محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
جزاک اللہ خیرا سرفراز فیضی صاحب
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا فقیہہ ہونا تاریخی واقعہ ہے شرعی دلیل نہیں۔اس ضمن میں یہ بات نقل کی تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مجتہدہ یا فقیہ ہونا کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، یعنی ایک تاریخی واقعہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھیں تاریخ میں تو عورتیں بادشاہ بھی ہو گزریں ہیں جیسا کہ رضیہ سلطانہ وغیرہ، تاریخی واقعہ کوئی شرعی دلیل نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا ہے تو برائے مہربانی اس کے شرعی دلیل ہونے کے دلائل بیان کر دیں؟
جی ہاں ایسی اجازت عورت کے لئے بھی سنت سے ثابت ہے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے اجتہاد کی بھی تائید کی ہے بلکہ ایک ہی مسئلہ میں مرد اور عورت دونوں کے مختلف اجتہادات میں سے مرد کے اجتہاد کو غلط قرار دیا جبکہ اسی مسئلہ سے متعلق عورت کے اجتہاد کی تائید کی اوراسے صحیح قرار دیا ، دلیل ملاحظہ ہو:صحابہ کے اجتہادات کو آپ کی تائید و تصویب حاصل ہوئی یا آپ نے تصحیح فرمائی جیسا کہ دم کے بدلے بکریوں کی صورت میں اجرت وصول کرنا یا غسل کی حاجت کی صورت میں تیمم نہ کرنا یا عصر کی نماز کو غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر وقت کے بعد ادا کرنا وغیرہ ۔ پس سنت تقریری سے مردوں کے لیے اجتہاد ثابت ہوا۔ میرا سوال یہ تھا کہ کیا ایسی اجازت عورتوں کے لیے بھی سنت سے ثابت ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو اجتہاد یا فتوی جیسے اہم دینی شعبوں میں عورتوں کو یہ مقام دینے کی دلیل کیا ہے؟
اس حدیث میں صرف سربراہی کی بات ہے یعنی عورت مردوں کی سربراہ نہیں بن سکتی ، فقہ و اجتہاد سے اس حدیث کا کیا تعلق ؟؟؟؟اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:قَالَ : لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً )
رواه البخاري (4425)، ورواه النسائي في " السنن " (8/227)
وہ قوم ہر گز کامیاب نہیں ہو گی جس نے اپنے معاملات کسی عورت کے سپرد کر دیے۔
یہ روایت ثابت ہی نہیں ہے ، دیکھیں:دوسری دلیل
اخروھن من حیث اخرھن اللہ میں نص یعنی ما سیق الکلام لاجلہ یہ ہے کہ عورتوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں سے پیچھے رکھنا چاہیے اور یہی شریعت اسلامیہ کا مقصود اور کتاب و سنت کی تعلیمات ہیں اور اسی میں زندگی کا حسن و توازن ہے۔
- (المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية 1/ 406) - مذکورہ حدیث میں بڑی واضح دلیل ہے کہ عورت نے اجتہاد کیا اور اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجتہاد کی تائید کی ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ : اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس عورت نے ایک مرد کے اجتہاد کے برخلاف الگ اجتہاد کیا ، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کے اجتہاد کو غلط قرار دیا اور عورت کے اجتہاد کی تائید کی ۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت نہ صرف مجتہد ہوسکتی ہے بلکہ اجتہاد و فقاہت میں مرد سے بڑھ بھی سکتی ہے ۔
- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:قَالَ : لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً ) - اس حدیث میں صرف سربراہی کی بات ہے یعنی عورت مردوں کی سربراہ نہیں بن سکتی ، فقہ و اجتہاد سے اس حدیث کا کیا تعلق ؟؟؟؟ فقہ و اجتہاد سے مسائل شرعیہ بیان کے جاتے ہیں نہ کہ کسی پر حکمرانی کی جاتی ہے۔
