- شمولیت
- اگست 28، 2018
- پیغامات
- 200
- ری ایکشن اسکور
- 8
- پوائنٹ
- 90
عید میلاد النبی منانا دین نہیں!
تحریر : عبد الخبیر بدایونی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت (رسول بنا کر بھیجا جانا) تمام مسلمانوں کے لئے باعث فخر اور نعمت الہیہ میں سے عظیم نعمت ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے " لقد من الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولا من أنفسهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة وإن كانوا من قبل لفي ضلال مبين" (آل عمران، 164) یعنی، تحقیق کہ اللہ نے مؤمنوں پر احسان کیا کہ ان کے درمیان ایک رسول انہی میں سے بھیجا، جو ان پر اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے
تحدیث نعمت کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت و پیدائش کے دن (سوموار) روزہ رکھا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی إتباع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی یہی عمل تھا البتہ سالانہ یاد گار کے طور پر نا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ناہی آپ کے تربیت یافتہ صحابہ نے کبھی بھی جشن و جلوس منایا اور نا ہی اس کی کبھی اہمیت سمجھی، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کو لیکر سن، مہینہ، تاریخ اور وقت کو لیکر ہمیشہ امت میں اختلاف رہا کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا سن عام الفیل کو قرار دیا، کسی نے دس سال پہلے کسی نے بعد کسی نے پچاس دن آگے پیچھے قرار دیا تو کسی نے کچھ اور اسی طرح مہینے کو لیکر بھی اختلاف رہا کسی نے رمضان کا مہینہ، تو کسی نے محرم الحرام تو کسی نے صفر و ربیع الاول کو آپ کی پیدائش کا مہینہ قرار دیا، اسی طرح تاریخ کا معاملہ بھی ہے رمضان محرم اور صفر کی تاریخوں کو جانیں دیں صرف ربیع الاول کی تاریخوں میں زبردست اختلاف پایا جاتا ہے کوئی پہلی، کوئی دوسری اور کوئی تیسری، آٹھ، نو، بارہ تو کوئی سترہ یا اٹھارہ بتاتا ہے اسی طرح وقت بھی کسی نے صبح کا سہانہ وقت تو کسی نے رات کا آخری پہر قرار دیا غرض یہ کہ کسی نے کچھ تو کسی نے کچھ بتایا، یہ ساری تفصیل اگر کسی کو دیکھنا ہے تو سیرت پر لکھی گئی *البدایہ لابن کثیر* یا *فقہ السیرۃ* وغیرہ کتب کا مطالعہ کریں اس پورے معاملے میں جو چیز متفق علیہ رہی وہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن اور وہ ہے سوموار، اور صرف یہی ایسی چیز ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صحیح احادیث میں بیان کیا باقی کسی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے کچھ بھی مروی نہیں ہے
اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم میلاد کو بطور جشن مناتے تو کبھی یہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ عید الفطر و عید الاضحٰی کی تاریخوں کی طرح سب عید میلاد منانے میں بھی متفق ہوتے، یاد رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت ہر وقت ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے یہ ایسا عمل نہیں جو خاص خاص موقعوں پر انجام دیا جائے کوئی بھی لمحہ اگر اطاعت و محبت رسول سے خالی ہوا نہیں کہ ایمان بندہ کا خطرے میں پڑا نہیں، اس لئے سالانہ یادگار یا جشن و جلوس، و پرچم کشائی کو محبت سے جوڑنا بالکل غلط بلکہ شریعت کی مرضی کے خلاف ہے یہ تو ان لاخیروں کی ایجاد ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت کو اپنے لئے بوجھ سمجھتے ہیں اور اس کو اپنی زندگی سے نکال چکے ہیں اور اب یہ چاہتے ہیں سالانہ یا ماہانہ یاد گار کے طور پر جشن منا لیں اور آزادی سے بد عملی میں مگن ہو جائیں یہی وجہ ہے کہ اس طرح جشن جلوس منانے والے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو روندنے والے ملینگے الا ماشاءاللہ،
اگر سالانہ جشن و جلوس اور پرچم کشائی وغیرہ ایمان یا محبت کا حصہ ہوتے تو پھر جشن وجلوس کے گزرنے کے بعد اور پرچم کے اترنے کے بعد یہ سب محبت و ایمان کے دعوے ختم ہوجانا چاہیے؟ لیکن شاید ہی ایسا کوئی بد قسمت ہوگا جو یہ عقیدہ رکھتا ہو؟
*اہل بدعت کی جانب سے سالانہ جشن و جلوس کے جواز میں پیش کی جانی والی آیات یا احادیث ہرگز ان کے باطل عقیدہ کو ثابت نہیں کرتی ہیں* مثلا سورہ آل عمران کی آیت 164 سے استدلال سراسر غلط ہے کیونکہ اس سے تو آپ کے سب سے عظیم (جیسا کہ بعض احادیث میں اس کی وضاحت ہے) نعمت ہونے کے بارے میں معلوم ہو رہا ہے جس کا مقتضی ہرگز یہ نہیں کہ سال میں یا مہینہ میں جشن و جلوس منا لیا جائے اور بس، بلکہ اس سے تو یہ معلوم ہو رہا کہ بندہ اپنے رب کی اس عظیم نعمت کے شکریہ میں سراپا اطاعت و شکر گزاری کا مجسمہ بن جائے، جبکہ میلادیوں کا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے جشن وجلوس کی آڑ میں سنن و فرائض کو چھوڑنا عام بات ہے
یا مثلاً جہنم میں ابو لہب کو ہر سوموار کو پانی دئیے جانے کی بات جو اس کے کسی خاندانی نے خواب میں دیکھا تھا، اس سے سالانہ جشن و جلوس پر استدلال بہت بڑی حماقت و جہالت ہے کیو نکہ یہ خواب کی بات ہے جبکہ یہ بھی نہیں معلوم خواب دیکھنے والا مومن ہے یا کافر پھر نبی کے علاوہ کسی کےبھی خواب سے چاہے مسلمان ہی کیوں نا ہو دلیل پکڑنا جائز و درست نہیں ہے پھر جہنم میں ابو لہب کو کوئی بھی راحت ملنا قرآن مجید کے بھی خلاف ہے اللہ جل شانہ فرماتا ہے " ما أغنى عنه ماله وما كسب" (سورہ ابی لہب، 2) یعنی ابو لہب کا مال یا جو اس نے کمایا کچھ بھی اس کے کام نہیں آیا، بات بات میں خبر واحد کو قرآن کے خلاف بتلا کر رد کرنے والی مقلد قوم یہاں ان کو اپنا اصول یاد کیوں نہیں آتا؟ یہاں تو غیر معروف (جس کے مومن یا کافر ہونا بھی نہیں معلوم) شخص کے خواب ہی سے قرآن کو رد کر رہے ہیں
یا مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر سوموار روزہ رکھنے سے جشن و جلوس پر استدلال نہایت ہی احمقانہ و جاہلانہ ہے کہاں روزہ جیسی عظیم عبادت اور کہاں جہلاء مقلدین کا کھلم کھلا سنن و فرائض کا مزاق اڑانا، کہاں ہر سوموار کو شکر گزاری میں گزرنے والا ہر ہر لمحہ اور کہاں میلادیوں کا کھیل کود و فضول خرچی اور نا فرمانی میں گزرنے والا والا ہر ہر لمحہ، کہاں اطاعت الہی میں کھانے پینے کی محبوب اشیاء کو تیاگنا اور کہاں اہل بدعت کا سنت رسول کی دھچیان اڑاتے ہوئے سبیلیں لگانا ؟ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم پیدائش کو منانا کسی بھی درجہ جائز ہے تو اس کے لئے وہی راستہ ہر مسلمان کو اپنانا چاہیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا اور وہ ہے ہر سوموار کا روزہ رکھنا اور رہی بات جشن وجلوس اور پرچم کشائی کی تو یہ سراسر سنت رسول کے خلاف ہے جس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب.
