محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,786
- پوائنٹ
- 1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم !
عورت كے ليے چہرہ كب ننگا كرنا جائز ہے
الحمد للہ:
راجح قول جس كے دلائل بھى شاہد ہيں وہ " چہرے كا پردہ كرنا واجب " والا ہى ہے، اس بنا پر اجنبى اور غير محرم مردوں كى سامنے نوجوان عورت كو چہرہ ننگا ركھنے سے منع كيا جائيگا تا كہ سد الذريعہ ہو سكے، اور فتنہ و خرابى كے خدشہ كے وقت تو يہ يقينى ہو جاتا ہے.
اہل علم بيان كرتے ہيں كہ جو بطور سد الذريعہ حرام كيا گيا ہو وہ كسى راجح مصلت كے پيش نظر مباح ہو جاتا ہے.
اس بنا پر فقھاء كرام نے كچھ خاص حالات بيان كيے ہيں جن ميں عورت كے ليے چہرہ ننگا ركھنا جائز ہے جب اس كى ضرورت پيش آئے، اسى طرح ان اجنبى مردوں كے ليے عورت كو ديكھنا جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ ضرورت كى مقدار سے تجاوز نہ كيا جائے، كيونكہ جو ضرورت يا مصلحت كى خاطر مباح كيا گيا ہو وہ بقدر ضرورت اور مصلحت ہى ہو گا.
ذيل ميں ہم اجمالا ان حالات كو بيان كرتے ہيں:
اول:
منگنى كے وقت:
عورت كے ليے اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ شادى كا پيغام دينے والے مرد كے سامنے ننگے كرنا جائز ہے، تا كہ وہ انہيں ديكھ سكے، ليكن اس كے ليے شرط يہ ہے كہ اس ميں خلوت نہ ہو، اور نہ ہى وہ عورت كو چھوئے، اس ليے كہ چہرہ جمال و خوبصورتى پر، اور ہاتھ جسم كے دبلا ہونے ہونے پر دلالت كرتے ہيں.
ابو الفرج المقدسى كہتے ہيں:
" اہل علم كے مابين اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ عورت كا چہرہ ديكھنا مباح ہے.. جو كہ خوبصورتى و جمال كا مظہر، اور نظر يعنى ديكھنے كى جگہ ہے.
منگنى كرنے والے كا اپنى منگيتر كو ديكھنے كے جواز كى دليل كئى ايك احاديث سے ثابت ہيں، جن ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
1 - سھل بن سعد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ايك عورت رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں آپ كو اپنا آپ ہبہ كرنى آئى ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى نظر اس كى طرف اٹھائى اور اسے ديكھا، پھر اپنا سر نيچے كر ليا، اور جب عورت نے ديكھا كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے متعلق كوئى فيصلہ نہيں كيا تو وہ بيٹھ گئى اور صحابہ ميں سے ايك شخص كھڑا ہو كر كہنے لگا:
اے رسول اللہ عليہ وسلم اگر آپ كو اس عورت كى كوئى حاجت و ضرورت نہيں تو آپ اس كى شادى مجھ سے كر ديں "
صحيح بخارى ( 7 19 ) صحيح مسلم ( 4 143 ) سنن نسائى ( 6 113 ) بشرح سيوطى، سنن بيہقى ( 7 84 ).
2 - ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تھا كہ ايك شخص آيا اور اس نے بتايا كہ اس نے ايك انصارى عورت سے شادى كى ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
" كيا تم نے اسے ديكھا ہے ؟
تو اس نے جواب نفى ميں ديا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جاؤ اسے جا كر ديكھو، كيونكہ انصار كى آنكھوں ميں كچھ ہوتا ہے "
منسد احمد ( 2 299 ) صحيح مسلم ( 4 142 ) سنن نسائى ( 2 73 ).
3 - جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں سے كوئى شخص كسى عورت كو شادى كا پيغام دے تو اگر اس كو نكاح كى دعوت ديكھنے والى چيز ديكھنے كى استطاعت ہو تو وہ اسے ضرور ديكھے "
اسے ابو داود اور حاكم نے روايت كيا ہے، اور اس كى سند حسن ہے، اس كى شاہد محمد بن مسلمہ كى حديث ہے، اسے ابن حبان اور حاكم نے صحيح كہا ہے، اور احمد اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے، اور ابو حميد كى حديث بھى شاہد ہے جسے امام احمد اور بزار نے روايت كيا ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 181 ).
الزيلعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اس كے ليے عورت كا چہرہ اور ہاتھ چھونے جائز نہيں ـ چاہے شہوت كا خدشہ نہ بھى ہو ـ كيونكہ يہ حرام ہے، اور اس كى كوئى ضرورت بھى نہيں " اھـ
اور درر البحار ميں درج ہے:
" قاضى اور گواہ ، اور منگنى كرنے والے كے ليے عورت كو چھونا جائز نہيں، چاہے انہيں شہوت كا خدشہ نہ بھى ہو، كيونكہ چھونے كى كوئى ضرورت ہى نہيں " اھـ
ديكھيں: رد المختار على الدر المختار ( 5 / 237 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كے ليے عورت سے خلوت كرنى جائز نہيں، كيونكہ يہ حرام ہے اور شريعت ميں منگنى كرنے والے كے ليے ديكھنے كے علاوہ كچھ وارد نہيں، اس ليے يہ اصل يعنى حرام پر باقى ہے، اور اس ليے بھى كہ خلوت كى صورت ميں ممنوع اور حرام كام سے امن نہيں بلكہ اس كا خدشہ ہے.
اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كوئى بھى مرد كسى عورت سے خلوت نہ كرے، كيونكہ ان ميں تيسرا شيطان ہوتا ہے "
اور نہ ہى منگنى كرنے والا شخص عورت كو لذت اور شہوت كى نظر سے ديكھے، اور نہ ہى شك كى نظر سے، صالح كى روايت ميں امام احمد كا قول ہے:
وہ اس كے چہرہ كو ديكھے، اور يہ نظر بطور لذت نہيں ہونى چاہيے.
اور وہ عورت كى جانب كئى بار نظر دوڑا سكتا ہے، اوراس كے محاسن پر غور كر سكتا ہے، كيونكہ اس كے بغير مقصد حاصل نہيں ہو سكتا " اھـ
Last edited: