• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شرعی حیثیت

شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منانے والوں کی نویں دلیل

میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں کہ "میلاد شریف میں ہم حضور پاک کی سیرت بیان کرتے ہیں اور اُن کی تعریف کرتے ہیں نعت کے ذریعے اور یہ کام تو صحابہ بھی کِیا کرتے تھے، تو پھر ہمارا میلاد منانا بدعت کیسے ہوا ؟ "

جواب:

جی ہاں یہ دُرست ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدح کرتے تھے اور نعت کرتے تھے، لیکن کیا کبھی مِیلاد منوانے اور منانے والے مسلمانوں نے یہ بھی سوچا ہے کہ کیا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کے دِن کو خاص کر کے ایسا کرتے تھے ؟ یا کوئی خاص وقت اور طریقہ یا جگہ مقر ر کیا کرتے تھے ؟؟؟ یا گانے بجانے والوں اور والیوں کے انداز بلکہ اُن کے گانوں کی لے و تال پر نعت گایا کرتے تھے ؟؟؟ یقیناً صحابہ رضوان اللہ علیہم ایسا نہیں کِیا کرتے تھے، اور جب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ایسا نہیں کِیا کرتے تھے تو اِن لوگوں کا ایسا کرنا یقیناً بدعت ہے، رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعت بیان کرنا تو اُن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مُحبت کرنے والا ہر مُسلمان کرتا ہے، لیکن شرک و کفر کے ساتھ نہیں، جیسا کہ کچھ کی نعت بازی میں نظر آتا ہے، بر سبیل مثال یہ شعر مُلاحظہ فرمائیے، یہ بھی ایسی ہی ایک نعت کا حصہ ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے منہج کے خلاف ہو کر کی گئی ہے، اپنی منطق اور اپنے فلسفے کے مطابق کی گئی ہے ۔

وہی جو مستویٰ عرش تھا خدا ہو کر
اُتر پڑا ہے مدینے میں مُصطفیٰ ہو کر

اور صرف اسی پر بس نہیں اور بھی ایسے کئی اشعار اور اقوال ہیں جو صریح کفر او شرک سے بھرے ہوئے ہیں لیکن ان کو لکھنے، پڑھنے، سننے والے میرے مسلمان بھائی اور بہنیں ان کی حقیقت نہیں جانتے، اِنّا للّہِ و إِنّا اِ لیہ راجعون، کیا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعریف و مدح اِس طرح کِیا کرتے تھے ؟ کہ اُنہیں اللہ بنا دیتے تھے؟؟؟

کیا میرے اِن کلمہ گو بھائیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت زیادہ محبت ہے ؟؟؟

اگر ہاں، تو صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح سنّت کی اتباع کیوں نہیں ہوتی، بلکہ ایسے کام کیے جاتے ہیں جِن کا کوئی ثبوت سُنّت میں ہے ہی نہیں، جیسا کہ اب تک کی بحث و تحقیق میں واضح ہو چکا، اور اِن شاء اللہ ابھی مزید وضاحت آگے کروں گا۔
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منانے والوں کی دسویں دلیل

میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت میں ان کی پیدائش کی خوشی مناتے ہیں، اور جو ایسا نہیں کرتے اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی مُحبت نہیں، وہ محروم ہیں "، بلکہ اِس سے کہیں زیادہ شدید اِلفاظ اِستعمال کرتے ہیں، جِن کو ذِکر کرنا میں مُناسب نہیں سمجھتا۔

جواب:

دِلوں کے حال اللہ ہی جانتا ہے، ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کی بہت خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا دِین ہم تک پہنچانے کےلیے اُنہیں مبعوث فرمایا، اور دِین دُنیا اور آخرت کی ہر خیر ہم تک پہنچانے کا ذریعہ بنایا، لیکن جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دُنیا سے اُٹھا لیا، وہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وفات پا چکے، نزولِ وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا، تو ساری خوشی رخصت ہو جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کا غم اُن کی پیدائش کی خوشی سے بڑھ کر ہے، کہ دِل نچڑ کر رہ جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُن میں سے بنائے جِن کی زندگیاں اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سُنّت کی عین اِتباع میں بسر ہوتی ہیں اور ہر بدعت سے ہمیں محفوظ فرمائے، اُن سے نہ بنائے جنہیں بدعات پر عمل کرنے کی وجہ سے روزِ محشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوض مبارک سے ہٹا دِیا جائے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُن کے لیے بد دعا کریں گے۔

چلتے چلتے یہ حدیث مبارک بھی ملاحظہ فرمائیے، اور بدعتِ حسنہ کے فلسفہ پر غور فرمائیے :

اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ نبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا اِنِی فَرطُکُم عَلیٰ الحَوضِ مَن مَرَّ عليَّ شَرِبَ و مَن شَرِبَ لم یَظمَاء ُ اَبداً لَیَرِدُنّ عَليّ اَقواماً اَعرِفُھُم و یَعرِفُونِي ثُمَّ یُحَالُ بینی و بینَھُم فاَقولُ اِِنَّھُم مِنی، فَیُقال، اِِنکَ لا تدری ما اَحدَثُوا بَعدَکَ، قَاَقُولُ سُحقاً سُحقاً لَمِن غَیَّرَ بَعدِی: میں تم لوگوں سے پہلے حوض پر ہوں گا جو میرے پاس آئے گا وہ (اُس حوض میں سے) پیئے گا اور جو پیئے گا اُسے (پھر) کبھی پیاس نہیں لگے گی، میرے پاس حوض پر کچھ الوگ آئیں گے یہاں تک میں اُنہیں پہچان لوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے (کہ یہ میرے اُمتی ہیں اور میں اُن کا رسول ہوں)، پھر اُن کے اور میرے درمیان کچھ (پردہ وغیرہ)حائل کر دیا جائے گا، اور میں کہوں گا یہ مجھ میں سے ہیں (یعنی مرَے اُمتی ہیں، جیسا کہ صحیح مُسلم کی روایت میں ہے) ، تو (اللہ تعالیٰ) کہے گا تُم نہیں جانتے کہ اِنہوں نے تمہارے بعد کیا نئے کام کیئے، تو میں کہوں گا دُور ہو دُور ہو، جِس نے میرے بعد تبدیلی کی۔

و قال ابن عباس سُحقاً بُعداً سُحیقٌ بَعِیدٌ سُحقۃً، و اَسحقہُ اَبعَدُہ ُ: اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: سُحقاً یعنی دُور ہونا، صحیح البُخاری/حدیث ٦٥٨٣، ٦٥٨٤/ کتاب الرقاق/ باب فی الحوض، صحیح مسلم / حدیث ٢٢٩٠، ٢٢٩١ /کتاب الفضائل/باب اِثبات حوض نبیّنا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و صفاتہ۔

محترم قارئین، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِن فرامین پر ٹھنڈے دِل سے غور فرمائیے، دیکھیئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے جو جواب دیا جائے گا اُس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی اُمت کے اعمال نہیں جانتے، اور اللہ تعالیٰ نئے کام کرنے والوں کو حوضِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہٹوایں گے، اچھے یا برے نئے کام کے فرق کے بغیر، اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ سے یہ سفارش کرنے کا ذِکر کیا کہ اچھے نئے کام یعنی "بدعتِ حسنہ "کرنے والوں کو چھوڑ دِیا جائے، ،،، غور فرمائیے، ،،، بدعت دینی اور بدعت دُنیاوی، یا یوں کہیئے، بدعتِ شرعی اور بدعتِ لغوی میں بہت فرق ہے اور اِس فرق کو سمجھنے والا کبھی"بدعتِ حسنہ اورسیئہ"کی تقسیم کو درست نہیں مانتا۔

بدعت کے موضوع پر الگ سے کچھ گفتگو ہو چکی ہے اورتحریری صورت میں بھی میسر ہے، یہاں اس موضوع کو زیر بحث لا کر میں اپنی اس کتاب کے موضوع کو منتشر نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ " عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم " کے معاملے کو سمجھنے کے لیے اور اسی نوعیت کے ہر معاملے کو سمجھنے کے لیے ہمیں یقیناً بدعت کے بارے میں وہ سب معلومات ضرور جاننی اور سمجھنے چاہیں۔

کوئی اِن سے پوچھے تو : کیا معاذ اللہ صحابہ رضی اللہ عنہُم اجمعین اور اُن کے بعد تابعین، تبع تابعین اور چھ سو سال تک اُمت کے کِسی عالم کو کِسی اِمام کو، نبی علیہ الصلاۃُ و السلام سے محبت نہیں تھی ؟ ؟؟

کیا مُحبت کے اِس فلسفہ کو صحابہ رضی اللہ عنہم نہ سمجھ پائے تھے کہ وہ اِس بات کو بنیاد بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کی عید مناتے، یا تابعین یا تبع تابعین، یعنی سُبحان اللہ عید میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائیوں کو مُحبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ مفہوم سمجھ میں آ گیا جو درست ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین، تابعین تبع تابعین چھ ساڑھے چھ سو سال تک اُمت کے عُلمااور ائمہ رحمہم اللہ جمعیاًبے چارے غلطی پر رہے ؟؟؟

اور مزید کہتا ہوں کہ :

نہیں نہیں یہ عِشق نہیں ہے، جمع خرچ ہے زُبانی: وہ کیا عِشق ہوا، جِس میں محبوب کی ہے نافرمانی

حُب و وفاء کو دِی صحابہ نے نئی تب و تابِ جاودانی: اور تُمہارا عِشق ہے اُن کے عمل سے رُوگردانی

(توجہ کیجیے گاکہ، ان اشعار میں لفظ عِشق کتاب کے موضوع کی مناسبت سے استعمال کیا گیا ہے نہ کہ اس کے لغوی مفہوم کی نسبت سے)
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منانے والوں کی گیارھویں دلیل