اور بالکل یہی بات میرے ناقص ذہن میں بھی اسلیے در آئی تھی کہ ہمارے دور میں فقہ و اجتہاد کو باقاعدہ ایک خصوصی "شعبہ" کی حیثیت دی گئی ہے اور جس کے لیے باقاعدہ "مفتی" کا عہدہ بھی قائم و دائم ہے۔مجھے کچھ مصروفیات کی وجہ سے لاہور سے سرگودھا منتقل ہونا پڑ رہا ہے لہذا اس موضوع پر ایک مفصل بحث اور اپنا تفصیلی نکتہ نظر " مساوات مرد و زن " کے نام سے اپنے مقالہ میں پیش کر دوں گا۔ صرف یہ نکتہ عرض کرنا ہے کہ میرے نزدیک مجتہد اور فقیہ ایک منصب ہے اور اسم الفاعل کا اطلاق کثرت فعل کا متقاضی ہے نہ کہ دو چار بار کسی کام کے کرنے کا۔ مجتہد اور فقیہ کا ایک عرفی معنی ہے، جو میں مراد لے رہا ہوں نہ کہ لغوی معنی اور اس کو ایک منصب کے طور پر لے رہا ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
کی وضاحت انہی کے اس سابقہ قول سے بھی نکھر کر سامنے آتی ہے :۔۔۔ مجتہد اور فقیہ ایک منصب ہے اور اسم الفاعل کا اطلاق کثرت فعل کا متقاضی ہے نہ کہ دو چار بار کسی کام کے کرنے کا۔۔
جب کوئی شعبہ "منصب" کے طور پر لیا جائے تو وہاں اس منصب سے متعلق "سربراہی" کی بات بھی نکلے گی اور اسی سبب "عورت کی سربراہی" والی حدیث پر زیادہ سے زیادہ وضاحتیں یا اس کی کثیر المعانی شروحات اکٹھا کرنا مقصود رہا تھا۔کیا عورت کسی مستقل مکتب فکر کی بانی ہو سکتی ہے؟ یعنی امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام ابن تیمیہ، امام ابن جریر طبری، امام ابن حزم کی طرح کا مجتہد یا فقیہ بننا دین اسلام میں عورت سے مطلوب ہے کہ جس میں لاکھوں مرد اس کے فتاوی یا شرعی رہنمائی پر اعتماد کرتے ہوں؟
کیا کسی عورت سے دین اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ وہ حافظ محمد گوندلوی، عبد اللہ محدث روپڑی، مولانا ثناء اللہ امرتسری یا علامہ احسان الہی ظہیر بنے ؟
1. ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ مجتہد اور فقیہ ایک منصب کا نام ہے ایسا منصب جو تفویض نہیں تسلیم کیا جاتا ہےاور جس منصب تک پہنچنے کے لیے جنسی اور جسمانی نہیں علمی اور عقلی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں اور وہ علمی اور استدلالی صلاحیتیں جن کا یہ منصب متقاضی ہے جس بھی شخصیت کے اندر پائی جائیں گی بغیر کسی کے تفویض کیے وہ اس منصب پر فائز ہوجائے گا۔ خواہ اس شخصیت کا تعلق کسی جنس سے ہو۔مجھے کچھ مصروفیات کی وجہ سے لاہور سے سرگودھا منتقل ہونا پڑ رہا ہے لہذا اس موضوع پر ایک مفصل بحث اور اپنا تفصیلی نکتہ نظر " مساوات مرد و زن " کے نام سے اپنے مقالہ میں پیش کر دوں گا۔ صرف یہ نکتہ عرض کرنا ہے کہ میرے نزدیک مجتہد اور فقیہ ایک منصب ہے اور اسم الفاعل کا اطلاق کثرت فعل کا متقاضی ہے نہ کہ دو چار بار کسی کام کے کرنے کا۔ مجتہد اور فقیہ کا ایک عرفی معنی ہے، جو میں مراد لے رہا ہوں نہ کہ لغوی معنی اور اس کو ایک منصب کے طور پر لے رہا ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
مزید تفضیل کےلیے یہ لنک ملاحظہ فرمائیںحكم تصدي المرأة الفقيهة للفتوى لبنات جنسهن
الفقه الإسلامي - فضل الله ممتازبعد ما أعلن الدكتور أحمد عبد العزيز الحداد مفتي دبي، عن اعتزام الإمارات تبنى برنامج لتدريب ست نساء إماراتيات على الفتوى، على أن يتم تعيينهن مفتيات مع نهاية العام 2010؛ تباينت الآراء مابين مؤيد يرى أنها خطوة هامة لصالح المرأة التي تتحرج أحيانا من عرض بعض من أمورها الشخصية على المفتي الرجل، ومعارض يرى عدم جواز تصدي النساء لهذه المهمة ومن هذا المنطلق ولإلقاء مزيد من الضوء على تصدي المرأة الفقيهة للفتيا للأسئلة التي توجه إليهن من الأخوات ننقل آراء الفقهاء وما كتبوه في هذه المسألة وما حددوه من الضوابط الشرعية .
