• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد النبی منانا دین نہیں!

شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
عید میلاد النبی منانا دین نہیں!

تحریر : عبد الخبیر بدایونی


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت (رسول بنا کر بھیجا جانا) تمام مسلمانوں کے لئے باعث فخر اور نعمت الہیہ میں سے عظیم نعمت ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے " لقد من الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولا من أنفسهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة وإن كانوا من قبل لفي ضلال مبين" (آل عمران، 164) یعنی، تحقیق کہ اللہ نے مؤمنوں پر احسان کیا کہ ان کے درمیان ایک رسول انہی میں سے بھیجا، جو ان پر اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے
تحدیث نعمت کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت و پیدائش کے دن (سوموار) روزہ رکھا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی إتباع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی یہی عمل تھا البتہ سالانہ یاد گار کے طور پر نا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ناہی آپ کے تربیت یافتہ صحابہ نے کبھی بھی جشن و جلوس منایا اور نا ہی اس کی کبھی اہمیت سمجھی، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کو لیکر سن، مہینہ، تاریخ اور وقت کو لیکر ہمیشہ امت میں اختلاف رہا کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا سن عام الفیل کو قرار دیا، کسی نے دس سال پہلے کسی نے بعد کسی نے پچاس دن آگے پیچھے قرار دیا تو کسی نے کچھ اور اسی طرح مہینے کو لیکر بھی اختلاف رہا کسی نے رمضان کا مہینہ، تو کسی نے محرم الحرام تو کسی نے صفر و ربیع الاول کو آپ کی پیدائش کا مہینہ قرار دیا، اسی طرح تاریخ کا معاملہ بھی ہے رمضان محرم اور صفر کی تاریخوں کو جانیں دیں صرف ربیع الاول کی تاریخوں میں زبردست اختلاف پایا جاتا ہے کوئی پہلی، کوئی دوسری اور کوئی تیسری، آٹھ، نو، بارہ تو کوئی سترہ یا اٹھارہ بتاتا ہے اسی طرح وقت بھی کسی نے صبح کا سہانہ وقت تو کسی نے رات کا آخری پہر قرار دیا غرض یہ کہ کسی نے کچھ تو کسی نے کچھ بتایا، یہ ساری تفصیل اگر کسی کو دیکھنا ہے تو سیرت پر لکھی گئی *البدایہ لابن کثیر* یا *فقہ السیرۃ* وغیرہ کتب کا مطالعہ کریں اس پورے معاملے میں جو چیز متفق علیہ رہی وہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن اور وہ ہے سوموار، اور صرف یہی ایسی چیز ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صحیح احادیث میں بیان کیا باقی کسی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے کچھ بھی مروی نہیں ہے
اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم میلاد کو بطور جشن مناتے تو کبھی یہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ عید الفطر و عید الاضحٰی کی تاریخوں کی طرح سب عید میلاد منانے میں بھی متفق ہوتے، یاد رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت ہر وقت ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے یہ ایسا عمل نہیں جو خاص خاص موقعوں پر انجام دیا جائے کوئی بھی لمحہ اگر اطاعت و محبت رسول سے خالی ہوا نہیں کہ ایمان بندہ کا خطرے میں پڑا نہیں، اس لئے سالانہ یادگار یا جشن و جلوس، و پرچم کشائی کو محبت سے جوڑنا بالکل غلط بلکہ شریعت کی مرضی کے خلاف ہے یہ تو ان لاخیروں کی ایجاد ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت کو اپنے لئے بوجھ سمجھتے ہیں اور اس کو اپنی زندگی سے نکال چکے ہیں اور اب یہ چاہتے ہیں سالانہ یا ماہانہ یاد گار کے طور پر جشن منا لیں اور آزادی سے بد عملی میں مگن ہو جائیں یہی وجہ ہے کہ اس طرح جشن جلوس منانے والے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو روندنے والے ملینگے الا ماشاءاللہ،
