شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
سوال ؛ عيد كے روز كيے جانے والے آداب اور سنتيں كيا ہيں ؟
الحمد للہ:
مسلمان شخص كے ليے عيد كے روز مندرجہ ذيل كام كرنے مسنون ہيں:
1 - نماز عيد كے ليے جانے سے قبل غسل كرنا.
موطا امام مالك وغيرہ ميں عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے صحيح حديث مروى ہے كہ:
" ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ عيدگاہ جانے سے قبل غسل كيا كرتے تھے"
موطا امام مالك حديث نمبر ( 428 ).
نووى رحمہ اللہ تعالى نے نماز عيد كے ليے غسل كے استحباب پر علماء كرام كا اتفاق ذكر كيا ہے.
جس بنا پر جمعہ المبارك اور اس طرح عام اجتماعات ميں جانے كے ليے غسل كرنے كا جو سبب اور باعث ہے وہى سبب اور معنى عيد ميں بھى پايا جاتا ہے، بلكہ عيد ميں تو يہ سبب اور بھى زيادہ ظاہر ہے.
2 - عيد الفطر كى نماز سے قبل كچھ نہ كچھ كھا كر جانا، اور عيد الاضحى ميں نماز عيد كے بعد كھانا:
عيد كے آداب ميں ہے كہ نماز عيد الفطر كے ليے جانے سے قبل كچھ نہ كچھ كھانا چاہيے حتى كہ چاہے چند كھجوريں ہى كيوں نہ كھائى جائيں.
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر كے روز كھجوريں كھانے سے قبل نماز عيد كے ليے نہيں جاتے تھے، اور كھجوريں طاق ( يعنى ايك يا تين ) كھاتے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 953 ).
نماز عيد الفطر سے قبل كچھ كھا كر جانا اس ليے مستحب كيا گيا ہے كہ اس دن روزہ نہ ركھا جائے، اور يہ روزے ختم ہونے كى نشانى ہے.
ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے اس كى تعليل بيان كرتے ہوئے كہا ہے كہ: اس ميں روزے زيادہ كرنے كا سد ذريعہ، اور اللہ تعالى كے حكم كى اتباع اور پيروى ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 446 ).
اور جسے كھجور بھى نہ ملے تو اس كے ليے كوئى بھى چيز كھانا مباح ہے.
ليكن عيد الاضحى ميں مستحب يہ ہے كہ نماز عيد سے قبل كچھ نہ كھايا جائے، بلكہ نماز عيد كے بعد قربانى كر كے قربانى كا گوشت كھائے، اور اگر قربانى نہ كى ہو تو نماز سے قبل كھانے ميں كوئى حرج نہيں.
3 - عيد كے روز تكبيريں كہنا:
عيد كے روز تكبيريں كہنا عظيم سنن ميں شامل ہوتا ہے، كيونكہ ارشاد بارى تعالى ہے:
﴿تا كہ تم گنتى پورى كرو، اور اللہ تعالى نے جو ہدايت تمہيں دى ہے اس پر اس كى بڑائى بيان كرو، اور اللہ تعالى كا شكر ادا كرو﴾.
وليد بن مسلم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ميں نے اوزاعى اور مالك بن انس سے عيدين ميں بلند آواز سے تكبيريں كہنے كے متعلق دريافت كيا تو وہ كہنے لگے:
" جى ہاں، عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما عيد الفطر كے روز امام كے آنے تك بلند آواز سے تكبيريں كہتے تھے"
اور عبد الرحمن بن سلمى سے صحيح روايت كے ساتھ ثابت ہے كہ:
" عيد الاضحى كى بنسبت وہ عيد الفطر ميں زيادہ شديد تھے"
وكيع رحمہ اللہ كہتے ہيں: يعنى تكبيروں ميں.
ديكھيں: ارواء الغليل ( 3 / 122 ).
دار قطنى وغيرہ نے روايت كيا ہے كہ: ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما عيد الفطر اور عيد الاضحى كے روز عيدگاہ آنے تك تكبيريں كہتے، اور وہاں آكر بھى امام كے آنے تك تكبيريں كہتے رہتے تھے.
