• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت عورت ہی ہے مرد نہیں

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
"عورت عورت ہی ہے، مرد نہیں"
::::::::::::::::::::::::::::::::::::

چلئے سمیٹتے ہیں اب مردانہ کمزوری اور گرم کھانے والے خرافاتی موضوع کو۔ بات کچھ یوں کہ ہمیں تسلسل اور کامل یکسوئی کے ساتھ فیس بک کا استعمال کرتے ہوئے آٹھواں سال ہے۔ ستر ہزار فالوورز اس آئی ڈی پر ہیں جو عارضی طور پر بلاک ہے۔ اور تین ماہ میں بارہ ہزار یہاں بھی ہونے کو ہیں۔ ان میں مرد و زن ہی نہیں، بوڑھے، ادھیڑ عمر، جوان اور نوجوان سبھی ہیں۔ فرینڈ لسٹ پر چھ سات سو خواتین بھی ہیں۔ ان میں برقع والی سے لے کر جینز والی تک سب ہیں۔ الحمدللہ پورے اطمیان کے ساتھ دعوی کر رہے ہیں کہ ان آٹھ سالوں میں سوائے اس ایک بچی کے جو اولاد کے حوالے سے پریشان تھی کسی ایک بھی خاتون کے انبکس میں کبھی نہیں گئے۔ نہ کسی کو تبلیغ کرنے، نہ نصیحت کرنے، اور نہ ہی مشورہ دینے۔ کسی خاتون سے انبکس میں تب ہی بات ہوئی جب ان کا کوئی میسج آیا۔ بخوبی جانتے ہیں کہ نہ تو کسی کو برقعوں کی سپلائی دینا خدا نے ہماری ذمہ داری لگائی ہے اور نہ ہی کسی کی جینز یا سکرٹ کا قبر یا محشر میں ہم سے سوال ہوگا۔ سو بنداس ہوکر جیتے ہیں اور بھلائی کی بات ہو خواہ مزاح کی ، اپنی وال سے کہتے ہیں۔ کوئی قبول کرتا ہے، اس کی مرضی، نہیں کرتا تو ٹینشن ہمیں بھی کوئی نہیں۔

اس پورے کرہ ارض پر صرف چار لوگ ہیں جو ہمیں جوابدہ ہیں۔ ان چار کے سوا کسی کو اپنے آگے جوابدہ ہی نہیں سمجھتے۔ سو کسی سے پوچھتے بھی نہیں کہ فلاں بات کیوں لکھی ؟ یا فلاں حرکت کیوں کی ؟ ان چار کے سوا کسی سے باز پرس صرف اس صورت میں کرتے ہیں جب وہ ہماری حدود میں آکر کچھ غلط کردے۔ جو چار ہستیاں ہمیں جوابدہ ہیں ان میں سے ایک ہماری اہلیہ اور تین ہمارے لڑکے ہیں۔ یہ بھی ہمارے آگےاس لئےجوابدہ ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے کہہ رکھا ہے کہ ان چار کے معاملے میں تم ہمیں جوابدہ ہو۔ ان کے حقوق ہی نہیں اوٹ پٹانگ حرکتوں کا بھی تم سے محشر میں پوچھیں گے۔ سو خدا کی زمین پر حکم بھی ان چار کو دیتے ہیں اور باز پرس بھی بس ان چار سے ہی کرتے ہیں۔ اس معاملے میں اتنے یکسو ہیں کہ عمر عالم سے متعلق خدا نے ہم سے نہیں اسی کے ماں باپ سے پوچھنا ہے سو ہم بھی اسے خود کو جوابدہ نہیں سمجھتے۔ دادا کی میراث میں پوتے کا حق اسی لئے نہیں ہے کہ پوتے کے ذمہ دادا کا کوئی حق نہیں۔ ہاں جب تک فیملی ہیڈ ہیں سسٹم کا اسے بھی پابند رہنا ہے مگر اپنے والدین کے توسط سے۔

جب ہم عمر عالم کے معاملے سے بھی خود کو سبکدوش سمجھتے ہیں۔ تو ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ پرائی بیٹیوں کی جینز یا شلوار پر غور کرتے پھریں یا اس حوالے سے ٹینشن پالے رکھیں ؟ مگر چونکہ ہم بھی اس سماج کا حصہ ہیں ، سو جب کوئی ایشو سماجی درجے کی برائی بننے لگے تو اس پر اپنے فورم سے اپنی رائے دینے سے نہیں ہچکچاتے، مگر اس سے آگے نہیں جاتے۔ عورت مارچ ہماری نظر میں ایک سماجی غلاظت کے سوا کچھ نہیں۔ ورنہ مارچ اسی ملک کی سڑکوں پر جماعت اسلامی شعبہ خواتین والی بھی کرتی ہیں اور خواتین کے سنجیدہ ایشوز پر لبرل خواتین بھی۔ بتیس سالوں میں کوئی نہیں دکھا سکتا کہ ہم نے ان پر کوئی اعتراض کیا ہو یا تنقید کا نشانہ بنایا ہو۔ بالخصوص جینز والی بچیوں کے حوالے سے مذہبی طبقے سے یہ بات بہت زور دے کر کہنا چاہتے ہیں کہ انسان اپنے ماحول کے زیر اثر ہوتا ہے۔ ہم اور آپ جینز اس لئے نہیں پہن پاتے کہ کبھی پہنی نہیں تو طبیعت کے لئے اجنبی ہے۔ لیکن جن بچیوں نے یہ پہن رکھی ہے وہ بچپن سے اسے پہنتے پہنتے جوان ہوئی ہیں سو انہیں یہ ہماری طرح عجیب نہیں لگتی۔ ہم خواتین کے لئے جینز کو موزوں لباس نہیں مانتے۔ لیکن ہم اس بات کے بھی قائل نہیں کہ جس نے جینز پہن رکھی ہے وہ لازما کوئی آوارہ اور بد چلن ہی ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ یہاں تک جانتے اور مانتے ہیں کہ جیسے ہر جینز والی بد چلن نہیں۔ بعینہ ہر برقع والی باحیا بھی نہیں۔ ہم کئی بار عرض کرچکے کہ اس معاشرے کے ہر حرامی پنے سے واقف ہیں، سو اس حرامی پنے سے بھی آگاہ ہیں کہ بہت سی ہیں جو گھر سے ذرا دور پہنچ کر کالج یا امتیاز کے واش روم میں برقع اتار کر بیگ میں رکھ لیتی ہیں اور یہ جا وہ جا ۔ سو حکم لگاتے وقت یہ ذہن میں رکھئے کہ کوئی بعید نہیں کہ لمحہ موجود میں جس کے بکھرے بال اور اٹھا سینہ دیکھ کر آپ استغفراللہ پکار رہے ہوں یہ وہی ہو جسے نصف گھنٹہ قبل کسی اور مقام پر برقع میں دیکھ کر آپ ہی نے ماشاء اللہ پوری قرات کے سا تھ ادا فرمایا تھا۔ سو حکم بھی نہ لگایئے، خوش فہمیاں بھی نہ پالئے، اور بدگمانیوں سے بھی پرہیز رکھئے۔

مکرر بلکہ سہ کرر عرض گزار ہیں کہ نہ خدائی فوجدار ہیں، اور نہ ہی دین کے ٹھیکیدار۔ جوابدہ ہمارے آگے بس چار ہی لوگ ہیں، انہی کو سنبھال لیں تو بہت ہے۔ معاشرتی برائیوں پر بس بات ہی کرتے ہیں کیونکہ اختیار بس بات کا ہی رکھتے ہیں۔ مسلمان بچی جینز میں ہو خواہ شلوار قمیض میں ہماری بچی ہی ہے، ہماری بہن ہی ہے۔ محض بے پردہ ہونے پر ہم کسی کے فاحشہ ہونے کے پہلے قائل رہے ہیں اور نہ ہی اب ہیں۔ لیکن یہ جو دو چار سال سے ایک خود رو خس و خاشاک عورت مارچ کے نام پر پنجاب میں اگنے لگا ہے اسے نہ تو عورت مانتے ہیں اور نہ ہی قابل احترام۔ عورت کو صنف نازک ہی مانتے ہیں، اس کی طاقت واقت کے قائل نہیں۔ لیکن اسے کمزور نہیں نازک مانتے ہیں۔ اگر آپ کمزور اور نازک کے نفیس فرق کو نہیں سمجھتے تو اپنا جمالیاتی ذوق بہتر کیجئے۔ گلاب کی پتی کی ساری کشش اس کی نزاکت میں ہے۔ کمزور تو گھاس پھوس ہوتا ہے۔ یہ اسی نزاکت کا کرشمہ ہےکہ مرد قلعے فتح کرتا ہے اور عورت مرد کو فتح کر تی ہے۔ فزیکل طاقت میں یہ مرد کی ہم پلہ ہوتی تو تعلیم کی طرح سپورٹس بھی مخلوط ہوتے۔ پوری دنیا میں کھیل صنف کی بنیاد پر منقسم نہ ہوتے۔ کسی ورلڈ کپ میں چھ ٹیمیں مردوں کی تو چھ ہی خواتین کی بھی ہوتیں اور مقابلہ مخلوط ہوتا۔ جب تک خواتین کے مقابلے خواتین سے ہی ہو رہے ہیں، اطمینان رکھئے کہ عورت عورت ہی ہے مرد نہیں۔


رعایت اللہ فاروقی
 
Top