اگر سالانہ جشن و جلوس اور پرچم کشائی وغیرہ ایمان یا محبت کا حصہ ہوتے تو پھر جشن وجلوس کے گزرنے کے بعد اور پرچم کے اترنے کے بعد یہ سب محبت و ایمان کے دعوے ختم ہوجانا چاہیے؟ لیکن شاید ہی ایسا کوئی بد قسمت ہوگا جو یہ عقیدہ رکھتا ہو؟
*اہل بدعت کی جانب سے سالانہ جشن و جلوس کے جواز میں پیش کی جانی والی آیات یا احادیث ہرگز ان کے باطل عقیدہ کو ثابت نہیں کرتی ہیں* مثلا سورہ آل عمران کی آیت 164 سے استدلال سراسر غلط ہے کیونکہ اس سے تو آپ کے سب سے عظیم (جیسا کہ بعض احادیث میں اس کی وضاحت ہے) نعمت ہونے کے بارے میں معلوم ہو رہا ہے جس کا مقتضی ہرگز یہ نہیں کہ سال میں یا مہینہ میں جشن و جلوس منا لیا جائے اور بس، بلکہ اس سے تو یہ معلوم ہو رہا کہ بندہ اپنے رب کی اس عظیم نعمت کے شکریہ میں سراپا اطاعت و شکر گزاری کا مجسمہ بن جائے، جبکہ میلادیوں کا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے جشن وجلوس کی آڑ میں سنن و فرائض کو چھوڑنا عام بات ہے
یا مثلاً جہنم میں ابو لہب کو ہر سوموار کو پانی دئیے جانے کی بات جو اس کے کسی خاندانی نے خواب میں دیکھا تھا، اس سے سالانہ جشن و جلوس پر استدلال بہت بڑی حماقت و جہالت ہے کیو نکہ یہ خواب کی بات ہے جبکہ یہ بھی نہیں معلوم خواب دیکھنے والا مومن ہے یا کافر پھر نبی کے علاوہ کسی کےبھی خواب سے چاہے مسلمان ہی کیوں نا ہو دلیل پکڑنا جائز و درست نہیں ہے پھر جہنم میں ابو لہب کو کوئی بھی راحت ملنا قرآن مجید کے بھی خلاف ہے اللہ جل شانہ فرماتا ہے " ما أغنى عنه ماله وما كسب" (سورہ ابی لہب، 2) یعنی ابو لہب کا مال یا جو اس نے کمایا کچھ بھی اس کے کام نہیں آیا، بات بات میں خبر واحد کو قرآن کے خلاف بتلا کر رد کرنے والی مقلد قوم یہاں ان کو اپنا اصول یاد کیوں نہیں آتا؟ یہاں تو غیر معروف (جس کے مومن یا کافر ہونا بھی نہیں معلوم) شخص کے خواب ہی سے قرآن کو رد کر رہے ہیں
یا مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر سوموار روزہ رکھنے سے جشن و جلوس پر استدلال نہایت ہی احمقانہ و جاہلانہ ہے کہاں روزہ جیسی عظیم عبادت اور کہاں جہلاء مقلدین کا کھلم کھلا سنن و فرائض کا مزاق اڑانا، کہاں ہر سوموار کو شکر گزاری میں گزرنے والا ہر ہر لمحہ اور کہاں میلادیوں کا کھیل کود و فضول خرچی اور نا فرمانی میں گزرنے والا والا ہر ہر لمحہ، کہاں اطاعت الہی میں کھانے پینے کی محبوب اشیاء کو تیاگنا اور کہاں اہل بدعت کا سنت رسول کی دھچیان اڑاتے ہوئے سبیلیں لگانا ؟ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم پیدائش کو منانا کسی بھی درجہ جائز ہے تو اس کے لئے وہی راستہ ہر مسلمان کو اپنانا چاہیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا اور وہ ہے ہر سوموار کا روزہ رکھنا اور رہی بات جشن وجلوس اور پرچم کشائی کی تو یہ سراسر سنت رسول کے خلاف ہے جس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب.