في البداية يرى الدكتور عبد الرحمن بن حسن النفيسة رئيس تحرير مجلة البحوث الفقهية المعاصرة أن هذا الموضوع كثيراً ما كان محلاً للسؤال، خاصة في هذا الوقت الذي تتناثر فيه الأسئلة هنا وهناك، حول دور المرأة في القضايا الاجتماعية، وموقف الإسلام من هذا الدور ،أما توليها لمهمة الإفتاء فالأصل جوازه للأسباب التالية:
أولها-
قول الله تعالى( والمؤمنون والمؤمنات بعضهم أولياء بعض يأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر). وهذا يقتضي التساوي بينهم فيما هم مأمورون به وفقاً لخصائصهم العضوية، ومن ذلك أمرهم بالمعروف ونهيهم عن المنكر، وهذا الأمر والنهي باب واسع يدخل فيه الفتيا، فكما تجوز للرجل تجوز للمرأة.
وثاني الأسباب-
أن القضاء ملزم لأطرافه بينما أن الفتيا ليست ملزمة للمستفتي؛ فله أن يأخذها أو لا يأخذها، من هنا اشترط الفقهاء الذكورية في القضاء لكونه ملزماً لأطرافه، فاستثنوا من توليه المرأة لأسباب قدروها نتيجة اجتهادهم.
وثالث الأسباب- أن الفتيا -كما يقول الإمام ابن القيم- أوسع من الحكم والشهادة، فكما تجوز فتيا الرجل تجوز فتيا المرأة.
ورابع الأسباب-
أن من شروط المفتي -كما يقول الإمام النووي- كونه مكلفاً، مسلماً، ثقة، مأموناً، متنزهاً من أسباب الفسق وخوارم المروءة فقيه النفس، سليم الذهن، رصين الفكر، صحيح التصرف والاستنباط، متيقظاً، سواء فيه الرجل أو المرأة.
وخامس الأسباب-
أن فتيا النساء للمستفتين خاصة من النساء واقعة تاريخية، فأمهات المومنين كن يشرحن الأحكام التي تصدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يتعلق بالنساء، ومنهنَّ عائشة وأم سلمة وزينب وميمونة -رضوان الله عليهن- وفي كل العصور كان في المجتمعات الإسلامية نساء فقيهات وعالمات كن يرشدن من كان يسألهن عن أمر من أمور الدين، ومن ذلك على سبيل المثال أم عيسى بنت إبراهيم الحربي، وهذه كانت عالمة فاضلة تفتي في الفقه، وأمة الواحد سكينة بنت القاضي أبي عبد الله الحسيني المحاملي، كانت عالمة فقيهة من أحفظ الناس على مذهب الإمام الشافعي، وكانت تفتي مع أبي علي بن أبي هريرة، وأمة السلام بنت القاضي أبي بكر أحمد بن كامل، وغيرهن...
وسادس الأسباب-
أن في فتيا المرأة لصاحباتها مصلحة ظاهرة، ذلك أن المرأة بما جبلت عليه من الحياء قد تستصعب سؤال الرجل في أمور تجد أن من الحرج السؤال عنها، سواء في طهارتها أو في علاقتها بزوجها .
ويضيف قائلا:
والأهم في هذا الموضوع أن تكون المفتية من النساء على علم بما تفتي فيه؛ فالشروط التي يجب أن تتوافر في المفتي من الرجال يجب أن تتوافر فيها، ومن ذلك أن تكون عالمة بشريعة الله وفقهها ومقاصدها، وأن تكون من أهل الأمانة والتقوى .
أما السؤال عما إذا كان يجوز لها أن تتقلد منصب المفتي العام كما يطرح أحياناً في وسائل الإعلام، فقد لا يكون المراد منه تحقيق فائدة علمية بقدر ما هو نوع من المماحكة، وكأن الأمة قد فقدت الفقهاء والمفتين من الرجال .