تحریر : عبد الخبیر بدایونی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت (رسول بنا کر بھیجا جانا) تمام مسلمانوں کے لئے باعث فخر اور نعمت الہیہ میں سے عظیم نعمت ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے " لقد من الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولا من أنفسهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة وإن كانوا من قبل لفي ضلال مبين" (آل عمران، 164) یعنی، تحقیق کہ اللہ نے مؤمنوں پر احسان کیا کہ ان کے درمیان ایک رسول انہی میں سے بھیجا، جو ان پر اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے
تحدیث نعمت کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت و پیدائش کے دن (سوموار) روزہ رکھا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی إتباع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی یہی عمل تھا البتہ سالانہ یاد گار کے طور پر نا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ناہی آپ کے تربیت یافتہ صحابہ نے کبھی بھی جشن و جلوس منایا اور نا ہی اس کی کبھی اہمیت سمجھی، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کو لیکر سن، مہینہ، تاریخ اور وقت کو لیکر ہمیشہ امت میں اختلاف رہا کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا سن عام الفیل کو قرار دیا، کسی نے دس سال پہلے کسی نے بعد کسی نے پچاس دن آگے پیچھے قرار دیا تو کسی نے کچھ اور اسی طرح مہینے کو لیکر بھی اختلاف رہا کسی نے رمضان کا مہینہ، تو کسی نے محرم الحرام تو کسی نے صفر و ربیع الاول کو آپ کی پیدائش کا مہینہ قرار دیا، اسی طرح تاریخ کا معاملہ بھی ہے رمضان محرم اور صفر کی تاریخوں کو جانیں دیں صرف ربیع الاول کی تاریخوں میں زبردست اختلاف پایا جاتا ہے کوئی پہلی، کوئی دوسری اور کوئی تیسری، آٹھ، نو، بارہ تو کوئی سترہ یا اٹھارہ بتاتا ہے اسی طرح وقت بھی کسی نے صبح کا سہانہ وقت تو کسی نے رات کا آخری پہر قرار دیا غرض یہ کہ کسی نے کچھ تو کسی نے کچھ بتایا، یہ ساری تفصیل اگر کسی کو دیکھنا ہے تو سیرت پر لکھی گئی *البدایہ لابن کثیر* یا *فقہ السیرۃ* وغیرہ کتب کا مطالعہ کریں اس پورے معاملے میں جو چیز متفق علیہ رہی وہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن اور وہ ہے سوموار، اور صرف یہی ایسی چیز ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صحیح احادیث میں بیان کیا باقی کسی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے کچھ بھی مروی نہیں ہے
اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم میلاد کو بطور جشن مناتے تو کبھی یہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ عید الفطر و عید الاضحٰی کی تاریخوں کی طرح سب عید میلاد منانے میں بھی متفق ہوتے، یاد رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت ہر وقت ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے یہ ایسا عمل نہیں جو خاص خاص موقعوں پر انجام دیا جائے کوئی بھی لمحہ اگر اطاعت و محبت رسول سے خالی ہوا نہیں کہ ایمان بندہ کا خطرے میں پڑا نہیں، اس لئے سالانہ یادگار یا جشن و جلوس، و پرچم کشائی کو محبت سے جوڑنا بالکل غلط بلکہ شریعت کی مرضی کے خلاف ہے یہ تو ان لاخیروں کی ایجاد ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت کو اپنے لئے بوجھ سمجھتے ہیں اور اس کو اپنی زندگی سے نکال چکے ہیں اور اب یہ چاہتے ہیں سالانہ یا ماہانہ یاد گار کے طور پر جشن منا لیں اور آزادی سے بد عملی میں مگن ہو جائیں یہی وجہ ہے کہ اس طرح جشن جلوس منانے والے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو روندنے والے ملینگے الا ماشاءاللہ،