ابن ابى شيبہ نے زہرى سے صحيح سند كے ساتھ كے بيان كيا ہے كہ:
" جب لوگ گھروں سے نكلتے تو عيد گاہ پہنچنے تك بلند آواز كے ساتھ تكبيريں كہتے، حتى كہ جب امام آ جاتا تو لوگ تكبيريں كہنا ختم كرتے اور جب امام تكبيريں كہتا تو لوگ بھى تكبيريں كہتے"
ديكھيں: ارواء الغليل ( 2 / 121 ).
سلف رحمہ اللہ ميں عيد كے روز گھر سے نكلنے سے ليكر عيد گاہ جانے اورامام كے آنے تك بلند آواز ميں تكبيريں كہنا معروف اور بہت ہى مشہور امر تھا، بہت سے مصنفين نے اپنى كتب ميں اس كا ذكر كيا ہے، جن ميں ابن ابى شيبہ، عبد الرزاق، اور فريابى نے كتاب: " احكام العيدين " ميں سلف كي ايك جماعت سے نقل كيا ہے، جن ميں نافع بن جبير بھى شامل ہيں، وہ تكبيريں كہتے اور لوگوں كے تكبيريں نہ كہنے پر تعجب كرتے اور كہتے تم تكبيريں كيوں نہيں كہتے ؟.
اور ابن شہاب زہرى رحمہ اللہ تعالى كہا كرتے تھے:
لوگ گھروں نكل كر عيد گاہ جانے اور عيد گاہ ميں امام كے آنے تك تكبيريں كہا كرتے تھے"
عيد الفطر ميں تكبيريں كہنے كا وقت چاند رات سے شروع ہو كر نماز عيد كے ليے امام كے آنے تك رہتا ہے.
ليكن عيد الاضحى ميں يكم ذوالحجہ سے شروع ہو كر آخرى ايام تشريق كا سورج غروب ہونے تك رہتا ہے.
تكبير كے الفاظ يہ ہيں:
مصنف ابن ابى شيبہ ميں صحيح سند كے ساتھ ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:
" وہ ايام تشريق ميں تكبيريں كہا كرتے:
" الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد "
اور ابن ابى شيبہ نے ہى ايك روايت ميں اسى سند كے ساتھ تين بار تكبير كے الفاظ روايت كيے ہيں.
اور محاملى نے صحيح سند كے ساتھ عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے يہ الفاظ بيان كيے ہيں:
" الله أكبر كبيراً الله أكبر كبيراً الله أكبر وأجلّ ، الله أكبر ولله الحمد "
ديكھيں: اراوء الغليل ( 3 / 126 ).
4 - عيد كى مباركباد دينا:
عيد كے آداب ميں ايك دوسرے كو عيد كے روز اچھے الفاظ ميں مباركباد دينا شامل ہے، چاہے اس كے الفاظ كوئى بھى ہوں، مثلا ايك دوسرے كو يہ كہے: تقبل اللہ منا و منكم. اللہ تعالى ہم اور آپ سے قبول فرمائے.
يا عيد مبارك يا اس طرح كے كوئى اور الفاظ كہيں جو مباركباد كے ليے مباح اور جائز ہوں.
جبير بن نفير رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
عيد كے روز جب نبى كريم صلى اللہ كے صحابہ كرام ايك دوسرے كو ملتے تو وہ ايك دوسرے كو يہ الفاظ كہا كرتے تھے:
" تقبل منا و منك " آپ اور ہم سے قبول ہو.
ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس كى سند حسن ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 446 ).
لہذا عيد كى مباركباد دينا صحابہ كرام كے ہاں معروف تھى، اور امام احمد وغيرہ اہل علم نے اس كى رخصت دى ہے، مختلف مواقع پر مباركباد دينے كى مشروعيت پر صحابہ كرام سے ثابت ہے، كہ جب كسى كو كوئى خوشى حاصل ہوتى مثلا كسى شخص كى اللہ تعالى توبہ قبول فرماتا تو صحابہ كرام اسے مباركباد وغيرہ ديا كرتے تھے.
