• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت مجتہدہ یا فقیہ ہو سکتی ہے ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
وضاحت
اجتہاد علمی نہیں عقلی صلاحیت کا دوسرا نام ہے۔ میرا ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ یہاں کتاب وسنت ویب سائیٹ پر موجود ہے کہ جس میں، میں نے امام شافعی سے لے کر شیخ قرضاوی تک اجتہاد کی ایک صد تعریفات کا تجزیہ کیا ہے۔ اجتہاد فقہ الاحکام کو فقہ الواقع پر لاگو کرنے کا نام ہے یا اجتہاد آسان الفاظ میں قرآن و سنت کی وسعتوں اور گہرائیوں سے اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے جدید مسائل کا حل تلاش کرنے کا نام ہے۔ اجتہاد اور ذہنی جدوجہد لازم و ملزوم ہے۔ ذہنی جدوجہد کے بغیر اجتہاد ممکن نہیں ہے
ہم نے اجتہاد کے لیے عقلی صلاحیت کی درکاری کا انکار نہیں کیا ۔ پتہ نہیں آپ نے ہماری تحریر مکمل پڑھی نہیں یا اجتہاد کے لیے عقلی صلاحیتوں کا ذکر جو ہم نے کیا ہے آپ نے اسے نظر انداز کردیا۔ دیکھیے ہم نے لکھا ہے ۔
اجتہاد جس عمل کا نام ہے اس کا تعلق جسمانی بناوٹ سے نہیں علم و عقل سے ہے
ائمہ اصول اور فقہاء امت نے مجتہد کے جو شروط بیان فرماِئے ہیں ان سب کا تعلق فکر و نظر کی قوتوں اور استدلال و استنباط کی صلاحیتوں پر ہے۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ اجتہاد کا عمل علم اور عقل دونوں کے اجتماع کے ساتھ وجود میں آتا ہے ۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کے لیے علمی صلاحیت کی کوئی ضرورت نہیں
اجتہاد علمی نہیں عقلی صلاحیت کا دوسرا نام ہے۔
تو اس کے لیے دوسرا تھریڈ شروع کیجیے تاکہ اس موضوع پر بھی گفتگو کی جاسکے ۔ اس تھریڈ میں ہم اجتہاد نسواں کی شرعی حیثیت کے علاوہ اور کسی موضوع پر بات نہیں کریں گے ۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
جواب
ناقص عقل کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
پہلی دلیل

مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ میں من کا عموم ۔۔ جس کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں یفقہہ فی الدین کے عموم میں خواتین شامل نہیں تو آپ کو انہیں یرد اللہ بہ خیرا کے زمرہ سے بھی خارج کردینا چاہیے کیونکہ دونوں باتیں لازم و ملزوم ہے۔
دسری دلیل

حضرت عائشہ ( ایک عورت) کے اجتہادات پر امت کا اجماع۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
پس کسی بھی شعبہ زندگی کے معاملات اس طرح عورت کے سپرد کر دینا کہ اس میں مرد اس کے ماتحت ہوں یا وہ مردوں کے برابر ہو تو اسلام اور تقدیر کے خلاف ایسی جنگ ہے کہ جس میں مخالفین کی شکست مقدر ہے۔ باقی رہا مسئلہ عورتوں کا عورتوں کی رہنمائی کرنا یا عورتوں کا بعض جزوی مسائل میں اپنی رائے کا اظہار کرنا یا عورتوں کا کتاب و سنت کو سمجھ کر ان پر عمل کرنا تو یہ محل نزاع نہیں ہے۔
دلچسپ اقتباس ہے !
گو کہ روشن خیال مسلمانوں کے ساتھ مباحث میں کئی ایسے نام سامنے لائے جاتے ہیں جنہیں بحیثیت مجموعی "کامیاب" بھی قرار دیا جاتا ہے ۔۔۔ مثلا وزارت خارجہ جیسے اہم منصب پر ۔۔۔ حنا ربانی ، اندرا گاندھی ، دیپو مونی ، سجاتا کوئرالہ ، بنڈرانائکے ، میڈلین البرائیٹ ، کنڈالیز رائس ، ہلاری کلنٹن ، اکمارل خیڈرون (قازقستان) ، شیخلو مخمودہ (ازبکستان) ، روزا اتنبیو (کرغستان) ، تانسو سلر (ترکی) ، پرنسس مسنا بنت عمر علی (برونی) ، تناکا مکیکو (جاپان) ، النکا متروا (مقدونیا) ۔۔۔۔ ایک طویل فہرست ۔۔ شائقین گوگل کر لیں :)
اور شاید آجکل اسلامی (دینی؟) دنیا میں بھی یہ لہر جاری ہو !!
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
تفہیم
اجماع کی تعریف میں یہ بات جوہری عنصر کے طور شامل ہے کہ اجماع کسی شرعی حکم پر ہوتا ہے نہ کہ تاریخی واقعہ یا تاریخی حقیقت یا تاریخی وقوعہ پر۔
اجماع کی تعریف میں یہ بات جوہری عنصر کے طور شامل ہے کہ اجماع کسی شرعی حکم پر ہوتا ہے نہ کہ تاریخی واقعہ یا تاریخی حقیقت یا تاریخی وقوعہ پر۔
حضرت عائشہ کے اجتہاد کا مستحسن ہونے پر امت کے اتفاق کا لازمہ یہ نکلتا ہے عورت کی طرف سے اجتہاد کے جائز ہونے پر امت کا اجماع ہے ۔ اپنی تحریر میں ہم نے یہی بات کہنی چاہی تھی جسے ہم بیان نہ کرسکے اور آپ سمجھ نہیں پائے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
معذرت
بھئی یہی تو میرا سوال ہے کہ وہ دائرہ کیا ہے، اس کی حدود کیا ہیں اور اس دائرے کی دلیل کیا ہے؟۔ آپ پہلے دائرے کو اس کی حدود کے ساتھ بیان کریں، پھر دیکھتے ہیں کہ مجتہدہ اور فقیہ اس دائرے کے اندر داخل ہے یا باہر، اور اس دائرے کی حدود کے دلائل بھی برائے مہربانی نقل کر دیجیے گا۔ اگر عورت نقاب پہن پر ٹیلی ویژن پر درسقرآن دے سکتی ہے، ٹیلی ویژن پر شرعی رہنمائی کر سکتی ہے تو نقاب پہن کر سپریم کورٹ میں بیٹھ کر فیصلے کیوں نہیں کر سکتی ہے؟ اور نقاب پہن کر چیف آف آرمی سٹاف کیوں نہیں بن سکتی؟ کیا امت مسلمہ کی تاریخی میں صحابیات میدان جنگ میں اپنی خدمات پیش نہیں کرتی رہی ہیں؟
دائزہ کا رکی تفصیل لمبی ہے ۔ مولانا ابوالاعلی مودودی کی پردہ پڑھیے انہوں نے بہت مفصل بیان فرمایا ہے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
مطالبہ
من یرد اللہ بہ خیرا کے عموم سے سے خواتین کو خارج کرنے کی دلیل ؟
عورت کے فقیہ یا مجتہد بن جانے سے کون کون سے اسلامی احکامات کی خلاف ورزی ہوتی ہے ؟
آپ کے علاوہ امت کی پوری تاریخ اور کتنے اور کون سے علماء ہیں جنہوں نے خواتین کے لیے اجتہاد کو ممنوع قرار دیا ہے؟
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
شکریہ
اسے دلیل کی دنیا میں سقراط کا طریق کار کہتے ہیں کیونکہ سقراط کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ مکالمہ یا ڈائیلاگ میں جواب نہیں دیتا تھا بلکہ صرف فریق مخالف کا سوال درست کر دیتا تھا اور اس سے اس کے نزدیک مقصود فرق مخالف کے علم میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اس کے تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو بھی جلا بخشنا ہوتا تھا۔
علوی بھائی علم ، عمر، تجربہ ہر اعتبار سے میری حیثیت آپ کے سامنے ایک طالب علم کی ہے ۔ اور میں بالکل کھلے ذہن کے ساتھ آپ کے علم سے فائدہ اٹھانے کا متمنی ہوں ۔لہذا ایک شاگرد ہونے کی حیثیت سے سوال کرنے بلکہ حسب ضرورت سوال اٹھانے کا حق رکھتا ہوں ۔ استاذ ہونے کے ناطے سے آپ کےلیے اپنے شاگرد کو مطمئن کرنا لازم ہے ۔
علم کے اضافہ کےلیے شکریہ !
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ازالہ شبہ
پس کسی بھی شعبہ زندگی کے معاملات اس طرح عورت کے سپرد کر دینا کہ اس میں مرد اس کے ماتحت ہوں یا وہ مردوں کے برابر ہو تو اسلام اور تقدیر کے خلاف ایسی جنگ ہے کہ جس میں مخالفین کی شکست مقدر ہے۔
عورت کے مجتہد یا فقیہ ہونے سے یہ قطعا لازم نہیں آتا کہ مرد حضرات خود کو اس مجتہدہ کے سپرد کردیں ۔یہ سپردگی تو کسی مرد فقیہ کے حق میں بھی نہیں ہوگی ۔ اسی سپردگی ہی کو تو ہم تقلید کہتے ہیں ۔ سپردگی ان دلائل کے تئیں ہوگی جو مجتہد یا مجتہدہ اپنے موقف کے اثبات کے لیے پیش کررہے ہیں ۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
لیکن ۔۔۔ پھر تو دو میں سے ایک بات ممکن ہے :
  • عورتوں کو زندگی کے ہر شعبہ (بااستثنائے عورت کے مخصوص شعبہ جات) میں مردوں سے پیچھے رکھنا چاہیے
  • عورتوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں کے شانہ بشانہ رکھنا چاہیے یا اگر وہ چاہیں تو مردوں سے برتر بھی ہو سکتی ہیں
ان دو باتوں میں سے دوسری بات ممکن ہے لیکن على الاطلاق نہیں !