اگر سالانہ جشن و جلوس اور پرچم کشائی وغیرہ ایمان یا محبت کا حصہ ہوتے تو پھر جشن وجلوس کے گزرنے کے بعد اور پرچم کے اترنے کے بعد یہ سب محبت و ایمان کے دعوے ختم ہوجانا چاہیے؟ لیکن شاید ہی ایسا کوئی بد قسمت ہوگا جو یہ عقیدہ رکھتا ہو؟
*اہل بدعت کی جانب سے سالانہ جشن و جلوس کے جواز میں پیش کی جانی والی آیات یا احادیث ہرگز ان کے باطل عقیدہ کو ثابت نہیں کرتی ہیں* مثلا سورہ آل عمران کی آیت 164 سے استدلال سراسر غلط ہے کیونکہ اس سے تو آپ کے سب سے عظیم (جیسا کہ بعض احادیث میں اس کی وضاحت ہے) نعمت ہونے کے بارے میں معلوم ہو رہا ہے جس کا مقتضی ہرگز یہ نہیں کہ سال میں یا مہینہ میں جشن و جلوس منا لیا جائے اور بس، بلکہ اس سے تو یہ معلوم ہو رہا کہ بندہ اپنے رب کی اس عظیم نعمت کے شکریہ میں سراپا اطاعت و شکر گزاری کا مجسمہ بن جائے، جبکہ میلادیوں کا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے جشن وجلوس کی آڑ میں سنن و فرائض کو چھوڑنا عام بات ہے
یا مثلاً جہنم میں ابو لہب کو ہر سوموار کو پانی دئیے جانے کی بات جو اس کے کسی خاندانی نے خواب میں دیکھا تھا، اس سے سالانہ جشن و جلوس پر استدلال بہت بڑی حماقت و جہالت ہے کیو نکہ یہ خواب کی بات ہے جبکہ یہ بھی نہیں معلوم خواب دیکھنے والا مومن ہے یا کافر پھر نبی کے علاوہ کسی کےبھی خواب سے چاہے مسلمان ہی کیوں نا ہو دلیل پکڑنا جائز و درست نہیں ہے پھر جہنم میں ابو لہب کو کوئی بھی راحت ملنا قرآن مجید کے بھی خلاف ہے اللہ جل شانہ فرماتا ہے " ما أغنى عنه ماله وما كسب" (سورہ ابی لہب، 2) یعنی ابو لہب کا مال یا جو اس نے کمایا کچھ بھی اس کے کام نہیں آیا، بات بات میں خبر واحد کو قرآن کے خلاف بتلا کر رد کرنے والی مقلد قوم یہاں ان کو اپنا اصول یاد کیوں نہیں آتا؟ یہاں تو غیر معروف (جس کے مومن یا کافر ہونا بھی نہیں معلوم) شخص کے خواب ہی سے قرآن کو رد کر رہے ہیں
یا مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر سوموار روزہ رکھنے سے جشن و جلوس پر استدلال نہایت ہی احمقانہ و جاہلانہ ہے کہاں روزہ جیسی عظیم عبادت اور کہاں جہلاء مقلدین کا کھلم کھلا سنن و فرائض کا مزاق اڑانا، کہاں ہر سوموار کو شکر گزاری میں گزرنے والا ہر ہر لمحہ اور کہاں میلادیوں کا کھیل کود و فضول خرچی اور نا فرمانی میں گزرنے والا والا ہر ہر لمحہ، کہاں اطاعت الہی میں کھانے پینے کی محبوب اشیاء کو تیاگنا اور کہاں اہل بدعت کا سنت رسول کی دھچیان اڑاتے ہوئے سبیلیں لگانا ؟ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم پیدائش کو منانا کسی بھی درجہ جائز ہے تو اس کے لئے وہی راستہ ہر مسلمان کو اپنانا چاہیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا اور وہ ہے ہر سوموار کا روزہ رکھنا اور رہی بات جشن وجلوس اور پرچم کشائی کی تو یہ سراسر سنت رسول کے خلاف ہے جس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب.