موضوع بعنوان
’’عورت مجتہدہ یا فقیہ ہو سکتی ہے ؟ ‘‘ علمی بحث و مباحثہ کے بجائے ذایتات کی نظر ہوچکا ہے۔کیونکہ کسی علمی موضوع پر بات کرتے ہوئے ذاتیات پر اتر آنے کا رویہ فورم کے نقصان کے ساتھ اپنے بھائیوں کے دل میں ناراضگی اور نفرت پیدا کرتا ہے ۔اگر کسی بھائی سے کوئی شکایت وغیرہ ہو تو اس کے لیے دوسرے ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔لیکن جب کسی موضوع پر بات چیت ہورہی ہو تو وہاں صرف دلائل اور مناقشہ ہی کیا جاتا ہے ۔ذاتیات کی نظر ہونے کی وجہ سے انتظامیہ کی طرف سے جاری موضوع کو غیر معین مدد کےلیے مقفل کیا جار ہا ہے۔
انتباہ۔!
اگر کوئی بھائی اس موضوع کو نئے سرے سے شروع کرنا بھی چاہے تو اس کو چاہیے کہ
وہ عورت کے مطلق مجتہدہ یا فقیہہ ہونے پر بات نہ کرے۔کیونکہ اس پر تو میں سمجھتا ہوں کہ کسی کا اختلاف نہیں ہوگا کہ
عورت ایسی تعلیم کا حصول کرسکتی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ ان تمام شرائط پر پوری اترے جو ایک مجتہد اور فقیہ میں ہونی چاہیے۔لیکن اختلاف اس میں ہوگا کہ جو عورت اپنے تئیں مجتہد اور فقیہہ کی شرائط پیدا کرلیتی ہے تو کیا وہ شریعت کی رو سے اس لائق ہوجاتی ہے کہ اسے
قضاۃ کی طرح مجتہدین اور فقہاء کا منصب دے دیا جائے۔؟
اور ہاں ایک بات کا انکشاف بھی کرتا چلوں اس موضوع پر علوی بھائی سے بات ہوئی تو وہ بھی یہ کہہ رہے تھے کہ میری مراد وہ نہیں تھی جو بھائیوں نے سمجھ لی ہے۔کسی بھی موضوع پر مکالمہ اسی صورت علمی انداز میں آگے بڑھ سکتا ہے جبکہ فریق مخالف کی عبارتوں سے وہی معنی و مفہوم مراد لیا جائے جو وہ اپنی عبارتوں کا بیان کرتا ہے نہ کہ وہ جو دوسرے کو سمجھ آتا ہے۔
ادارتی موقف
ادارے کی انتظامیہ کی طرف سے متنبّہ کیا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ادارے اور ابوالحسن علوی بھائی کا موقف یہی ہے کہ وہ فقیہہ اور مجتہدہ تھیں لہذا اس موضوع کے حوالے سے دیگر معاصر فورمز پر
محدث فورم کے بارے میں کوئی منفی تاثر پھیلانے سے کلّی طور اجتناب کیا جائے۔اور جولوگ ایسا کررہے ہیں وہ غلط فہمی کی بنیاد پر کررہے ہیں ۔جزاکم اللہ خیرا