• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد پر دیوبندی اعتراضات کا جائزہ و وہابیوں ممانعت کی دلیل دو

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
یہاں اب ہم غیر مقلدوں کو بھی آئینہ دیکھاتے ہیں کہ یہ جو کہتے ہیں کہ جی صحابہ نے منایا کہ نہیں تو ان گزارش ہے کہ جب تمہارے نزدیک فعل صحابی حجت نہیں پھر کس منہ سے دلیل مانگتے ہو۔
وھابیوں کا شیخ اکل نذیر حسین لکھتا ہے
فہم صحابی حجت نہیں (فتاوی نذیریہ ج۱ ص ۶۲۲)
ایسے ہی لکھا کہ صحابی کے قول سے حجت نہیں لی جا سکتی (فتاوینذیریہ ج ۱ ص ۳۴۰)
نواب صدیق کا بیٹا لکھتا ہے
اقوال صحابہ حجت نیست(عرف الجادی ص ۴۴)
اسی طرح فتاوی سلفیہ میں مولوی اسماعیل لکھتا ہے کہ صحاب کرام کا فعل سنت صحیحہ کے خلاف ہے (۱۰۷)
تو ہمارا سوال ہے جب تم لوگوں کے نزدیک صحابہ کا فہم قول و فعل حجت نہیں وہ سنت کے خلاف کام کر سکتے ہیں تو دلیل کس لیے مانگتے ہو۔
حضور کا قول حجت نہیں ۔
وھابی مولوی چونا گڑھی لکھتا ہے
جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہو ،اس دین والے اآج ایک امتی کی رائے کو دلیل سمجھنے لگے(طریق محمدی ص ۵۹)
جب تمہارے نزدیک حضورﷺ تک قول حجت نہیں۔تو دلیل کس منہ سے مانگتے ہو۔

اصل میلاد
غیر مقلدین حضرات کی عادت ہے کہ ہر دلیل کے جواب میں صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ کیا صحابہ نے منایا ؟؟
اس کا جواب ہم اوپر دے آئے کہ صحابہ نے بھی میلاد منایا۔حضورﷺکا تزکرہ کیا۔بہرحال یہاں دوبارہ پھر عرض ہے ہمارا دعوی ہے کہ میلاد کی اصل ثابت ہے
جشن میلاد کا پہلا اصل
جشن میلاد کا ایک اصل تو یہ کہ حضورﷺ خود اپنا میلاد منایا کرتے تھے۔حضرت سیدنا عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا وساخبرکم باول امری اور میں تمہیں اپنے معاملے کی ابتدا کے بارے میں نہ بتاو ں ؟بے شک میں اللہ کے ہاں خاتم النبین لکھ دیا گیا تھا ۔دعوۃ ابی ابراہیم وبشارۃعیسی قومہ میں اپنے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی دعا اور عیسی ؑ کی وہ بشارت ہوں جو انہوں نے اپنی قوم کو فرمائی تھی۔ وروبا امی التی رات انہ خرج منھا نور اضات لہ قصورالشام
اور اپنی امی جان کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے دیکھا تھا کہ ان سے اک ایسا نور نکلا جس سے ان کے لیے شام کے محلات روشن ہو گئے(مستدک امام حاکم ج ۳ ص ۷۵۸)
جشن میلاد کا دوسرا اصل
اس کا ایک اصل یہ بھی کہ صحابہ نے بھی میلاد منایا ۔امام بخار کے استاد اما م احمد بن حں بل لکھتے ہیں سیدنا امیر معاویہ فرماتے ہیں :ایک دفعہ رسول اللہ ﷺکا اپنے اصحاب کے ایک حلقہ سے گزر ہواآپ ﷺ نے فرمایا
مااجلسکم تم یہا ں کیﷺں بیٹھے ہو انہوں نے کہا جلسنا ند عو اللہ و نحمد علی ما ھدانا لدینیہ و من علینا بک
ہم نے اللہ کا ذکے کرنے اور اس نے ہمیں جو اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اس پر حمدو ثنا بیان کرنے اور اس نے آپ ﷺ کو بھیج کر ہم پر جو احسان کیا ،اس کا ذکر کرنے کے لیے یہ جلسہ منعقد کیا ہے۔
علامہ ابن حجر کی گواہی
آپ فرماتے ہیں
وقد ظھر لی تخر یحھاعلی اصل ثابت وھوماثبت فی الصحین
یعنی میں نے جشن میلاد کو شرع میں ایک ثابت شدہ اصل پر جائز ثابت کیا ہے
ٍمولانا عبدالحی لکھوی کی شہادت
آپ میلاد کے متعلق فرماتے ہیں
اسکا وجود زمانہ نبوی اور زمانہ صحابہ کے میں بھی تھا اگرچہ اس نام سے نہ تھا ،ماہرین فن حدیث پر یہ مخفی نہ ہوگا کہ صحابہ مجالس وعظ اور تعلیم علم میں فضائل نبویہ اور ولادت احمدیہ کا ذکر کرتے تھے(مجموعہ فتاوی ج۲ ص ۱۵۰)اس حوالہ سے یہ ثابت ہو ا کہ دور نبوی و صحابہ میں میلاد کی اصل ثابت ہے ۔
پھر خود وہابیوں کا اقرار ہے کہ جس کا اصل ثابت ہو وہ بدعت نہیں۔(جشن میلاد یوم وفات پر ص ۲۲
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
عید میلاد النبیﷺ
اعتراض نمبر ۵:
اس کے بعد معترض مذکورہ نے پھر چلاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہی باتیں دہرائیں جو وہ پہلے کر چکے تھے اس کے بعد یہ اعتراض کیا کہ عیدیں صرف دو ہیں اس عید کا نہ تو ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اصل۔
مصنف مذکورہ کے اس اعتراض کے دو جز ہیں
۱۔عیدیں دو ہیں۔
۲۔عید میلاد کی اصل نہیں۔
پہلے کا جواب تو یہ کہ غیر مسلمانوں کے مقابلہ میں ہمیں اسلام نے دو تہوار دیے ہیں ۔جنہیں عید الفطر اور عید الاضحی کہا جاتا ہے۔جبکہ کسی خوشی ،فرط مسرت کے موقع کو لفط عید سے تعبیر کرنا اور منانا شرعی طور پر ممنوع نہیں۔
۱۔ہر خوشی والا دن عید ہے
عید کے معنی ہیں ہر خوشی والا دن۔امام راغب اصفہانی کہتے ہیں
یستعمل العید فی کل یوم فیہ مسرۃ(المفرادات۳۹۳)
خوشی والے دن کو عید کہتے ہیں (تفسیر مظہری ج۲)
والعید یوم السرور(تفسیر خاذن ج۱)
پھر مفتی شفیع، اشرف غلی نے عید کا معنی ایک خوشی کی بات لکھاہے۔اسی طرح عبد الماجد دریاباری نے بھی اس کا ترجمہ ایک جشن کیا ہے۔صلاح الدین یوسف نے بھی اس کا ترجمہ ایک خوشی کی بات کیا ہے ۔
۲۔دستر خوان کے نازل ہونے پر عید۔
قرآن مجید فرقان حمید میں موجود ہے کہ
قال عیسی ابن مریم اللہماربنا انزل مائدۃمن السماء تکون عید الالنا واٰخرنا
ترجمہ:عرض کیا عیسی ابن مریم نے کہ اے اللہ اے پالنے والے اتار تو ہمارے اوپر دستر خوان تاکہ ہوجائے عید ہمارے اگلوں کے لیے اور پچھلوں کے لیے۔
آیت مذکورہ سے یہ معلوم ہوا کہ جس دن کوئی نعمت ملے اس دن کو عید قرار دینا جائز ہے۔
یہاں پر وہابی دیوبندی حضرات استدلال کو سمجھے بغیر لمبی چوڑی گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔اس آیت سے استدلال صرف اتنا ہے کہ جس دن نعمت ملے اس دن کو عید کہنا جائز ہے ۔ اسی طرح حضورﷺ بھی نعمت ہیں لہذا آپکی ولادت کے دن کو عید کہنا جائز ہے۔
۳۔آزادی ملنے پر عید۔
عاشورآء کا دن یہودیوں کیلئے آزادی کا ن تھا ،اسے انہوں نے عید بنایا تھا۔
حضرت ابو موسی نے بیان کیا :
کان یوم عاشورآء تعدہ الیھود عیدا(صحیح بخاری ج ۱ص ۲۶۸)