 

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
48
nice sharing amazing one keep sharing thanks for all lovely one​
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
مروجہ میلاد کی شرعی حیثیت

ایک پرانی تحریر کچھ ترمیم و اضافے کے ساتھ
از : عبدالخبیر السلفی بدایوں
دین اسلام میں نئی ایجادات :اسلام ایک مکمل دین ہے، جس کی تکمیل اس وقت ہوئی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرحجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں یہ وحی نازل ہوئی ”الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا" (المائدہ: ۳) یعنی آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا تم پر اپنا انعام پورا کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا۔ اب اس میں کسی قسم کی کمی و زیادتی جائز نہیں اگرچہ اس میں حسن نیت اور بھلائی کا ارادہ ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ”من احدث فی امرنا ھذا ما لیس علیہ امرنا فھو رد“ (متفق علیہ) مسلم شریف کی ایک روایت میں یہ الفاظ منقول ہیں ”من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد“ یعنی جس شخص نے دین میں کوئی بدعت ایجاد کی یا جس کسی نے کسی نئے کام کو انجام دیا جس کا تعلق دین سے نہیں تو وہ مردود ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ چند اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس آئے تاکہ آپ کی عبادت کے بارے میں دریافت کریں، جب ان لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے اس کو کم جانا اور کہا کہ کہاں ہم اور کہاں نبی ﷺ؟آپ تو بخشے بخشائے ہیں، اس لئے ان میں سے ایک نے کہا کہ میں رات بھر نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا کی میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، اور افطار نہیں کروں گا تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ تھلگ رہوں گا اور کبھی بھی شادی نہیں کروں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ باتیں معلوم ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ایسا ایسا کہا ہے؟ سن لو! اللہ کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور میں نے شادی بھی کر رکھی ہے، سن لو! ”فمن رغب عن سنتی فلیس منی“ جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔ (متفق علیہ) ان احادیث سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اپنے طور پر کسی چیز کو اچھا جان کر کرنے لگ جانا جب کہ صاحب شریعت سے اس بارے میں کوئی اجازت منقول نہ ہو محمود نہیں بلکہ مردود ہے، نماز و روزہ جیسی عبادات بھی اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف ہوں تو شریعت میں ان کا بھی کوئی اعتبار نہیں بلکہ ایسے شخص سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بری ہیں۔
اتنی سخت وعید کے باوجود امت کا ایک فرقہ جو بزعم خویش اپنے آپ کو اہل سنت بھی کہتا ہے بدعات و خرافات کو اپنا مشغلہ بنائے ہوئے ہے اور جو اس کی ان بدعات کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ نبی ﷺکے فرمان کے مطابق ان کو برا کہتا ہے تو ان کو یہ فرقہ اسلام سے خارج، کافر، وہابی اور نجدی وغیرہ کے الفاظ سے پکارتا ہے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کی ان بدعات سے بری ہیں، جیسا کی احادیث سے معلوم ہوا۔ دیگر مہینوں کی طرح ماہ ربیع الاول میں بھی اس فرقہ نے بدعات ایجاد کر رکھی ہیں،خاص طور سے ۱۲ /ربیع الاول کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے نام پر انواع و اقسام کی بدعات انجام دی جاتی ہیں، جن میں سے بعض کفر و شرک تک پہنچانے کا باعث ہیں۔ جشن و جلوس، سبیلیں لگانا، رنگ برنگ کے کاغذوں کی جھنڈیاں بنا کر جلوس نکالنا، موضوعات و ضعاف کا سہارا لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں بے جا غلو کرنا جو کہ شریعت میں ممنوع ہے۔ اسی طرح سے یہ عقیدہ رکھنا کہ نبی ﷺ جشن و جلوس کی ان محفلوں میں حاضر ہوتے ہیں، آپ ﷺ کی تعظیم میں کھڑے ہو جانا وغیرہ وغیرہ۔ یہ چند وہ بدعات ہیں جو اس ماہ میں انجام دی جاتی ہیں۔ علماء سو ان کو ثابت کرنے کے لئے اور عوام سے داد و تحسین حاصل کرنے کے لئے نصوص کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کا کوئی بھی ثبوت موجود نہیں ہے۔
