- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
ایک تھریڈ اس بارے کچھ معروضات پیش کی تھیں کہ عورت کے مجتہدہ یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے لیکن کچھ مہربانوں نے شعوری یا لاشعوری طور بحث کا رخ کسی اور طرف پھیر دیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فقاہت کے بارے ان کی غیرت جوش مارنے لگی حالانکہ جس بات پر ان کی غیرت جوش ما رہی تھی، وہ محل اختلاف نہ تھا اور جو محل اختلاف تھا، شاید اس بارے وہ کچھ کہنا نہیں چاہ رہے تھے۔ اسے ہمارے ہاں بدقسمتی سے مکالمے کا سطحی اسلوب کہتے ہیں کہ اصل موضوع سے گفتگو ہٹا کر اسے کسی ایسی جذباتی یا ضمنی جانب پھیر دیا جائے کہ جس میں کوئی حقیقی اختلاف موجود بھی نہ ہو۔
راقم کی باتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ عورت کے مجتہدہ یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔ اس ضمن میں یہ بات نقل کی تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مجتہدہ یا فقیہ ہونا کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، یعنی ایک تاریخی واقعہ ہے۔ جن حضرات کو اس بیان سے اختلاف تھا، انہیں درحقیقت کوئی ایسی بات بیان کرنی چاہیے تھی کہ جس سے یہ ثابت ہوتا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مجتہدہ یا فقیہ ہونا ایک شرعی دلیل ہے یا عورت کے مجتہد یا فقیہ ہونے کے یہ یہ مزید شرعی دلائل ہیں؟ دیکھیں تاریخ میں تو عورتیں بادشاہ بھی ہو گزریں ہیں جیسا کہ رضیہ سلطانہ وغیرہ، تاریخی واقعہ کوئی شرعی دلیل نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا ہے تو برائے مہربانی اس کے شرعی دلیل ہونے کے دلائل بیان کر دیں؟
امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول کچھ دن پہلے پڑھ رہا تھا کہ جب بھی میری کسی عالم دین سے بحث ہوئی تو میں ہمیشہ غالب رہا لیکن جب بھی کسی جاہل سے واسطہ پڑ گیا تو ہمیشہ مغلوب ہو گیا۔ راقم کی اپنی بھی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ اگر فریٖق مخالف کی ذہنی سطح ایسی ہو کہ راقم کی بات سمجھنے ہی سے قاصر ہو یا سمجھ تو لے لیکن جذباتی مزاج ہونے کے سبب سے لاشعوری طور یا کسی تعصب کے سبب سے شعوری طور پر بات کو الجھانے کی کوشش کرے تو مکالمہ کی طرف دل آمادہ نہیں ہوتا ہے۔
میں ایک دفعہ پھر اصل محل اختلاف نقل کر دیتا ہوں یا اپنی گفتگو کا خلاصہ نقل کیے دیتا ہوں کہ عورت کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی شرعی دلیل کیا ہے؟ برائے مہربانی جو لوگ شرعی دلیل کا اصولی معنی ومفہوم سمجھتے ہوں تو وہ جواب دیں۔ میں ان کی بات ضرور بالضرور اہمیت دوں گا اور اس میں میرے لیے یعنی میرے نقطہ نظر کے لیے کوئی اصلاح کی گنجائش ہوئی تو ضرور کروں گا۔
بھائی کوئی اصولی دلیل نقل کر دیں کہ عورت مجتہد یا فقیہ ہو سکتی ہے؟ چاہے الاصل فی الاشیاء الاباحۃ ہی سہی ہو؟ اگر کسی کے عالم دین کے نزدیک یہ دلیل بنتی ہے تو اسے پیش تو کریں ؟ کوئی ایسی دلیل تو ہو جسے شرعی دلیل کہا جا سکے؟ پھر میں اس پر کچھ اپنی معروضات پیش کروں گا تو ہم ایک نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔
عورت کے مجتہد اور فقیہ نہ ہونے کے دلائل یہ ہیں جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔
پہلی دلیل
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ نے از خود بھی اجتہاد فرمایا اور صحابہ نے بھی کیا اور صحابہ کے اجتہادات کو آپ کی تائید و تصویب حاصل ہوئی یا آپ نے تصحیح فرمائی جیسا کہ دم کے بدلے بکریوں کی صورت میں اجرت وصول کرنا یا غسل کی حاجت کی صورت میں تیمم نہ کرنا یا عصر کی نماز کو غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر وقت کے بعد ادا کرنا وغیرہ ۔ پس سنت تقریری سے مردوں کے لیے اجتہاد ثابت ہوا۔ میرا سوال یہ تھا کہ کیا ایسی اجازت عورتوں کے لیے بھی سنت سے ثابت ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو اجتہاد یا فتوی جیسے اہم دینی شعبوں میں عورتوں کو یہ مقام دینے کی دلیل کیا ہے؟ اگر عورت مفتی یا مجتہد ہو سکتی ہے تو کیا عورت امام نہیں ہو سکتی یا عورت نکاح خواں نہیں بن سکتی یا عورت کسی ادارے کی سربراہ نہیں ہو سکتی یا عورت کسی صوبے کی گورنر نہیں ہو سکتی یا عورت چیف آف آرمی سٹاف نہیں ہو سکتی یا عورت چیف جسٹس نہیں بن سکتی یا عورت وزیر اعظم نہیں بن سکتی یا عورت وزیر اعلی نہیں ہو سکتی یا عورت ایڈمرل نہیں ہو سکتی یا عورت ایئر مارشل نہیں ہو سکتی وغیرہ ذلک۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
قَالَ : لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً )
رواه البخاري (4425)، ورواه النسائي في " السنن " (8/227)
وہ قوم ہر گز کامیاب نہیں ہو گی جس نے اپنے معاملات کسی عورت کے سپرد کر دیے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے اور یہ صرف بادشاہت سے ساتھ خاص نہیں ہے، اگر اس روایت کو بادشاہت کے ساتھ خاص کریں تو عورت کا چیف آف آرمی سٹاف بننا یاچیف جسٹس بننا وغیرہ جائز ہے۔ یہ روایت اپنے الفاظ میں عام ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ کسی بھی شعبہ زندگی میں معاملات عورت کے سپرد نہیں کرنے چاہییں اور علمی رہنمائی یعنی اجتہاد و فتوی دین کا ایک اہم اور بنیادی شعبہ ہے اور اس شعبہ کی قیادت عورتوں کے سپرد کر دینا، اس روایت کی خلاف ورزی ہے۔
دوسری دلیل
اخروھن من حیث اخرھن اللہ میں نص یعنی ما سیق الکلام لاجلہ یہ ہے کہ عورتوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں سے پیچھے رکھنا چاہیے اور یہی شریعت اسلامیہ کا مقصود اور کتاب و سنت کی تعلیمات ہیں اور اسی میں زندگی کا حسن و توازن ہے۔
راقم کی باتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ عورت کے مجتہدہ یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔ اس ضمن میں یہ بات نقل کی تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مجتہدہ یا فقیہ ہونا کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، یعنی ایک تاریخی واقعہ ہے۔ جن حضرات کو اس بیان سے اختلاف تھا، انہیں درحقیقت کوئی ایسی بات بیان کرنی چاہیے تھی کہ جس سے یہ ثابت ہوتا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مجتہدہ یا فقیہ ہونا ایک شرعی دلیل ہے یا عورت کے مجتہد یا فقیہ ہونے کے یہ یہ مزید شرعی دلائل ہیں؟ دیکھیں تاریخ میں تو عورتیں بادشاہ بھی ہو گزریں ہیں جیسا کہ رضیہ سلطانہ وغیرہ، تاریخی واقعہ کوئی شرعی دلیل نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا ہے تو برائے مہربانی اس کے شرعی دلیل ہونے کے دلائل بیان کر دیں؟
امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول کچھ دن پہلے پڑھ رہا تھا کہ جب بھی میری کسی عالم دین سے بحث ہوئی تو میں ہمیشہ غالب رہا لیکن جب بھی کسی جاہل سے واسطہ پڑ گیا تو ہمیشہ مغلوب ہو گیا۔ راقم کی اپنی بھی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ اگر فریٖق مخالف کی ذہنی سطح ایسی ہو کہ راقم کی بات سمجھنے ہی سے قاصر ہو یا سمجھ تو لے لیکن جذباتی مزاج ہونے کے سبب سے لاشعوری طور یا کسی تعصب کے سبب سے شعوری طور پر بات کو الجھانے کی کوشش کرے تو مکالمہ کی طرف دل آمادہ نہیں ہوتا ہے۔
میں ایک دفعہ پھر اصل محل اختلاف نقل کر دیتا ہوں یا اپنی گفتگو کا خلاصہ نقل کیے دیتا ہوں کہ عورت کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی شرعی دلیل کیا ہے؟ برائے مہربانی جو لوگ شرعی دلیل کا اصولی معنی ومفہوم سمجھتے ہوں تو وہ جواب دیں۔ میں ان کی بات ضرور بالضرور اہمیت دوں گا اور اس میں میرے لیے یعنی میرے نقطہ نظر کے لیے کوئی اصلاح کی گنجائش ہوئی تو ضرور کروں گا۔
بھائی کوئی اصولی دلیل نقل کر دیں کہ عورت مجتہد یا فقیہ ہو سکتی ہے؟ چاہے الاصل فی الاشیاء الاباحۃ ہی سہی ہو؟ اگر کسی کے عالم دین کے نزدیک یہ دلیل بنتی ہے تو اسے پیش تو کریں ؟ کوئی ایسی دلیل تو ہو جسے شرعی دلیل کہا جا سکے؟ پھر میں اس پر کچھ اپنی معروضات پیش کروں گا تو ہم ایک نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔
عورت کے مجتہد اور فقیہ نہ ہونے کے دلائل یہ ہیں جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔
پہلی دلیل
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ نے از خود بھی اجتہاد فرمایا اور صحابہ نے بھی کیا اور صحابہ کے اجتہادات کو آپ کی تائید و تصویب حاصل ہوئی یا آپ نے تصحیح فرمائی جیسا کہ دم کے بدلے بکریوں کی صورت میں اجرت وصول کرنا یا غسل کی حاجت کی صورت میں تیمم نہ کرنا یا عصر کی نماز کو غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر وقت کے بعد ادا کرنا وغیرہ ۔ پس سنت تقریری سے مردوں کے لیے اجتہاد ثابت ہوا۔ میرا سوال یہ تھا کہ کیا ایسی اجازت عورتوں کے لیے بھی سنت سے ثابت ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو اجتہاد یا فتوی جیسے اہم دینی شعبوں میں عورتوں کو یہ مقام دینے کی دلیل کیا ہے؟ اگر عورت مفتی یا مجتہد ہو سکتی ہے تو کیا عورت امام نہیں ہو سکتی یا عورت نکاح خواں نہیں بن سکتی یا عورت کسی ادارے کی سربراہ نہیں ہو سکتی یا عورت کسی صوبے کی گورنر نہیں ہو سکتی یا عورت چیف آف آرمی سٹاف نہیں ہو سکتی یا عورت چیف جسٹس نہیں بن سکتی یا عورت وزیر اعظم نہیں بن سکتی یا عورت وزیر اعلی نہیں ہو سکتی یا عورت ایڈمرل نہیں ہو سکتی یا عورت ایئر مارشل نہیں ہو سکتی وغیرہ ذلک۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
قَالَ : لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً )
رواه البخاري (4425)، ورواه النسائي في " السنن " (8/227)
وہ قوم ہر گز کامیاب نہیں ہو گی جس نے اپنے معاملات کسی عورت کے سپرد کر دیے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے اور یہ صرف بادشاہت سے ساتھ خاص نہیں ہے، اگر اس روایت کو بادشاہت کے ساتھ خاص کریں تو عورت کا چیف آف آرمی سٹاف بننا یاچیف جسٹس بننا وغیرہ جائز ہے۔ یہ روایت اپنے الفاظ میں عام ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ کسی بھی شعبہ زندگی میں معاملات عورت کے سپرد نہیں کرنے چاہییں اور علمی رہنمائی یعنی اجتہاد و فتوی دین کا ایک اہم اور بنیادی شعبہ ہے اور اس شعبہ کی قیادت عورتوں کے سپرد کر دینا، اس روایت کی خلاف ورزی ہے۔
دوسری دلیل
اخروھن من حیث اخرھن اللہ میں نص یعنی ما سیق الکلام لاجلہ یہ ہے کہ عورتوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں سے پیچھے رکھنا چاہیے اور یہی شریعت اسلامیہ کا مقصود اور کتاب و سنت کی تعلیمات ہیں اور اسی میں زندگی کا حسن و توازن ہے۔