آج کا مسلمان ہدایت یافتہ اس لیے نہیں کہ وہ ” عید میلاد النبیﷺ“ کا جشن نہیں مناتا بلکہ اس لیے ہے کہ اس نے قرآنی معیار کو پسِ پشت ڈال کر اپنے جی سے ایک نیا معیار”عشق ِ رسولﷺ“ کے نام پہ گھڑ کے اسلام کے اندرگھسانے کی سعی کی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے مسلمان کی ہدایت کے لیے ایک ہی معیار بتایا ہے کہ:-
وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُواۚ
اُس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پاؤ گے۔
قرآن، سورۃ النور، آیت نمبر 54
”عاشقانِ رسولﷺ“ نے اطاعتِ رسولﷺپر زور دینے کی بجائےایک عمل بلا دلیل پر زور دینا شروع کر دیا اور طبقۂ خاص یہ راز جاننے سے قاصر ہے کہ رسول اللہ ﷺسے مسلمانوں کے لگاؤ میں کمی کا سبب میلادِ مصطفیٰﷺ کا جشن نہ منانے پر نہیں بلکہ اطاعتِ رسولﷺسے انحراف پر مبنی ہے۔
اگر عید میلاد النبیﷺ کا جشن منانا شرعی عمل ہوتا تو رسول اللہ ﷺاسکو ضرور مناتے،منانے کی تلقین کرتے اور اسکو منانے کی روایات تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہوتیں اوراس کا دن بھی عید الفطر و الضحیٰ کی طرح متعین ہوتا ”باطل اجتہاد وقیاس“سے اسکا جواز نہ تراشا جاتا۔اس سے زیادہ حیرت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تاریخِ پیدائش میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ اور اس اختلاف کا فیصلہ ”قیاس“ کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے جو یقیناً خطاء سے مبرا نہیں۔ اگرنبیﷺ اور صحابہ کرامؓ عیدمیلادالنبیﷺبا قاعدگی سے مناتے تو اس دن کے تعین میں اختلاف چہ معنی دارد ؟
اگر ”عاشقانِ رسولﷺ“ قرآن وسُنت میں مذکور اعمال کی طرف لوگوں کو توجہ دلاتے اور اسی پر اکتفاء کرتےتو لوگوں کی اصلاح کےلیے کافی تھااس طرح کرنے سےاغیار کی مسلمانوں کے خلاف ”سازش“ اپنی موت آپ مر جاتی اور ہمیں اسلام میں مزید کسی ”عید“ کا اضافہ نہ کرنا پڑتا۔
مگر طبقۂ خاص کو یہ اضافہ شائد اس لیے کرنا پڑا کہ ان کی نظر میں قرآن و سُنت کے بیان کردہ اعمال میں کوئی جاذبیت نہیں اس لیے انہوں نے سوچا کہ”عشقِ رسولﷺ“ کے نام پہ عید میلاد النبیﷺ کے دن برقی قمقموں کی جاذبیت سے لاعلم و کم علم عوام و خواص کو اسلام کی طرف راغب کر کے اغیار کی ”سازشوں“ کا قلع قمع کیا جائے۔
ہمارے لیے فقط یہی دلیل کافی ہے کہ قرآن و سُنت اور خیر والقرون میں اس غیر شرعی فعل کا کوئی ثبوت نہیں ۔
معلوم پڑتا ہے کہ طبقۂ خاص نے قرآن و سُنت سے بے نیاز ہو کر عید میلاد النبیﷺکے جواز کو تراشنے کےلیےمحض ”عقلی تدبر“ سے کام لیا ہے اس لیےجب لوگ قرآن مجید سے ہدایت لینے کی بجائے الٹا اسے ہدایت دینے بیٹھ جاتے ہیں تواسی طرح کی رکیک اور دور دراز تاویلات کا سہارا لینا ایک ناگزیر مجبوری بن جاتی ہے جس سے چھٹکارا پانا قریب قریب ناممکن ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے جو ”سورۃ آل ِعمران“ کی آیات سے بھی بالکل غلط استدلال کیا گیا ہے کیونکہ اس میں عیدمیلاد النبیﷺ کا نہیں بلکہ پیغمبروں سےنبیﷺکی نبوت و رسالت اور انکی اس سلسلے میں مدد کرنے کا اقرار لیا گیا ہےجسکا تذکرہ مندرجہ ذیل سورۃ الاحزاب کی آیات میں بھی آیا ہےاور یہ میثاق کس چیز کا لیا گیا تھا اسکا تذکرہ سورۃ آلِ عمران کی آیات میں کر دیا گیا یعنی
” لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ “
آیا ت ملاحظہ فرمائیں:-
وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۖ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا ﴿٧﴾ لِّيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ ۚ وَأَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٨﴾
اور (اے نبیﷺ) یاد رکھو اُس عہد و پیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے، تم سے بھی اور نوحؑ اور ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم سے بھی سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں تاکہ سچے لوگوں سے (ان کا رب) ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے، اور کافروں کے لیے تو اس نے درد ناک عذاب مہیا کر ہی رکھا ہے۔
قرآن ، سورۃ الاحزاب، آیت نمبر08-07
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُۚقَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ ﴿٨١﴾ فَمَن تَوَلَّىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٨٢﴾
یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ، "آج ہم نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اُسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی" یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا، "کیا تم اِس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟" اُنہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اللہ نے فرمایا، "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے"۔
قرآن ، سورۃ آلِ عمران، آیت نمبر82-81
اگراس میثاق سے ”عید میلادالنبیﷺ“ کا ثبوت مل سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہےکہ مندرجہ ذیل آیت کی روشنی میں بنی اسرائیل کےبارہ نقباء کا میلاد منانے کا جواز ثابت نہ ہو۔
وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴿المائدة: ١٢﴾
اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ "میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں تم سے زائل کر دوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، مگراس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو در حقیقت اُس نے سوا٫ السبیل گم کر دی"۔
قرآن، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 12
یہ حقیقت بھی نظروں سے ہرگز اوجھل نہ ہونے پائے کہ جب ایک چیز کی بنیاد غلط ہوتو اس پر بنائی جانے والی ہر عمارت بھی غلط ہی ہو گی طبقۂ خاص نے جس طرح قرآن مجید کی آیات سے غلط استدلال کرنے میں ٹھوکر کھائی ہے بالکل اسی طرح انکااحادیث کے فہم میں ٹھوکر کھانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں جس روایت سے انہوں نے عید میلاد النبیﷺ کے جشن کا ثبوت فراہم کیا ہےاسکی حقیقت بھی ملاحظہ فرمالیں۔
عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَائَ نَاسٌ مِنْ الْأَعْرَابِ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ الصُّوفُ فَرَأَی سُوئَ حَالِهِمْ قَدْ أَصَابَتْهُمْ حَاجَةٌ فَحَثَّ النَّاسَ عَلَی الصَّدَقَةِ فَأَبْطَئُوا عَنْهُ حَتَّی رُئِيَ ذَلِکَ فِي وَجْهِهِ قَالَ ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ جَائَ بِصُرَّةٍ مِنْ وَرِقٍ ثُمَّ جَائَ آخَرُ ثُمَّ تَتَابَعُوا حَتَّی عُرِفَ السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئٌ
حضرت جریر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ دیہاتی آدمی اونی کپڑے پہنے ہوئے حاضر ہوئے آپ نے ان کی بدحالی دیکھ کر ان کی حاجت و ضرورت کا اندازہ لگا لیا آپ ﷺنے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی پس لوگوں نے صدقہ میں کچھ دیر کی تو آپ ﷺکے چہرہ اقدس پر کچھ ناراضگی کے آثار نموادر ہوئے پھر انصار میں سے ایک آدمی دراہم کی تھیلی لے کر حاضر ہوا پھر دوسرا آیا پھر صحابہ نے متواتر اتباع شروع کر دی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺکے چہرہ اقدس پر خوشی کے آثار ظاہر ہونے لگے رسول اللہﷺنے فرمایا جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اس عمل کرنے والے کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں سے کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس آدمی نے اسلام میں کوئی برا طریقہ رائج کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس پر اس عمل کرنے والے کے گناہ کے برابر گناہ لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔
صحیح مسلم ، جلد سوم، حدیث نمبر2299
اس روایت کواگر سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے تواس سے بھی عید میلاد النبیﷺکاجواز قطعاً ثابت نہیں ہوتا کیونکہ صدقہ کرنے کا حکم قرآن مجید میں موجود ہے اور اس روایت میں کوئی نیا طریقہ بیان نہیں ہوا بلکہ یہ قرآن مجید کے حکم پر مبنی ایک عمل ہے جبکہ قرآن و سُنت میں عید میلاد النبیﷺکا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
سن کا معنی:ـ
ایک راستہ پر چلنا۔ ایک طریق قائم کرنا
اس معنی کو ذہن میں رکھ کر روایت پر غور کریں۔
سنسے ابدع کا معنی لینا صحیح نہیں ہےکیونکہ یہاں سنۃطریقہ یاراستہ کے معنی میں مستعمل ہے لہذا یہاں سنۃ حسنۃکا مطلب اچھا طریقہ اور سنۃ سیئۃکا مطلب بُرا طریقہ قائم کرنا ہے۔مزید برآں جس طرح سنت ہمیشہحسنہ ہی ہوتی ہے سیئۃنہیں ہوتی بالکل اُسی طرح بدعت سیئۃہی ہوتی ہے حسنہ کبھی نہیں ہوتی۔ اگر یہاں پرسن سے مراد ابدعمراد ہوتا تو لفظ سنکی بجائے ابدع استعمال ہوتا جو کہ نہیں ہوا۔
سنت معلوم و معروف چیز ہوتی ہے جبکہ بدعت نئی چیز ہوتی ہے کیونکہ شرع میں اسکی کوئی مثال یا دلیل نہیں ہوتی۔اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس روایت میں صدقہ کرنے کی ترغیب دینے کو سنۃ حسنۃقرار دیا گیا ہے جسکا حکم قرآن مجید میں موجود ہے۔اب بتائیں کہ یہاں کون سی بدعتِ حسنہ کا تصور اُبھر رہا ہے۔
اگر ا س چیز کا کوئی ثبوت ہمیں قرآن و سنت اور صحابہ کرام کےطرزِ عمل سے ملتا تو اس عید کا دن بھی بالکل اسی طرح مقرر اور طے شدہ ہوتا جس طرح عید الفطر و الضحٰی کا ہے۔ طبقۂ خاص نے ابھی تک سوائے نہایت کمزور قیاس و اجتہاد کے کوئی مسلمہ ثبوت فراہم نہیں کیااور ہم سب جانتے ہیں کہ قیاس و اجتہاد میں خطاء کا عنصر موجود ہوتا ہے اسی لیے وہ دین نہیں بن سکتے ۔ (معذرت کے ساتھ )طبقہء خاص کی یہ بہت پرانی عادت رہی ہے کہ وہ ہمیشہ سوئی کے ناکے سے اونٹ گزارنے کی کوشش کرتے ہیں جو ناممکن ہے۔
لہذابراہِ کرم جس طرح قرآن مجید میں نماز ،زکوٰۃ، روزہ،حج اور دیگر احکامات واضح طریق پر بیان ہوئے ہیں اسی طرح عید میلاد النبیﷺکا جشن منانے کا حکم قرآن مجید سے پیش فرمائیں۔