ويؤكد قائلا: أنه يجوز للمرأة إذا كانت فقيهة في دين الله أن تفتي من استفتاها، وخاصة من النساء اللائي قد يجدن حرجاً في سؤال الرجال عن أمور ذات خصوصية لهن .
أما الشيخ عبد الله بن منيع عضو هيئة كبار العلماء في المملكة العربية السعودية
فيؤكد أنه لا يوجد أي مانع من شراكة المرأة للرجل في المجال العلمي أو الاستشاري، بشرط ألا يترتب على تلك الشراكة أي محظور، أو ضرر للمرأة في حشمتها أو عفافها، وأن تكون في منأى عن الاختلاط الذي هو منبع الشر.
كما يرى الأستاذ الدكتور محمد بن أحمد الصالح الأستاذ بكلية الشريعة بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية أنه من الناحية الشرعية للمرأة أن تفتي غيرها إذا ما تمكنت من وسائل الفتوى، أما مسألة تعيينها فتتعلق بالدولة.
ويوضح أنه من المعروف للجميع أن من بين المفتين المشاهير في الصحابة "السيدة عائشة"، وعدد من أمهات المؤمنين، كما أنه على مختلف العصور تولت المرأة التعليم والإفتاء، وعليه فالمرأة يمكن إذا قربت من علم عائشة ـ رضي الله عنهاـ ، والتزمت بمنهجها في العلم بالقرآن الكريم الذي به العام والخاص والمحكم والمتشابه، والمفصل والمبهم، والناسخ والمنسوخ، وعلى علم ودراية بما صح من السنة النبوية الشريف، بالإضافة إلى كونها على خلق واستقامة، ورغبة صادقة في بيان الحق للناس؛ فلا مانع من أن تتولى الإفتاء.
ويشير إلى أن الفتوى كمهمة ووظيفة فهو شأن دولة، بشرط الالتزام بأن يكون الإفتاء من وراء حجاب إن كانت تستفتى من الرجال، كما لابد أن يكون كلامها واضحا جليا في الفتوى، مصداقا لقول الله تعالى:{فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفاً} [الأحزاب:32].
ويتفق معه في الرأي معالي الدكتور عبد السلام العبادي أمين مجمع الفقه الإسلامي الدولي بجدة، ويوضح أن الإفتاء هو إعلام عن حكم الله تعالى في القضية المطروحة على المسئول من السائل، وهذا شرطه الوحيد العلم بأحكام الشريعة علما صحيحا يقوم على الفهم لهذه الأحكام والتفقه فيها، وهو أمر يستوي فيه الرجل والمرأة.
ويضيف أنه إذا توافرت الشروط المطلوبة شرعا فيمن يتولى الإفتاء من حيث العلم والمعرفة المطلوبة، فلا فرق في أن يكون المتصدي لبيان الحكم الشرعي رجلا أو امرأة.. بل إن بعض الجهات التي تبنت جواز تعيين المفتيات رسميا قالت في تعليل ذلك: "إن كثيرا من الأمور التي تسأل عنها المرأة تجد فيها حرجا إذا كان المسئول رجلا".
ويضيف قائلا: ولا يوجد أي حرج في تبنيه، ويتساءل: "فما الذي يمنع أن تتصدى لإجابة النساء في قضاياهن الخاصة امرأة مثلهن توافرت فيها المعرفة الشرعية، وأيضا الالتزام الشرعي بالأحكام المقررة شرعا لسلوك المرأة في المجتمع الإسلامي؟".
ويذهب الدكتور عبد السلام إلى أنه من الممكن أن تستقل المرأة بالفتوى ما دام لديها المعرفة الشرعية إذا كان في القضايا التي يسهل الإخبار عنها.. أما القضايا التي يصعب الإجابة عنها، فلابد من تركها للاجتهاد الجماعي، حيث تتصدى لها المجامع الفقهية، خاصة أن المعرفة المطلوبة في المجتهد المتميز أصبحت نادرة.
ويشير إلى أن كثيرا من تنظيمات الفتوى تجيز للمفتي المنفرد أن يفتي في القضايا الخاصة في الأحوال الشخصية، والمعاملات العادية، لكن في المسائل المستحدثة لابد من الاجتهاد الجماعي فيها، حتى يطمئن فيها للحكم.
كما يضيف الدكتور عكرمة صبري مفتي القدس السابق وخطيب المسجد الأقصى إلى أن مشاركة المرأة في مجال الإفتاء ليست بالأمر الجديد، حيث إن أمهات المؤمنين، والصحابيات ـ رضوان الله عليهن ـ ساهمن في هذا المجال، كما ساهمت أيضا بنات الفقهاء عبر العصور الزاهرة فكن مفتيات، ومنهن بنت الإمام السمرقندي.
ويشير إلى أن غياب المرأة عن مجال الفتوى كان في عصور الانحطاط، وبالتالي فلابد من تشجيع تولي النساء صاحبات الكفاءة العلمية الفتوى، خاصة أستاذات الفقه في كليات الشريعة في جامعات العالم العربي والإسلامي.
وعليه، فإن ما صدر مؤخرا من جواز تولي المرأة الإفتاء أمر مألوف، ومشروع ومرغوب فيه.
ويرى الدكتور عكرمة أن المرأة المفتية من حقها أن تفتي الجميع لا أن يقتصر عملها على فتاوى النساء، حيث لا يوجد في الدين موضوعات حساسة وغير حساسة، فهي تفتي بما تعلم.
ويؤكد أن للمرأة أيضا أن تستقل بالفتوى بشكل مطلق، لكنه ليس بالضرورة أن تكون مفتية بوظيفة رسمية، لكن هذا لا يمنع أن تكون مفتية بوظيفة رسمية تبعا لما تراه الدولة.
أما الشيخ عبد الرحمن عبد الخالق - رئيس جمعية إحياء التراث الإسلامي في دولة الكويت- يقول : للمرأة في الأصل حق الإفتاء والتعليم، وكانت عائشة ـ رضي الله عنها ـ تفتي الصحابة، كما أن الله أمر زوجات النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ أن يقلن ما يتلى في بيوتهن.
ويضيف أنه انطلاقا من هذه القاعدة فالمرأة لها أن تكون مفتية ومعلمة.. بل إنه أمر مستحسن؛ لأنها مكلفة مثل الرجل، إلا ما استثناها الشرع فيه مثل الجهاد بالسلاح، لكن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وكذلك الإفتاء يجوز للمرأة.
ويرى أن للمرأة أن تفتي حتى للرجال ما دامت ملتزمة بالأدب الشرعي، إما عن طريق الحجاب الخاص بنساء الرسول ـ صلى الله عليه وسلم ـ عند الإفتاء للرجال، أو الحجاب المفروض على عامة المسلمات، كما يجب أن تتكلم الكلام الواضح الصريح الذي ليس فيه إمالة.
ومع ذلك فإن الشيخ عبد الرحمن يرى أن مسألة تعيين المرأة في المصالح الشرعية، وفي وظيفة الإفتاء يخضع للمصالح والمفاسد التي تقدرها الدولة.
من جانبه يشير الدكتور صهيب حسن -سكرتير مجلس الشريعة الإسلامية بلندن وعضو المجلس الأروبي للإفتاء - إلى أن مسألة تولي المرأة الفتوى أثيرت في المجلس الأوروبي للإفتاء والبحوث، وكان هناك إجماع بضرورة أن تشارك المرأة في عمل الاجتهاد الجماعي للفتوى.
ويضيف قائلا: "لقد قلنا إن المجلس الأوروبي للإفتاء لا يتمثل فيه إلا الرجال، وبعد المناقشة تم الاتفاق على أنه ينبغي للمجلس أن يتيح المجال للنساء العالمات للمشاركة فيه، لكن التطبيق يصعب؛ لندرة وجود النساء اللاتي لديهن هذه الحصيلة من العلم للمشاركة في مجالس الفتوى والمجامع الفقهية".
ويرى الدكتور صهيب أنه ينبغي أن يكون للنساء نصيب من المشاركة في جهود الإفتاء إذا وجدت فيهن الشروط المطلوبة في المفتي، مثل: العلم والبصيرة، والإطلاع الجيد على الكتاب والسنة، وعلى الفقه الإسلامي، بشرط الاحتشام، والالتزام بآداب الإسلام.
ومع ذلك يرفض الدكتور صهيب أن تستقل المرأة بالفتوى، ويوضح أن إجازة عمل المرأة بالإفتاء مطلوب فيها المشاركة في الفتوى الجماعية، خاصة أن الفتوى على مستوى الأفراد غير محبذة؛ لأن كثيرا من الناس يفتون على انفراد فيخطئون، ولكن الفتوى الجماعية تجعل مواطن الزلل والخطأ قليلة، وعليه فالمرأة ينبغي أن تكون عضوة في مجالس الفتوى، لكنها لا تنفرد بالفتوى.
أما الدكتور علي مشاعل -كبير المفتين بدبي والمشرف على الفتاوى الإلكترونية بموقع دائرة الشئون الإسلامية- يرى أن تصدي النساء للفتوى لبنات جنسهن هو أمر في غاية الأهمية خاصة في بعض المسائل الحساسة، على أن يتم ذلك عن علم ودراية ودراسة ومتابعة، وليس من قبيل الظن والتخمين كما يحدث من بعض النساء ممن يتصدين للفتوى، حيث يطلقن أحكاما غير ناضجة وغير سليمة تخالف فقه المذاهب الأربعة المعتمدة عند أهل السنة.
ويضيف: الإفتاء لابد أن يكون صادرا من شخص مؤهل رجلا كان أو امرأة، دون أن تقع المرأة –كما قد يقع الرجل- في فخ الفتاوى الشاذة أو الغريبة.
ويوضح مشاعل أن فتوى المرأة في الدين ليس فيه محظور، ولكن بشرط ألا تشتمل الفتوى من البداية إلى النهاية، تعلما وتعليما وسؤالا وإفتاء، على شيء مخالف من توجيهات الدين وأحكامه، فإذا سلمت القضية من الفتنة، والخضوع بالقول، والاختلاط، وغير ذلك من المحظورات فلا مانع منه أصلا، بشرط ألا تهمل المرأة واجباتها الأساسية تجاه الزوج والبيت والأبناء.
نساء مفتيات في التاريخ الإسلامي :
كما سمعنا من العلماء المشار إليهم أن الإسلام لا يفرِّق بين الرجال والنساء في العلم والفتيا، وقد نصَّ أهل العلم على شروط المفتي، ولم يذكروا من الشروط : الذكورة، ولا يُعرف في هذا خلاف بينهم.
قال النووي رحمه الله :
"شرط المفتى : كونه مكلفاً، مسلماً، ثقةً، مأموناً، متنزهاً عن أسباب الفسق، وخوارم المروءة، فقيه النفس، سليم الذهن، رصين الفكر، صحيح التصرف، والاستنباط، متيقظاً.."المجموع شرح المهذب"
وقد كان في هذه الأمة العظيمة من قام بواجب التعليم والفتيا من النساء، كما قام به من الرجال.
نعم، إن عدد النساء لا يمكن مقارنته بالرجال بسبب طبيعة الرجل، لكن هذا لم يمنع من وجود نساء يقمن بمهمة التعليم، والفتيا، وعلى رأس أولئك النساء : أم المؤمنين عائشة ـ رضي الله عنها ـ ، وقد كانت مقصد الرجال والنساء في الفتيا ؛ بسبب قربها من النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ ، وذكائها، وفطنتها.
قال ابن عبد البر في "الاستيعاب" :
"عن مسروق قال : رأيت مشيخةً من أصحاب رسول الله ـ صلى الله عليه وسلم ـ الأكابر يسألونها عن الفرائض.
وقال عطاء بن أبي رباح :
كانت عائشة أفقه الناس، وأعلم الناس، وأحسن الناس رأياً في العامة.
وقال هشام بن عروة عن أبيه :
ما رأيت أحداً أعلم بفقه، ولا بطب، ولا بشعْر من عائشة.
وقال الزهري :
لو جُمع عِلْم عائشة إلى عِلْم جميع أزواج النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ ، وعِلم جميع النساء : لكان عِلم عائشة أفضل" انتهى.
وقد عدَّ ابن القيم رحمه الله المكثرين من الفتيا من الصحابة، وذكر منهم عائشة رضي الله عنها، وعدَّ أم سلمة رضي الله عنها من المتوسطين، وجعل أم عطية، وصفية أم المؤمنين، وحفصة، وأم حبيبة، من المقلِّين في الفتيا.
انظر : "إعلام الموقعين".
ونحن نسوق هنا بعض من وصفهن الإمام الذهبي رحمه الله بالعلم والفقه في كتابه "سيَر أعلام النبلاء"، توكيداً لما ذكرناه :
1. صفية بنت شيبة.
قال الذهبي رحمه الله :
صفية بنت شيبة بن عثمان بن أبي طلحة، الفقيهة، العالمة.
2. أم الدرداء.
قال الذهبي "رحمه الله" :
أم الدرداء، السيدة، العالمة، الفقيهة، وهي أم الدرداء الصغرى.
روت علماً جمّاً عن زوجها أبي الدرداء، وعن سلمان الفارسي، وكعب بن عاصم الأشعري، وعائشة، وأبي هريرة، وطائفة.
وعرضت القرآن وهي صغيرة على أبي الدرداء.
وطال عمرها، واشتهرت بالعلم، والعمل، والزهد.
قال مكحول :
كانت أم الدرداء فقيهة.
3. معاذة العدوية (ت 83 ه)
قال الذهبي رحمه الله :
معاذة بنت عبد الله، السيدة، العالمة، أم الصهباء العدوية البصرية، العابدة، زوجة السيد القدوة صلة بن أشيم.
روت عن علي بن أبي طالب، وعائشة، وهشام بن عامر.
4. بنت المحاملي (ت 377 هـ).
قال الذهبي رحمه الله :
العالمة، الفقيهة، المفتية، أمة الواحد بنت الحسين بن إسماعيل.
تفقهت بأبيها، وروت عنه، وعن إسماعيل الوراق، وعبد الغافر الحمصي، وحفظت القرآن، والفقه للشافعي، وأتقنت الفرائض، والعربية، وغير ذلك.
قال البرقاني : كانت تفتي مع أبي علي بن أبي هريرة.
وقال غيره : كانت من أحفظ الناس للفقه.
5. كريمة بنت أحمد بن محمد بن حاتم أم الكرام المرزوية (ت 463 ه).
قال الذهبي رحمه الله :
الشيخة، العالمة، الفاضلة، المسندة، أم الكرام.
6. عائشة بنت حسن بن إبراهيم(ت 460 ه).
قال الذهبي رحمه الله :
الواعظة، العالمة، المسندة، أم الفتح الاصبهانية، الوركانية.
قال ابن السمعاني : سألت الحافظ إسماعيل عنها، فقال : امرأة صالحة، عالمة، تعظ النساء.
7. فاطمة الدقَّاق (ت480 ه)
قال الذهبي رحمه الله :
فاطمة بنت الأستاذ الزاهد أبي علي، الحسن بن علي الدقاق، الشيخة، العابدة، العالمة، أم البنين، النيسابورية، أهل الأستاذ أبي القاسم القشيري، وأم أولاده.
8. بنت زعبل (ت532 ه)
قال الذهبي رحمه الله :
الشيخة، العالمة، المقرئة، الصالحة، المعمرة، مسندة نيسابور، أم الخير، فاطمة بنت علي بن مظفر بن الحسن بن زعبل بن عجلان البغدادي، ثم النيسابورية.
9. فاطمة بنت البغدادي (ت539 ه).
قال الذهبي رحمه الله :
الشيخة، العالمة، الواعظة، الصالحة، المعمرة، مسندة أصبهان، أم البهاء، فاطمة بنت محمد بن أبي سعد أحمد بن الحسن بن علي بن البغدادي الأصبهاني.أه
فهذه طائفة من نساء فاضلات، عالمات، مفتيات، ولا يمنع الإسلام أحداً من أهل العلم، رجلاً كان أم امرأة أن يفتي، ويعلم الناس دين الله تعالى.
وينبغي التنبيه إلى أن هناك فرقاً بين الفتوى والقضاء، فالفتوى هي الإخبار بالحكم الشرعي، وهذا لا يُمنع منه أحد، إذا كان أهلاً لذلك، أما القضاء فقد دلت الأدلة الشرعية، وجرى عليه عمل الأمة الإسلامية أن المرأة لا تتولى القضاء.