یعنی بہت سے کاموں میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ اور برابر بلکہ بسا اوقات برتر بھی ہوسکتی ہیں لیکن اکثر کاموں میں وہ مردوں سے پیچھے ہی رہیں گی ۔
مثلا :
کسی کی اہلیہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا میں اپنے سرتاج کے شانہ بشانہ رہتی ہیں اور کھانے کے دسترخوان پر بھی ۔اور اسکے علاوہ اور بھی بہت سے میدانوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ان میدانوں مردو زن کا شانہ بشانہ ہونا کسی طور بھی ممنوع نہیں ہے بلکہ شریعت نے اسکا حکم دیا ہے کہ ان میدانوں میں عورتوں کو مردوں سے پیچھے نہ رکھا جائے بلکہ انہیں بھی برابر کا حق دیا جائے ۔
اور اسی طرح بہت سے کام ایسے ہیں جو زن و شو دونوں پر شریعت نے لازم کیے ہیں لیکن والدہ ان کاموں میں والد سے آگے ہیں مثلا :
بچوں کی تعلیم وتربیت کا کام دونوں والدین پر فرض ہے لیکن والدہ اس معاملہ میں برتر ہیں ۔ وہلم جرا ۔۔۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ہم بار بار علمی دینی کتب میں یہ پڑھتے ہیں کہ عورت اور مرد کے علیحدہ علیحدہ دائرہ عمل شریعت نے متعین کر دئے ہیں اور عورت شمع محفل نہیں بلکہ چراغ خانہ ہے؟؟
باذوق صاحب اپنے ذوق سلیم کو بروئے کار لائیں اور شمع محفل اور چراغ خانہ کے الفاظ پر ہی غور کریں تو وجہ سمجھ آجائے گی کہ شمع بھی اپنے ماحول کو روشن کرتی ہے اور چراغ بھی ۔
روشنی کرنے میں دونوں برابر ہیں ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ عورت کو چراغ خانہ ہی رہنے دیں یعنی اسکی ضوء فشانیاں محرم خانہ تک ہی محدود رہیں ، نامحروں کو اسکی لذت نہ پہنچے ۔
لیکن ہم یہ بات نہیں کرتے کہ عورت ماحول کو منور کرنے سے قاصر ہے ۔
اور یہی بات کتاب اللہ میں بھی بیان ہوئی ہے کہ عورت محدود دائرہ کار میں رہتے ہوئے یہ کام سر انجام دے سکتی ہے ۔

ایک مرتبہ بھی باذوق صاحب کی ضیافت ذوق کے لیے عرض کیے دیتا ہوں کہ یہ تھریڈ اس مبحت کے لیے نہیں ہے ۔
لہذا اسے اسی موضوع تک ہی رہنے دیں جسکے لیے یہ ہے ۔ تاکہ خلط مبحث نہ ہو جائے ۔
جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
شکریہ رفیق طاہر بھائی :)
ایک مرتبہ بھی باذوق صاحب کی ضیافت ذوق کے لیے عرض کیے دیتا ہوں کہ یہ تھریڈ اس مبحت کے لیے نہیں ہے ۔
لہذا اسے اسی موضوع تک ہی رہنے دیں جسکے لیے یہ ہے ۔ تاکہ خلط مبحث نہ ہو جائے ۔
معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو دوبارہ یاددہانی کی ضرورت پیش آئی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی درج ذیل اہم وضاحتیں ۔۔۔ بہت ممکن ہے کہ اس تھریڈ کی بحث میں آگے چل کر کام آئیں اور مجھ سمیت دیگر اراکین بھی موضوع کے تمام پہلوؤں کو سمجھنے میں آسانی محسوس کریں
  • ان دو باتوں میں سے دوسری بات ممکن ہے لیکن على الاطلاق نہیں !
  • یعنی بہت سے کاموں میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ اور برابر بلکہ بسا اوقات برتر بھی ہوسکتی ہیں لیکن اکثر کاموں میں وہ مردوں سے پیچھے ہی رہیں گی ۔
  • ۔۔۔ اور ان میدانوں مردو زن کا شانہ بشانہ ہونا کسی طور بھی ممنوع نہیں ہے بلکہ شریعت نے اسکا حکم دیا ہے کہ ان میدانوں میں عورتوں کو مردوں سے پیچھے نہ رکھا جائے بلکہ انہیں بھی برابر کا حق دیا جائے ۔
  • اور اسی طرح بہت سے کام ایسے ہیں جو زن و شو دونوں پر شریعت نے لازم کیے ہیں لیکن والدہ ان کاموں میں والد سے آگے ہیں
  • ۔۔۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ عورت کو چراغ خانہ ہی رہنے دیں یعنی اسکی ضوء فشانیاں محرم خانہ تک ہی محدود رہیں ، نامحروں کو اسکی لذت نہ پہنچے ۔ لیکن ہم یہ بات نہیں کرتے کہ عورت ماحول کو منور کرنے سے قاصر ہے ۔
  • اور یہی بات کتاب اللہ میں بھی بیان ہوئی ہے کہ عورت محدود دائرہ کار میں رہتے ہوئے یہ کام سر انجام دے سکتی ہے ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top