عاشورآء کے دن یہودی عید مناتے تھے۔
حضرت امیر معاویہ نے بر سر منبر فرمایا
ان یوم عاشورآء یوم عید(مصنف عبد الرزاق ج ۴ ص ۲۹۱)
یوم عاشوراء میں موسی علیہ اسلام کی قوم دشمن سے آزاد ہوئی تو اس دن کو عید قرار دیا گیا اور حضورﷺ کی ولادت سے تو پورا عالم اسلام آزاد ہوا لہذا یہ بدرجہ اولی عید ہو گا۔
بہرحال اس مختصر وضاحت سے ثابت ہو گیا کہ خوشی کے دن کو عید کہتے ہیں۔
اور ہم اشرف علی کا قول نقل کرآئے کہ ولادت پر فرح جائز ہے تو یہ خوشی کا دن ہے اور عید ہے۔ایک بات اور ذہن میں رکھے
ہم اس کو فقہی عید نہیں بلکہ لغوی اور عرفی عید قرار دیتے ہیں۔پھر اس کی ایک اصل یہ بھی ہے کہ حضورﷺ نے سوموار کا رو زہ رکھا(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۷۵۰) اور ملاں اشرف علی نے یہ اقرار کیا کہ آپ نے یہ رو زہ اپنی ولادت کی خوشی میں رکھا ۔(خطبات میلادالنبی)لہذا سرکار ﷺنے بھی اس دن خوشی منائی تو اس اعتبار سے یہ دن بھی عید ہے۔
۴۔عید کا روزہ۔
وہابی حضرات یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر میلاد نبوی کا دن عید ہے تو اس دن روزہ نہ رکھو۔مگر حضور ﷺ نے رکھا تو ا س کو عید نہ کہو کیوں عید کا روزہ نہیں ہوتا ۔
جواب۔جواب اس کا یہ جمعہ کو حضورﷺ نے عید قرار دیا ہے جس کا خود وہابیوں کو بھی اقرار ہے ملاحظہ ہو کتاب ہم میلاد کیوں نہیں مناتے ص ۶۲اسی طرح اشرف علی نے بھی اس کو عید تسلیم کیا بہشتی زیور ص۶۶۸اور ظاہری بات ہے جمعے کو روزہ رکھنا جائز ہے ۔اب ہم وہابیوں سے یہی اعتراض کرتے ہیں ہیں یا تو جمعہ کا روزہ ناجائز قرار دو یا جمع کوعید کا دن نہ کہو۔
اس کا تحقیقی جواب یہ کہ جس طرح جمعہ و یوم عرفہ عرفی عیدیں ہیں ایسے ہی میلاد بھی عرفی عید ہے۔اس کے فقہی احکامات نہیں۔
دیکھو اشرف علی تھانوی کہتا ہے جس دن سورت کہف کی تفسیر مکمل ہوئی وہ دن عید ہے(بیان القرآن ج ۲ ص ۲۵۹)
تقی عثمانی لکھتا ہے اس سے بڑھ کر روز عید کوئی نہ ہوتا جب وہ کراچی آتے (نقوش رفتگاں ص ۳۱)اب ہمیں دیوبندیوں سے پوچھنے دیں جب تفسیر مکمل ہو اوربڑا بھائی آئے تو وہ دن عید قرار دیے جا سکتے ہیں تو حضورﷺ کی ولادت کا دن کیوں نہیں عید قرار دیا جاسکتا ۔ایسے ہی وہابی مناظر مناظر نے بھی مومن کی پانچ عیدیں گنوائی ۔
ا۔جس بندہ گناہ سے محفوظ ہو
۲۔جس دن خاتمہ بالخیر ہو
۳۔جس دن پل سے سلامتی سے گزرے
۴۔جس دن جنت میں داخل ہو۔
۵۔جب پر وردگار کے دیدار سے بہرہ یاب ہو۔(ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث بحوالہ کیا جشن عید میلاد النبی غلو فی الدین ہے۔)
صادق سیالکوٹی نے لکھا کہ جناب عمر نے دو عیدیں ثابت کیں(جمعہ اور عرفہ کا دن )(جمال مصطفی ص ۱۴)
اب ذارا دل تھام کر سنو ۔شورش کاشمیری نے ولادت والے دن کو عید کہنا اور جلوس وغیرہ نکالنا جائز قرار دیا(چٹان)ایسے ہی سلیم یوسف چشتی نہ صرف خود عید میلاد کو تسلیم کیا بلکہ ہندوں تک کے قائل ہونے کا اقرار کیا(ندائے حق ص ۱۵ ،۱۶)اس طرح وہابی مولوی مخلص نے میلاد شریف کو عید تسلیم کیا (توحیدی نعتیں ص۱۱)