3. ایسا لگتا ہے استاذ گرامی مجتہد اور فقیہ کے علمی منصب اور قضاء کے حکومتی منصب میں تفریق نہیں کررہے ۔فقہ و اجتہاد ایک علمی منصب ہے جس پر فائز ہونے میں کسی خاتون کے لیے کوئی شرعی قباحت اب تک ثابت نہیں ہوسکی ہے ۔ جبکہ قضاء کا عہدہ ایک حکومتی منصب ہےجو عورتوں کے دائرہ کار سے باہر کی چیز ہے ۔
صاحب ذوق صاحب!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جزاک اللہوينبغي التنبيه إلى أن هناك فرقاً بين الفتوى والقضاء، فالفتوى هي الإخبار بالحكم الشرعي، وهذا لا يُمنع منه أحد، إذا كان أهلاً لذلك، أما القضاء فقد دلت الأدلة الشرعية، وجرى عليه عمل الأمة الإسلامية أن المرأة لا تتولى القضاء.
ابو الحسن علوی بھائی! اس موضوع کو کہ "عورت مجتہدہ یا فقیہ ہو سکتی ہے ؟" کو " مساوات مرد و زن " کے عنوان سے تحریر کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اور وہ تمام احباب جو اس بات کے قائل ہیں کہ عورت مجتہد ہو سکتی ہے، وہ بھی مرد و زن کی مساوات کے معاملہ میں غالبا آپ کے ہم خیال ہی ہوں گے۔ لہذا اس متنازع مسئلہ کو ایک ایسا نام دینا جس میں فریقین کا اختلاف نہ ہوں۔ مناسب نہیں۔ کیونکہ ایسی صورت میں قارئین کو یہ تاثر ملے گا کہ ایک فریق مرد و زن کی مساوات کا قائل ہے اور ایک فریق مرد و زن کی مساوات کا قائل نہیں۔ لہذا اس بحث کو صرف یہیں تک محدود رکھا جائے کہ "عورت مجتہدہ یا فقیہ ہو سکتی ہے ؟"اس موضوع پر ایک مفصل بحث اور اپنا تفصیلی نکتہ نظر " مساوات مرد و زن " کے نام سے اپنے مقالہ میں پیش کر دوں گا۔
ابو الحسن علوی بھائی! مجتہد اور فقیہ دونوں اصطلاحات ہیں! اور ان دونوں اصطلاحات کے معنی کتب فقہ و اصول الفقہ میں موجود ہیں! اور جب شرعی بحث کی جاتی ہے تو اصلاً اصطلاحی معنی کا اعتبار کیا جاتا ہے! آپ نے اس مباحثہ میں ان الفاظ کو اصطلاحی معنی میں استعمال بھی کیا ہے۔ اور اب آپ فرما رہے ہیں کہ آپ عرفی معنی مراد لے رہے ہیں!!صرف یہ نکتہ عرض کرنا ہے کہ میرے نزدیک مجتہد اور فقیہ ایک منصب ہے اور اسم الفاعل کا اطلاق کثرت فعل کا متقاضی ہے نہ کہ دو چار بار کسی کام کے کرنے کا۔ مجتہد اور فقیہ کا ایک عرفی معنی ہے، جو میں مراد لے رہا ہوں نہ کہ لغوی معنی اور اس کو ایک منصب کے طور پر لے رہا ہوں
اس تھریڈ کی شروعات کے مراسلوں میں سرفراز فیضی بھائی نے یوں لکھا تھا :ایک نکتہ اور بیان کر دوں کہ جب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بغیر کسی "منصب" کے فقیہ ہو سکتی ہیں تو دوسری کوئی عورت بھی اسی طرح بغیر کسی "منصب " کے فقیہ ہو سکتی ہیں!! یہ کوئی محال بات نہیں!!
اب بالا دو اقتباسات میں تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟حضرت عائشہ کا مجتہدہ ہونا یقینا ایک تاریخی واقعہ ہے اور ان کے مجتہد ہونے پر اجماع ہوجانا ایک شرعی دلیل
- حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اجتہاد کے مستحسن ہونے پر امت کااجماع ہے جبکہ رضیہ سلطانہ کی سلطنت کے بطلان پر امت کی اکثریت کا اتفاق۔