• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت اور مرد کی نماز کے فرق کے لئے پیش کی جانے والی احادیث!حقیقت کیا ہے ان احادیث کی؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تحقیق حدیث کے متعلق سوالات کے زمرہ میں محترم بھائی @محمد کاشف نے عورت اور مرد کی نماز میں فرق کیلئے پیش کی جانے والی کچھ احادیث کے بارے سوال کیا ہے :

جواباً عرض ہے کہ اس موضوع پر درج ذیل رسالے میں اس مسئلہ پر احناف کے تمام دلائل کی حقیقت بیان کی گئی ہے
’’ مرد و زن کی نماز میں فرق‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لنک اوپن نہیں هو رہا ہے !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم طارق بھائی!
میرے پاس لنک اوپن ہو رہا ہے، پی ڈی ایف فائل ہے۔
Untitled.png

محترم شیخ اسحاق سلفی صاحب سے گذارش ہے کہ اگر ہو سکے تو جواب یونیکوڈ میں دیں ۔ جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
گذارش ہے کہ اگر ہو سکے تو جواب یونیکوڈ میں دیں ۔ جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
ز

فتویٰ نمبر : 1638​
عورت اور مرد کی نماز میں فرق
شروع از عطاء اللہ سلفی بتاریخ : 23 July 2012 11:05 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت کی نماز اور مرد کی نماز میں فرق کیوں ہے
حوالہ نمبر ۱ : آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اے ابن حجر جب تم نماز پڑھو تو کانوں کے برابر ہاتھ اٹھائو اور عورت اپنے ہاتھوں کو چھاتی کے برابر اٹھائے ۔ (کنز العمال ص ۳۰۷ ج۷)
حوالہ نمبر ۲ : آنحضرت ﷺ نے فرمایا : کہ عورت جب نماز میں بیٹھے تو دایاں ران بائیں ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپناپیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو زیادہ ستر کی حالت ہے اللہ تعالیٰ اسے دیکھ کر فرماتے ہیں اے فرشتو ! گواہ ہو جائو میں نے اس عورت کو بخش دیا ہے۔(بیہقی ص ۲۲۳ ج۲)
حوالہ نمبر۳ : حضرت ابو سعید خدری ﷜ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ مردوں کو حکم دیا کرتے تھے خوب کھل کر سجدہ کریں اور عورتوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ خوب سمٹ کر سجدہ کریں ۔(بیہقی ص ۲۲۳ ج۲)
حوالہ نمبر ۴ : امام داود مراسیل میں روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ دو عورتوں کے پاس سے گذرے جو نماز پڑھ رہیں تھیں تو فرمایا جب تم دونوں سجدہ کرو تو اپنے جسم کو زمین کے ساتھ ملا دو بے شک عورت اس بارہ میں مرد کی طرح نہیں ہے۔(مراسیل ص ۵)
حوالہ نمبر ۵ : آخری خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرمایا کرتے تھے کہ جب عورت سجدہ کرے تو خوب سمٹ کر سجدہ کرے اور اپنی رانوں کو ملا لے ۔(ابن ابی شیبہ ص ۲۷۰ ج۱)
حوالہ نمبر۶ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے عورت کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا یعنی خوب اکٹھی ہو کر اور سمٹ کر نماز پڑھیں۔(ابن ابی شیبہ ص ۷۰ ج۱)کوفہ میں امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ یہی فتویٰ دیتے تھے ۔ مدینہ منورہ میں حضرت مجاہد اور بصریٰ میں امام حسن بصری رحمہ اللہ یہی فتویٰ دیتے تھے۔(ابن ابی شیبہ ص ۲۷۰ ج۱)
حوالہ نمبر۷ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ عورتیں آنحضرتﷺ کے زمانہ میں کس طرح نماز پڑھتی تھیں فرمایا کہ پہلے چوکڑی بیٹھتی تھیں پھر ان کو حکم دیا گیا خوب سمٹ کر بیٹھا کریں ۔(جامع المسانید امام اعظم ص ۴۰۶ ج۱)
حوالہ نمبر ۸ : حضرت ابو سعید خدری ﷜ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ مردوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ تشہد میں دایاں پائوں کھڑا رکھیں اور بایاں پائوں بچھا کر اس پر بیٹھا کریں اور عورتوں کو حکم دیا کرتے کہ سمٹ کر بیٹھیں۔(بیہقی ص ۲۳۲ ج۲)؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے مرد وعورت کے نماز میں رفع الیدین جلوس اور سجود میں فرق کے سلسلہ میں کچھ حوالہ جات ارسال فرمائے ہیں ترتیب وار ان پر کلام مندرجہ ذیل ہے بتوفیق اللہ تبارک وتعالیٰ وعونہ ۔
(۱) اس روایت کے متعلق مجمع الزوائد ص۱۰۳ ج۲ پر لکھا ہے ’’ قُلْتُ : لَہٗ فِی الصَّحِیْحِ وَغَیْرِہٖ فِیْ رَفْعِ الیَدَیْنِ غَیْرَ ہٰذَا الْحَدیْثِ رَوَاہُ الطَّبْرَانِیْ فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ فِیْ مَنَاقِبِ وَائِلٍ مِنْ طَرِیْقِ مَیْمُوْنَة بِنْتِ حُجْرٍ عَنْ عَمَّتِہَا أُمِّ یَحْیٰی بِنْتِ عَبْدِ الْجَبَّارِ وَلَمْ أَعْرِفْہَا وَبَقِیَّة رَجَالِہٖ ثِقَاتٌ‘‘ ۔ تو یہ روایت بوجہ مجہولیت راویہ کمزور ہے قابل احتجاج نہیں ۔
(۲) اس روایت کو بیہقی ص ۲۲۳ ج نمبر۲ کے حوالہ سے نقل کیا گیا ہے اور بیہقی کے اسی صفحہ ۲۲۳ پر اس روایت کو ضعیف قرار دیا گیا ہے چنانچہ امام بیہقی لکھتے ہیں ’’قَالَ أَبُوْ أَحَمَدَ : أَبُوْ مُطِیْعٍ بَیِّنُ الضُّعْفِ فِیْ أَحَادِیْثِہٖ ، وَعَامَّة مَا یَرْوِیْہٖ لاَ یُتَابَعْ عَلَیْہِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اﷲُ : وَقَدْ ضَعَّفَہٗ یَحْیٰی بْنُ مَعِیْنٍ وَغَیْرُہٗ‘‘ ۔ نیز امام بیہقی اس سے پچھلے ص ۲۲۲ پر لکھتے ہیں ’’ وَقَدْ رُوِیَ فِیْہِ حَدِیْثَانِ ضَعِیْفَانِ لاَ یُحْتَجُّ بِأَمْثَالِہِمَا‘‘ پھر دوسرے نمبر پر اس روایت کو بیان کرتے ہیں جو حوالہ نمبر ۲ میں نقل کی گئی ہے اب نامعلوم صاحب حوالہ جات نے حوالہ نمبر۲ میں امام بیہقی کے فیصلہ کو کیوں نظر انداز فرما دیا ۔
پھر اس روایت میں ہے ’’عورت جب نماز میں بیٹھے تو دایاں ران بائیں ران پر رکھے‘‘ جبکہ اس روایت کو بطور دلیل پیش کرنے والوں کی عورتیں بھی جب نماز میں بیٹھتی ہیں تو دائیں ران کو بائیں ران پر نہیں رکھتیں۔ ﴿ أَتَامُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ﴾ یاد رہے ترجمہ ’’دایاں ران بائیں ران پر رکھے‘‘ حوالہ جات پیش کرنے والوں نے کیا ہے یہ راقم تو محض ناقل ہے۔
(۳،۸) ان دونوں حوالوں میں مذکور روایت ایک ہی ہے جس کے کچھ حصہ کو نمبر۳ میں نقل کر کے ص ۲۲۳ کا حوالہ دیا گیا ہے جبکہ یہ حصہ ص ۲۲۲ پر ہے اور کچھ حصہ کو نمبر۸ میں نقل کر کے حوالہ ص ۲۲۲ کا دیا گیا ہے جبکہ یہ حصہ ص ۲۲۳ پر ہے ایک روایت کے دو حصوں کو دو نمبروں میں ذکر کرنا تو سمجھ میں آتا ہے البتہ دونوں حصوں کے صفحات کی تبدیلی کم از کم میرے لیے تو ناقابل فہم ہے کہ اس سے تبدیلی کرنے والوں کا کیا مقصد ہے یا ویسے ہی ان سے بھول ہو گئی ہے ۔
پھر اس روایت کو بھی خود امام بیہقی نے ہی ضعیف قرار دیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں : ’’ وَقَدْ رُوِیَ فِیْہِ حَدِیْثَانِ ضَعِیْفَانِ لاَ یُحْتَجُّ بِأَمْثَالِہِمَا‘‘ ان دو میں پہلی یہی حوالہ نمبر۳ اور حوالہ نمبر۸ میں ذکر کردہ ابو سعید خدری t والی روایت ہے نیز لکھتے ہیں : ’’وَاللَّفْظُ الْأَوَّلُ ، وَاللَّفْظُ الْآخِرُ مِنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مَشْہُوْرَانِ عَنِ النَّبِیِّﷺ ، وَمَا بَیْنَہُمَا مُنْکَرٌ وَاﷲ اعلم‘‘ ۔ ’’ مَا بَیْنَہُمَا‘‘ سے اس روایت ابو سعید خدری t کے وہی دو حصے مراد ہیں جو حوالہ نمبر۳ اور حوالہ نمبر۸ میں بیان ہوئے ۔
