• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت سے نکاح اس کی عزت، مال اور نسب کی وجہ سے کرنے کے نقصانات

شمولیت
نومبر 07، 2013
پیغامات
76
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
47
اس روایت کی صحت کے بارے میں آگاہ کریں۔ جزاکم اللہ خیراً

Untitled.png
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اس روایت کی صحت کے بارے میں آگاہ کریں۔ جزاکم اللہ خیراً
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
رشتہ ازدواج کے انتخاب میں بندہ مومن کی ترجیح کس بنیاد پر ہو ؟
اس کی رہنمائی تعلیمات نبوت میں بڑی واضح دی گئی ہے ، نبی مکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " تُنْكَحُ المَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ، تَرِبَتْ يَدَاكَ "
(صحیح البخاری ۵۰۹۰ ، صحیح مسلم (1466) سنن ابی داود 2047 ،سنن ابن ماجہ ، باب تزویج ذات الدین )
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چار چیزوں کی وجہ عورتوں سے نکاح کیا جاتا ہے؛ اس کے مال کی وجہ سے، حسب و نسب کی وجہ سے، خوبصورتی کی وجہ سے اور دیانتداری کی وجہ سے تو تم دیندار (لڑکی ) تلاش کرو ، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔
محدثین کرام فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جملہ ۔۔ تربت یداک’’ تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں ‘‘
عربی زبان میں یہ جملہ دعا کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد یہاں حکم کی تعمیل کے لئے ابھارنا اور رغبت دلانا ہے۔
اس حدیث میں کسی بھی حسین ، یا حسب نسب والی یا مالدار خاتون سے نکاح کی ترغیب نہیں ہے۔
بلکہ اس حدیث کا معنی ہےکہ بالعموم لوگ شادی کیلئے ان چار مقاصد کو سامنے رکھتے ہیں، کچھ تو حُسن تلاش کرتے ہیں، اور کچھ اچھا خاندان، اور کچھ مال کے بھوکے ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ دینداری کی وجہ سےشادی کرتےہیں، اسی آخری کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی ہےاور فرمایا: (دین دار کو ترجیح دو )
ویسے تو
نکاح سے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فانکحوا ما طاب لکم من النساء۔ ترجمہ: تو تمہیں جو عورتیں پسند ہوں ان سے نکاح کرو۔ (سورۃ النساء۔3)
یہاں ۔۔ طاب لکم ۔۔ یعنی جو تمہیں پسند ہوں ۔۔ سے مراد اس طرح کی عورتیں ہیں جو طبعاً بھی پسندیدہ ہوں ،اور شرعاً بھی قابل ترجیح ہوں ، کیونکہ پسند کیلئے ۔۔ طاب ۔۔ کا لفظ استعمال کیا گیا ، اور اس مادہ کا استعمال قرآن کریم میں ۔۔ حلال چیزوں ۔۔ اور ۔۔ پسندیدہ کاموں کیلئے کیا گیا ہے ، مثلاً۔۔
كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جس روایت کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے ، وہ المعجم الاوسط للطبرانی ، حدیث نمبر 2432)
میں درج ذیل الفاظ سے منقول ہے :
حدثنا إبراهيم قال: نا عمرو بن عثمان الحمصي قال: نا عبد السلام بن عبد القدوس، عن إبراهيم بن أبي عبلة قال: سمعت أنس بن مالك يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «من تزوج امرأة لعزها لم يزده الله إلا ذلا، ومن تزوجها لمالها لم يزده الله إلا فقرا، ومن تزوجها لحسبها لم يزده الله إلا دناءة، ومن تزوج امرأة لم يتزوجها إلا ليغض بصره أو ليحصن فرجه، أو يصل رحمه بارك الله له فيها، وبارك لها فيه»
لم يرو هذا الحديث عن إبراهيم إلا عبد السلام
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی عورت سے اس کی عزت
کی خاطر نکاح کیا اللہ تعالیٰ اس شخص کی ذلت میں اضافہ فرمائے گا، جو اس کے مال کے لئے اس سے نکاح کرے اللہ تعالیٰ اس کی تنگدستی میں اضافہ فرمائے گا، جو اس کے حسب کے لئے اس سے نکاح کرے اللہ تعالیٰ اس کی حقارت میں اضافہ فرمائے گا اور جو کسی عورت سے نکاح کیا اور وہ کوئی ارادہ نہیں کیا سوائے اس کے کہ اپنی نظر نیچی رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے یا صلہ رحمی کرے اللہ تعالیٰ لڑکے کے لئے لڑکی میں برکت دے اور لڑکی کے لئے لڑکے میں برکت دے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی ، حدیث نمبر 2432)
لیکن یہ حدیث بہت ضعیف ہے ،
علامہ ناصر الدین البانی ( سلسلہ احادیث ضعیفہ ) میں لکتے ہیں :
ضعيف جدا.
رواه الطبراني في " الأوسط " (رقم 2527) عن عبد السلام بن عبد القدوس عن إبراهيم بن أبي عبلة
قال: سمعت أنس بن مالك يقول: فذكره مرفوعا
وقال:
لم يروه عن إبراهيم إلا عبد السلام.
قلت: وهو ضعيف جدا ضعفه أبو حاتم وقال أبو داود: عبد القدوس ليس بشيء وابنه شر منه، وقال ابن حبان في " الضعفاء " (2/150 - 151) :
يروي الموضوعات، وروى عن إبراهيم بن أبي عبلة.
قلت: فذكر هذا الحديث، فاقتصار الهيثمي (4/254) على قوله: وهو ضعيف قصور أوذهو ل، وكذلك أشار المنذري في " الترغيب " (3/70) إلى أنه ضعيف "

یعنی یہ حدیث شدید ضعیف ہے کیونکہ امام طبرانی ؒ اسے نقل کرکے فرماتے ہیں :
اسے عبدالسلام کے علاوہ کسی نے ابراہیم سے روایت نہیں کیا "
البانی فرماتے ہیں کہ عبدالسلام بہت زیادہ ضعیف راوی ہے ، اسے امام ابو حاتم نے ضعیف قرار دیا ، اور ابوداود فرماتے ہیں کہ یہ کوئی شیء نہیں ، اور امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ یہ موضوع روایات نقل کرتا ہے "
اور میزان الاعتدال میں ہے کہ :
وقال ابن عدي: عامة ما يرويه غير محفوظ . ابن عدی فرماتے ہیں :اس کی عام روایات غیر محفوظ ہیں "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ميزان الاعتدال" (2/ 617 )
 
Top