ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 580
- ری ایکشن اسکور
- 187
- پوائنٹ
- 77
عورت کی حکمرانی کا جواز فراہم کرنے کے لئے مدخلیوں کا دین سے کھلواڑ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مداخلہ کتنا بھی منہجیت کا ڈھونگ رچا کر خود کو اہل حدیثوں میں چھپانے کی کوشش کرے وہ جھوٹ اور غلط بیانی کی بنیاد پر باطل کو مزین کرنے کے لئے شرعی نصوص کے ساتھ کھلواڑ اور دین میں تحریفات تو کر سکتے ہیں لیکن ان کے معبودان باطلہ یعنی طاغوتی حکمرانوں کے خلاف جاکر حق و انصاف کا ساتھ کبھی نہیں دے سکتے۔
مثال کے طور پر عورت کی حکمرانی کے متعلق سوال پر مدخلی سرغنہ رُحیلی کی بددیانتی دیکھ لیجیۓ کہ اس بدبخت نے خلافت کے شرعی احکامات کو عورت کی صدارت پر چسپاں کر دیا۔
مدخلی سرغنہ سلیمان رُحیلی کہتا ہے :
هذه مسألة وإن كانت في الحقيقة من مسائل النوازل لكن أنا سأذكر الثمرة الشرعية، طبعا الأخ هنا يقول: ما الموقف الصحيح إذا وليت المرأة لتكون رئيسة في القرية أو المنطقة أو أعلى من ذلك؟
أنا لن أتكلم عن ولاية المرأة، أنا أتكلم عن أصل شرعي: إذا تولّى الوالي واستقر له الحكم فإن الأحكام الشرعية تثبت له وإن وصل إلى ذلك بطريق غير شرعي، ومثال ذلك عند السلف المتقدمين الحاكم المتغلب بالسيف، إذا خرج شخص على الحاكم فالخروج حرام، لكن خرج وتغلب بالسيف وصار واليا واستقر له الحكم وحصلت له البيعة فإنه تثبت له الأحكام الشرعية لتستقيم مصالح الناس، وتحسن أحوالهم؛ فإذا تولّى من تولَّى وحصلت له الولاية فإنا نتعامل معه بإيصال الحقوق الشرعية للولاية والعمل بهذا.
یہ مسئلہ درحقیقت مسائل نوازل میں سے ہے، لیکن میں شرعی ثمرہ کا ذکر ضرور کروں گا، یہاں بھائی فرماتے ہیں: اگر کوئی عورت کسی بستی، علاقہ یا اس سے بڑی جگہ کی صدر بن جاتی ہے تو اس میں صحیح موقف کیا ہے؟ میں عورت کی حکمرانی پر بات نہیں کروں گا، میں شرعی دلیل کی بات کروں گا اگر کوئی حاکم بن جائے اور حکومت اس کے لئے مستقر ہو جائے، تو ایسی صورت میں شرعی احکام اس کے لئے ثابت ہوں گے، گرچہ وہاں تک غیر شرعی طریقے ہی سے پہنچے، سلف کے یہاں اس کی مثال یہ ہے کہ ایک حاکم کے خلاف خروج حرام ہے لیکن اگر کوئی تلوار کی زور پر حاکم بن جائے اور حالات اس کے حق میں ہو جائیں اور بیعت اسے حاصل ہو جائے، تو اس کے لئے شرعی احکام ثابت ہوں گے، تاکہ لوگوں کی مصلحتیں پوری ہوں ، اور ان کے احوال اچھے ہو۔ تو جب کوئی صدارت سنبھال لے تو اسے ولایت حاصل ہو جائے گی ہم اس کے ساتھ صدارت کے جائز حقوق ادا کرتے ہوئے اس کے مطابق عمل کریں گے۔
[دراسات في المنهج، ص: ٢٦٤]
ملاحظہ فرمائیں اس مدخلی سرغنہ رُحیلی کی کمینگی کہ طاغوت و طاغیہ کی رضا کے خاطر شریعت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے عورت کی سربراہی کے جواز فراہم کر رہا ہے جبکہ یہ مسئلہ کوئی اختلافی مسائل میں سے بھی نہیں ہے، بلکہ امت مسلمہ کے تمام علماء نے بالاتفاق اسے ناجائز قرار دیا ہے۔
علامہ ابن حزم الأندلسي رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَاتَّفَقُوا أَن الامامة لَا تجوز لامْرَأَة وَلَا لكَافِر وَلَا لصبي لم يبلغ وانه لَا يجوز ان يعْقد لمَجْنُون
علماء کا اتفاق ہے کہ کسی عورت، کافر یا نابالغ بچے کے لیے حکمرانی جائز نہیں، اور نہ ہی کسی پاگل کے لیے جائز ہے۔
[مراتب الإجماع في العبادات والمعاملات والاعتقادات، ص: ١٢٦]
نیز فرماتے ہیں :
وجميع فرق أهل القبلة ليس منهم أحد يجيز إمامة امرأة
اہلِ قبلہ کے تمام فرقوں میں سے کوئی بھی عورت کی حکمرانی کو جائز قرار نہیں دیتا۔
[الفصل في الملل والأهواء والنحل ، ج: ٤، ص:٨٩]
علامہ بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اتفقوا على أن المرأة لا تصلح أن تكون إماما
علماء کا اتفاق ہے کہ عورت حکمرانی کے لیے درست نہیں ہے۔
[شرح السنة ، ج: ١٠، ص: ٧٧]
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أجمعوا على أن المرأة لا يجوز أن تكون إماما
علماء کا اجماع ہے کہ عورت کے لیے حکمران بننا جائز نہیں۔
[الجامع لأحكام القرآن ج: ١، ص:٢٧٠]
سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
«لَمَّا بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَهْلَ فَارِسَ قَدْ مَلَّكُوا عَلَيْهِمْ بِنْتَ كِسْرَى قَالَ لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً».