اس روایت کی سند میں عطاء بن عجلان نامی ایک راوی ہے جس کے متعلق خود امام بیہقی ہی لکھتے ہیں ’’وَکَذٰلِکَ عَطَائُ بْنُ عَجْلاَنَ ضَعِیْفٌ‘‘ص ۲۲۳ ج۶ اور تقریب التہذیب ص ۲۳۹ میں ہے ’’ عَطَائُ بْنُ الْعَجْلاَنِ الْحَنْفِیُّ أَبُوْ مُحَمَّدٍ الْبَصْرِی الْعَطَّارُ مَتْرُوْکٌ ، بَلْ أَطْلَقَ عَلَیْہِ ابْنُ مَعِیْنٍ وَالْفَلاَّسُ ، وَغَیْرُہُمَا الْکَذِبَ مِنَ الْخَامِسَةِ‘‘ ۔
نیز صاحب حوالہ جات نمبر۸ میں ’’وَیَأْمُرُ النِّسَائَ أَنْ یَّتَرَبَّعْنَ‘‘ کا ترجمہ یا مطلب بیان کرتے ہیں ’’اور عورتوں کو حکم دیا کرتے کہ سمٹ کر بیٹھیں‘‘ معلوم نہیں اس مقام پر انہوں نے ایسا کیوں کیا جبکہ خود انہوں نے اسی لفظ ’’یَتَرَبَّعْنَ‘‘ کا ترجمہ ومطلب حوالہ نمبر۷ میں ’’چوکڑی بیٹھتی تھی‘‘ کیا ہے۔
پھر اس روایت کے مطابق عورتوں کو تشہد میں چوکڑی بیٹھنے کا حکم ہے جبکہ معلوم ہے کہ حنفیوں کی عورتیں بھی تشہد میں چوکڑی نہیں بیٹھتیں ۔﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ﴾ چوکڑی بیٹھنے کو منسوخ قرار دینے والی روایت نہ صحیح اور نہ ہی حسن جیسا کہ تفصیل آ رہی ہے ان شاء اللہ ۔
(۴) یہ روایت مرسل ہے یزید بن ابی حبیب اس کو رسول اللہﷺ سے بیان کرتے ہیں جبکہ یزید بن ابی حبیب کی رسول اللہﷺ سے ملاقات نہیں اور نہ ہی انہوں نے رسول اللہﷺ کا زمانہ پایا ہے اس لیے یہ روایت قابل احتجاج واستدلال نہیں اور اس کا مرسل ومنقطع ہونا امام ابو داود کے اس کو مراسیل میں بیان کرنے سے ہی واضح ہے۔
پھر امام بیہقی نے سنن کبریٰ ص ۲۲۳ ج۲ میں اسی مرسل روایت کے بارہ میں لکھا ہے ’’وَرُوِیَ فِیْہِ حَدِیْثٌ مُنْقطِعٌ ، وَہُوَ أَحْسَنُ مِنَ الْمَوْصُوْلِیْنَ قَبْلَہٗ‘‘ پھر ابوداود والی سند کے ساتھ اس مرسل روایت کو بیان کیا۔ علامہ علاؤ الدین مار دینی حنفی حاشیہ بیہقی میں لکھتے ہیں’’ظَاہِرُ کَلاَمِہٖ أَنَّہٗ لَیْسَ فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ إِلاَّ الْاِنْقِطَاع، وَسَالِمٌ مَتْرُوْکٌ حَکَاہُ صَاحِبُ الْمِیْزَانِ عَنِ الدَّارقُطْنِی‘‘ ۔
تو علامہ ماردینی حنفی کے بیان کے مطابق اس روایت میں انقطاع والے نقص کے ساتھ ساتھ اس کی سند میں سالم بن غیلان کے متروک ہونے والا نقص بھی موجود ہے لہٰذا اس مقام پر ’’ہمارے نزدیک مرسل حجت ہے‘‘ والا اصول بھی نہیں چل سکتا کیونکہ حنفیوں کا یہ اصول اس مرسل کے متعلق ہے جس مرسل کی سند صحیح یا حسن ہو اور اس مرسل کی سند نہ صحیح ہے اور نہ حسن کیونکہ اس کی سند میں سالم بن غیلان متروک راوی موجود ہے ۔
چند منٹ کے لیے ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ مرسل روایت اسنادی اعتبار سے حنفیوں کے نزدیک حسن کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے پھر بھی ان کے نزدیک قابل احتجاج واستدلال نہیں کیونکہ ان کے نزدیک مرسل روایت اس وقت حجت ہوتی ہے جب ارسال کرنے والے تابعی کی عادت معلوم ہو کہ وہ صرف ثقات ہی کو حذف کرتا ہے دیکھئے شرح نخبہ اور یہ چیز یزید بن ابی حبیب میں معلوم نہیں ہو سکی ورنہ ان کی اس عادت کو دلائل سے ثابت کیا جائے پھر ان کی مرسل روایت کو حجت بنایا جائے ۔
حوالہ نمبر۴ میں لکھا گیا ہے ’’امام داود مراسیل میں روایت ‘‘ الخ یہ امام داود نہیں امام ابوداود ہیں ۔
(۵) اس روایت کی سند میں ’’الحارث‘‘ نامی راوی ہے جس کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھا ہے ’’وَقَالَ مُفَضَّلُ بْنُ مُہَلْہَلٍ عَنْ مُغِیْرَۃَ سَمِعَ الشَّعْبِیَّ یَقُوْلُ : حَدَّثَنِیْ الْحَارِثُ وَأَشْہَدُ أَنَّہٗ أَحَدُ الْکَذَّابِیْنَ ۔ وَرَوَی مُحَمَّدُ بْنُ شَیْبَة الضَّبِیُّ عَنْ أَبِیْ إِسْحَاقَ قَالَ : زَعَمَ الْحَارِثُ الْأَعْوُرُ وَکَانَ کَذَّابًا‘‘ ص ۴۳۶ ج۱ میزان الاعتدال میں اسی مقام پر ہے ’’جَرِیْرٌ عَنْ حَمْزَۃَ الزَّیَّاتِ قَالَ : سَمِعَ مُرَّۃُ الْہَمْدَانِیْ مِنَ الْحَارِثِ أَمْرًا فَأَنْکَرَہٗ فَقَالَ لَہٗ : اُقْعُدْ حَتّٰی أَخْرُجَ إِلَیْکَ ۔ فَدَخَلَ مُرَّۃُ فَاشْتَمَلَ عَلٰی سَیْفِہٖ ، فَأَحَسَّ الْحَارِثُ بِالشَّرِّ فَذَہَبَ ۔ وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ: کَانَ الْحَارِثُ غَالِیًا فِی التَّشَیُّعِ وَاہِیًا فِی الْحَدِیْثِ‘‘ ۔
(۶) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما والی موقوف روایت کی سند میں سعید بن ایوب اور یزید بن حبیب دو راوی ہیں جن کے حالات مجھے ابھی تک نہیں ملے اس لیے حوالہ دینے والوں کی ذمہ داری ہے کہ ان دونوں کا ثقہ ہونا ثابت کریں ۔ پھر صحابہ والی مقطوع روایت کی سند میں لیث بن ابی سلیم ہے جس کے متعلق تقریب التہذیب میں لکھا ہے ’’صُدُوْقٌ اِخْتَلَطَ أَخِیْرًا وَلَمْ یُتَمَیَّزْ حَدِیْثُہٗ فَتُرِکَ‘‘ نیز مصنف ابن ابی شیبہ ص ۲۷۰ ج۱ میں امام ابراہیم کے ساتھ ان کے کوفہ میں فتویٰ ۔ امام مجاہد کے ساتھ ان کے ’’مدینہ منورہ میں فتویٰ‘‘ اور امام حسن کے ساتھ ان کے ’’بصرہ میں فتویٰ‘‘ دینے کا کوئی ذکر نہیں۔
اصول شاشی ، نور الانوار ، حسامی ، مسلم الثبوت ، تلویح توضیح اور دیگر اصول فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے ’’شرع کے اصول ودلائل چار ہیں ۔ (۱) کتاب اللہ تبارک وتعالیٰ ۔ (۲) رسول اللہﷺ کی سنت ثابتہ ۔ (۳)اجماع امت ۔ (۴) قیاس صحیح ‘‘ اور معلوم ہے کہ مذکور بالا تین تابعین کے مذکور بالا آثار کتاب اللہ ہیں ، نہ ہی سنت رسول اللہ r نہ ہی اجماع اور نہ ہی قیاس صحیح ۔
پھر اس قسم کے آثار دوسری طرف بھی موجود ہیں مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ ص۲۷۰ ج۱ میں ہے : ’’ أَنَّ أُمَّ الدَّرْدَائِ کَانَتْ تَجْلِسُ فِی الصَّلاَۃِ کَجِلْسَۃِ الرَّجُلِ‘‘ اور محولہ بالا اسی مقام پر ہے ’’عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ تَقْعُدُ الْمَرْأَۃُ فِی الصَّلاَۃِ کَمَا یَقْعُدُ الرَّجُلُ‘‘ سجود کے سلسلہ میں ابراہیم نخعی کے قول کو لے لینا اور جلوس وقعود کے سلسلہ میں ان کے قول کو نہ لینا سراسر ناانصافی ہے نیز اسی محولہ بالا مقام پر ہے ’’ أَنَّ صَفِیَّة کَانَتْ تُصَلِّیْ وَہِیَ مُتَرَبِّعَة‘‘ پھر اسی مقام پر ہے ’’ عَنْ نَافِعٍ قَالَ : تَرَبَّع‘‘ اور ص ۲۷۱ج۱ پر ہے ’’عَنْ شُعْبَة قَالَ : سَأَلْتُ حَمَّادًا عَنْ قُعُوْدِ الْمَرْأَۃِ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ : تَقْعُدُ کَیْفَ شَائَ تْ‘‘۔
(۷) یہ روایت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے شاگرد نافع کے شاگرد کی وجہ سے ضعیف ہے آپ ان کے حالات تفصیلاً دیکھنا چاہتے ہیں تو’’سلسلة الأحادیث الضعیفة‘‘ جلد اول حدیث ۴۵۸ از ص ۴۶۳ تا ص ۴۶۹ پڑھ لیں ۔
پھر اگر اسی قسم کی روایات پر اعتماد کرنا ہے تو مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول ص ۲۷۰ پر ہے ’’ عَنْ نَافِعٍ قَالَ کُنَّ نِسَائُ ابْنِ عُمَرَ یَتَرَبَّعْنَ فِی الصَّلاَۃِ‘‘ پھر نافع ہی فرماتے ہیں ’’عورت چوکڑی بیٹھتی ہے‘‘ اور کئی حنفی لکھتے ہیں ’’راوی کا عمل یا قول اس کی روایت کے خلاف ہو تو عمل راوی کے قول یا عمل پر ہو گا نہ کہ اس کی روایت پر‘‘۔
وباللہ التوفیق


 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
جزاک اللہ خیرا فی الدنیا و الاخرہ محترم اسحاق سلفی بھائی کتب تو ہیں اس موضوع پر میرا مقصد یہاں یونیکوڈ میں جواب دینا ہی تھا تاکہ ہر بھائی یہاں ہی پڑھ سکے اور بوقت ضرورت کاپی کر کے جواب بھی دے سکے۔اللہ آپ کو اسکی بہترین جزا عطا فرمائے۔آمین
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
الحمد للہ رب العالمین و الصلوۃ و السلام علی رسولہ الأمین، أما بعد:
آل تقلید کا “مرد و عورت کی نماز میں فرق” کے سلسلے میں دعویٰ ہے کہ :
(۱) عورت تکبیر تحریمہ کے لئے دونوں ہاتھ شانوں تک اُٹھائے (۲) اپنے ہاتھ آستینوں سے باہر نہ نکالے (۳) داہنے ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ دے (۴) ہاتھ پستانوں کےنیچے چھاتی پر باندھے (۵) رکوع میں تھوڑا سا جھکے (۶) رکوع میں ہاتھوں پر سہار ا نہ دے (۷) رکوع میں ہاتھ کی انگلیاں کشادہ نہ رکھے بلکہ انہیں ملا لے (۸) رکوع میں اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لے (گھٹنے پکڑے مت) (۹) رکوع میں گھٹنوں کو کچھ خم دیدے (۱۰) رکوع میں سمٹ جائے (۱۱) سجدہ میں بھی جسم کو اکٹھا کر کے سمٹ جائے (۱۲) سجدہ میں کہنیوں سمیت بازو زمین پر بچھا دے (۱۳) قعدہ میں دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر بائیں کولہے پر بیٹھے (۱۴) قعدہ میں انگلیاں رانوں پر اس طرح رکھے کہ انگلیوں کے سر ےگھٹنوں تک پہنچیں اور انگلیاں ملا لے”
(روزنامہ اسلام ، خواتین کا اسلام :۳۱، ۸ اکتوبر ۲۰۰۳؁ء ص ۴ مضمون: مردوعورت کی نماز کا فرق ،از قلم مفتی محمد ابراہیم صادق آبادی ]دیوبندی[)

ان فروقِ تقلیدیہ کے مقابلے میں اہل الحدیث کا دعویٰ یہ ہے کہ:

درج بالا فروق میں سے ایک فرق بھی عورتوں کی تخصیص کے ساتھ قرآن ، حدیث اور اجماع سے ثابت نہیں ہے ، لہذا حدیث “صلو کمارأیتموني أصلي” نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو، کی رو سے عورتوں کو بھی اسی طرح نماز پڑھنی چاہیے جس طرح حضرت محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نماز پڑھتےتھے۔
اہل الحدیث کو آلِ تقلید سے یہ شکایت ہے کہ یہ لوگ ضعیف و مردود روایتیں اور موضوع سے غیر متعلقہ دلائل پیش کرکے عام مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں۔اس تمہید کے بعد قاری چن محمد دیوبندی اور قاری نصیراحمد دیوبندی کے چار صفحاتی مضمون “مرد و عورت کی نماز میں فرق” کا جائزہ پیش خدمت ہے۔ مرد و عورت کے طریقہِ نماز میں فرق کے سلسلے میں دوسرے لوگوں کے شبہات کے جوابات بھی ہمارے اس مضمون میں دے دیے گئے ہیں۔ والحمد للہ
قاری چن صاحب (۱) : وعن وائل بن حجر قال قال لي رسول اللہ ﷺ : یا وائل بن حجر إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک والمرأۃ ]تجعل[حذاء ثدییھا”
ترجمہ : حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی پاک ﷺ نے نماز کا طریقہ سکھلایا تو فرمایا کہ اے وائل بن حجرؓجب تم نماز شروع کرو تو اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاؤ اور عورت اپنے ہاتھ چھاتیوں تک اُٹھائے ۔ (“مجمع الزوائد ص 2/103” ص ۱)
الجواب:
اس حدیث کے بارے میں حافظ نور الدین الھیثمی رحمہ اللہ اپنی کتاب مجمع الزوائد لکھتے ہیں کہ :
رواہ الطبراني فی حدیث طویل فی مناقب وائل من طریق میمونۃ بنت حجر عن عمتھا ام یحي بنت عبدالجبار و لم أعرفھا و بقیۃ وجالہ ثقات”

اسے طبرانی نے مناقب وائل ؓ سے میمونہ بن حجرسے، انہوں نے اپنی پھوپھی ام یحیی بنت عبدالجبار سے لمبی حدیث میں روایت کیا ہے۔ ام یحیی کو میں نہیں جانتا اور اس (سند ) کے باقی راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ج ۱ص ۱۰۳)
معلوم ہوا کہ صاحب مجمع الزوائد نے اس روایت کی سند پر جرح کر رکھی ہے جسے دیوبندیوں کے “مناظر” اور “قراء” کی صف میں شامل قاری چن صاحب اینڈ پارٹی نے چھپا لیا ہے ۔ کیا انصاف و امانت اسی کا نام ہے ؟
لطیفہ: حیاتی دیوبندیوں کے مناظر ، ماسٹر امین اوکاڑوی صاحب نے ام یحیی کی اسی روایت کو بطور حجت پیش کیا ہے ۔ دیکھئے مجموعہ رسائل (جلد ۲ ص ۹۴ طبع جون ۱۹۹۳؁ء )
جبکہ اپنی مرضی کے مخالف ایک حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ :”ام یحیی مجہولہ ہیں“ (مجموعہ رسائل ج ۱ص ۳۴۶ ، نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا ص ۱۰)
ایک ہی راویہ اگر مرضی کے خلاف روایت ہو تو مجہولہ بن جاتی ہے اور دوسری جگہ اسی کی روایت سے حجت پکڑی جاتی ہے ۔ واہ کیا انصاف ہے !
تنبیہ: مجمع الزوائد والی روایت مذکورہ المعجم لکبیر للطبرانی (ج ۲۲ ص ۲۰،۱۹ ح ۲۸) میں ام یحیی کی سند سے موجود ہے اور اسی کتاب سے “حدیث اور اہل حدیث” کے مصنف نے اسے نقل کر رکھا ہے ۔ (ص ۴۷۹)
تنبیہ : سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب یہ غیر ثابت روایت محمد ظفر الدین قادری رضوی بریلوی (متوفی ۱۹۶۲ء )نے اپنی وضع کردہ کتاب “صحیح البہاری”(ص ۳۸۳) میں نقل کی ہے ۔
معلوم ہوا کہ صحیح البخاری کے مقابلے میں لکھی گئی بریلوی کتاب “صحیح البہاری” (!) اپنے دامن میں ضعیف و مردود روایات بھی جمع کئے ہوئے ہے۔ یہ لوگ کس دھڑلے سے ضعیف و مردود روایا ت کو صحیح باور کرانا چاہتے ہیں۔ کیا انہیں روزِ جزا کی پکڑ کا کوئی ڈر نہیں ہے؟

قاری چن صاحب (۲):
”امام بخاری ؒ کے استاد ابوبکر بن ابی شیبہ ؒ نے حضرت عطاء تابعی ؒ کا فتویٰ نقل کیا ہے کہ عورت نماز میں اپنی چھاتیوں تک ہاتھ اُٹھائے اور فرمایا ایسے نہ اُٹھائے جس طرح مرد اُٹھاتے ہیں اور آخر میں فرمایا نماز میں عورت……..مردوں کی طرح نہیں ہے ۔ مصنف لابی بکر بن ابی شیبہ ص 1/239“
الجواب:
مصنف ابن ابی شیبہ (۲۳۹/۱ح ۲۴۷۴) کی روایت ِ مذکورہ کے آخر میں ہے کہ عطاءبن ابی رباح ؒ نے فرمایا: إنّ للمرأۃ ھیئۃ لیست للرجل و إن ترکت ذلک فلا حرج’بے شک عورت کی ہیئت (حالت ) مرد کی طرح نہیں ہے اور اگر وہ عورت اسے ترک کردے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۳۹/۱)
معلوم ہوا کہ عطاء ؒ نے نزدیک اگر عورت ، چھاتی تک ہاتھ اُٹھانا ترک کرکے مردوں کی طرح نماز پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اس آخری جملے کو قاری چن صاحب اور “حدیث اور اہل حدیث” کے مصنف نے (الحدیث کہہ کر ) اس لئے چھپا لیا ہے کہ اس جملے سے ان کے مزعوم مذہب کی بنیاد ہی ختم ہوجاتی ہے ۔ جب اس میں حرج کوئی نہیں ہے تو پھر دیوبندی و بریلوی حضرات شور کیوں مچا رہے ہیں کہ کانوں تک مرد اور عورتیں چھاتیوں تک ہاتھ اُٹھائیں؟
آلِ تقلید کے بزعم خود دعوی میں قرآن، حدیث ، اجماع اور اجتہاد ابی حنیفہ حجت ہے ۔ امام عطاء ؒ کا قول کہا ں سے ان کی حجت بن گیا ؟
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں کہ :
فإن قول التابعي لا حجۃ فیہ” ]بے شک تابعی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے [
(اعلاء السنن ج ۱ ص ۲۴۹)
دیوبندیوں کی ایک پسندیدہ کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایا:
“اگر صحابہؓ کے آثار ہوں اور مختلف ہوں تو انتخاب کرتا ہوں اور اگر تابعین کی بات ہو تو ان کی مزاحمت کرتا ہوں یعنی ان کی طرح میں بھی اجتہاد کرتا ہوں ” (تذکرۃ النعمان ترجمہ عقود الجمان ص ۲۴۱)
اس عبارت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔
اول: امام صاحب تابعین کے اقوال و افعال کو حجت تسلیم نہیں کرتے تھے۔
دوم: امام صاحب تابعین میں سے نہیں ہیں۔ اگر وہ تابعین میں سے ہوتے تو پھر تابعین کا علیحدہ ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
اب امام عطاء ؒ کے چند مسائل پیشِ خدمت ہیں جنہیں آلِ تقلید بالکل نہیں مانتے۔
۱: عطاءؒ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے، دیکھئے جز رفع الیدین (ح ۲۶ و سندہ حسن)
۲: عطاءؒ فرماتے ہیں کہ :

أما أنا فأقر أمع الإمام فی الظھر و العصر بأم القرآن و سورۃ قصیرۃ

میں ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ اور ایک چھوٹی سورت پڑھتا ہوں ۔
(مصنف عبدالرازاق ۱۳۳/۲ ح ۲۷۸۶ وسندہ صحیح ، ابن جریح صرح بالسماع)
۳: عطاء ؒ فرماتے ہیں کہ : ”المسح علی الجوربین بمنزلۃ المسح علی الخفین
جرابوں پر مسح اسی طرح (جائز) ہے جس طرح موزوں پر مسح (جائز ) ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱۸۹/۱ح ۱۹۹۱)
۴: عطاءؒ سے پوچھا گیا کہ اگر آپ غسل کے دوران (یعنی آخر میں) اپنے ذکر کو ہاتھ لگا دیں تو کیا کریں گے؟ انہوں نے فرمایا : ”إذأ أعود بوضوء میں تو دوبارہ وضوکروں گا ۔ (مصنف عبدالرزاق۱۱۶/۱ ح ۴۲۰ وسندہ صحیح)
معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کی مخالفت کے ساتھ ساتھ آلِ تقلید حضرات امام عطاء و دیگرتابعین و صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال و افعال کے بھی مخالف ہیں۔
قاری چن صاحب (۳): ”حضرت علامہ مولانا عبدالحئی لکھنوی فرماتے ہیں:
واما فی حق النساء فاتفقوا علی ان النسۃ لھن وضع الیدین علی الصدر….عورتوں کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ ان کے لئے سنت سینے پر ہاتھ باندھنا ہے نماز میں۔ (السعایہ ص 2/156)“
الجواب:
عبدالحئی لکھنوی تقلیدی کے قول ”سب کا اتفاق“سے مراد سب دیوبندیوں و بریلویوں و حنفیوں کا اتفاق ہے ، پوری امت کا اتفاق مراد نہیں ہے ۔
عبدالرحمٰن الجزیری صاحب لکھتے ہیں کہ:الحنابلۃ-قالوا : السنۃ للرجل و المرأۃ أن یضع باطن یدہ الیمنیٰ علی ظھر یدہ الیسری ویجعلھما تحٹ سُرتہ
حنبلی حضرات کہتے ہیں کہ مرد و عورت (دونوں) کے لئے سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کا باطن بائیں ہاتھ کی پشت پر اور ناف کے نیچے رکھا جائے ، (کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ ج ۱ ص ۲۵۱ طبع بیروت، لبنان)
یاد رہے کہ عبدالحئی لکھنوی جیسے تقلیدی مولویوں کا قول و فعل، اہل حدیث کے خلاف پیش کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو کتاب و سنت و اجماع سے محروم اور تہی دامن ہیں۔
قاری چن صاحب (۴): عن أبي یزید بن أبي حبیب ان رسول اللہ ﷺ مرعلی امراتین تصلیٰن فقال ]إذا[ سجدتما فضمابعض اللحم الی الارض فإن المرأۃ فی ذلک لیست کالرجل،
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جب سجدہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصوں کو زمین سے چمٹا دو اس لئے کہ اس میں عورت مرد کی مانند نہیں ہے۔ (بیہقی ص 2/223 اعلاء السنن ص 3/19)

الجواب:
امام بیہقیؒ نے روایت مذکورہ کو امام ابوداؤد ؒ کی کتاب المراسیل (ح ۸۷) سے نقل کرنے سے پہلے اسے “حدیث منقطع” یعنی منقطع حدیث لکھا ہے ۔ (السنن الکبری ۲۲۳/۲)
منقطع حدیث کے بارے میں اصول حدیث کی ایک جدید کتاب میں لکھا ہے کہ:

المنقطع ضعیف بالإتفاق بین العلماء و ذلک للجھل بحال الراوي المحذوف

علماء کا اتفاق ہے کہ منقطع روایت ضعیف ہوتی ہے ، اس لئے کہ اس کا محذوف راوی مجہول ہوتا ہے ۔
(تیسیر مصطلح الحدیث ص ۷۸، المنقطع)
تنبیہ: کتاب المراسیل لابی داؤد (ح ۳۳) میں آیا ہے کہ طاؤس ؒ(تابعی) فرماتے ہیں کہ :
رسول اللہ ﷺ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتے تھے ۔ (ص۸۹)
آلِ تقلید کو اس منقطع حدیث سے چڑ ہے ۔ یہ لوگ اس حدیث پر عمل کرنے کو تیار نہیں پھر بھی اہل حدیث کے خلاف کتاب المراسیل کی منقطع روایت سے استدلال کر رہے ہیں !

قاری چن صاحب (۵):عن ابن عمر مرفوعاً اذا جلست المرأۃ فی الصلوۃ و ضعت فخذھا علی فخذھا الأخری فاذا سجدت الصقت بطنھا فی فخذیھا کاسترما یکون لھا وان اللہ تعالیٰ ینظر الیھا و یقول یا ملائکتی اشھدکم انی قد غفرت لھا.
”آنحضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ جب عورت نماز میں بیٹھے تو دائیاں ران بائیں ران پر رکھے اور جب سجدہ (کرے) تو اپنا پیٹ اپنی رانوں سے ملائے جو زیادہ ستر کی حالت ہے اللہ تعالیٰ دیکھ کر فرماتے ہیں اے (فرشتو) گواہ ہوجاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا ۔ (بیہقی ص 2/223)“

الجواب :
اس روایت کے ایک راوی ابو مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی کے بارے میں السنن الکبری للبیہقی کے اسی صفحے پر لکھا ہوا ہے کہ :
قال أبو أحمد : أبو مطیع بین الضعف فی أحادیثہ إلخ(امام) ابو احمد (بن عدی) نے فرمایا : ابو مطیع کا اپنی حدیثوں میں ضعیف ہونا واضح ہے ۔۔ إلخ
اسے امام یحیی بن معین وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس پر جمہور محدثین کی جرح کے لئے لسان المیزان (۳۳۴/۲۔۳۳۶) پڑھ لیں۔
اس روایت کے دوسرے راوی محمد بن القاسم البلخی کا ذکر حلال نہیں ہے ۔ دیکھئے لسان المیزان (۳۴۷/۵ ت ۷۹۹۷)
اس کے تیسرے راوی عبید بن محمد السرخی کے حالات نامعلوم ہیں۔
خلاصہ التحقیق: یہ روایت موضوع ہے ۔ خود امام بیہقی ؒ نے اسے اور آنے والی حدیث (۹) کو ”حدیثان ضعیفان لا یحتج بأمثالھا“ قرار دیا ہے۔ (السنن الکبری ۲۲۲/۲)
یہ روایت کنز العمال (۵۴۹/۷ ح ۲۰۲۰۳) میں بحوالہ بیہقی و ابن عدی (الکامل ۵۰۱/۲) منقول ہے (کنزالعمال میں لکھا ہوا ہے کہ : عدق و ضعفہ عن ابن عمر)بعض الناس نے کان کو اُلٹی طرف سے پکڑتے ہوئے اسے بحوالہ کنزالعمال نقل کیا ہے ۔ (حدیث اور اہلحدیث ص ۴۸۱ نمبر۵)!
قاری چن صاحب (۶): عن إبن عمر أنہ سئل کیف النساء یصلین علی عھد رسو ل اللہ ﷺ؟ قال: کن یتربصن ثم أمرن أن یحتفزن
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ حضور ﷺ کے مبارک زمانہ میں خواتین نماز کس طرح پڑھا کرتی تھیں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ پہلے چار زانوں ہو کر بیٹھتی تھیں۔ پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز ادا کریں۔ (جامع المسانید ص 1/400)
الجواب:
ابو المؤید محمد بن محمود الخوارزمی (متوفی ۶۶۵؁ھ/ غیر موثق) کی کتاب “جامع المسانید “میں اس روایت کے بعض راویوں کا جائزہ درج ذیل ہے ۔
۱: ابراہیم بن مہدی کا تعین نامعلوم ہے ۔ تقریب میں اس نام کے دو راوی ہیں۔ان میں دوسرا مجروح ہے ۔ قال الحافظ ابن حجر ؒ: ”
البصري، کذبوہ“ یہ بصری ہے اسے (محدثین) نے جھوٹا کہا ہے ۔ (التقریب : ۲۵۷)
۲: زربن نجیح البصری کے حالات نہیں ملے۔
۳: احمد بن محمد بن خالد کے حالات نہیں ملے۔
۴: علی بن محمد البزاز کے حالات نہیں ملے۔
۵: قاضی عمر بن الحسن بن علی الاشنانی مختلف فیہ راوی ہے ۔ اس کے بارے میں امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ :”
وکان یکذب”اور وہ جھوٹ بولتا ہے۔ (سوالات الحاکم للدارقطنی:۲۵۲ ص ۱۶۴)
حسن بن محمد الخلال نے کہا:”
ضعیف تکلموافیہ”(تاریخ بغداد ۲۳۸/۱۱) ذہبی نے اس پر جرح کی ہے۔
ابو علی الھروی اور ابو علی الحافظ نے اس کی توثیق کی ہے ۔(تاریخ بغداد ۲۳۸/۱۱)
ابن الجوزی نے اس پر سخت جرح کی (الموضوعات ۲۸۰/۳) برھان الدین الحلبی نے اسے واضعین حدیث میں ذکر کیا ہے اور کوئی دفاع نہیں کیا (دیکھئے الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث ص ۳۱۲،۳۱۱ ت ۵۴۱)
ابو القاسم طلحہ بن محمد بن جعفر الشاھد : ضعیف ، معتزلی گمراہ نے اس کی تعریف کی ہے ۔خطیب بغدادی نے بھی اس کی تعریف کی ۔

خلاصہ التحقیق: قاضی اشنانی ضعیف عند الجمہور ہے۔
تنبیہ: قاضی اشنانی تک سند میں بھی نظر ہے ۔
۶: دوسری سند میں عبداللہ بن احمد بن خالد الرازی ، زکریا بن یحیی النیسابوری اور قبیصہ الطبری نامعلوم راوی ہیں۔ اور ابو محمد البخاری (عبداللہ بن محمد بن یعقوب ) کذاب راوی ہے۔ دیکھئے الکشف الحثیث ص (۲۴۸)و کتاب القرأۃ للبیہقی (ص ۱۵۴) ولسان المیزان (۳۴۹،۳۴۸/۳) و نور العینین فی اثبات رفع الیدین (ص ۴۱،۴۰)
معلوم ہوا کہ قاری صاحبان اینڈ پارٹی کی پیش کردہ یہ روایت موضوع ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سے یہ روایات ثابت ہی نہیں ہے ۔ اس کے باوجود یہ لوگ مزے لے لے کر یہ موضوع روایت پیش کر رہے ہیں !