اس وقت ہمارے سامنے ایک پمفلیٹ ہے جس کا عنوان ہے ”عید میلاد کا ثبوت قرآن عظیم سے“ اس کے لکھنے والے کوئی ابو طاہر محمد طیب صدیقی دانا پوری ہیں، جو محمد عبد الرشید قادری پیلی بھیتی کے اہتمام سے شائع ہوا ہے۔ اس پورے پمفلیٹ میں علامہ صاحب نے قرآن مجید کی آیات کو توڑ مروڑ کر اپنے مطلب کے لئے پیش کیا ہے، اس کا جواب دینے سے قبل ہم محفل میلاد کی تاریخ پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
محفلِ میلاد کا موجد

تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کی بعثت سے لے کر ساتویں صدی ہجری کی ابتداء تک محفل میلاد کے منعقد کرنے کا رواج نہیں تھا ”خیر القرون مشھود لھا بالجنۃ“ اس بدعت سے یکسر خالی ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین عظام، تبع تابعین اور ائمہ کرام کا زمانہ اس بدعت سے نا آشنا تھا۔ سب سے پہلے جس نے اس بدعت کو رواج دیا وہ فاطمی خلفاء تھے، جنہوں نے کرسمس کی نقل میں ”عید میلاد“ کو منایا۔ سب سے پہلا شخص جس نے اس کا باقاعدہ اہتمام کیا ملک مظفر ہے جو عراق کے شہر ’موصل‘ کے علاقہ ’اربل‘ کا حکمراں تھا اس کا پورا نام ابو سعید زید بن علی تھا، اور لقب ملک المعظم مظفر الدین تھا، یہ شخص مسلکا شیعہ تھا۔ ابو الخطاب عمر بن دحیہ نے میلاد کے جواز میں ایک کتاب ”التنویر فی مولد البشیر و النذیر“ لکھ کر ابو سعید کی خدمت میں پیش کی، جس سے خوش ہو کر ابوسعید نے ابن دحیہ کو ایک ہزار دینار انعام میں دیئے، یہ وہی ابن دحیہ ہے جس کے بارے میں علماء حدیث نے کہا ہے کہ یہ کذاب، ساقط الاعتبار، غیر صحیح النسب بے تکی اور اٹکل پچو باتیں کرنے والا تھا، (البدایہ والنہایہ :13/160،لسان المیزان :297-4/296) تعجب ہے کہ جو بدعت کئی صدی بعد ایجاد کی گئی اور جس کے موجد شیعہ اور کذاب و مکار لوگ ہوں وہ دین کا حصہ قرار دے دی گئی اور جو اس میں حصہ نہ لے اس کو برے بھلے القاب سے نوازا جاتا ہے! فالی اللہ نشتکی وھو المستعان!
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
مجوزین میلاد کے مزعومہ دلائل اور ان کا پوسٹ مارٹم

پہلی دلیل :اللہ تعالی فرماتا ہے ”لقد من الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولاً من أنفسهم“ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو مؤمنین پر ایک احسان بتلایا گیا ہے، نبی کی بعثت نعمت جلیلہ ہے، نعمت کا چرچا کرنا واجب ہے جیسا کہ سورہ الضحی کی آیت نمبر:11اور سورہ الاعراف آیت نمبر 49 سے معلوم ہوتا ہے۔ ملخصا۔
جواب : بیشک نبیﷺ کی بعثت عظیم نعمت ہے، اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہو سکتی، اسی طرح یہ بھی مسلم ہے کہ نعمت کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے؛ لیکن تحدیث نعمت کے لئے مجلسیں منعقد کرنا اہتمام کرنا امر زائد ہے جو ثبوت کا تقاضہ کرتا ہے۔نبی ﷺ کی زندگی میں ۱۲/ربیع الاول ۶۰ سے زائد بار آتا ہے، لیکن کبھی بھی آپ ﷺ نے اس نعمت کے شکریہ میں محفلیں منعقد کیں؟ نبی ﷺ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کا اہتمام کیا؟ اگر نعمتوں کے شکریہ میں اس طرح کی محفلوں کی اجازت دے دی جائے، تو شاید ہی کوئی دن، مہینہ یا سال ہوگا جس میں اس طرح کی محفلیں منعقد نہ کی جائیں؟ کیوں کہ اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں، ارشاد باری تعالی ہے ”إن تعدوا نعمة الله لا تحصوها“ (النحل: 18) صرف سورہ رحمن میں تقریبا ۳۱ نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ہر نعمت کے آخر میں بطور احسان کہا گیا ہے ”فبأي آلاء ربكما تكذبان“ یعنی اے جن و انس! تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
دوسری دلیل: محفل میلاد میں روشنی و چراغاں وغیرہ کرنا یہ سب امور زینت ہیں، اور زینت کے سلسلہ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ”قل من حرم زينة الله التى اخرج لعباده“ (الاعراف: 32) یعنی اے نبی ﷺ کہہ دیجئے کون ہے؟ اللہ کی اس زینت کو حرام کرنے والا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے نکالی ہے۔
جواب : یہ آیت کریمہ مشرکین کے تعلق سے نازل ہوئی ہے جو خانہ کعبہ کا ننگے طواف کرتے تھے، کپڑے جو کہ زینت کے لئے ہوتے ہیں مشرکین نے ان کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا، آیت میں ان کی اس روش پر تنبیہ کی گئی ہے، اس کا محفل میلاد میں کی جانے والی فضول خرچی سے کوئی تعلق نہیں؛ اگر یہ سب امور زینت میں ہوتے تو خود نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کو سب سے پہلے کرتے۔ واضح رہے کہ چراغاں وغیرہ کرنا یہ غیر مسلموں کی دین ہے جیسا کہ ہنود و مجوس اپنی عبادت کے وقت خاص طور سے اس کا اہتمام کرتے ہیں، اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اس سے محفوظ رکھے!آمین!