عید میلاد منوانے او ر پھر منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں "'حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت الیوم اکملت لکم دینکم۔ تلاوت فرمائی۔ تو ایک یہودی نے کہا : اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : یہ آیت نازل ہی اسی دن ہوئی جس دن دو عیدیں تھیں۔ (یوم جمعہ اور یوم عرفہ) مشکوٰۃ شریف صفحہ 121۔ ۔ مرقات شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے، مقام غور ہے کہ دونوں جلیل القدر صحابہ نے یہ نہیں فرمایا، کہ اسلام میں صرف عید الفطر اور عید الاضحی مقرر ہیں اور ہمارے لئے کوئی تیسری عید منانا بدعت و ممنوع ہے۔ بلکہ یوم جمعہ کے علاوہ یوم عرفہ کوبھی عید قرار دے کر واضح فرمایا کہ واقعی جس دن اللہ کی طرف سے کوئی خاص نعمت عطا ہوخاص خاص اس دن بطور یادگار عید منانا، شکر نعمت اور خوشی کا اظہار کرنا جائز اور درست ہے علاوہ ازیں جلیل القدر محدث ملا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری نے اس موقع پر یہ بھی نقل فرمایا کہ ہر خوشی کے دن کے لئے لفظ عید استعمال ہوتا ہے، الغرض جب جمعہ کا عید ہونا، عرفہ کا عید ہونا، یوم نزول آیت کا عید ہونا ہر انعام و عطا کے دن کا عید ہونا اور ہر خوشی کے دن کا عید ہوناواضح و ظاہر ہوگیا تو اب ان سب سے بڑھ کر یوم عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عید ہونے میں کیا شبہ رہ گیا۔

جواب:

عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُ کا جو اثر یہ صاحبان ذکر کرتے ہیں، وہ واقعہ امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہُ کا ہے جیسا کہ کتب ستہ، اور زوائد میں روایت ہے، اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُ کے بارے میں یہ بات صرف "سنن الترمذی "میں روایت کی گئی ہے اور اِمام الترمذی نے خود کہا ہے کہ یہ روایت حسن غریب ہے۔

اصولاً ہونا یہ چاہیئے کہ جو روایت زیادہ صحت مند ہے اُس کو دلیل بنایا جانا چاہیئے، لیکن کیا کہوں کہ، صحیح البخاری اور صحیح مسلم کی روایت کو سرسری انداز میں "مرقات شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے "لکھنا، کیا ثابت کرنے کو کوشش محسوس ہوتی ہے !!! جبکہ صاحب مرقاۃ نے تو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت کے بعد، پہلے امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہُ کا واقعہ بخاری کے حوالے سے ذِکر کیا ہے، اور پھر طبرانی کے حوالے سے، لیکن ہمارے یہ بھائی بات کو کاٹ چھانٹ کر، آگے پیچھے کر کے کیوں لکھتے ہیں؟؟؟ دِلوں کے حال اللہ ہی جانتا ہے، جو نظر آتا ہے ہر صاحب بصیرت سمجھ سکتا ہے۔

قطع نظر اِس کے کہ یہ واقعہ امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہُ کا ہے یا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا، غور کرنے کی بات یہ کہ، یہودی کے جواب میں کیا اِن دونوں صحابیوں میں سے کِسی نے بھی یہ کہا کہ ہاں ہم بھی اِس دِن کو عید بنا لیتے ہیں ؟؟؟

کیا کِسی نے بھی یہ سوچا یا سمجھا کہ اگر یومِ عرفہ، یوم عید ہو سکتاہے تو میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم والا دِن بھی عید ہو سکتا ہے، یا جِس دِن کوئی خوشی یا کوئی نعمت ملی ہو اُس دِن عید منائی جا سکتی ہے، تو خود سے اِس پر عمل کیوں نہیں کیا ؟؟؟

تیسری، چوتھی اور پانچویں دلیل کے جواب میں رحمت و نعمت ملنے پر عید منانے کے بارے میں پہلے بات کر چکا ہوں۔

قارئین کِرام، اِن دونوں صحابیوں رضی اللہ عنہما کے جواب پر غور فرمائیے، یہودی نے کہا "اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اُس دِن کو عید بنا لیتے "اُنہوں نے اُس یہودی کو دِن گِنا کر بتایا کہ" ہمیں پتہ ہے کہ یہ آیت کِس دِن نازل ہوئی تھی لیکن ہماری عیدیں مقرر ہیں، ہم اپنی طرف سے کوئی اور عید نہیں بنا سکتے "۔

مزید، یہ کہ جلیل القدر محدث ملا علی القاری الحنفی رحمۃُ اللہ علیہ کی طرف سے لفظ "عید "ہر خوشی کے دِن کے لیے اِستعمال ہونے کا ذِکر کر کے اپنی عید میلاد کے لیے دلیل بنانا بڑا ہی عجیب و غریب معاملہ ہے۔

قطع نظر اِس کے کہ لفظ "عید "کا لغوی اور شرعی مفہوم کیا ہے؟

اور قطع نظر اِس کے کہ دِین کے کِسی کام، عِبادت یا عقیدے کو اپنانے کے لیے اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے واضح حُکم درکار ہوتا ہے، نہ کہ کِسی کی کوئی بات، اور قطع نظر اِس کے کہ عید ہونا اور عید منانا دو مختلف کیفیات ہیں، اور اِن کا مختلف ہونا ہمیں لُغت اور شریعت میں قولاً و فعلاً ملتا ہے، یہ بحث پھر کبھی اِن شاء اللہ۔

میں یہاں صِرف اِس بات پر افسوس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ عید میلاد منوانے والے بھائیوں نے کِس طرح علامہ ملا علی القاری رحمہُ اللہ علیہ کی بات کو نامکمل اور سیاق و سباق کے بغیر لکھ کر اپنی بات اور عمل کے جائز ہونے کی دلیل بنایا ہے،

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح / کتاب الصلاۃ /باب الجمعۃ /فصل الثالث، میں علامہ ملا علی القاری رحمۃُ اللہ علیہ نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھا:

"قال الطیبی فی جواب ابن عباس للیہودیِّ إشارۃ إلی الزیادۃ فی الجواب یعنی ما تخذناہ عیداً واحداً بل عیدین وتکریر الیوم تقریر لاستقلال کل یوم بما سمی بہ واضافۃ یوم إلی عیدین کاضافۃ الیوم إلی الجمعۃ أی یوم الفرح المجموع والمعنی یوم الفرح الذی یعودون مرۃ بعد أخری فیہ إلی السرور قال الراغب العید ما یعاود مرۃ بعد أخری وخص فی الشریعۃ بیوم الفطر ویوم النحر ولما کان ذلک الیوم مجعولاً للسرور فی الشریعۃ کما نبہ النبی بقولہ أیام منی أیام أکلٍ وشربٍ وبعال صار یستعمل العید فی کل یوم فیہ مسرۃ"

یہاں کہیں بھی کوئی ایسی بات نہیں جِسے عید میلاد کی دلیل بنایا جائے، اگر ایسا ہوتا تو علامہ علامہ ملا علی القاری رحمۃُ اللہ علیہ اِس کا ذِکر کرتے، نہ کہ لفظ "عید "کا معنیٰ و مفہوم بیان کرنے پر اِکتفاء کرتے، جبکہ علامہ صاحب ١٠١٤ہجری میں فوت ہوئے اور اُس وقت "عید میلاد "کی بدعت مُسلمانوں میں موجود تھی، اور علامہ صاحب مسلکاً حنفی بھی تھے، لیکن اِس کے باوجود اُنہوں نے یہاں اِس آیت اور عبداللہ ابن عباس یا عُمر رضی اللہ عنہم کے قول کو عید میلاد کی دلیل ہونے کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں کِیا، افسوس صد افسوس، ضد اور تعصب میں اپنے ہی مسلک کے عُلماء پر یوں ظلم کیا جاتا ہے کہ اُن کی باتوں کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جِس طرح اُنہوں نے نہیں کہی ہوتِیں۔

علامہ ملا علی القاری رحمۃُ اللہ علیہ کے مندرجہ بالا اِلفاظ کے کچھ حصے کو اپنی بات کی دلیل بنانے والے اگر پوری بات کو سامنے لائیں تو اُن کے ہر پیروکار پر واضح ہو جائے کہ کِس طرح عُلماء کی باتوں کو اپنی رائے اور بات کی دلیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

عید میلاد منوانے اور منانے والے میرے مسلمان بھائی، کم از کم یہ تو سوچیں کہ، اگر اُن کی بیان کردہ منطق، یعنی، ہر خوشی اور نعمت والے دِن کا عید ہونا، درست ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم اور یہ عُلماء کرام رحمہم اللہ ہر خوشی اور ہر نئی نعمت ملنے والے دِن کی عید مناتے، اور شاید اِس طرح سال بھر میں سے آدھا سال عیدیں ہی رہتیں، نبوت کے جھوٹے دعوی داروں کا خاتمہ، زکوۃ کی ادائیگی سے اِنکار کرنے والے کا قلع قمع، ہر نیا شہر، ہر نیا مُلک فتح ہونا، فوج در فوج لوگوں کا مسلمان ہونا یہ سب اللہ کی نعمتیں ہی تو تھیں، غور تو کیجیئے کہ کتنی عیدیں ہوتیں ؟؟؟

لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین، صدیوں تک اُمت کے علماء و ائمہ رحمہم اللہ جمعیاً میں سے کِس نے ایسی کوئی بھی عید منائی ؟؟؟

میں اِس بات میں کوئی شک نہیں رکھتا کہ عید میلاد منوانے اور منانے والوں کی اکثریت یہ سب بحث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت میں کرتی ہے، لیکن افسوس اِس بات کا ہوتا ہے کہ اُن کا ایک انتہائی نیک جذبہ غیر مُناسب طور پر اِستعمال ہو رہا ہے، اوراُنہیں اُس کااحساس نہں ہو رہا۔

سوچیے تو، محبت محبوب کی پسند کے مطابق اُس تابع فرمانی ہوتی ہے یا کچھ اور ؟؟؟

سوچیئے تو، اگرروز محشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ سے پوچھیں کہ دِین میں جو کام میں نے نہیں کِیا، میرے خلفاء راشدین نے نہیں کِیا، میرے صحابہ میں سے کِسی نے نہیں کِیا، آپ نے وہ کام کیوں کِیا ؟؟؟

اللہ کے احکام اور میری باتوں کو جو تفسیر و تشریح میں نے بیان نہیں کی، نہ قولاً نہ عملاً، نہ میرے صحابہ میں سے کِسی نے بیان کی، آپ نے وہ تفسیر و تشریح کیسے قُبُول کر لی ؟؟؟

اللہ کے کلام کی تشریح کی ذمہ داری تو اللہ نے مجھے سونپی تھی اور اللہ کے حُکم سے میں یہ ذمہ داری پوری کر آیا تھا، پھر اللہ کے کلام کی نئی نئی تشریح اور عِبادت کے نئے نئے طور طریقے آپ نے کہیں اور سے کیوں لیے ؟؟؟

کیا جواب دیں گے، یا رسول اللہ ہمارے عُلما کہا کرتے تھے، یا، ہماری کتابوں میں لکھا گیا تھا، یا، ہم سوچا کرتے تھے کہ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو ایسا کیوں نہیں، اور کر لیا کرتے تھے۔

یقین مانئے اللہ کی شریعت مکمل ہونے کے بعد ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اِس دُنیا فانی سے واپس بلوایا گیا، اور اُن کے بعد کِسی پر وحی نازل نہیں ہوئی، نہ ہی وہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوئی باطنی شریعت، یا خاندانی شریعت چھوڑ کر تشریف لے گئے، اللہ کا ہر حُکم صاف اور واضح طور پر قولاً و عملاً بیان فرما کر گئے، اگر آپ اِس پر اِیمان رکھتے ہیں، اور مجھے پوری اُمید ہے کہ یقیناً اِیمان رکھتے ہیں، تو پھر عید میلاد منانا اُن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات میں کہیں نہیں ہے، تقاضاء محبت اطاعت و فرمانبرداری ہے، جہاں جو بات اُن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی موافقت رکھتی ہے قُبُول فرمائیے، اور جو نہیں رکھتی ترک کر دیجئےیہ ہی اُن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حقیقی محبت ہے۔
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منانے والوں کی بارھویں دلیل

عید میلاد منوانے او ر پھر منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں '"یہ مُسلمانوں کا ایک ہی ایسا عالمی تہوار ہے، اور کافر اِس تہوار کو روکنا چاہتے ہیں لہذا عید میلاد سے منع کرنے والے کافروں کے آلہ کار ہیں"



اِمام عبدالرحمان بن اِسماعیل المقدسیّ کی کتاب "الباعث علیٰ البدع و الحوادث "کے محقق بشیر محمد عیون نے لکھا: " میلاد منانے کی بدعت سب سے پہلے فاطمیوں نے شروع کی، اُن کے پاس پورے سال کی عیدیں ہوا کرتی تھیں، وہ لوگ نئے سال کی عید، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، علی، فاطمہ، حسن، حسین رضی اللہ عنہم اجمعین، کی عید میلاد اور خلیفہء وقت کی عید میلاد منایا کرتے تھے، اور اس کے علاوہ نصف رجب کی رات، شعبان کی پہلی اور آخری رات، رمضان کی پہلی، درمیانی، اور ختمِ قرآن کی رات، فتح خلیج کا دِن، نوروز کا دِن، غطاس کا دِن، غدیر کا دِن، یہ سب عیدیں اور راتیں وہ لوگ "منایا "کرتے تھے پھر ایک فاطمی وزیر افضل شاہنشاہ آیا جِس نے چار عیدیں میلاد کی بند کر دیں، یعنی میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، میلادِ علی اور میلادِ فاطمہ رضی اللہ عنہما، اور میلادِ خلیفہِ وقت، پھر المامون البطائحی نے خلیفہ الآمر باحکام اللہ کے دور میں اِن میلادوں کو دوبارہ چالو کیا، یہاں تک سلطان صلاح الدین الایوبی کی خلافت قائم ہوئی تو یہ تمام کی تمام عیدیں، میلادیں، راتیں وغیرہ بند کر دی گئیں، لکند اربل کے حکمران مظفر الدین کوکبری ابو سعید نے جو سلطان صللاح الدین ایوبی کی بہن ربیع کا خاوند تھا اپنے ایک سرکاری مولوی عمر بن محمد موصلی کی ایما پر ٦٥٠ ہجری میں دوبارہ اِس بدعت کا آغاز کیا۔ "

تو اِس تاریخی حوالے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اُمتِ اسلام میں "عید میلادیں "منانے کی بدعت ایک فاطمی، عبیدی، المعز الدین اللہ معد بن المنصور اِسماعیل کے دور میں شروع ہوئی، اور اس کا دورِ حکومت ٣٤١ہجری سے شروع ہوتا ہے، (تاریخ الخلفاء جلد ١/صفحہ٥٢٤/فصل الدولۃ الخبیثیۃ العبیدیۃ / مؤلف اِمام عبدالرحمان السیوطی /مطبوعہ مبطع السعادۃ /مصر) اور اِس کے باپ اِسماعیل کی نسبت سے ہی اِن فاطمی عبیدیوں کو اِسماعیلی بھی کہا جاتا ہے۔

کچھ مورخین "عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم "کی بدعت کا آغاز فاطمیوں کے دور سے نہیں بلکہ اربل کے حکمران الکوکبری کے دور سے ہونا زیادہ صحیح قرار دیتے ہیں۔

پہلی بات زیادہ مضبوط ہو یا دوسری، دونوں صورتوں میں یہ بات یقینی ہے کہ "عید میلاد "نام کی کوئی چیز اللہ کی شریعت مکمل ہونے کے کم از کم ٣٤١ ہجری تک مُسلمانوں میں کہیں نہ تھی۔

یہ تو ہم جانتے ہیں کہ کِسی خاص واقعہ کے دِن کو "تہوار "بنانا یہود و نصاری اور دیگر کافر قوموں کی عادت تھی اورہے، اور اِسلام میں وہ سارے عیدیں اور تہوار منسوخ کر کے مُسلمانوں کے لیے دو تہوار، دو عیدیں دِی گِئیں اور اُن کے علاوہ کوئی تہوار، یا عید منانے کے لیے نہیں دِی گئی، جیسا کہ انس ابن مالک رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ ''"اہلِ جاھلیت (یعنی اِسلام سے پہلے مشرکوں اور کافروں) کے کھیلنے (خوشی منانے) کے لیے سال میں دو دِن تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو فرمایا کان لَکُم یَومَانِ تَلعَبُونَ فِیہِمَا وقد اَبدَلَکُم اللَّہ بِہِمَا خَیرًا مِنہُمَا یوم الفِطرِ وَیَومَ الاضحَی: تُم لوگوں کے لیے کھیلنے (خوشی منانے) کے دودِن تھے اور اللہ نے تُمارے اُن دو دِنوں سے زیادہ خیر والے دِنوں سے بدل دِیا ہے اور وہ خیر والے دِن فِطر کا دِن اور اضحی کا دِن ہیں سنن النسائی / حدیث ١٥٥٦ / کتاب صلاۃ العیدین، السلسۃ الاحادیث الصحیحۃ/ حدیث ۱۰۶۱۔

اور پھر کم از کم تین سوا تین سو سال تک اُمت نے اِن دو عیدوں کے عِلاوہ کوئی عید نہیں "منائی"، اِس حدیث سے پہلے ذِکر کیے گئے تاریخی حوالے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ میلاد منانا مسلمانوں میں یہودیوں کے روحانی پیروکار فرقے (الفاطمین) کی طرف سے داخل کیا گیا، یہ فاطمین وہ ہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کو گالا ں نکلوانا، مسجدوں کے دروازوں پر اِن تینوں کے لیے لعنت کے اِلفاظ لکھوانا، اپنے آپکو سجدے کروانا، اور کئی دیگر مشرکانہ کام شروع کروائے، اور جب صلاح الدین ایوبی علیہ رحمۃ اللہ نے ان کو عیسائیوں کے ساتھ سازش کرنے کی سزا کے طور پر مصر سے نکالا تو یہ ایران اور ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں پھیل گئے، اور آج دُنیا میں یہ لوگ اسماعیلی کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں اور ان کا کفر کِسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

ہماری یہاں تک کی بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ، اِسلام کی اب تک کی تاریخ یعنی 1428سالہ تاریخ میں سے ساڑھے چھ سو سال اِس بدعت کی کوئی خبر نہیں دیتے، اگر کِسی کے پاس اس کے عِلاوہ کوئی خبر ہو تو مجھے آگاہ کرے، حیرت صد حیرت کہ اتنے لمبے عرصے تک ایک دو نہیں، دس سو نہیں، ہزاروں لاکھوں نہیں کڑوڑں نہیں، بلکہ اربوں مسلمانوں میں سے کِسی کو بھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یوم پیدائش "منایا "جانا چاہئیے ؟

(یہاں سے عید میلاد منوانے اور منانے والوں کی بارہویں دلیل کا جواب بھی شروع ہوتا ہے) اب عید میلاد منوانے اور منانے والے، منع کرنے والوں کو عیسائیوں اور کافروں کی طرح مسلمانوں کی عالمی خوشی منانے میں روکاوٹ جانتے ہیں، بے چارے شاید یہ تاریخ نہیں جانتے، اگر جانتے تو سمجھ جاتے کہ، "عید میلاد "یا کِسی بھی اور بدعت سے روکنے والے عیسائیوں اور کافروں کا وار روکنے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ شیطان اور اُس کے پیروکار کفار و مشرکین کے واروں میں سے یہ بھی ہے کہ "حُبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم "کے مُثبت اور مطلوب جذبے کو منفی اور غیر مطلوب راہ پر چلا کر وہ مسلمانوں میں تفریق پیدا کی جائے۔

