دیتا رہا ہے۔ یہ کام کسی ایک فرد کے کرنے کا نہیں ہے، اس کے لئے اسلامی مزاج رکھنے والی حب ُالوطن جماعتوں کو جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
 
Top