لطیفہ : اہل بدعت کے سامنے جب قرآن مجید کی وہ آیات جن میں شرک اور غلوفی الصالحین کی مذمت ہے پیش کی جاتی ہیں جن سے ان کی قبر پرستی پر ضرب پڑتی ہے تو بڑی ڈھٹائی سے ان کا یہ جواب ہوتا ہے کہ یہ آیات مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے وہ احادیث جو خوارج سے متعلق ہیں ان کو اہل توحید پر فٹ کرتے ہیں لیکن جب اپنی باری آئی تو سب بھول گئے، اب خوارج سے متعلق احادیث یاد نہیں رہیں؟ اسی کو کہتے ہیں میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو!
تیسری دلیل: حدیث شریف سے چند آدمیوں کا آواز ملا کر نعت شریف پڑھنا اور نبی ﷺ کا اس کو سن کر دعا دینا ثابت ہے۔
جواب : خوشی کے موقع پر سادہ انداز میں نعت گوئی کرنا معیوب نہیں، جب کہ یہ نعت گوئی شریعت کے مطابق ہو اور شرکیہ الفاظ استعمال نہ کئے گئے ہوں جیسا کہ ایک بار چند لڑکیاں شہدائے بدر کا تذکرہ کر رہی تھیں، اسی درمیان انہوں نے نبی ﷺ کے لئے غلو آمیز کلمات کہے اور کہا کہ ہم میں ایک نبی ﷺ ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں، اللہ کے نبی ﷺ نے ان کو تنبیہ کی اور فرمایا کہ وہی کہو جو اس سے پہلے کہہ رہی تھیں۔ موجودہ زمانہ کی نعت گوئی کو جس میں غلو،شر ک کی آمیزش ہوتی ہے نبی ﷺ کے زمانہ کی نعت گوئی پر قیاس کرنا نری دھاندلی ہے۔
چوتھی دلیل : نبی ﷺ کی عزت و توقیر کاحکم دیا گیا ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ”وتعزروه و توقروه“ (الفتح: 9)
جواب : نبی کریم ﷺکی عزت و توقیر ہر مسلمان پر فرض و واجب ہے۔ اس کے بغیر کسی کا بھی ایمان مکمل نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجودہ نام نہاد مسلمانوں سے کہیں زیادہ نبی ﷺ کی عزت و توقیر کرتے تھے، لیکن انہوں نے کبھی آپ ﷺ کی عزت و توقیر میں اس طرح کی مجلسیں منعقد نہیں کیں۔ جو طریقہ صحابہ کرام کے زمانہ میں عزت و توقیر کا باعث نہ تھا، وہ آج بھی عزت و توقیر نہیں ہو سکتا، البتہ بدعت ہونے کے سبب باعث ذلت ضرور ہوگا۔
پانچویں دلیل : اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”قل بفضل الله و برحمته فليفرحوا هو خير مما يجمعون“ (یونس: 58) یعنی اے نبی ﷺ آپ فرما دیں کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر مسلمانوں کو خوش ہونا چاہئے یہ ان کے لئے اس سے بہتر ہے جو یہ جمع کرتے ہیں.
جواب : خوشی اس کیفیت کا نام ہے جو کسی نعمت کے حصول کے وقت ہوتی ہے، اس کا میلاد میں کی جانے والی غلط رسوم سے کوئی تعلق نہیں، صحابہ کرام نے کبھی بھی اس آیت سے وہ مفہوم نہیں سمجھا جو آج کل یہ مولوی سمجھا رہے ہیں۔ اگر اس کا تعلق میلاد سے ہوتا تو صحابہ کرام ضرور محفل میلاد منعقد کرتے کیوں کہ صحابہ خیر میں ہم سے زیادہ سبقت کرنے والے تھے۔
چھٹی دلیل: اللہ کا فرمان ہے ”و ذكرهم بأيام الله “ (ابراھیم: 5) یعنی اے موسیٰ تم اپنی امت کو اللہ کے دن یاد دلاؤ۔
جواب : ”أيام الله“ سے مراد اللہ تعالی کے وہ احسانات ہیں جو اللہ تعالی نے کئی بار بنی اسرائیل پر کئے تھے۔ جب بنی اسرائیل نے اللہ تعالی کے ان احسانات کو بھلا دیا تو حضرت موسی علیہ السلام سے کہا جا رہا ہے کہ ان کو ہمارے احسانات یاد دلاؤ۔ بھلا اس آیت کا مروجہ میلاد سے کیا تعلق؟ رہی بات تحدیث نعمت کی تو اس کا جواب پہلی دلیل کے ضمن میں آ چکا ہے۔فلله الحمد!
ساتویں دلیل: اللہ تعالی کا فرمان ہے "قال عيسي إبن مريم اللهم ربنا أنزل علينا مائدة من السماء تكون لنا عيداً لاولنا ولآخرنا" (المائدة :114) یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا اے ہمارے رب!ہمارے لئے آسمان سے خوان نازل فرما تاکہ وہ ہمارے اول و آخر کے لئے عید ہو۔ جب خوان اترنے کا دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی امت کے لئے عید ہو سکتا ہے تو بھلا نبی ﷺ کی پیدائش کا دن مسلمانوں کے لئے عید کیوں نہیں ہو سکتا؟
جواب : پہلی بات تو یہ کہ اسلامی شریعتوں میں عید کا مطلب ہے کہ اس دن اللہ تعالی کا شکر ادا کیا جائے اور اس کی تکبیر و تحمید بیان کی جائے۔ اس کا تعلق میلاد کے موقع پر کئے جانے والے جشن و جلوس و چراغاں سے قطعا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ یہ ہماری شریعت سے پہلے کی بات ہے، اگر اس کو باقی رکھنا ہوتا تو اس کی وضاحت کر دی جاتی۔ تیسری بات یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت نزول مائدہ سے کہیں بڑھ کر تھی، تو جس طرح حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت پر جشن منانا اللہ کی مرضی کے خلاف ہے، اسی طرح سے نبی ﷺ کی ولادت پر جشن منانا بھی رضائے الہی کے خلاف ہے۔
یہ چند دلائل تھے جنہیں مجوزین میلاد پیش کرتے ہیں۔ رہی بات مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرنے کی تو یہ سب اچھی صفات ہیں ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرے اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرے، لیکن اس کے لئے بدعات کا سہارا لینا جائز نہیں جیسا کہ اس کی وضاحت گذر چکی ہے، اسی طرح نبی ﷺ کا جب نام آئے تو درود پڑھنا بھی ضروری ہے۔ الحمد للہ! اہل حدیث اس پر عامل ہیں، البتہ انگوٹھے چومنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اور حجر اسود کے بوسا لینے کو اس پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے، کیوں کہ حجر اسود کو بوسا دینا سنت و مطلوب ہے،جب کہ انگوٹھے چومنا بدعت اور مردود ہے۔ اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو بدعات سے بچائے آمین! فللہ الحمد، وصلى الله على النبى و سلم
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
یہ مجرمانہ خاموشی کب تک

از : رضاء اللہ عبد الكريم المدنی حفظہ اللہ

غلو عقیدت، بہت پرانی،موذی اور بے حد ضدی بیماری ہے، اس بیماری کے جراثیم مسلسل جہالت بھری زندگی، اندھ وشواس اور خیالی تک بندیوں سے پنپتے اور پروان چڑھتے ہیں اور کوئی چراغ ہدایت جلائے تو بعض سعید ونیک بخت روحیں تو بے شک اس بیماری سے شفایاب ہوجاتی ہیں مگر اکثریت باپ دادا اور اکثریت کی روش کو دلیل بناکر مزید اندھ وشواس میں مبتلا ہوجاتی اور ایمان ویقین کی راہ دکھانے والے کی دشمن بن جاتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام وہ پہلے نبی ہیں جو اس بیماری میں مبتلا قوم کی طرف نبی ورسول بناکر بھیجے گئے، آپ نے کمال خلوص، ہمدردی، خیرخواہی، نرم مزاجی اور مسلسل جدوجہد سے اپنی قوم کو ایک لمبی مدت تک اس بیماری سے نکال کرایمان ویقین سے وابستہ کرنے کی کوشش کی، لیکن کئی صدیاں گذرجانے کے بعد بھی قوم میں ایمانی کیفیت پیدانہیں ہوئی تو اللہ کے اس صابر وحلیم نبی نے آخر دربار الٰہی میں درخواست کی کہ اے اللہ! میں نے اپنی قوم کو ایمان ویقین کی طرف بلانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، قوم جس بیماری میں مبتلا ہے،اس سے شفایاب ہونے کی امید باقی نہیں رہی، اگر ان کا ایک فرد بھی باقی بچا تویہ بیماری یونہی باقی رہے گی اور آئندہ آنے والی نسلیں بھی متعصب، جاہل اور اندھ وشواسی ہی پیداہوں گی۔ سوائے اس کے کہ ان کی پوری نسل کو ہی ختم کردیا جائے اور کوئی علاج ممکن نہیں، اس نبی کی شب وروز کی تگ ودو اور اخلاص بھری کوششوں کا نتیجہ چوں کہ اس کی بات کو سچ ثابت کررہا تھا اور جس قدر مدت اصلاح پزیرہونے کے لیے اس قوم کو دی گئی تھی، اتنی مدت کسی اور قوم کو نہیں دی گئی،پھر بھی ان کا اصلاح پزیر نہ ہونا حضرت نوح کی دعا اور ان کے نکالے ہوئے نتیجہ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کافی تھا، اللہ تعالیٰ نے پوری قوم کو ایک طوفان عظیم کے ذریعہ ہلاک وبرباد کردیا۔
مدتوں غلوعقیدت کی اس بیماری سے نسل انسانی محفوظ رہی، لیکن شیطان جو ہمارا ازلی دشمن ہے اس نے پھر ہمیں باربار اس موذی مرض کا شکار بنایا اور انبیائے کرام کی دعوتی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے اس کو بطور ہتھیار اپنایا۔
سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ ﷺ جب اس دنیا میں ہادی ومرشد بن کر آئے اور انہوں نے اپنی دعوتی سرگرمیوں کا آغاز کیا توکسی اور نسخہ سے نہیں شیطان نے اسی پرانے نسخے سے آپ کی دعوت کو ناکام بنانے کا کام کیا۔ باپ دادا کی محبت، معبودان باطلہ کی عظمت وعقیدت کو بنیاد بناکر ہی وہ آپ سے برسرپیکار تھے اور ان کے پاس سوائے اس کے کہ یہ معبود ہمارے بڑی عظمتوں والے اور بڑے چمتکاری ہیں، فلاں موقعہ پر یہ کیا، فلاں واقعہ میں انہوں نے یہ کیا، ہمارے آباء واجداد اسی بنیاد پر ان سے حاجت روائی مشکل کشائی کرتے تھے ہم ان کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کو خالق ارض وسماء، مارنے، جلانے والا، بارش برسانے والا ماننے کے باوجود وہ اپنے ان بزرگوں کو، جن کو ان کے آباء واجداد حاجت روا، مشکل کشا مانتے تھے، مانتے رہے اور فتح مکہ تک یونہی اپنی عادتوں، عقیدتوں اور ہٹ دھرمیوں پر ڈٹے رہے۔
آپ ﷺ نے اپنی پاکیزہ تعلیمات کے ذریعہ ان کھوکھلی اور بے سود، بے حقیقت عقیدت مندیوں کو پاش پاش کردیا، لیکن شیطان نچلانہ بیٹھا اس نے خود رحمۃ للعالمین اولیائے امت فضلائے ملت کے متعلق غلوعقیدت کی اس پرانی بیماری کو قوم مسلم کے رگ وریشہ میں پیوسط کردیا۔
اطاعت رسول جو اصل عظمت رسول کا عنوان ہے اس کو اپنی زندگیوں سے نکال کر صرف سوکھی نعرے بازی، دھوم دھڑکا، جھانکیاں، آتش بازیاں، راگ رنگ اور باجے گاجے سے لے کر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ڈانس بھنگڑا یہ سب وہ کرتوت ہیں جن کو دیکھ ایک ایمان والا شرم سے پانی پانی ہوجائے۔
مگر افسوس! ان تمام کا رہائے معصیت کو وہ لوگ اپنی شرکت، رضامندی اور اندھی عقیدت میں اپنی سرپرستی میں کروارہے ہیں،جن کو حقیقی عظمت رسول کا وارث اور معاصی ومنہیات کا منع کرنے والا ہونا چاہیے تھا، سوشل میڈیا کے سبب ہندوپاک میں ولادت رسول کے عنوان سے جو کچھ جاہل مسلمان کررہے ہیں، یہ سب منہیات شرعیہ ومکروہات اسلامیہ، جن حضرات کی سرپرستی میں انجام دیئے جارہے ہیں، ان میں ایک طبقہ تو وہ ہے جو اصحاب جبہ دستار کہلاتا ہے۔ اس موقع پر جمع ہونے والی بھیڑکو یہ حضرات کاروبار پیری مریدی سے جوڑ کر ارباب اقتدار کو یہ یقین دلانے کے لیے کرتے ہیں کہ ہمارے پیچھے اتنے مرید ہیں، حکومت یا کسی اورکو مسلمانوں کاووٹ چاہیے تو ہم سے بات کرے۔ اسی طرح دوسرا طبقہ وہ ہے جو یا تو مسلمانوں کے ووٹ کے بل پر سَتہّ کی ملائی کے مزے لوٹ رہاہے یاسیاست نے اس کو کنارے لگادیا ہے اور اس کے پاس حکمراں طبقہ کو اپنی طاقت اور اپنے پیچھے ووٹ پاور دکھانے کے لیے کوئی اور ذریعہ میسر نہیں۔
عیدمیلاد النبی یا جشن عیدمیلاد، یااسی سے ملتے جلتے ناموں سے ہونے والے یہ سارے ہنگامے ہمارے سامنے وجود پزیر ہوئے ہیں، ان ہنگاموں سے قبل جلوس محرم یا چہلم پر یہ سب کچھ کیا جاتاتھا اور مظلومِ کربلا کی دردناک شہادت کو ڈھول وباجے گاجے سے گلی کوچوں میں ان کے مزارات کی شبیہ گھمائی جاتی تھی۔علمائے اہل حدیث وسنت ایک زمانہ تک عوام کو ان کے پیشوا کے فتوے ان تعزیوں کی حرمت میں دکھاتے رہے اور پوچھتے رہے کہ آخر تم کس کے پیرو ہو؟علمائے حق اہل حدیث ودیوبندتو اس کو ناجائز بتاتے اور اس کو حرام قرار دیتے ہیں، علمائے بریلی بھی اس کو ناجائز، حرام اور احترام اولیاء واحترام اہل بیت کے خلاف قراردیتے ہیں، توآپ لوگ کس کے کہنے سے یہ سب کررہے ہیں؟ تقریبا پچاس سال کی یہ کوششیں رنگ لائیں اور خود علمائے بریلی نے اپنی مجالس ومواعظ میں ان رسومات کو غلط کہنا شروع کیا۔ اور اس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور تعزیہ داری کی رسومات پر کافی بندش لگ گئی، لیکن غلو عقیدت ایسی موذی بیماری ہے کہ اگر کسی سبب ایک بد رسم بند ہونے لگے تو بہت جلد دوسری رسم نکلوالیتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ نام احترام اولیاء کا نہ ہو کراحترام رسول کا رکھ لیا جائے۔


اندھی عقیدت کبھی یہ نہیں سوچنے دیتی کہ جو کام رسول نے اپنی ۳۶/سالہ زندگی میں نا کیا ابوبکر نے اپنی زندگی میں اور عمر فاروق نے اپنی زندگی میں اس کا نام تک نا سنا ہو، عثمان غنی، علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم اجمعین نے جس کی ضرورت محسوس نا کی ہو، ائمہ اربعہ نے اپنی کتابوں میں یاان کے شاگردوں نے اپنی اپنی کتابوں میں نااس کا ذکر کیا ہو، نا اس کا باب قائم کیا ہو،نا اس کے آداب قلم بند فرمائے ہوں، وہ کام چودھویں صدی میں اس قدر ضروری کیوں کر ہوگیا؟
احترام رسول کے نام پر لڑکوں لڑکیوں کے ڈانس، ڈھول ڈھماکے اور بھنگڑے اگر دین ہیں یا دین کا حصہ ہیں یا کارثواب ہیں تو ذرایہ بھی بتایا جائے کہ یہ دین کون ساہے، اور کس کاہے؟ دین محمدتو نہیں ہوسکتا۔ عہد رسول، عہد تابعین، تبع تابع عہد خلفائے راشدین، امامان دین ومجتہدین میں جس کا کوئی وجود نہ ہو، جس کا ذکر تابعین تبع تابعین امامان دین نے اپنی کتابوں میں نا کیا ہو، محدثین نے کسی کتاب میں ایک لفظ اس کے متعلق نا لکھا ہو،اس کو اس قدر ضروری اور کار دین بنالینا اور علماء کا اس پر چپ سادھ لینا کیا مجرمانہ خاموشی نہیں ہے؟ کیا انکار منکر، ردباطل اور دین کی حفاظت علماء کا کام نہیں ہے،کیا علماء نما جہلاء ان معاصی کو احترام رسول کے نام پر کرواکر امت کو اندھی عقیدت کے جام پلاکر ان کو حقیقی محبت رسول عظمت رسول، احترام رسول سے دور نہیں کررہے ہیں؟؟
ضرورت ہے علماء کرام اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور امت کی صحیح رہنمائی فرمائیں۔ وماعلینا الا البلاغ۔
رہے نام اللہ کا!
 
Top