قاری چن صاحب (۷): “خلیفہ راشد حضرت علی ؓ فرمایا کرتے تھے کہ : إذا سجدت المرأۃ فلتحتفزولتضم فخذیھا،

ترجمہ: جب عورت سجدہ کرے تو خوب سمٹ کر سجدہ کرے اور اپنی رانوں کو ملائے ۔ (بیہقی ص 2/223 مصنف ابن ابی شیبہ ص 1/270)”
الجواب:
السنن الکبری للبیہقی (ج۲ ص ۲۲۲) اور مصنف ابن ابی شیبہ (۲۷۰/۱ ح ۲۷۷۷) دونوں کتابوں میں یہ روایت “عن أبي إسحاق عن الحارث عن علي” کی سند سے ہے۔
الحارث الاعور جمہور محدثین کے نزدیک سخت مجروح راوی ہے۔ زیلعی حنفی نے کہا :”لا یحتج بہ”اس سے حجت نہیں پکڑی جاتی (نصب الرایہ ۴۲۶/۲) زیلعی نے مزید کہا: “کذبہ الشعبي وابن المدیني” إلخ
اسے شعبی اور ابن المدینی نے کذاب کہا ہے ۔ (نصب الرایہ ۳/۲)
اس سند کے دوسرے راوی ابو اسحاق السبیعی مدلس ہیں (طبقات المدلسین لابن حجر ، المرتبہ الثالثہ ۳/۹۱) اور یہ روایت معنعن ہے ۔

خلاصہ التحقیق: یہ روایت مردود ہے ۔
قاری چن صاحب(۸): عن ابن عباس انہ سئل عن صلوۃ المرأۃ فقال: تجمع و تحتفز”

حضرت ابن عباس ؓ سے عورت کی نماز کے متعلق سوال ہوا تو آپؓ نے فرمایا :خوب اکٹھی ہو کر اور سمٹ کر نما زپڑھے۔ مصنف ابن ابی شیبہ ص 1/270
الجواب: یہ روایت بکیر بن عبداللہ بن الاشج نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بیان کی ہے ۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۲۷۰/۱ ح ۲۷۷۸)
بکیر کی سیدنا ابن عباس ؓ سے ملاقات ثابت نہیں ہے ۔ حاکم کہتے ہیں کہ :”لم یثبت سماعہ من عبداللہ بن الحارث بن جزء و إنما روایتہ عن التابعین”
عبداللہ بن حارث بن جزء (رضی اللہ تعالیٰ عنہ متوفی ۸۸؁ھ ) سے اس کا سماع ثابت نہیں ہے۔ اس کی روایت تو صرف تابعین سے ہے ۔ (تہذیب التہذیب ج ۱ ص ۴۹۳، دوسرا نسخہ ص ۴۳۲)
یاد رہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۶۸؁ھ میں طائف میں فوت ہوئے تھے۔ جب ۸۸؁ھ میں فوت ہونے والے صحابی سے ملاقات نہیں تو ۶۸؁ھ میں فوت ہونے والے سے کس طرح ثابت ہوسکتی ہے ؟
نتیجہ: یہ سند منقطع (یعنی ضعیف و مردود ) ہے ۔ سخت حیرت ہے کہ دیوبندیوں اور بریلویوں کے پاس اتنی ضعیف و مردود روایات کس طرح جمع ہوگئی ہیں ؟ غالباً ان لوگوں کو بہت محنت کرنا پڑی ہوگی، واللہ اعلم !

قاری چن صاحب (۹): “حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ مردوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ تشہد میں دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھا کریں اور عورتوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ سمٹ کر بیٹھیں۔ بیہقی ص 2/223”
الجواب:
اس روایت کا ایک راوی عطاء بن عجلان ہے جس کے بارے میں امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں کہ : “عطاء بن عجلان ضعیف”عطاء بن عجلان ضعیف ہے ۔ (السنن الکبری ۲۲۳/۲)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ :”متروک بل أطلق علیہ ابن معین و الفلاس و غیرھما الکذب”

یہ متروک ہے بلکہ ابن معین اور الفلاس وغیرھما نے مطلق طور پر اسے کذاب قرار دیا ہے ۔ (التقریب : ۴۵۹۴)
اس روایت اور سابقہ روایت (۵) کے بارے میں امام بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ :
یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں، ان جیسی روایتوں سے حجت نہیں پکڑی جاتی ہے ۔ (السنن الکبری ۲۲۲/۲)

نتیجہ: یہ روایت مردود و موضوع ہے ۔
تنبیہ: ان مردود روایات کے بعد قاری چن صاحب وغیرہ نے دو روایتیں پیش کی ہیں کہ (۱) عورت کی نماز بغیر ڈوپٹے کے نہیں ، اسی طرح جب تک عورت کے قدموں کا اوپر والا حصہ ڈھانپا ہوا نہ ہو تو نماز نہیں ہوتی (۲) تمہارا (یعنی عورتوں کا) گھروں کے اندر نماز پڑھنا برآمدے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ۔ إلخ
عرض ہے کہ ان روایتوں کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ عورت سینے پر ہاتھ رکھے اور مرد ناف کے نیچے ، عورت بازو زمین پر بچھا دے جب کہ مرد نہ بچھائیں، وغیرہ وغیرہ موضوع سے غیر متعلقہ دلائل پیش کرنا ان لوگوں کا کام ہے جن کے پاس سرے سے دلائل نہیں ہوتے۔
قاری صاحبان نے لکھا ہے کہ ”تمام فقہائے کرام و محدثین ان تمام فرقوں کو ملحوظ رکھتے ہیں“ (ص ۴) عرض ہے کہ کیا حنابلہ، تمام فقہائے کرام سے خارج ہیں ؟ تیسری روایت کا جواب پڑھ لیں۔
قاری صاحبان اینڈ پارٹی نے اہل حدیث کے خلاف فتاوی غزنویہ و فتاوی علماء اہل حدیث (۱۴۸/۳) کا حوالہ بطور الزام پیش کیا ہے ۔ عرض ہے کہ فتاوی علمائے حدیث کی تقریباً ہر جلد کے شروع میں لکھا ہوا ہے کہ :
”یہ ایک کھُلی حقیقت ہے کہ مسلک اہلحدیث کا بنیادی اصول صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی پیروی ہے ۔ رائے، قیاس ، اجتہاد اور اجماع یہ سب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے ماتحت ہیں….اصول کی بناء پر اہل حدیث کے نزدیک ہر ذی شعور مسلمان کو حق حاصل ہے کہ وہ جملہ افراد امت کے فتاوی، ان کے خیالات کو کتاب و سنت پر پیش کرے جو موافق ہوں سر آنکھوں پر تسلیم کرے ، ورنہ ترک کرے” (ج۱ ص ۶)

