بدعت عید میلاد سے متعلقہ شبہات کا ازالہ اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ
عید میلاد کے بدعت ہونے میں کوئی شک تو باقی نہیں رہ جاتا مگر اس کے باوجود بعض علما اسے کسی نہ کسی طرح شرعی لبادہ پہنانا چاہتے ہیں خواہ اس کےلئے انہیں قرآنی آیات میں کھینچا تانی کرنا پڑے یا کفار (ابولہب وغیرہ) کے عمل سے استدلال کرنا پڑے مگر حق بہرحال حق ہے جو باطل کی ملمع سازیوں کے باوجود آخر کار نکھر ہی آتا ہے۔ اس لئے آئندہ سطور میں بدعت میلاد کو جائز قرار دینے والوں کے دلائل کاجائزہ پیش کیا جاتا ہے!
قرآنی دلائل:
01. ﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ قَد جاءَتكُم مَوعِظَةٌ مِن رَبِّكُم وَشِفاءٌ لِما فِى الصُّدورِ وَهُدًى وَرَحمَةٌ لِلمُؤمِنينَ ٥٧ قُل بِفَضلِ اللَّهِ وَبِرَحمَتِهِ فَبِذٰلِكَ فَليَفرَحوا…٥٨﴾… (سورة يونس)
”اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں، ان کےلئے شفا ہے اور وہ رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کےلئے۔ (اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے۔”
اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ نصیحت، شفا، ہدایت اور رحمت وغیرہ حضور ﷺ کی پیدائش اور تشریف آوری ہی پر موقوف ہے۔ اس لئے سب سے بڑی رحمت ونعمت تو خود حضورﷺ کی ذات گرامی ٹھہری، لہٰذا آپ ﷺ کی تشریف آوری پر خوشی منانا چاہئے اور فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا میں بھی خوشی منانے کا حکم ہے۔
جواب:
01. سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا اور آپ ﷺ ہی حکم خداوندی سے اس کی قولی وعملی تفسیر وتشریح فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کی رسالت وبعثت کے بعد ۲۳ مرتبہ یہ دن آیا مگر آپ ﷺ نے ایک مرتبہ بھی اس کی قولی وعملی تفسیر فرماتے ہوئے عید میلاد نہیں منائی اور نہ ہی صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین، مفسرین ومحدثین وغیرہ کو اس آیت میں عید میلاد نظر آئی مگر داد ہے ان نکتہ دانوں کےلئے جنہیں چودہ سو سال بعد خیال آیا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عید میلاد النبی ﷺ منانے کا حکم دیا ہے اور ان پاکباز ہستیوں کو یہ نکتہ رسی نہ سوجھی کہ جنہیں نزول قرآن کے وقت براہ راست یہ حکم دیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں ولادت نبوی ﷺ یا عید میلاد کا کوئی ذکر واشارہ تک بھی نہیں بلکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نزول قرآن کی نعمت پر خوش ہوجاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کےلئے اسے نازل کیا ہے۔
علاوہ ازیں خوشی کا تعلق انسان کی طبیعت اور قلبی کیفیت سے ہوتا ہے نہ کہ وقت اور دن کے ساتھ۔ اس لئے اگر نزول قرآن یا صاحب قرآن (آنحضرتﷺ) پر خوش وخرم ہونے کا حکم ہے تو یہ خوشی قلبی طور پر ہر وقت موجود رہنی چاہئے، نہ کہ صرف بارہ ربیع الاول کو اس خوشی کا اظہار کرکے پورا سال عدم خوشی میں گزار دیا جائے۔ اگر آپ کہیں کہ خوشی تو سارا سال رہتی ہے تو پھر آپ سے از راہ ادب مطالبہ ہے کہ یا تو سارا سال بھی اسی طرح بھنگڑے ڈال کر اور جلوس نکال کر خوشی کا اظہار کیا کریں یا پھر باقی سال کی طرح بارہ ربیع الاول کو بھی سادگی سے گزارا کریں۔
02. ﴿وَأَمّا بِنِعمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّث ﴿١١﴾… سورة الضحىٰ ”اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا رہ۔”
اس آیت سے بھی یہ کشید کیا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُمت مسلمہ کےلئے سب سے بڑی نعمت ہیں لہٰذا اس نعمت عظمیٰ کا اظہار بھی بڑے پر شوکت جشن وجلوس سے کرنا چاہئے۔
جواب:
01. اس آیت میں اگرچہ انعامات خداوندی کے اظہار کا ذکر ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا کسی نعمت کے اظہار کےلئے اسلام نے جلوس نکالنے کا حکم دیا ہے؟ مثلاً آپ کے گھر میں بیٹا پیدا ہو تو تحدیث نعمت کے طور پر آپ شہر بھر میں جلوس نکالیں گے؟ اگر آپ ہاں بھی کہہ دیں تو اللہ کی نعمتیں شمار سے باہر ہیں، آخر کس کس نعمت پر جلوس نکالیں گے…؟
02. آنحضرت ﷺ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ ہیں مگر سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ صحابہ کرام نے اس نعمت عظمیٰ کی کس طرح قدر کی؟ کیا وہ آنحضرت ﷺ کا عید میلاد مناکر اور جلوس نکال کر آنحضرت ﷺ کی قدر ومنزلت کا خیال کیا کرتے تھے یا آپﷺ کے اقوال وفرمودات پر عمل پیرا ہوکر اس نعمت کا اظہار کیا کرتے تھے؟ جس طرح صحابہ کرام کیا کرتے تھے، من وعن اسی طرح ہمیں بھی کرنا چاہئے۔ اگر وہ جلوس نکالا کرتے تھے تو ہمیں بھی ان کی اقتدا کرنی چاہئے اگر ان سے آنحضرت ﷺ کی زندگی یا بعد از وفات ایک مرتبہ بھی جشن وجلوس منانا ثابت نہیں تو پھر کم از کم ہمیں بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔
03. یہ آیت آنحضرت ﷺ پرنازل ہوئی مگر آپ ﷺ نے زندگی بھر ایک مرتبہ بھی عید میلاد نہیں منائی، پھر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم اسے کارِ ثواب قرار دے کر دین میں اضافہ، اپنے عملوں کو برباد اور اللہ کے رسول ﷺ کی مخالفت کریں۔
03. ﴿وَذَكِّرهُم بِأَيّىٰمِ اللَّهِ…٥﴾… سورة ابراهيم ”اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلاؤ۔”
04. ﴿وَالسَّلـٰمُ عَلَىَّ يَومَ وُلِدتُ وَيَومَ أَموتُ وَيَومَ أُبعَثُ حَيًّا ٣٣﴾… سورة مريم ”اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ کھڑا کیا جاؤں گا، سلام ہی سلام ہے۔”
05. ﴿وَرَفَعنا لَكَ ذِكرَكَ ٤﴾… سورة الشرح ”اور ہم نے آپﷺ کا ذکر بلند کردیا”
جواب:
ان تینوں آیات سے بھی عید میلاد ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ آیات میں کہیں جشن عید میلاد کا ذکر نہیں۔ اگر اس کا کوئی اشارہ بھی ہوتا تو وہ صحابہ کرام سے آخر کیسے مخفی رہ سکتا تھا؟!
آیت (3) میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی قوم کو گذشتہ قوموں کے واقعات سے باخبر کریں کہ کس طرح ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے انہیں ہلاکت وعذاب سے دوچار کیا گیا اور اطاعت گزاروں کو کامیابی سے نوازا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ ؒ نے اپنی اصول تفسیر کی کتاب ‘الفوز الکبیر’ میں قرآنِ مجید کے پانچ علوم میں سے ایک کا نام ‘علم التذکیر بایام اللہ’ رکھا جس میں گذشتہ اقوام کے عروج وزوال، انعام واکرام یا ہلاکت وعذاب پر بحث کی جاتی ہے۔ اگر بالفرض اس آیت سے گذشتہ نبیوں کا میلاد منانا مراد ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے گذشتہ نبیوں کا میلاد کیوں نہ منایا؟ اور آنحضرت ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام وغیرہ کا میلاد کیوں نہ منایا؟
آیت (4) میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے اور انہوں نے کبھی میلاد نہ منایا نہ ان کے حواریوں نے ایسا کیا البتہ ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کے عرصہ دراز بعد تقریباً ۳۳۶میں پہلی مرتبہ رومیوں نے اس بدعت کو دین عیسوی میں ایجاد کیا۔ روم کے عیسائی علما نے باہم مشورہ سے طے کیا کہ مقامی بت پرستوں کے مقابلہ میں مسیحیوں کی شناخت کےلئے بھی کوئی تہوار ہونا چاہئے۔ رومی بت پرست ۶؍ جنوری کو اپنے ایک دیوتا کے احترام میں تہوار مناتے تھے لہٰذا عیسائیوں نے بھی کرسمس کےلئے یہی تاریخ منتخب کی مگر بعد میں عیسائیوں نے ۲۵ دسمبر کو کرسمس منانے پر اتفاق کر لیا کیونکہ اس تاریخ کو سب سے بڑے دیوتا (یعنی سورج) کا تہوار منایا جاتا تھا۔ پھر دین عیسوی کی اس بدعت کو جب اللہ کے رسول ﷺ نے ہرگز اختیار نہیں کیا تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس کی بنیاد پر میلاد النبیﷺ منائیں۔
علاوہ ازیں اگر یوم ولادت سے عید میلاد منانے کا جواز ہے تو پھر اس آیت میں موجود یَوْمَ أَمُوْتُ سے ‘یومِ سوگ ‘ بھی منانا چاہئے۔ اگر ‘یوم سوگ’ نہیں تو پھر جشن ولادت ہی کیوں؟
آیت (5) میں اللہ کے رسول ﷺ کی عظمت ورفعت کا ذکر ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے، بدعت میلاد کے مرہون منت قرار نہیں دیا۔ لیکن اگر اللہ کے رسول ﷺ کی رفعت وعظمت جشن میلاد ہی سے ممکن ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ جب تک یہ بدعت ایجاد نہیں ہوئی تھی تب تک حضور ﷺ کی رفعت کیسے قائم رہی؟