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ اہلِ فارس نے کسریٰ کی لڑکی کو وارثِ تخت وتاج بنایا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنا حکمران کسی عورت کو بنایا ہو۔
[صحیح بخاری، حدیث: ٤٤٢٥]
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَفِي الحَدِيث دَلِيل على أَن الْمَرْأَة لَا تلِي الْإِمَارَة وَلَا الْقَضَاء وَلَا عقد النِّكَاح
یہ حدیث دلیل ہے کہ عورت نہ تو حاکم بن سکتی ہے، نہ قاضی اور نہ ہی عقدِ نکاح میں ولی بن سکتی ہے۔
[كشف المشكل من حديث الصحيحين، ج: ٢، ص: ١٦]
پس واضح ہوا کہ یہ اجماعی و اتفاقی مسئلہ ہے کہ عورت کی حکمرانی و سربراہی جائز نہیں لیکن آپ دیکھیں گے کہ مدخلیوں کے یہاں سیاست دانوں کی چاپلوسی، سیکولر حکمرانوں کی اندھ بھکتی بہت زیادہ پائی جاتی ہے اور انہیں سیاست دانوں کی رضا و رغبت کی خاطر مدخلی زنادقہ کتاب وسنت سے کھلواڑ کر اسلام کے منافی کاموں کا جواز فراہم کرتے ہیں جیسے حال ہی میں بنگلہ دیشی طاغیہ حسینہ کے وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے کر ملک سے بھاگنے پر ہندوستانی مدخلی تلملا اٹهے تھے اور ان مدخلیوں نے امیر المومنین و خلیفہ المسلمین کے خلاف خروج و بغاوت کی ممانعت والے دلائل اس بنگالی طاغیہ پر چسپاں کر واویلا کرنا شروع کر دیا تھا۔
اور بعض اہل حدیث ہیں کہ پورے سال ان سو کالڈ منہجی مداخلہ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں، جب کہ یہ دو نمبر منہجی مداخلہ موقع ملتے ہی سلفیوں کو ڈسنے میں اور اپنا زہر پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اس لئے مدخلیوں کی مکاریوں کو سمجھنا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ مدخلیت درحقیقت اسلام کے راستے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
حافظ عبدالمنان نورپوری فرماتے ہیں:
صرف عورت کی سربراہی والا مسئلہ ہی نہیں جتنے بھی امور ملک کے اندر یا باہر کتاب وسنت اور اسلام کے منافی چل رہے ہیں ہم ان سب کو غلط سمجھتے ہیں اور مقدور بھر ان کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اگر ہم کسی وجہ سے ان کی اصلاح نہیں کر سکتے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ ان کے جواز پر مہر تصدیق وتائید ثبت کر دی جائے یا انہیں برضا ورغبت برداشت کر لینے کا سبق دینا شروع کر دیا جائے جو حلقے اس ڈگر پر چل رہے ہیں دراصل وہ بھی اسلامی نظام کے نفاذ میں ایک قسم کی رکاوٹ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوں میں کتاب وسنت پر چلنے والے مومن بنائے اور پوری دنیا میں اسلام کا علم بلند کرنے کی توفیق عطا فرمادے۔
[احکام و مسائل، ج: ١، ص: ٤٦١]