اس اصول کی روشنی میں جب فتاوی مذکورہ کو کتاب و سنت پر پیش کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ فتوے صحیح حدیث “صلوا کمار أیتموني أصلي” نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ (صحیح البخاری : ۶۳۱) کے خلاف ہونے کی وجہ سے متروک ہیں۔
اہل حدیث کے ایک مشہور عالم اور مصنف حافظ صلاح الدین یوسف صاحب ایک شخص عبدالرؤف سکھروی (دیوبندی) کو جواب دیتے ہوتے لکھتے ہیں:“اس لئے مولانا غزنوی کایہ فتویٰ بھی ہمارے نزدیک اسی طرح غلط ہے جس طرح آپ کی ساری کتاب غلط ، بلکہ اغلاط کا مجموعہ ہے ۔ یہی وجہ کہ علمائے اہلحدیث میں کسی نے مولانا غزنوی کی تائید نہیں کی۔”
(کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ ص 57)
معلوم ہوا کہ غزنوی صاحب کا فتویٰ، اہلحدیث کے نزدیک مفتی بھا نہیں ہے ۔ جب ہم ان لوگوں کے خلاف غیر مفتی بھا مسائل پیش نہیں کرتے تو یہ لوگ کیوں ہمارے خلاف غیر مفتی بھا مسائل پیش کرتے ہیں؟
نتیجہ: قاری چن محمد صاحب اینڈ پارٹی ایسی ایک دلیل بھی پیش نہیں کرسکے ہیں جس سے عورتوں کا طریقہ نماز (مثلاً عورتوں کا سینے پر ہاتھ باندھنا اور مردوں کا ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا ، وغیرہ) مردوں سے مختلف ہے۔ دلائل کے میدان میں تہی دامن ہونے کے باوجود یہ شور مچا رہے ہیں کہ :”بلکہ خواتین کا طریقہ نماز مردوں کے طریقے سے جدا ہونا بہت سی احادیث اور آثار صحابہ و تابعین سے ثابت ہے” (ص ۱)
قاری صاحبان کے مستدلات کی تحقیق کے بعد صاحب “حدیث اور اہلحدیث” کے شبہات کا جواب پیش خدمت ہے۔
بعض الناس (۱): “عن عبد ربہ بن سلیمان بن عمیر قال: رأیت أم الدرداء ترفع یدیھا فی الصلوۃ حذو منکبیھا(جزو رفع الیدین للإمام البخاری ص ۷)
حضرت عبدربہ بن سلیمان بن عمیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام درداء ؓ کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اُٹھاتی ہیں(حدیث اور اہلحدیث ص۴۷۹نمبر ۲)”
الجواب:
اہلحدیث کے نزدیک کندھوں تک رفع یدین کرنا بھی صحیح ہے اور کانوں تک بھی صحیح ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے کانوں تک رفع یدین کیا ہے۔ (صحیح مسلم:۳۹۱) اور آپ کندھوں تک بھی رفع یدین کرتے تھے (صحیح البخاری: ۷۳۶و صحیح مسلم: ۳۹۰)
یہاں پر بطورِ تنبیہ عرض ہے کہ جزء رفع الیدین کی اسی روایت (ح ۲۴) کے فوراً بعد اسی سند کے ساتھ آیا ہے کہ ام الدرداء ؓ رکوع پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتی تھیں۔ (ح ۲۵ و سندہ حسن)

اس بات کو صاحبِ “حدیث و اہلحدیث ” نے چھپا لیا ہے۔ چھپانے کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو رفع یدین سے ایک خاص قسم کی چڑ ہے۔
بعض الناس(۲): “حضرت ابراہم نخعی ؒ فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں تک چپکا لے اور اپنے سر ین کو اوپر نہ اُٹھائے اور اعضاء کو اس طرح دور نہ رکھے جیسے مرد رکھتا ہے ۔”(حدیث اور اہلحدیث ص ۴۸۲ نمبر ۸/بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ ۲۷۰/۱ والبیہقی ۲۲۲/۲)
الجواب:
حدیث نمبر ۲ کے جواب میں ذکر کر دیا گیا ہے کہ دیوبندیوں(آل تقلید ) وغیرہ کے نزدیک تابعی کا قول میں کوئی حجت نہیں ہے ۔ اپنے اس عقیدے کے خلاف یہ لوگ پتہ نہیں کیوں ایک تابعی کا قول پیش کر رہے ہیں؟
اب ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے چندوہ اقوال پیشِ خدمت ہیں، جن کے آلِ تقلید سراسر مخالف ہیں۔
۱: ابراہیم نخعی ؒ جرابوں پر مسح کرتے تھے (مصنف ابن ابی شیبہ ۱۸۸/۱ ح ۱۹۷۷ و سندہ صحیح)
۲: وضو کی حالت میں ابراہیم نخعیؒ اپنی بیوی کا بوسہ نہ لینے کے قائل تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۴۵/۱ح ۵۰۰و سندہ صحیح)
یعنی ان کے نزدیک اپنی بیوی کا بوسہ لینے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۲۶/۱ ح ۵۰۷)
۳: ابراہیم نخعیؒ رکوع میں تطبیق کرتے یعنی اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں کے درمیان رکھتے تھے (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۴۶/۱ ح ۲۵۴۰ ملخصاً وسندہ صحیح ، الاعمش صرح بالسماع)
ابراہیم نخعیؒ کے دیگر مسائل کے لئے مولانا محمد رئیس ندوی کی کتاب “اللمحات الی مافی انوار الباری من الظلمات ” (ج ۱ ص ۴۱۴۔ ۴۲۰)

تنبیہ: ابراہیم نخعیؒ نے فرمایا:”تقعد المرأۃ في الصلوۃ کما یقعد الرجل”

عورت نماز میں اس طرح بیٹھے گی جس طرح مرد بیٹھتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۷۰/۱ح ۲۷۸۸، وسندہ صحیح) اس قول کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
بعض الناس(۳): “حضرت مجاہد ؒ اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو اپنی پیٹ کو رانوں پر رکھے جیسا کہ عورت رکھتی ہے ” (حدیث اور اہلحدیث ص ۴۸۲ نمبر ۹ مصنف ابن ابی شیبہ ۲۷۰/۱)
الجواب:
لیث بن ابی سلیم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے، قال البوصیری:”ھذا إسناد ضعیف ، لیث ھو ابن أبي سلیم ضعفہ الجمھور”(سنن ابن ماجہ : ۲۰۸ مع زوائد البوصیری)
لیثِ مذکور پر جرح کے لئے دیکھئے تہذیب التہذیب و کتب اسماء الرجال اور سرفراز خان صفدر دیوبندی کی کتاب “احسن الکلام” (ج۲ ص ۱۲۸طبع بار دوم، عنوان تیسرا باب، آثار صحابہ و تابعین وغیرہم)
لیث بن ابی سلیم مدلس ہے ۔ (مجمع الزوائد للبیہقی ج ۱ ص ۸۳، کتاب مشاہیر علماء الامصار لابن حبان ص ۱۴۶ ت:۱۱۵۳) اور یہ روایت معنعن ہے لہذا ضعیف و مردود ہے۔
اس کے علاوہ بعض الناس نے کچھ غیر متعلق روایات لکھ کر مرغینائی (صاحب الھدایہ ) وغیرہ کے اقوال اہلحدیث کے خلاف پیش کئے ہیں۔ (دیکھئے حدیث اور اہل حدیث ص ۴۸۳)

واہ ! کیا خیال ہے اگر اہلحدیث کے خلاف مونگ پھلی استاد، پیالی ملا ، گبین استاد ، کابل ملا وغیرہ کے اقوال و افعال پیش کیے جائیں تو کیسا رہے گا؟!
مفتی محمد ابراہیم صادق آبادی دیوبندی نے جو روایات اس سلسلے میں لکھی ہیں ان پر تبصرہ اس مضمون میں آگیا ہے ۔ اس نام نہا دمفتی نے صرف ایک اضافہ کیا ہے ۔
صادق آبادی:”اور امام حسن بصریؒ کا بھی عورت کی نماز کے متعلق یہی فتوی ہے”
(خواتین کا اسلام/روزنامہ اسلام، ۱۸ ۔اکتوبر ۲۰۰۳؁ء ص ۴ بحوالہ ابن ابی شیبہ)

الجواب: یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں “ابن المبارک عن ہشام عن الحسن” کی سند سے مروی ہے۔(۲۷۰/۱ح ۲۷۸۱)
ہشام بن حسان مدلس راوی ہیں(طبقات المدلسین ، المرتبہ الثالثہ ۳/۱۱۰) اور یہ روایت معنعن ہے ،لہذا یہ سند ضعیف ہے۔
آلِ تقلید کا ایک بہت بڑا جھوٹ
امین اوکاڑوی دیوبندی صاحب کا ممدوحین نے مردوں اور عورتوں کا طریقۂ نماز میں فرق ثابت کرنے کے لئے لکھا ہے کہ:
قال أبو بکر بن أبی شیبۃ سمعت عطاء سئل عن المرأۃ کیف ترفع یدیھا فی الصلوۃ قال: حذو ثدییھا…..

ترجمہ: امام بخاریؒ کے استاد ابوبکر ؒبن ابی شیبہ فرماتےہیں کہ میں حضرت عطاء ؓ سے سنا کہ ان سے عورت کے بارے میں پوچھا گیا وہ نماز میں ہاتھ کیسے اُٹھائے تو انہوں نے فرمایا کہ اپنی چھاتیوں تک……(المصنف لابی بکر بن ابی شیبہ ج۱ ص ۲۳۹)”
(مجموعہ رسائل اوکاڑوی ، ج ۲ ص ۹۶ طبع اول جون ۱۹۹۳ء و تجلیات صفدر مطبوعات مکتبہ امدادیہ ملتان ج ۵ ص ۱۱۰)

الجواب:
مصنف ابن ابی شیبہ میں لکھا ہوا ہے کہ :“حدثنا ھشیم قال: أنا شیخ لنا قال : سمعت عطاء سئل عن المرأۃ کیف ترفع یدیھا فی الصلوۃ قال حذو ثدییھا(ج ۱ص ۲۳۹ ح ۲۴۷۱)
معلوم ہوا کہ ابوبکر بن ابی شیبہ اور عطاء (متوفی ۱۱۴؁ھ) کے درمیان دو واسطے ہیں جن میں سے ایک واسطہ “شیخ لنا” مجہول ہے جسے ایک خاص مقصد کے لئے اوکاڑوی صاحب کے ممدوحین نے گرا دیا ہے تاکہ سند کا ضعیف ہونا واضح نہ ہوجائے ۔
محمد تقی عثمانی دیوبندی صاحب وغیرہ کے مصدقہ فتویٰ میں لکھا ہوا ہے کہ:
“اور ایک تابعی کا عمل اگر چہ اصول کے مخالف نہ بھی ہو تب بھی اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا “
(مجموعہ رسائل ۹۹/۲و تجلیات صفدر ۱۱۳/۵)
اس فتویٰ کے ذمہ دار درج ذیل حضرات ہیں:
(۱)امین اوکاڑوی (۲) محمد تقی عثمانی (۳) محمد بدر عالم صدیقی (۴) محمد رفیع عثمانی وغیرہم
عرض ہے کہ آپ لوگ تابعین کے اقوال کیوں پیش کررہے ہیں؟
اہل حدیث کے دلائل پر اعتراضات
اہل حدیث کے نزدیک سینے پر ہاتھ باندھنے ، رکوع ، سجود اور نماز میں بیٹھنے وغیرہ میں مردوں اور عورتوں کا طریقۂ نماز ایک جیسا ہے کیونکہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:
صلوا کما رأیتموني أصلي نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔ (البخاری : ۶۳۱)
اس حدیث کے مفہوم پر آلِ تقلید نے بہت اعتراضات کیے ہیں لیکن دیوبندی مفتی صاحبان کے مصدقہ فتوے میں لکھا ہوا ہے کہ :“اس روایت میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث کی عمومیت میں مردو عورت سمیت پوری امت شریک ہے اور پوری امت پرلازم ہے کہ جو طریقہ آنحضرت ﷺ کی نماز کا ہے وہی طریقہ پوری امت کا ہولیکن یہ واضح ہو کہ اس عمومیت پر عمل اس وقت ہی ضروری ہے جب تک کوئی شرعی دلیل اس کے معارض نہ ہو۔۔۔” (مجموعہ رسائل ج ۲ ص ۱۰۱ و تجلیات صفدر ج ۵ ص ۱۱۴،۱۱۵)
عرض ہے کہ گذشتہ صفحات میں آپ نے باتفصیل پڑھ لیا ہے کہ عورت کے علیحدہ طریقۂ نماز کی تخصیص پر کوئی شرعی دلیل نہیں ہے ۔

مشہور صحابیٔ رسول ﷺ ابوالدرداء ؓ کی بیوی ام الدرداء (ھجیمۃ تابعیۃ رحمہا اللہ) کے بارے میں ان کے شاگرد (امام) مکحول الشامی ؒ فرماتے ہیں کہ :”أن أم الدرداء کانت تجلس فی الصلوۃ کجلسۃ الرجل بےشک ام الدرداء (رحمہا اللہ) نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۰۷/۱ح ۲۷۸۵و عمدۃ القاری ۱۰۱/۶ و سندہ قوی، التاریخ الصغیر للبخاری ۲۲۳/۱ تاریخ دمشق لابن عساکر ۱۱۷/۷۴ وتغلیق التعلیق ۳۲۹/۲)
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”وکانت أم الدرداء تجلس في صلاتھا جلسۃ الرجل و کانت فقیھۃاور ام الدرداء (رحمہا اللہ) اپنی نماز میں مرد کی طرح بیٹھتی تھیں اور فقیھہ (یعنی فقیہ) تھیں (صحیح البخاری قبل ح:۸۲۷)
کیا خیال ہے سیدنا ابوالدرداء کی فقیہہ بیوی ام الدرداء رحمہا للہ نے نماز کا طریقہ کس سے سیکھا تھا ؟
ام الدرداءؒ تابعیہ کے اس عمل کی تائید ابرہیم نخعیؒ (تابعی صغیر) کے قول سے بھی ہوتی ہے۔
ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں:”تقعد المرأۃ فی الصلوۃ کما یقعد الرجلعورت نماز میں اس طرح بیٹھے جیسے مرد بیٹھتا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۷۰/۱ ح ۲۷۸۸ وسندہ صحیح)
امام ابوحنیفہؒ کے استاد حمادؒ(بن سلیمان) فرماتے ہیں کہ”عورت کی جیسی مرضی ہو (نماز میں) بیٹھے” (ابن ابی شیبہ ۲۷۱/۱ ح ۲۷۹۰ و سندہ صحیح)
عطاء بن ابی رباح ؒ (تابعی) کا قول اس مضمون کے شروع میں گزر چکا ہے کہ “عورت کی ہیئت مرد کی طرح نہیں ہے اگر وہ (عورت) اسے ترک کردے تو کوئی حرج نہیں ہے” (دیکھئے جواب روایت نمبر ۲، ص ۳)
معلوم ہوا کہ آلِ تقلید حضرات مر د وعورت کے طریقہ نماز میں جس اختلاف کا ڈھندورا پیٹ رہے ہیں وہ بہ اجماع تابعین باطل ہے۔

تنبیہ: اس مضمون میں آلِ تقلید کے تمام دریافت شدہ شبہات کا جواب آگیا ہے والحمد للہ
خلاصہ التحقیق: مرد و عورت کی نماز میں یہ فرق ہے کرنا کہ مرد ناف سے نیچے ہاتھ باندھے اور عورت سینے پر، مرد سجدوں میں کہنیاں زمین سے اُٹھائے اور عورت اپنی کہنیاں زمین سے ملا لے وغیرہ فروق قرآن و حدیث و اجماع سے قطعاً ثابت نہیں ہیں۔ قرآن و حدیث سے جو فرق ثابت ہے اسے اہلحدیث علماء و عوام سر آنکھوں پر رکھتے ہیں مثلاً عورت کے لئے ڈوپٹے کا ہونا ضروری ہے ، بھولنے والے امام کو تسبیح کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ مار کر تنبیہ کرنا وغیرہ


فائدہ: الشیخ الفقیہ محمد بن الصالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
فالقول الراجح: أن المرأۃ تصنع کما یصنع الرجل في کل شئ ، فترفع یدیھا و تجافي و تمد الظھر فی حال الرکوع و ترفع بطنھا عن الفخذین و الفخذین عن الساقین في حال السجود”
پس راجح قول (یہ ) ہے کہ: عورت بھی (نما ز کی) ہر چیز میں اسی طرح کرے گی جس طرح مرد کرتا ہے ۔ وہ رفع یدین کرے گی (ہاتھوں کو پہلووں سے) دور رکھے گی، رکوع میں اپنی پیٹھ سیدھی کرے گی، حالتِ سجدہ میں اپنے پیٹ کو رانوں سے دور اور رانوں کو پنڈلیوں سے ہٹا کر رکھے گی۔ (الشرح الممتع علی زاد المستقع ج ۳ ص ۲۱۹ طبع دار ابن الجوزی)
(وما علینا إلا البلاغ)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
“صلوا کما رأیتموني أصلي“
نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔ (البخاری : ۶۳۱)
اگر اس حدیث میں مرد وعورت سب مخاطب ھیں تو کیوں عورتوں کو آہستہ تلبیہ پکارنے کا حکم دیا جاتا ھے؟ کیا کوئ خاص حکم ھے عورتوں کے لۓ؟ یا وہ مستثنی ھیں؟
 
Top