۵۔عید میلاد کا فقہ میں ذکر
ایک مولوی صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ جی کیا فقہ میں یا حدیث کی کسی کتاب میں عید میلاد کا ذکر ہے؟؟
میں کہتا ہوں وہابیوں کے پاس دماغ نہیں بھوسہ ہے جب ہم یہ بتا چکے ہیں کہ یہ صرف ایک عرفی عید ہے تو پھر اس قسم کے
سوالات پوچھنا نبی اکرم ﷺ سے بغض کا اظہار ہے کہ نہیں۔باقی تسلی کے لیے ریاض صالحین کے شرعہ کے یہ الفاظ بھی ملاحظہ کرتے جائے ۔مفصل گفتگو اوپر کی جا چکی ہے۔
و نضرب لھذا مثلا با ولئیک الذین ابتدعو ا عید میلاد الرسول علیہ الصلاۃ والسلام
اعتراض نمبر۵:
یہاں ہم پر ایک اور الزام ہے کہ
تم لوگوں کو عید میلاد انگریز نے دی ہے (مناظرہ کوہاٹ و پمفلٹ مذکورہ)
یہ بالکل جھوٹ ہے بلکہ شروع سے ہی اہل زوق نے اس دن کو عید قرار دیا ۔
امام قسطلانی لکھتے ہیں کہ
فرحم اللہ امر اتخذ لیالی شھر مولدہ البمارک اعیادا فیکون اشد علۃ علی من فی قبلہ مرض(الموہب ج۱ ص ۲۷)
اسی طرح ملاں علی قاری نے لکھا
اما اھل مکۃ ۔۔۔یزید اھتمامھم بہ علی یوم العید(الموردالروی)
اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ملاں علی قاری اور امام قسطلانی بھی انگریز کے زمانے میں تھے؟
رہ گیا یہ حوالہ کہ ۱۲ وفات کو ۱۲ میلاد کر وایا گیا تو اس کا جواب یہ کہ متحدہ ہندوستان میں ۱۲ وفات کے طور پر مشہور تھی جسکو ۱۲ میلاد سے سرکاری طور پر صرف ہندوستان میں تبدیل کروایا گیا ورنہ اس سے پہلے دوسرے ممالک خصوصا حرمین شریفین میں سرکارﷺ کی ولادت پر خوشی منائی جاتی تھی۔اس بات ہم چند شہادتیں پیش کرتے ہیں۔
مصنف تواریخ حبیب الہ کی شہادت۔
مفتی عنائیت احمد صاحب رقم طراز ہیں کہ
حرمین شریفین اوراکثر بلاد اسلام میں عادت ہے کہ ماہ ربیع اول میں محفل میلاد کرتے ہیں اور مسلمانوں کو مجتمع کر کے ذکر مولود شریف کرتے ہیں اور کثرت درود شریف کی کرتے ہیں۔اور بطور دعوت کے کھانا شرینی تقسیم کرتے ہیں۔
آگے لکھتے ہیں۔
بارہویں ربیع اول کو مدینہ منورہ میں یہ محفل متبرک مسجد شریف میں ہوتی ہے اور مکہ معظمہ میں مکان ولادت آنحضرت ﷺ (۱۵)
اسی طرح امام قسطلانی لکھتے ہیں
فلا زال اھل الاسلام یحتلفون بشہر مولدہ(مواہب ص۲۷)
اسی طرح ابن جوزی لکھتے ہیں
لا زال اھل حر مین الشریفین والمصر والیمن والشام و سائر بلاد العرب من المشرق و المغرب یحتلفون بمجلس مولد النبی ﷺ و یفرحون بقدوم ھلال شہر ربیع اول
پھر یہ دائمی عمل ہے کسی کو اس کا موجد قرار دینا بھی حقائق کو مسخ کرنا ہے۔ہماری اس بات شہادتین تو بہت ہیں مگر ہم نے یہاں پر صرف دو نقل کئے ہیں(تفصیل کے لیے آو میلاد منائیں کا مطالعہ کریں )پھر جب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ قرآن سے ثابت ہے تو انداز بدلتے رہتے ہیں مگر اصل وہی رہتی ہے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل سنت کی کتب کی ایک صحیح حدیث ہے جس کا مفہوم یہ کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب پیر کے دن روزہ رکھنے کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ میرے میلاد کا دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دن روزہ رکھا کرتے تھے
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنا میلاد منایا کرتے تھے
ویسے میلاد کی دلیل میں نے نہیں مانگی تھی وہ محترم خضر بھائی نے مانگی تھی پھر بھی کچھ لکھ دیتا ہوں
پہلی بات تو یہ کہ آپ سے دلیل مانگی گئی تھی آجکل مروجہ عید میلاد النبی منانے کی جو ہر سال کے بعد بریلوی جلوس نکال کر مناتے ہیں اور آپ دلیل دے رہے ہیں سوموار کے دن اپنے پیدائش پر روزہ رکھنے کی
دوسری بات یہ کہ مختلف احادیث سے پتا چلتا ہے کہ سوموار کے دن روزہ رکھنے کی مختلف وجوہات تھیں مثلا
1-سوموار کے دن پیدا ہوا
2-اسی دن قرآن نازل ہونا یا بعثت ہونا
3-اس دن اعمال پیش کیے جانا
ان ساری وجوہات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کا روزہ رکھتے تھے اور یہ ساری وجوہات خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پتا تھیں اور تمام صحابہ کو بھی پتا تھیں پس جب آپ سوموار کے روزہ پر قیاس کرتے ہوئے سال کے بعد عید میلادالنبی منانے کی بات کریں گے تو یہ قیاس نہیں جہالت ہو گی کیونکہ قیاس تو وہاں ہوتا ہے جہاں اصلی ماخذ قرآن و حدیث نہ ہوں مگر جس دور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے اور صحابہ بھی موجود تھے اور یہ کام کر بھی سکتے تھے مگر کسی نے وہ کام نہ کیا تو اب قیاس کیسے کیا جا سکتا ہے
اس طرح تو پھر ہم نفلی نمازوں میں دو سجدوں کی جگہ تین سجدے شروع کر دیں اور دلیل میں سجدوں کی فضیلت والی احادیث نکال کر دے دیں تو کیا یہ درست ہو گا

اسی لئے تو میں نے سوال کیا تھا کہ
آپ قرآن و حدیث سے مروجہ عید میلاد النبی نہ دکھائیں بلکہ کسی موحد سے آجکل کا مروجہ عید میلاد النبی دکھا دیں
تاکہ ہم اس کے دلائل کو پرکھ کر عمل کر سکیں اگر آپ مشرکوں کی باتیں ہمیں دکھائیں گے تو انکے دلائل کو ہم نے کیا پرکھنا جو اپنے اعمال ہی ضائع کروا کے بیٹھا ہے
نوٹ: ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا میں آنے کی جتنی خوشی ہے اتنی آپ کو بھی نہیں کیونکہ ہم پر سب سے بڑا اللہ کا احسان ہی آپ کی بعثت ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے مگر ہمارا یہ بھی دعوی ہے کہ جو آپ کی طرح عید میلاد النبی کی بدعت نہیں مناتا تو آپ میں سے کوئی مائی کا لال یہ اس سے ثابت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ اسکو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی نہیں کیونکہ اس طرح تو کسی صحابی بشمول علی رضی اللہ عنہ نے بھی نہیں کیا البتہ محبت کا معیار تو اسلام کے لئے قربانی دینا ہے جو صحابہ نے کیا اور ہم کر رہے ہیں کہ جو مشن لیظھرہ علی الدین کلہ والا لائے تھے وہ کون کر رہا ہے
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
@قادری رانا صاحب آپ سے بھی وہی سوال ہے جو اوپر پوسٹ میں لکھا ہے کہ
1- مجھے کسی موحد سے جو غیر اللہ سے نہ مانگتا ہو آجکل کی مروجہ عید میلاد النبی دکھا دیں اور اگر آجکل صرف مشرک ہی ایسا کرتے ہیں کوئی موحد نہیں کرتا تو پھر کون بے وقوف مشرکوں کی پیروی کرے لگا
2-اگر آپ سمجھتے ہیں کہ غیر اللہ سے مانگنا مافوق الاسباب مانگنا شرک نہیں تو اسکو ثابت کرنے کے لئے بات کر لیں آپ جو مشرکوں کے دلائل کاپی پیسٹ کرنے میں لگے ہیں اسکا موحد کو کیا فائدہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
قادری رانا !
تم للکارتے ’’غیرمقلدین ‘‘ کو ہو ۔۔اور انہیں حوالے مولویوں کے دیتے ہو ،ہذا واللہ عجیب‘
ایک سو پینتیس سطروں کی پوسٹ کاپی کرکے چپکادی ،اور سیدھی طرح
ایک آدھ دلیل نہ دے سکے ،،
اور ہاں قادری میاں ،،یہ تحریر یقیناً تم نے کاپی کی ہے تمہاری اپنی نہیں ۔۔لیکن یہ تو بتاو کس جاہل کی لکھی ہوئی ہے ۔کیونکہ اس میں جہالۃ و سفاہۃ کے بڑے نمونے پائے جاتے ہیں ۔دو تین نمونے پیش خدمت ہیں ؛
قال عیسی ابن مریم اللہماربنا انزل مائدۃمن السماء تکون عید الالنا واٰخرنا
اور
فرحم اللہ امر اتخذ لیالی شھر مولدہ البمارک اعیادا فیکون اشد علۃ علی من فی قبلہ مرض
اور
یہ بالکل جھوٹ ہے بلکہ شروع سے ہی اہل زوق نے اس دن کو عید قرار دیا ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
کیا عجب”منطق“ہے کہ ”طبقہء خاص“ کے نزدیک اس ”غیر شرعی“چیز کا ”حکم“تو قرآن مجید میں ہو مگر ”نبیﷺ “اور انکے ”صحابہؓ“ کا عملی تواتر اس ”فعلِ لا حاصل“سے یکسر ”خالی“ہو۔ اس ”ضمن“میں یہ بات بھی ”قابلِ غور “ ہے کہ نبیﷺ کی ”ولادت اور وفات “کی ”تاریخ میں بھی ”اختلاف“ہے جو اس بات کا ”ثبوت“ہے کہ اس”فعلِ لاحاصل“ کی نبیﷺ اور انکےصحابہؓ کے نزدیک کوئی”اہمیت“نہیں۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ویسے میلاد کی دلیل میں نے نہیں مانگی تھی وہ محترم خضر بھائی نے مانگی تھی پھر بھی کچھ لکھ دیتا ہوں
پہلی بات تو یہ کہ آپ سے دلیل مانگی گئی تھی آجکل مروجہ عید میلاد النبی منانے کی جو ہر سال کے بعد بریلوی جلوس نکال کر مناتے ہیں اور آپ دلیل دے رہے ہیں سوموار کے دن اپنے پیدائش پر روزہ رکھنے کی
دوسری بات یہ کہ مختلف احادیث سے پتا چلتا ہے کہ سوموار کے دن روزہ رکھنے کی مختلف وجوہات تھیں مثلا
1-سوموار کے دن پیدا ہوا
2-اسی دن قرآن نازل ہونا یا بعثت ہونا
3-اس دن اعمال پیش کیے جانا
ان ساری وجوہات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کا روزہ رکھتے تھے اور یہ ساری وجوہات خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پتا تھیں اور تمام صحابہ کو بھی پتا تھیں پس جب آپ سوموار کے روزہ پر قیاس کرتے ہوئے سال کے بعد عید میلادالنبی منانے کی بات کریں گے تو یہ قیاس نہیں جہالت ہو گی کیونکہ قیاس تو وہاں ہوتا ہے جہاں اصلی ماخذ قرآن و حدیث نہ ہوں مگر جس دور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے اور صحابہ بھی موجود تھے اور یہ کام کر بھی سکتے تھے مگر کسی نے وہ کام نہ کیا تو اب قیاس کیسے کیا جا سکتا ہے
اس طرح تو پھر ہم نفلی نمازوں میں دو سجدوں کی جگہ تین سجدے شروع کر دیں اور دلیل میں سجدوں کی فضیلت والی احادیث نکال کر دے دیں تو کیا یہ درست ہو گا

اسی لئے تو میں نے سوال کیا تھا کہ
آپ قرآن و حدیث سے مروجہ عید میلاد النبی نہ دکھائیں بلکہ کسی موحد سے آجکل کا مروجہ عید میلاد النبی دکھا دیں
تاکہ ہم اس کے دلائل کو پرکھ کر عمل کر سکیں اگر آپ مشرکوں کی باتیں ہمیں دکھائیں گے تو انکے دلائل کو ہم نے کیا پرکھنا جو اپنے اعمال ہی ضائع کروا کے بیٹھا ہے
نوٹ: ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا میں آنے کی جتنی خوشی ہے اتنی آپ کو بھی نہیں کیونکہ ہم پر سب سے بڑا اللہ کا احسان ہی یہی ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے مگر ہمارا یہ بھی دعوی ہے کہ جو آپ کی طرح عید میلاد النبی کی بدعت نہیں مناتا تو آپ میں سے کوئی مائی کا لال یہ اس سے ثابت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ اسکو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی نہیں کیونکہ اس طرح تو کسی صحابی بشمول علی رضی اللہ عنہ نے بھی نہیں کیا البتہ محبت کا معیار تو اسلام کے لئے قربانی دینا ہے جو صحابہ نے کیا اور ہم کر رہے ہیں کہ جو مشن لیظھرہ علی الدین کلہ والا لائے تھے وہ کون کر رہا ہے
چلیں آپ نے یہ تو مان لیا کہ اپنے میلاد کادن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر پیر کے روز منایا کرتے تھے اور جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم میلاد کو عید کہنے یا جشن کہنے کی بات ہے تو وجہ یہ کہ جیسا کہ آپ نے فرمایا اللہ کا ہم سب پر سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی پھر جب ہم اللہ کے چھوٹے احسانوں کو عید اور جشن کہہ سکتے ہیں تو پھر سب سے بڑے احسان کو کہنے میں کیا بات مانع ہے ؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
@قادری رانا
1- مجھے کسی موحد سے جو غیر اللہ سے نہ مانگتا ہو آجکل کی مروجہ عید میلاد النبی دکھا دیں
محترم بھائیو یہ میں نے اس لئے کہا تھا کہ میلاد کی خوشی کو دو وجوہات سے منایا جاتا ہے
1-دین کا حصہ نہ سمجھ کر اور ثواب کی امید کے بغیر خوشی منانا
2-دین کا حصہ اور ثواب سمجھ کر ایسا کرنا اور لوگوں کو اسکی دعوت دینا

دین اور ثواب سمجھ کر جو بھی دین میں کام کیا جائے گا اس پر اتنے دلائل کی بحث میں جانے سے پہلے ایک آسان سا کام ہم کیوں نہ کر دیں کہ وقت بھی ضائع نہ ہو اور مقصد بھی حاصل ہو جائے کیونکہ اس سلسلے دلائل بہت زیادہ دیئے جاتے ہیں اور اختلافات بہت زیادہ دکھائے جاتے ہیں تو کیوں نہ ہم پہلے اختلافات کو کسی مشترک چھلنی سے چھان لیتے ہیں تاکہ جب کم اختلافات بچ جائیں تو پھر اس پر فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا اور مشترک چھلنی یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی مسلمان یہ نظریہ نہیں رکھے گا کہ وہ دین کی کسی بات کی تشریح یا وضٓاحت مشرکین سے لے جنکے اپنے اعمال ہی برباد ہیں اسکو میں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں
فرض کریں کہ ایک ریت کے بہت بڑے ڈھیر میں چند دانے سونے کے ہیں جنکو ڈھونڈنا ہمارا مقصد ہے اب ہمارے پاس وقت کی کمی ہے اور ہمارے پس ایک بہت بڑی چھلنی ہے کہ جس میں سے باقی ریت تو چھن کر نکل جائے گی مگر وہ سونے کے ذرت موٹے ہونے کی وجہ سے نہیں نکلیں گے​

اب کوئی آدمی سارے ریت کے ڈھیر کو ٹٹول کر ذرات ڈھونڈ رہا ہے کوئی انسان آتا ہے اور کہتا ہے کہ بھائی آپ کے پاس ایک بڑی چھلنی جو موجود ہے تو اتنا وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں اس میں سارے ڈھیر کو ڈالیں جو نیچے گر جائے وہ بھاڑ میں جائے جو اوپر رہ جائے اس میں سے مطلوبہ مقصد حاصل کر لیں تو کیا وہ بات زیادہ درست نہیں ہو گی پس اسی وجہ سے اوپر سوال کیا تھا کہ کوئی بھائی مجھے یہ بتا دے کہ کسی موحد نے بھی کبھی عید میلاد النبی منایا ہے تاکہ شرک کی چھلنی لگا کر ہم باقی اقوال کو نکال دیں اور جو باقی بچے (اگر کچھ بچا) تو اس میں بہتر کا فیصلہ کر لیں یہ کیسا رہے گا​
 
Last edited by a moderator:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
چلیں آپ نے یہ تو مان لیا کہ اپنے میلاد کادن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر پیر کے روز منایا کرتے تھے اور جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم میلاد کو عید کہنے یا جشن کہنے کی بات ہے تو وجہ یہ کہ جیسا کہ آپ نے فرمایا اللہ کا ہم سب پر سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی پھر جب ہم اللہ کے چھوٹے احسانوں کو عید اور جشن کہہ سکتے ہیں تو پھر سب سے بڑے احسان کو کہنے میں کیا بات مانع ہے ؟
کسی خوشی کو منانا اور شکر بجا لانے کے لئے روزہ رکھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے
میں نے اوپر کہیں نہیں لکھا وہ سوموار کو میلاد منایا کرتے تھے یعنی خوشی منایا کرتے تھے کیونکہ آپ خود کہ رہے ہیں کہ ہر خوشی عید ہوتی ہے تو جس دن خؤشی منائی جائے گی وہ دن بھی عید ہو گا اور خوشی منانے والے دن روزہ نہیں رکھا جاتا بلکہ خوشی منائی جاتی ہے پس اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی نہیں منائی بلکہ روزہ رکھ کر مختلف باتوں کا شکر بجا لائے مثلا بعثت کا یا قرآن نازل ہونے کا یا پیدا ہونے کا یا پھر اعمال اوپر اٹھائے جانے کا واللہ اعلم
پس میں نے یہی کہا کہ خوشی کس طرح منانی ہے یہ ہمیں کوئی موحد ہی بتا سکتا ہے کسی مشرک کا خوشی منانے کا طریقہ ہمیں ویسے ہی قابل قبول نہیں چہ جائے کہ وہ ہماری سب سے بڑی خوشی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کی وجہ بننے والے میلاد کو اپنے طریقے سے منائے اور ہمیں بھی اس پر تلقین کرے
 
Top