جو شخص جس چیز یا فعل کو ناجائز کہتا ہے، اُس پر واجب ہے کہ اپنے دعویٰ پر دلیل شرعی قائم کرے،اور جائز ومباح کہنے والوں کو ہر گز دلیل کی حاجت نہیں ،کیونکہ اُس چیز کی ممانعت پر کوئی دلیل شرعی نہ ہونا ہی جواز کی دلیل ہے، جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !
’’ حلال وہ ہے جو خدا نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جو خدا نے اپنی کتاب میں حرام کیا ،اور جس پر سکوت فرمایا وہ اللہ کی طرف سے معاف ہے ،یعنی اس کے کرنے پر کچھ گناہ نہیں ‘‘۔
لہذا ہمیں جواز پر دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ،شرع سے ممانعت ثابت نہ ہونا ہی ہمارے لئے دلیل ہے،آپ اگر ان معمولات کو روکنا چاہتے ہیں تو ممانعت کی ایک آیت یا ایک حدیث پیش کریں
جس میں یہ لکھا ہو کہ خبردار یہ معمولات نہ کرنا۔
عرض ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا تعلق بھی لباس و معاملات سے ہے۔ انہوں نے پنیر ، گھی اور کپڑوں وغیرہ کے بارے میں سوال کیا تھا ۔
عبادات میں اصل حرمت ہے۔ یعنی جب تک عبادت بجا لانے کی شرعی دلیل نہ مل جائے ، تب تک وہ عبادت حرام رہے گی۔
اور معاملات میں اصل مباح ہے۔ یعنی جب تک ممانعت کی دلیل شریعت سے نہ مل جائے تب تک اس کا کرنا جائز ہے۔ ۔
اب اگر عید میلاد کو آپ معاملات اور دنیاوی رسوم یا عادی امور وغیرہ سمجھتے ہیں تو آپ کا ہم سے ممانعت کی خاص دلیل طلب کرنا جائز ہے۔ اور اگر آپ اسے عبادت سمجھ کر بجا لاتے ہیں، تو ہمارا آپ سے اس عباد ت کو بجا لانے کی خاص دلیل کا مطالبہ کرنا درست ہے۔
ویسے اگر شرع سے ممانعت ثابت نہ ہونا ہی آپ کی دلیل ہے تو چھٹی نماز یا ایک رکعت میں تین سجدے، چھ رکعت نفل ایک سلام سے پڑھنے والے کو آپ کس دلیل سے قائل کریں گے کہ یہ عمل درست نہیں؟ کام تو بظاہر یہ بھی اچھے ہی ہیں۔