رہا معاملہ مسلمانوں کے عالمی اجتماعی جشن کو روکنے کا تو کفار ایسا کر چکے ہیں، دیکھ لیجیے مسلمانوں میں قمری تاریخوں میں اختلاف پیدا کر کے، وہ اپنا یہ مقصد حاصل کر چکے ہیں، اللہ کے دیئے ہوئے بے مثال نظام کو مسلمانوں میں پراگندہ خیال کر کے وہ مسلمانوں کو اس حال تک لا چکے ہیں ہیں اس معلومات کی منتقلی اور تکنیکی عُلوم کے جدید ترین دور میں بھی مسلمان ایک ہی مدار پر ایک ہی رات مںت نکلنے والے ایک ہی چاند کو دو دو تین تین دِن کے وقفوں میں دیکھنا مانتے ہیں اور اپنی تاریخ ایک نہیں کر پاتے، ایک ہی بستی میں روزہ بھی رکھا جارہا ہوتا ہے اور عید بھی کی جا رہی ہوتی ہے، اس حال تک پہنچانے کے بعد "عید میلاد "مختلف دِنوں میں ہو یا ایک دِن، یا سِرے سے ہو ہی نہ، کفار کو اِس سے کیا غرض، اُن کی غرض و غایت تو "عید میلاد "ہونا ہے، تا کہ اُمتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃُ و السلام، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نافرمانی کرتی رہے اور اُسے "محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم "سمجھ کر کرتی رہے، چاند اور تاریخوں کی بات پھر کبھی سہی، اِن شاء اللہ۔
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منانے والوں کی تیرھویں دلیل

عید میلاد منوانے او ر پھر منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں "صحابہ کے زمانے میں محبتِ رسول اورعظمتِ رسول کے مختلف انداز کی ضرورت تھی لہذا اُنہوں نے وہ اپنائے، اور بعد کے زمانوں میں ضرورت مختلف ہوئی پس ہم نے یہ انداز اپنائے، اور یوں بھی اسلام کے پہلے تین دور، ایمان سازی، تربیت، جہاد وغیرہ پر مشتمل تھے لہذا اُن زمانوں کے لوگ اِس طرف توجہ نہیں کر پائے "۔

جواب:

سابقہ مراسلات میں، قُرآن و صحیح سنّت، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال، تابعین تبع تابعین، اُمت کے اِماموں رحہم اللہ تعالیٰ جمعیا ً کے اقوال و افعال کی روشنی میں اور تاریخ کا مطالعہ کرتے کرتے یہاں تک کی بات سے یہ واضح ہو جاتا کہ، "عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم "منوانے اور منانے والے بھائیوں کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جِس کے ذریعے وہ اپنے اِس کام کو قُرآن اور سنّت میں سے، صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے اقوال و افعال مںک سے، یا کِسی ایک بھی صحابی رضی اللہ عنہُ کے کِسی قول و فعل سے، یا اُمت کے کِسی عالم کے قول و فعل سے ثابت کر سکیں، بلکہ پوری اُمت میں تقریباً ساڑھے تین سو سال تک کِسی عید میلاد کی کوئی خبر تو کیا، بات تو کیا، کہانی بھی نہیں ملتی، اور پھر جو خبر ملتی ہے تو وہ بھی ایک ایسے گمراہ فرقے کے ایک حکمران کی بارے میں جِسے آج تک اہل سنّت و الجماعت کے تمام مکاتب فکر متفقہ طور پر خارج از اِسلام جانتے ہیں، یعنی فاطمی فرقہ جسے اب اِسماعیلی کہا جاتا ہے۔

پس یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کے دِن کو کِسی طور پر بھی "تہوار، عید "بنانا دِین میں نیا کام ہے کیونکہ ایسا کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سُنّت میں، نہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سُنّت میں، بلکہ یہ کام سراسر خِلافِ سُنّت ہے اور جو بھی عقیدہ، عِبادت، دِین سے متعلقہ کام، سُنّت کے خِلاف ہو، سُنّت میں اُس کی کوئی دلیل نہ ملتی ہو، اُسے ہی بدعت کہا جاتا ہے، اور ہر بدعت گُمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں جانے والی ہے، کِسی بدعت کو اچھا اور کِسی بدعت کو بُرا کہنے کی کوئی گنجائش نہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیصلہ ہے: فَاِنَّ مَن یَعِیشُ مِنکُم فَسیَری اِختلافاًً کثیراً، فَعَلِیکُم بِسُنّتِی وَ سُنَّۃ الخُلفاء الراشدینَ المھدیَّینَ، عضُّوا علیھا بالنَواجذِ، وَ اِیَّاکُم وَ مُحدَثاتِ الاَمُور، فَاِنَّ کلَّ بِدَعَۃٍ ضَلالَۃٌ، وَ کلَّ ضَلالۃٍ فِی النَّارِ: پس تُم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، تو تُم پر میری اور ہدایت یافتہ، ہدایت دینے والے خلفاء کی سُنّت فرض ہے اُسے دانتوں سے پکڑے رکھو، اور نئے کاموں سے خبردار، بے شک ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی آگ میں ہے صحیح ابن حبان /کتاب الرقاق، صحیح ابن خُزیمہ /حدیث ١٧٨٥/کتاب الجمعہ /باب٥١،سُنن ابن ماجہ /حدیث ٤٢/باب ٦، مُستدرک الحاکم حدیث ٣٢٩، ٣٣١

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مَن عَمِلَ عملاً لَیس عَلیہِ امرُنا فَھُو ردٌ: جِس نے ایسا کام کیا جو ہمارے معاملے کے مُطابق نہیں ہے وہ رد ہے صحیح البُخاری /کتاب بد ء الوحی / باب ٢٠، صحیح مُسلم /حدیث ١٧١٨۔

یعنی ہر وہ کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاموں کے مُطابق نہیں وہ کام کرنے والے پر مردود ہے، اور عید میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائیوں، بہنوں کے ہوا ئی، فلسفانہ دلائل کی کوئی دلیل نہیں، نہ قرآن میں، نہ سُنّت میں، نہ صحابہ کے قول و فعل میں ہے، قرآن کی جِن آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جِن احادیث اور صحابہ کے جِن اقوال کو اپنے طور پر اپنی تفسیر اور اپنی شرح میں ڈھال کر، دلیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اُن کا جواب گذر چُکا ہے، اور مزید یہ کہ نہ ہی ہم اہلِ سُنّت و الجماعت کے کسی بھی اِمام کی طرف سے اِس کام یعنی عید میلاد منانے کا کوئی ذِکر وارد ہوا ہے۔

اور تو آپ چھوڑئیے، اُن کو دیکھیئے، جِن کو کچھ مُسلمان" اِما م اعظم "کہتے ہیں، جب کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گُستاخی ہے کہ اُن کی بجائے کِسی اور کو اِمام اعظم کہا جائے، اور ایسا کرنے والے میرے وہ کلمہ گو بھائی ہیں جو " عِشق اور عظمتِ رسول صلی اللہ عیہ و آلہ وسلم کے واشگاف دعویٰ دار ہیں، پھر جب انہیں یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کا دعویٰ ِ " عشق " کے بطلان کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآٓلہ وسلم کے علاوہ کسی اور کو " امام اعظم " کہتے ہیں، تو وہ اس دعوے سے بھی بڑھ کر عجیب و غریب تاویلات پیش کرتے ہیں، اور عربی کی اس کہاوت کے مصداق دِکھائی دیتے ہیں کہ " العُذر أقبح مِن الذِنب: بہانہ بازی گناہ سے زیادہ بری چیز ہوتی ہے " ہے، بہر حال اِس وقت ہمارا موضوع یہ نہیں ہے۔

جی تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اِمام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت علیہ رحمۃُ اللہ کی طرف دیکھیئے کیا اُن کو بھی قُرآن کی اِن آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیر کو روزہ رکھنے کی، عباس رضی اللہ عنہُ کے ابو جھل کے بارے میں دیکھے ہوئے خواب کی، زمانے اور وقت کے مُطابق محبت و عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اندز اظہار میں تبدیلی کرنے کی وہ وجہ اور ضرورت سمجھ نہیں آئی جو عید میلاد منوانے اور منانے والے اِن صاحبان جو کہ اِمام ابو حنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ کے پیروکارو ہیں، کو آ گئی، جبکہ ابو حنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ نہ تو حکومت کرنے والوں میں سے تھے اور نہ ہی جہاد کرنے والوں میں کہ اِن کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے "میلاد" کی طرف توجہ نہ فرما سکے، جیسا کہ "میلاد" منوانے اور منانے والے بھائی فلسفہ پیش کرتے ہیں ؟؟؟ اور اگراِمام ابو حنفہم رحمۃُ اللہ علیہ کو بھی وہی سمجھ آئی تھی اور وہی ضرورت محسوس ہوئی تھی تو انہوں نے میلاد کیوں نہیں منائی ؟؟؟ یا کم از کم کوئی بات ہی " میلاد " کے بارے میں کہی ہوتی ؟؟؟ اور اگر اُنہیں سمجھ نہیں آئی تھی تو پھر اُن کی اِمامیت کیسی ؟؟؟ پھر تو جِن کو اُن کے بعد یہ سمجھ آئی وہ اُن سے بڑے اِمام ہوئے ؟؟؟ یعنی یہ شاگرد یا مُرید بھائی اپنے ہی اِمام کے اِمام ہو گئے ؟؟؟ اِنّا لِلَّہِ و اِنَّا اِلِیہِ رَاجِعُونَ۔

اللہ امام ابو حنیفہ پر اپنی خاص رحمت نازل فرمائے، چاروں اِماموں میں سے سب سے زیادہ مظلوم اِمام ہیں، کہ اُن کے اپنے ہی پیروکار اُن سے اُن کی فقہ کے نام پر وہ کچھ منسوب کرتے ہیں جو اُن جیسے متیہ اور صالح اِمام کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
 
Top