اس ميں كوئى شك نہيں كہ مباركباد دينا مكارم اخلاق اور مسلمانوں كے مابين اجمتاعيت حسنہ شامل ہوتى ہے.
اور مباركباد كے سلسلہ ميں كم از كم يہ كہا جا سكتا ہے كہ: جو شخص آپ كو مباركباد دے اسے آپ بھى مباركباد ديں، اور جو شخص خاموش رہے آپ بھى اس كے ليے خاموشى اختيار كريں.
جيسا كہ امام احمد رحمہ اللہ كا قول ہے:
" اگر مجھے كوئى شخص مباركباد ديتا ہے تو ميں بھى اسے مباركباد كا جواب ديتا ہوں، ليكن ميں اس كى ابتدا نہيں كرتا" .
5 - عيد كے ليے خوبصورتى اور اچھا لباس پہننا:
عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى سے مروى ہے كہ:
" عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے بازار سے ايك ريشمى جبہ فروخت ہوتے ہوئے ديكھا تو اسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لا كر عرض كيا:
" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اسے خريد ليں تا كہ آپ اسے عيد كے روز اور وفود كو ملنے كے ليے بطور خوبصورتى پہننا كريں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ تو اس كے ليے ہے جس كا آخرت ميں كوئى حصہ نہيں... "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 948 ).
اس آيت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد كے ليے خوبصورتى اختيار كرنے پر انكار نہيں كيا بلكہ اس كا اقرار كيا، ليكن اس جبہ كو خريدنے سے انكار كيا كيونكہ وہ ريشمى تھا.
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ كا ايك جبہ تھا جو آپ صلى اللہ عليہ وسلم عيدين اور جمعہ كے روز زيب تن كيا كرتے تھے "
صحيح ابن خزيمہ حديث نمبر ( 1765 ).
اور بيہقى نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے كہ: ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ عيد كے ليے اپنا خوبصورت ترين لباس زيب تن كيا كرتے تھے.
اس ليے آدمى كو چاہيے كہ وہ عيد كے ليے خوبصورت ترين لباس زيب تن كرے.
ليكن جب عورتيں جب عيد كے ليے جائيں تو وہ زيب و زينت سے اجتناب كريں، كيونكہ انہيں مردوں كے سامنے زينت كے اظہار سے منع كيا گيا ہے، اور اسى طرح باہر جانے والى عورت كے ليے خوشبو لگانا بھى حرام ہے، تا كہ وہ مردوں كے فتنہ كا باعث نہ بنے، كيونكہ وہ تو صرف عبادت اور اطاعت كے ليے نكلى ہے.
6 - نماز عيد كے ليے آنے جانے ميں راستہ بدلنا.
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" عيد كے روز رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم راستہ تبديل كيا كرتے تھے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 986 ).
اس كى حكمت كے متعلق يہ كہا گيا ہے كہ: تا كہ روز قيامت دونوں راستے گواہى ديں، روز قيامت زمين اپنے اوپر خير اور شر كے عمل كى گواہى دے گى.
ايك قول يہ ہے كہ: دونوں راستوں ميں اسلامى شعار كا اظہار ہو.
اور ايك قول يہ ہے كہ: اللہ تعالى كا ذكر ظاہر كرنے كے ليے.
اور يہ بھى كہ: يہوديوں اور منافقين كو غصہ دلايا جائے، اور تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ لوگوں كى كثرت سے انہيں ڈرايا دھمكايا جا سكے.
اور ايك قول يہ بھى ہے: تا كہ تعليم اور فتوى اور اقتداء يا پھر ضرورتمندوں پر صدقہ وغيرہ كے ذريعہ لوگوں كى حاجتيں پورى ہوں، يا پھر اپنے رشتہ داروں كى زيارت اور ان سے صلہ رحمى ہو.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب