کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
اختلاف صرف اظہارِ خوشی کے طریقے پر ہے!
یہاں اس شبہ کا اِزالہ بھی ہوجانا چاہئے کہ میلا دنہ منانے والوں کے بارے میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ
یہاں اس شبہ کا اِزالہ بھی ہوجانا چاہئے کہ میلا دنہ منانے والوں کے بارے میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے خوشی اور غمی کی حدود و قیود متعین کردی ہیں جن سے تجاوز ہرگز مستحسن نہیں۔ اس لئے شیعہ حضرات کا شہداے کربلا کے رنج و غم پر نوحہ و ماتم کرنا، تعزیے نکالنا، سینہ کوبی اور زنجیر زنی کرنا جس طرح دینی تعلیمات کے منافی اور رنج و غم کی حدود سے اِضافی ہے اسی طرح بعض سنّیوں کا ۱۲؍ربیع الاول کو یومِ ولادت کی خوشی میں جلوس نکالنا، بھنگڑے ڈالنا، قوالیاں کرنا، رات کو بلا ضرورت قمقمے جلانا، چراغاں کرنا اور بے جا اِسراف کرنا بھی دینی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کے نزدیک جشن میلاد ’برحق‘ ہے تو پھر اسے چاہئے کہ دل پر ہاتھ رکھ کر شیعہ کے نوحہ و ماتم کو بھی برحق کہہ دے !انہیں آنحضرتﷺکی تشریف آوری اور رسالت پر شاید خوشی ہی نہیں ہے۔ ایسی بات ہرگز نہیں کیونکہ جسے اللہ کے رسول ﷺسے محبت ہی نہیں یا آپ ﷺ کی رسالت و بعثت پر خوشی ہی نہیں، وہ فی الواقع مسلمان ہی نہیں۔ البتہ اختلاف صرف اتنا ہے کہ اس خوشی کے اظہار کا شرعی طریقہ کیا ہونا چاہئے۔ اگر کہا جائے کہ جشن، جلوس، میلاد اور ہر من مانا طریقہ ہی جائز و مشروع ہے تو پھر پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ پھر صحابہ کرام کی آنحضرتﷺ سے محبت مشکوک ٹھہرتی ہے، اس لئے کہ انہوں نے اظہارِ محبت کے لئے کبھی جشن میلاد نہیں منایا جبکہ آپﷺ کے فرمان پر وہ جان دینے سے بھی نہیں گھبرایا کرتے تھے!