• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت مجتہدہ یا فقیہ ہو سکتی ہے ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ایک تھریڈ اس بارے کچھ معروضات پیش کی تھیں کہ عورت کے مجتہدہ یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے لیکن کچھ مہربانوں نے شعوری یا لاشعوری طور بحث کا رخ کسی اور طرف پھیر دیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فقاہت کے بارے ان کی غیرت جوش مارنے لگی حالانکہ جس بات پر ان کی غیرت جوش ما رہی تھی، وہ محل اختلاف نہ تھا اور جو محل اختلاف تھا، شاید اس بارے وہ کچھ کہنا نہیں چاہ رہے تھے۔ اسے ہمارے ہاں بدقسمتی سے مکالمے کا سطحی اسلوب کہتے ہیں کہ اصل موضوع سے گفتگو ہٹا کر اسے کسی ایسی جذباتی یا ضمنی جانب پھیر دیا جائے کہ جس میں کوئی حقیقی اختلاف موجود بھی نہ ہو۔

راقم کی باتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ عورت کے مجتہدہ یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔ اس ضمن میں یہ بات نقل کی تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مجتہدہ یا فقیہ ہونا کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، یعنی ایک تاریخی واقعہ ہے۔ جن حضرات کو اس بیان سے اختلاف تھا، انہیں درحقیقت کوئی ایسی بات بیان کرنی چاہیے تھی کہ جس سے یہ ثابت ہوتا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مجتہدہ یا فقیہ ہونا ایک شرعی دلیل ہے یا عورت کے مجتہد یا فقیہ ہونے کے یہ یہ مزید شرعی دلائل ہیں؟ دیکھیں تاریخ میں تو عورتیں بادشاہ بھی ہو گزریں ہیں جیسا کہ رضیہ سلطانہ وغیرہ، تاریخی واقعہ کوئی شرعی دلیل نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا ہے تو برائے مہربانی اس کے شرعی دلیل ہونے کے دلائل بیان کر دیں؟

امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول کچھ دن پہلے پڑھ رہا تھا کہ جب بھی میری کسی عالم دین سے بحث ہوئی تو میں ہمیشہ غالب رہا لیکن جب بھی کسی جاہل سے واسطہ پڑ گیا تو ہمیشہ مغلوب ہو گیا۔ راقم کی اپنی بھی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ اگر فریٖق مخالف کی ذہنی سطح ایسی ہو کہ راقم کی بات سمجھنے ہی سے قاصر ہو یا سمجھ تو لے لیکن جذباتی مزاج ہونے کے سبب سے لاشعوری طور یا کسی تعصب کے سبب سے شعوری طور پر بات کو الجھانے کی کوشش کرے تو مکالمہ کی طرف دل آمادہ نہیں ہوتا ہے۔

میں ایک دفعہ پھر اصل محل اختلاف نقل کر دیتا ہوں یا اپنی گفتگو کا خلاصہ نقل کیے دیتا ہوں کہ عورت کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی شرعی دلیل کیا ہے؟ برائے مہربانی جو لوگ شرعی دلیل کا اصولی معنی ومفہوم سمجھتے ہوں تو وہ جواب دیں۔ میں ان کی بات ضرور بالضرور اہمیت دوں گا اور اس میں میرے لیے یعنی میرے نقطہ نظر کے لیے کوئی اصلاح کی گنجائش ہوئی تو ضرور کروں گا۔

بھائی کوئی اصولی دلیل نقل کر دیں کہ عورت مجتہد یا فقیہ ہو سکتی ہے؟ چاہے الاصل فی الاشیاء الاباحۃ ہی سہی ہو؟ اگر کسی کے عالم دین کے نزدیک یہ دلیل بنتی ہے تو اسے پیش تو کریں ؟ کوئی ایسی دلیل تو ہو جسے شرعی دلیل کہا جا سکے؟ پھر میں اس پر کچھ اپنی معروضات پیش کروں گا تو ہم ایک نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔

عورت کے مجتہد اور فقیہ نہ ہونے کے دلائل یہ ہیں جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔
پہلی دلیل
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ نے از خود بھی اجتہاد فرمایا اور صحابہ نے بھی کیا اور صحابہ کے اجتہادات کو آپ کی تائید و تصویب حاصل ہوئی یا آپ نے تصحیح فرمائی جیسا کہ دم کے بدلے بکریوں کی صورت میں اجرت وصول کرنا یا غسل کی حاجت کی صورت میں تیمم نہ کرنا یا عصر کی نماز کو غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر وقت کے بعد ادا کرنا وغیرہ ۔ پس سنت تقریری سے مردوں کے لیے اجتہاد ثابت ہوا۔ میرا سوال یہ تھا کہ کیا ایسی اجازت عورتوں کے لیے بھی سنت سے ثابت ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو اجتہاد یا فتوی جیسے اہم دینی شعبوں میں عورتوں کو یہ مقام دینے کی دلیل کیا ہے؟ اگر عورت مفتی یا مجتہد ہو سکتی ہے تو کیا عورت امام نہیں ہو سکتی یا عورت نکاح خواں نہیں بن سکتی یا عورت کسی ادارے کی سربراہ نہیں ہو سکتی یا عورت کسی صوبے کی گورنر نہیں ہو سکتی یا عورت چیف آف آرمی سٹاف نہیں ہو سکتی یا عورت چیف جسٹس نہیں بن سکتی یا عورت وزیر اعظم نہیں بن سکتی یا عورت وزیر اعلی نہیں ہو سکتی یا عورت ایڈمرل نہیں ہو سکتی یا عورت ایئر مارشل نہیں ہو سکتی وغیرہ ذلک۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
قَالَ : لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً )
رواه البخاري (4425)، ورواه النسائي في " السنن " (8/227)
وہ قوم ہر گز کامیاب نہیں ہو گی جس نے اپنے معاملات کسی عورت کے سپرد کر دیے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے اور یہ صرف بادشاہت سے ساتھ خاص نہیں ہے، اگر اس روایت کو بادشاہت کے ساتھ خاص کریں تو عورت کا چیف آف آرمی سٹاف بننا یاچیف جسٹس بننا وغیرہ جائز ہے۔ یہ روایت اپنے الفاظ میں عام ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ کسی بھی شعبہ زندگی میں معاملات عورت کے سپرد نہیں کرنے چاہییں اور علمی رہنمائی یعنی اجتہاد و فتوی دین کا ایک اہم اور بنیادی شعبہ ہے اور اس شعبہ کی قیادت عورتوں کے سپرد کر دینا، اس روایت کی خلاف ورزی ہے۔

دوسری دلیل
اخروھن من حیث اخرھن اللہ میں نص یعنی ما سیق الکلام لاجلہ یہ ہے کہ عورتوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں سے پیچھے رکھنا چاہیے اور یہی شریعت اسلامیہ کا مقصود اور کتاب و سنت کی تعلیمات ہیں اور اسی میں زندگی کا حسن و توازن ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
١۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مجتہدہ یا فقیہ ہونا گو ایک تاریخی واقعہ ہےلیکن یہ کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ (مسلمانوں کی) تاریخ میں تو عورتیں بادشاہ بھی ہو گزریں ہیں مگر تاریخی واقعہ کوئی شرعی دلیل نہیں ہوتا ۔۔۔ برائے مہربانی جو لوگ شرعی دلیل کا اصولی معنی ومفہوم سمجھتے ہوں وہی جواب دیں۔

٢۔ وہ قوم ہر گز کامیاب نہیں ہو گی جس نے اپنے معاملات کسی عورت کے سپرد کر دیے۔
میرے خیال میں یہ دو نکات آج کے اس مکالمہ کا مرکزی موضوع ہے۔ کاش ہم اپنی گفتگو ان ہی نکات پر جاری رکھ سکیں۔

جب بھی میری کسی عالم دین سے بحث ہوئی تو میں ہمیشہ غالب رہا لیکن جب بھی کسی جاہل سے واسطہ پڑ گیا تو ہمیشہ مغلوب ہو گیا۔
کیا خوب قول ہے اور آج کل کے حسب حال بھی۔

اصل موضوع سے گفتگو ہٹا کر اسے کسی جذباتی یا ضمنی جانب پھیرنے کو مکالمے کا سطحی اسلوب کہتے ہیں۔
اللہ ہم سب کو علمی انداز میں مکالمہ کرنے اصل موضوع سے ہٹے بغیر گفتگو کرنے کی توفیق دے آمین
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
موضوع کے متعلق غور وفکر کرنے کے بعد چند باتیں جو سمجھ میں آئیں عرض کر رہا ہوں ۔ اہل علم سے گذارش ہے کہ آراء سے نوازیں
1. اجتہاد جس عمل کا نام ہے اس کا تعلق جسمانی بناوٹ سے نہیں علم و عقل سے ہے،کسی شخصیت کے مجتہد ہونے اور نہ ہونے کا انحصار اس کی صلاحیتوں اور علم پر ہے نہ کہ اس کے جسمانی بناوٹ پر اس لیے اجتہاد کے متعلق جنس کے حوالہ سے گفتگو کرنا فضول ہے ۔
ائمہ اصول اور فقہاء امت نے مجتہد کے جو شروط بیان فرماِئے ہیں ان سب کا تعلق فکر و نظر کی قوتوں اور استدلال و استنباط کی صلاحیتوں سے ہے لہذا کسی شخصیت کے متعلق مجتہد ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ انہی قوتوں اور صلاحیتوں کی بنیاد پر ہونا چاہیے نہ کہ اس کے جنس کی بنیادپر۔
فإذا تكاملت هذه الشروط في المجتهد صح اجتهاده في جميع الأحكام وإن لم يوجد واحد من هذه الشروط خرج من أهلية الاجتهاد وليس يعتبر في صحة الاجتهاد أن يكون رجلا ولا أن يكون حرا ولا أن يكون عدلا وهو يصح من الرجل والمرأة والحر والعبد والفاسق وإنما تعتبر العدالة في الحكم والفتوى فلا يجوز استفتاء الفاسق وإن صح استفتاء المرأة والعبد ولا يصح الحكم إلا من رجل حر عدل فصارت شروط الفتيا أغلظ من شروط الاجتهاد بالعدالة لما تضمنه من القبول وشروط الحكم أغلظ من شروط الفتيا بالحرية والذكورية لما تضمنه من الإلزام. [موسوعة أصول الفقه : 52 / 81 ].
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
عورت کے مجتہدہ یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
2. جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اجتہاد کا عمل علمی صلاحیتوں متقاضی ہے نہ کہ جنسی خصوصیت اور جسمانی قوتوں کا ۔ لہذا کسی جنس کے لیے اجتہاد کے جواز پر دلیل طلب کرنا ہی فضول ہے ۔
اس سوال کے فالتو ہونے کےلیے یہی بات کافی ہے کہ ہم اس جیسے کچھ اور سوال پیش کردیں ۔
لنگڑے کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
عجمی کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
عنین یا مخنث کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
سانولے کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
شاعر کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
۸ فٹ لمبے آدمی کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
عورت کے مجتہدہ یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
اگر مذکورہ الزامی جواب سے اطمینان نہ ہوتویہ حدیث پیش کی جاسکتی ہے ۔

مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ صحيح البخاري (1/ 25)

ہم کہتے ہیں کہ حدیث میں من کے الفاظ عام ہے جو مرد اور عورت دونوں کو شامل ہے ۔ اگر آپ اس سے عورتوں کو مستثنی سمجھتے ہیں تو دلیل آپ کے ذمہ ہے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مجتہدہ یا فقیہ ہونا کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، یعنی ایک تاریخی واقعہ ہے۔
حضرت عائشہ کا مجتہدہ ہونا یقینا ایک تاریخی واقعہ ہے اور ان کے مجتہد ہونے پر اجماع ہوجانا ایک شرعی دلیل

دیکھیں تاریخ میں تو عورتیں بادشاہ بھی ہو گزریں ہیں جیسا کہ رضیہ سلطانہ وغیرہ، تاریخی واقعہ کوئی شرعی دلیل نہیں ہوتا۔
حضرت عائشہ کے مجتہد ہونے پر رضیہ سلطانہ وغیرہ کے ملکہ ہونے کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ
  1. عورت کی بادشاہت کی ممانعت شرعی نص سے ثابت ہے لیکن اجتہاد کی ممانعت کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔
  2. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اجتہاد کے مستحسن ہونے پر امت کااجماع ہے جبکہ رضیہ سلطانہ کی سلطنت کے بطلان پر امت کی اکثریت کا اتفاق۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اگر عورت مفتی یا مجتہد ہو سکتی ہے تو کیا عورت امام نہیں ہو سکتی یا عورت نکاح خواں نہیں بن سکتی یا عورت کسی ادارے کی سربراہ نہیں ہو سکتی یا عورت کسی صوبے کی گورنر نہیں ہو سکتی یا عورت چیف آف آرمی سٹاف نہیں ہو سکتی یا عورت چیف جسٹس نہیں بن سکتی یا عورت وزیر اعظم نہیں بن سکتی یا عورت وزیر اعلی نہیں ہو سکتی یا عورت ایڈمرل نہیں ہو سکتی یا عورت ایئر مارشل نہیں ہو سکتی وغیرہ ذلک۔
عورت چیف آف آرمی یا چیف جسٹس وغیرہ اس لیے نہیں بن سکتی کیونکہ اسلام عورت کے زندگی گذارنے کے لیے جو دائرہ متعین کرتا ہے ان عہدوں کی ذمہ داریاں ان کو اس دائرہ سے باہر لے جاتی ہیں ۔ اگر کسی عورت کے فقیہ یا مجتہد ہونے اسے اسلامی احکامات کی خلاف ورزی ہورہی ہوتو اس کے لیے مجتہد یا فقیہ بننا بھی ناجائز قرار دیا جائے گا۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
دوسری دلیل
اخروھن من حیث اخرھن اللہ میں نص یعنی ما سیق الکلام لاجلہ یہ ہے کہ عورتوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں سے پیچھے رکھنا چاہیے اور یہی شریعت اسلامیہ کا مقصود اور کتاب و سنت کی تعلیمات ہیں اور اسی میں زندگی کا حسن و توازن ہے۔
  1. حدیث کی مرفوعا کوئی اصل نہیں ۔
  2. موقوفا یہ روایت نماز کے متعلق ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں عام کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے ۔
  3. کیا آپ انہیں کچن ، سلائی اور بچوں کی طہارت و نظافت کے معاملہ میں بھی پیچھے ہی رکھیں گے اور ساری ذمہ داریاں خود ہی سنبھال لیں گے؟
  4. اجتہاد کے معاملہ میں آپ نے نے بے چاریوں کو پیچھے بھی نہیں رکھا، ڈائریکٹ باہر ہی نکال دیا ۔ کیا آپ بھول گئے کہ آپ تاخیر کے نہیں سیدھا نفی کے قائل ہیں ؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
میرا خیال ہے کہ محل نزاع طے کر لیا جائے تو بحث زیادہ مفید ہوگی اور جلد کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے گا۔
میں علوی بھائی سے مختلف پوسٹس سے جو کچھ سمجھ پایا ہوں (اگر علوی بھائی کی یہ مراد نہیں تو تصحیح کر دیں) وہ یہ کہ ان کے نزدیک عورت اپنے دائرہ کار کی بناء پر اہل الحل والعقد میں سے نہیں یا وہ کوئی حکومتی منصب مثلاً ’مفتی اعظم پاکستان‘ وغیرہ سنبھالنے کے اہل نہیں؟
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
کیا آپ انہیں کچن ، سلائی اور بچوں کی طہارت و نظافت کے معاملہ میں بھی پیچھے ہی رکھیں گے اور ساری ذمہ داریاں خود ہی سنبھال لیں گے؟
کچھ اس سے ملتی جلتی بات رفیق طاہر بھائی نے بھی یوں تحریر کی تھی :
اگر اس فرمان نبوی :
لن يفلح قوم ولوا أمر هم امرأة :: وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جو اپنا معاملہ کسی عورت کے سپرد کردے !
کو عام ہی رکھا جائے اور کسی بھی معاملہ کو عورت کے سپرد نہ کیا جائے تو کیا نتیجہ نکلتا ہے ؟
مشتے از خروارے چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں :
۱۔ بچوں کی تربیت کرنا اسلام کا ایک اہم ترین فریضہ ہے لہذا یہ کام یعنی حضانت بھی مردوں کے سپرد ہونا چاہیے , مرد ہی بچوں کو پیشاب پاخانہ کا طریقہ سکھائیں وغیرہ وغیرہ ........
۲۔ دودھ بھی مردوں کو ہی پلانا چاہیے کیونکہ "" لن يفلح قوم ولوا أمر هم امرأة :: وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جو اپنا معاملہ کسی عورت کے سپرد کردے !"" اور زیر کفالت افراد کو خوراک مہیا کرنا بھی ایک اہم دینی فریضہ ہے ۔
۳۔ گھر کی صفائی , کپڑوں کی دھلائی , استری , وغیرہ بھی مرد کے سپرد ہونی چاہیے کیونکہ صفائی نصف ایمان ہے اور ""لن يفلح قوم ولوا أمر هم امرأة :: وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جو اپنا معاملہ کسی عورت کے سپرد کردے ! ""
۴۔ کھانا پکانا بھی مردوں کے ذمہ ہونا چاہیے کہ ""لن يفلح قوم ولوا أمر هم امرأة :: وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جو اپنا معاملہ کسی عورت کے سپرد کردے ! "
۵۔ بلکہ حمل وولادت کا کام بھی مردوں کے ہی سپرد ہونا چاہیے تھا کہ " لن يفلح قوم ولوا أمر هم امرأة :: وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جو اپنا معاملہ کسی عورت کے سپرد کردے !"
وغیرہ وغیرہ ..................................................
اپنے ایک مقالے میں عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے نابالغ کی شادی کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے کچھ یوں لکھا تھا کہ ۔۔۔
رخصت بہرحال ایک استثنٰی ہے ، یہ اصولی حکم نہیں بن سکتا۔ مگر شریعت میں رخصت کی اہمیت یقیناً ہے۔ لہذا ہر معاملے میں پہلے ہمیں یہ تمیز کر لینا چاہئے کہ اصولی حکم کیا ہے اور رخصت کیا؟ اور ان دونوں کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئے۔
میرے ناقص خیال میں ۔۔۔ ابوالحسن علوی بھائی نے جب ایسا لکھا تھا :
عورتوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں سے پیچھے رکھنا چاہیے
تو "ہر شعبہ" سے استثنائی صورتوں کو علیحدہ کرنا ۔۔۔ دیگر فاضل مقالہ نگار غالبا نادانستگی میں فراموش کر گئے ہیں۔
بطور استثنائی مثال ۔۔۔ امور خانہ داری ، حمل و ولادت ، بچوں کو دودھ پلانا ، لڑکیوں کے کسی اسکول میں خاتون پرنسپل کا عہدہ یا کسی ہسپتال میں عورتوں کے مخصوص امراض کی تشخیص کے لیے خاتون ڈاکٹر کا عہدہ وغیرہ۔۔
جو کہ یہ استثنائی معاملات خواتین کے ساتھ ہی مخصوص ہیں۔

ونیز ۔۔۔۔
کلیم حیدر بھائی نے بھی کسی جگہ اسی موضوع سے متعلق ایک اچھی بات یوں دریافت کی تھی :
دوشقیں ہیں۔
1۔اپنے تئیں فقیہہ ہونا اور مسائل شرعیہ میں رہنمائی کرنا ایک الگ بات ہے
2۔مسائل شرعیہ میں ایک عہدے کےطور پر ایز اے فقیہہ عورت کو مقرر کیا جانا ایک علیحدہ بات ہے ۔۔۔ اور اسی دوسرے پہلو کی وضاحت مطلوب ہے۔
کلیم حیدر بھائی کے وضاحت طلب دوسرے نکتے میں ۔۔۔۔ "بحیثیت فقیہہ" عہدہ ہی نہیں بلکہ ۔۔۔ مرد و خواتین پر مشتمل ملک ، جماعت ، گروہ ، ادارہ وغیرہ وغیرہ کی "سربراہی والا عہدہ" بھی شامل سمجھا جانا چاہیے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top