• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد کی شرعی حیثیت، وفات رسول ﷺ کی صحیح تاریخ اور میلاد منانے والوں کے دلائل کا جائزہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
عید میلاد کی شرعی حیثیت، وفات رسول ﷺ کی صحیح تاریخ اور میلاد منانے والوں کے دلائل کا جائزہ


بہرصورت اگر اسے کارِ ثواب ہی قرار دینا ہے تو پھر اس ہٹ دھرمی سے پہلے اعلان کر دیجئے کہ آنحضرت ﷺ سمیت تمام صحابہ، تابعین، تبع تابعین وغیرہ اس ثواب سے محروم رہے اور ہم گنہگار (نعوذ باللہ) ان عظیم لوگوں سے سبقت لے گئے ہیں!

ہر سال ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ‘عید میلاد النبی ﷺ ‘کے نام پر جشن منایا جاتا ہے۔ ربیع الاول کے شروع ہوتے ہی اس جشن میلاد کی تقریبات کے انتظامات شروع ہو جاتے ہیں، نوجوان گلی کوچوں اور چوراہوں میں راہ گیروں سے چندے وصول کرتے ہیں، علما حضرات مسجدوں میں جشن ولادت منانے کے لئے دست سوال دراز کرتے ہیں، پھر بارہ ربیع الاول کو نبی اکرم ﷺ کے یوم ولادت کی مناسبت سے جلوس نکالے جاتے ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، پرتکلف دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، گلیوں، بازاروں، گھروں اور مسجدوں میں چراغاں کیا جاتا ہے، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، تانگوں، گدھا گاڑیوں اور بسوں میں سوار ہوکر پورے ملک میں اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کا بھرپور اظہار کیا جاتا ہے۔

چونکہ یہ جشن، یہ میلاد اور یہ سلسلۂ تقریبات اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کے اظہار کا ذریعہ گردانا جاتا ہے اس لئے چارو ناچار حب رسول سے سرشار ہر پیروجوان حسب حیثیت اس میں شمولیت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ گورنمنٹ بھی عوام کے جذبات کا خیال رکھتے اور حضورِ اکرم ﷺ کی رسالت کا احترام کرتے ہوئے سرکاری طور پر چھٹی کا نہ صرف اعلان کرتی ہے بلکہ حکومتی سطح پر بڑی بڑی سیرت کانفرنسوں کا بھی انعقاد کرتی ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کا اظہار بجا ہے اور آپ ﷺ کی عقیدت واحترام کا جذبہ بھی قابل تحسین ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ حضور ﷺ سے محبت کا یہ طریقہ اور جشن وجلوس کا یہ سلسلہ حضور ﷺ کے لائے ہوئے دین کی رو سے جائز بھی ہے یا نہیں؟ شریعت کی عدالت میں اس کی کوئی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟ اور اللہ کی بارگاہ میں یہ قابل قبول بھی ہے یا نہیں؟

عید میلاد چونکہ آنحضرت ﷺ سے محبت کے جذبہ سے منائی جاتی ہے۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سردست آنحضرت ﷺ سے محبت اور اس کے معیار وتقاضے پر بھی روشنی ڈال دی جائے
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حضور ﷺ سے محبت کا معیار:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت ﷺ سے سچی قلبی محبت جزوِ ایمان ہے اور وہ بندہ ایمان سے تہی دامن ہے جس کا دل آنحضرت ﷺ کی محبت سے خالی ہے۔ جیسا کہ

حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک ایماندار نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔” (بخاری: کتاب الایمان: باب حب رسول من الایمان؛۱۴)

صحیح بخاری ہی کی دوسری حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار کہلانے کا مستحق نہیں جب تک کہ اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کے دل میں میری محبت نہ پیدا ہو جائے۔” (صحیح بخاری،؛ ۱۵)

لیکن اس محبت کا معیار اور تقاضا کیا ہے؟ کیا محض زبان سے محبت کا دعویٰ کر دینا ہی کافی ہے یا اس کےلئے کوئی عملی ثبوت بھی مہیا کرنا ہوگا؟ تو صاف ظاہر ہے کہ محض زبانی دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے ساتھ عملی ثبوت بھی ضروری ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے شخص کے جسم وجان پر اللہ کے رسول ﷺ کے ارشادات وفرمودات کی حاکمیت ہو، اس کا ہر کام شریعت نبوی کے مطابق ہو، اس کا ہر قول حدیث نبوی کی روشنی میں صادر ہوتا ہو، اس کی ساری زندگی اللہ کے رسول کے اُسوہ حسنہ کے مطابق مرتب ہو۔ اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری ہی کو وہ معیارِ نجات سمجھتا ہو اور آپ ﷺ کی نافرمانی کو موجب عذاب خیال کرتا ہو۔ لیکن اگر اس کے برعکس کوئی شخص ہر آن اللہ کے رسول ﷺ کی حکم عدولی کرتا ہو اور آپ کی سنت وہدایت کے مقابلہ میں بدعات ورسومات کو ترجیح دیتا ہو تو ایسا شخص ‘عشق رسول ﷺ ‘ اور حب رسول کا لاکھ دعویٰ کرے یہ کبھی اپنے دعویٰ میں سچا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اپنے تائیں سچا سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے مگر اللہ کے رسول ایسے نافرمان اور سنت کے تارک سے بری ہیں۔

کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

”فمن رغب عن سنتي فلیس مني” (بخاری؛۵۰۶۳)
”جس نے میری سنت سے روگردانی کی، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
’’عید میلاد‘‘ کی شرعی حیثیت:
قرآن وحدیث کی رو سے اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ ”عیدمیلاد” بدعات میں سے ایک بدترین بدعت ہے، بہت سارے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ قران وحدیث میں اگر عید میلاد کاحکم نہیں ہے تو اس کی ممانعت بھی نہیں ہے، حالانکہ یہ غلط خیال ہے کیونکہ عید میلاد کی ممانعت اور اس کا بطلان قرآن وحدیث دونوں میں موجود ہے لیکن قرآن وحدیث کی یہ دلائل دیکھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ قرآن وحدیث میں بعض چیزوں کو عام طور پر باطل قرار دیا گیا ہے اور کسی خاص چیز کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ لہٰذا یہاں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس کی ممانعت قرآن وحدیث میں نہیں ہے، مثال کے طورپر پوری امت کے نزدیک کافر قرار دئے گئے ”مرزا غلام احمد قادیانی ” کا نام قرآن وحدیث میں کہیں نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود پوری امت کا ماننا ہے کہ قرآن وحدیث کی رو سے قادیانی کی نبوت باطل ہے، کیونکہ قرآن میں جو یہ کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی نبوت کا دعوی کرے گا اس کی نبوت باطل ہے تو اس بطلان میں قادیانی کی نبوت بھی شامل ہے۔ اسی طرح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی نبوت کا دعوی کرے گا اس کی نبوت باطل ہے تو اس بطلان میں قادیانی کی نبوت بھی شامل ہے۔

ٹھیک اسی طرح عید میلاد بھی قرآن وحدیث کی رو سے باطل ہے،

چنانچہ فرمان باری تعالی ہے کہ: ”آج میں نے تمہارادین مکمل کردیا”۔ (مائدہ :آیت :3)

یعنی اب اگر کوئی دین میں کسی نئی چیز کا دعویٰ کرے گا تو وہ باطل ہے، عید میلاد بھی دین میں نئی چیز ہے لہٰذا قرآن کی اس آیت کی روشنی میں باطل ہے،

اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے‘‘ (یعنی اُس کا وہ عمل بھی اور وہ خود بھی مردود ہیں)۔ (صحیح بخاری: جلد اول: حدیث نمبر 2518)

اور عید میلادبھی دین میں نئی چیز ہے لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں باطل ہے،

نیز اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ: ”اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے آگے مت بڑھو۔ (الحجرات :آیت: ۱)

یعنی دین میں جس عمل کاحکم اللہ اور اس کے رسول ﷺ نہ دیں اسے مت کرو اور جو دینی عمل خود پیغمبر ﷺ نے نہیں کیا وہ تم بھی نہ کرو، عید میلاد منانے کا حکم نہ اللہ نے دیا اور نہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے، اور یہ عمل بھی اللہ کے رسول ﷺ نے نہیں کیا۔ لہٰذا قرآن کی اس آیت کی رو سے بھی عید میلاد کی ممانعت واضح ہوتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ پس جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس تم پر لازم ہے کہ تم میری سنت اور خلفائے راشدین جوکہ ہدایت یافتہ ہیں کی سنت کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے۔ (سنن ابوداؤد: جلد سوم: حدیث نمبر 1198یعنی دین میں جس عمل کا حکم نہ ہو اسے مت کرو۔)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عید میلاد قرآن وحدیث کی روشنی میں باطل اور ممنوع ہے۔ لہٰذا اب یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ عید میلاد منانے کا حکم نہیں ہے تو اس سے منع بھی نہیں کیا گیا ہے کیونکہ قرآن وحدیث سے اس کا بطلان اور اس کی ممانعت گذشتہ سطور میں واضح کر دی گئی ہے۔

واضح رہے کہ جہاں تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تعلق ہے تو اس سے کسی کو انکار نہیں، بلکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں، لیکن محبت کا طریقہ بھی کتاب وسنت اور عمل صحابہ سے ثابت ہونا چاہئے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ رضوان اللہ علیھم سب سے زیادہ اللہ کے نبی ﷺ سے محبت کرنے والے اور آپ ﷺ کی اتباع اور سنت کو جاننے میں سب سے زیادہ حریص تھے اور اس محبت اور حرص سنت کے باوجود تاریخ میں ان سے اور ان کے بعد والے اچھے دور (قرون الفاضلہ ) میں سے کسی سے میلا د منانے کا ایک واقعہ بھی ثابت نہیں جو اس کے جائز ہونے پر دلالت کرے۔ بلکہ رسول اللہ ﷺ سے محبت تو ان کی سنت سے محبت کے ساتھ لازم وملزوم ہے۔

چناچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ ۚ فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ ۚ وَھُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۔ (البقرۃ:آیت 137)
ترجمہ: ’’اگر وہ تم جیسا یعنی (صحابہ جیسا)ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں‘‘۔

ایک اور فرمان ہے:

فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۔ (النور :آیت 63)
’’سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے‘‘۔

ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کیا ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ پیر کے دن اور جمعرات کے دن کا روزہ رکھنا کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس دن (یعنی پیر کے دن) میری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا۔ (یعنی شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھنا پسندیدہ ہے، جوکہ ایک مسنون عبادت ہے)۔ ( سنن ابوداؤد: جلد اول: ص 737 حدیث نمبر 2426 صحیح)

یہ بھی جان لیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر پیر کے دن کا روزہ دو وجوہات کی بناء پر رکھتے:

ایک وجہ یہ کہ آپ ﷺ اس دن پیدا ہوئے اور دوسرا اسی دن آپ ﷺ پر قرآن نازل کیا گیا اور یہ روزہ 12ربیع الاول کو نہیں رکھتے تھے بلکہ ہر پیر (سوموار) کو رکھتے تھے، یہ تھا رسول اللہ ﷺ کا طریقہ اور سنت،

جبکہ آج کا میلادی کیا کوئی روزہ رکھتا ہے؟ یہاں تو قسم قسم کے کھانے اور طعام وشراب اور مختلف انواع واقسام کی ڈشز کا اہتمام کیا جاتا ہے کیا یہ آپ ﷺ کی اطاعت ہے یا مخالفت؟ یہ محبت ہے یا۔۔۔۔؟رسول اللہ ﷺ اپنے ولادت کے دن اپنے رب کےلئے بھوکے پیاسے رہیں اورمیلاد منانے والے؟

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دیگر بدعات کی طرح محفل میلاد بھی صریح بدعت ہے اس کے موجدوں نے عیسائیوں کی چال پر میلاد عیسی کی طرح اپنے نبی سے محبت ظاہر کرتے ہوئے آپ ﷺ کی محفل مولد قائم کر دی حلانکہ علماء کو آپ ﷺ کی تاریخ ولادت بھی یقینی طور پر معلوم نہیں پھر اس محفل کا سلف صالحین سے بھی کچھ ثبوت نہیں ملتا اگر یہ کار خیر ہوتی تو ضرور علمائے سلف اسے قائم کرتے کیونکہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی محبت میں ہم لوگوں سے بڑھ کر حصہ لیتے تھے پس جب اس محفل کا سلف صالحین سے بھی کچھ ثبوت نہیں ملتا تو اسے منانے کی بھی ضرورت نہیں۔ ( اقتضاء صراط مستقیم ص ۲۳۴)

فرقہ بریلویہ کے مولوی عبد السمیع رامپوری خلیفہ مولوی احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں کہ: ’’یہ سامان فرحت وسرور اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا متعین کرنا بعد میں ہوا یعنی چھٹی صدی کے آخر میں ‘‘۔ ( انوار ساطعہ ص ۱۵۹)

محمد الصالحی الشامی جو السيوطی کے شاگرد تھے اور امام السخاوی رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں لکھا ہے کہ: ’’میلاد منانا قرونِ ثلاثہ (ابتدائی تین صدیاں) میں کسی بھی سلف سے منقول نہیں بلکہ یہ اس کے بعد شروع ہوا‘‘۔ (سبل الھدی و لارشاد فی سیرۃ خیر العباد ج ۱ ص ۴۳۹)

اور اسی طرح ملا علی القاری الحنفی نے بھی اپنی کتاب’’ المورد الروی فی المولد النبوی‘‘ میں لکھا ہے۔ (المورد الروي في المولد النبوي ص 24)

علامہ تاج الدین عمر بن علی فاکہانی مالکی رحمہ اللہ سے میلاد کے بارے میں سوال کیا گیا تو جواب میں آپ نے فرمایا: مجھے اس میلاد کی کوئی اصل (دلیل) کتاب وسنت میں نہیں ملتی اور علماء امت میں سے کسی کا اس پر عمل منقول نہیں ہے جو دین کے رہنما اور سلف متقدمین کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں بلکہ یہ بدعت ہے جس کو اہل باطل نے نکالا ہے اور جس کی طرف پیٹ کے پجاریوں نے اہتمام کیا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ہم اس پر شریعت کے پانچوں احکام کو تطبیق دیتے ہیں تو یا یہ واجب ہے یا مندوب ہے یا مباح ہے یا مکروہ ہے یا حرام ہے۔ واجب تو یہ باالاجماع نہیں ہے اور نہ مندوب ہے۔ وہ اس لئے کہ مندوب کی حقیقت یہ ہے کہ’’ شریعت اس کو طلب کرے اور اس کو ترک کرنے پر گناہ نہ ہو‘‘ اور اس کی نہ شریعت نے اجازت دی نہ صحابہ نے اس پر عمل کیا اور نہ تابعین نے اور نہ علمائے باعمل نے، اور نہ اس کا مباح ہونا ممکن ہے، کیونکہ دین میں نئی بات داخل کرنا بالاجماع مباح نہیں ہے تو اب مکروہ یا حرام ہونے کے علاوہ کوئی اور صورت باقی نہ رہی ‘‘۔

حرف آخر یہ کہ:

ہم اللہ کے پیارے رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں تو صرف ان اعمال کو بجا لائیں جو ہم سے شریعت نےطلب کئے ہیں تو محبت کا دعویٰ سچ ہو جائے گا۔

جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے:

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ، قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ۔ (آل عمران: 31-32)
ترجمہ: ’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالٰی اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ پھیر لیں تو بیشک اللہ تعالٰی کافروں سے محبت نہیں کرتا‘‘ ۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
سب سے بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ ہے۔ سب سے بری چیز (دین میں) نئی چیز پیدا کرنا ہے اور ہر نئی چیز بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی‘‘۔ ( سنن نسائی: جلد اول: حدیث 1581)

ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ارشاد فرمایا: ’’بلاشبہ اس امت کی عافیت اس کے شروع میں ہے اور اس کے آخر میں شدید مصیبتیں ہیں اور ایسے کام ہونگے اگر تم انہیں دیکھ لو تو تم انکار کردو گے‘‘۔ (’’و إن أمتكم هذه جعل عافيتها في أولها و سيصيب آخرها بلاء شديد و أمور تنكرونها‘‘صحيح وضعيف الجامع للشيخ الألباني (1/ 227) وصححہ۔)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تیسری عید کہاں سے آئی؟
بارہ ربیع الاول کو نہ صرف آنحضرت ﷺ کے یوم ولادت کی خوشی منائی جاتی ہے بلکہ اسے تیسری ‘عید’ سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام میں صرف دو عیدیں (عیدالفطر اور عیدالاضحی) ہیں۔ ان دو عیدوں کو خوشی کا تہوار آنحضرت ﷺ نے بذات خود اسی طرح مقرر فرمایا ہے جس طرح آپ ﷺ نے حلال وحرام کو متعین فرمایا ہے۔

جیسا کہ حضرت انس رض سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ خوشی کے دو تہوار منایا کرتے تھے۔ آنحضرتﷺ کے استفسار پر انہوں نے کہا کہ قدیم دور جاہلیت سے ہم اسی طرح یہ تہوار مناتے آ رہے ہیں تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

”إن اللہ قد أبدلکم بھما خیرا منھما یوم الأضحٰی ویوم الفطر”۔ (أبوداود: کتاب الصلاة، باب صلاة العیدین ؛۱۹۳۱)
”اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتر دو خوشی کے دن عطا فرمائے ہیں ؛ ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی۔”

ان دونوں عیدوں کے موقع پر با ادب طریقہ سے نماز عید ادا کی جاتی اور اللہ کا شکر بجا لایا جاتا ہے۔ نیز عیدالاضحی کے موقع پر جانور قربان کئے جاتے ہیں،

مگر بارہ ربیع الاول کی ‘عیدمیلاد’ کو اوّل تو آنحضرت ﷺ نے مقرر ہی نہیں فرمایا پھر اسے عید قرار دینے والے اس روز نماز عید کی طرح کوئی نماز ادا نہیں کرتے اور نہ ہی عیدالاضحی کی طرح قربانیاں کرتے ہیں اور فی الواقع ایسا کیا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ یہ ‘عید’ ہے ہی نہیں مگر اس کے باوجود اسے عید ہی قرار دینا بےجا تحکم، ہٹ دھرمی اور شریعت کی خلاف ورزی نہیں تو پھر کیا ہے؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
یہ جشن ولادت ہے یا جشن وفات؟
بارہ ربیع الاول کے حوالہ سے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ آنحضرتﷺ کی ولادت کا دن ہے حالانکہ بارہ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے پر مؤرخین کا ہرگز اتفاق نہیں۔ البتہ اس بات پر تقریباً تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ بارہ ربیع الاول کو حضور ﷺ کی وفات ہوئی۔ جیسا کہ مندرجہ تفصیل سے واضح ہوتا ہے:

یومِ ولادت کی تاریخ:
تمام مؤرخین اور اصحاب سیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ولادت باسعادت سوموار کے دن ہوئی، جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسولﷺ سے سوموار کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”ذاك یوم ولدت فیه ویوم بعثت أو أنزل علي فیه” ”یہی وہ دن ہے جس میں مَیں پیدا ہوا اور جس میں مجھے منصب رسالت سے سرفراز کیا گیا۔” (مسلم: کتاب الصیام: باب استحباب صیام ثلاثة أیام ؛۱۱۶۲)

البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ حضورﷺ کی تاریخ ولادت کیا ہے؟

حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور ﷺ عام الفیل (یعنی جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر سے بیت اللہ شریف پر حملہ کیا) میں پیدا ہوئے۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس میں بھی اختلاف نہیں کہ آپ ﷺ سوموار کے روز پیدا ہوئے۔ نیز لکھتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ آپ ﷺ ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے لیکن یہ کہ آپ ﷺ اس ماہ کے اول، آخر یا درمیان یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟ اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں کسی نے ربیع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول کہا۔ پھر حافظ ابن کثیر نے ان اقوال میں سے دو کو راجح قرا ردیا، ایک بارہ اور دوسرا آٹھ اور پھر خود ان دو میں سے آٹھ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو راجح قرار دیا۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ص۲۵۹ تا ۲۶۲؍ ج۲)

علاوہ ازیں بہت محققین نے 12 کی بجائے 9 ربیع الاول کو یومِ ولادت ثابت کیا ہے ، مثلاً

01. قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت دان: قسطنطنیہ (استنبول) کے معروف ماہر فلکیات اور مشہور ہیئت دان محمود پاشا فلکی نے اپنی کتاب ‘التقویم العربي قبل الإسلام’ میں ریاضی کے اصول وقواعد کی روشنی میں متعدد جدول بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ ”عام الفیل ماہ ربیع الاول میں بروز سوموار کی صحت کو پیش نظر اور فرزند رسول ‘حضرت ابراہیم رض’ کے یومِ وفات پر سورج گرہن لگنے کے حساب کو مدنظر رکھا جائے تو آنحضرت ﷺ کی وفات کی صحیح تاریخ 9 ربیع الاول ہی قرار پاتی ہے اور شمسی عیسوی تقویم کے حساب سے یومِ ولادت کا وقت 20 اپریل 571ء بروز پیر کی صبح قرار پاتا ہے۔”۔ (بحوالہ محاضراتِ تاریخ الامم الاسلامیہ از خضری بک :ص۶۲ ج۱/ حدائق الانوار:ص۲۹ ؍ج۱)

02. رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے زیر اہتمام سیرت نگاری کے عالمی مقابلہ میں اوّل انعام پانے والی کتاب ‘الرحیق المختوم’ کے مصنف کے بقول
”رسول اللہ ﷺ مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر 9 ربیع الاول سن 1، عام الفیل یوم دو شنبہ (سوموار) کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔” (الرحیق المختوم ص:۱۰۱)

03. برصغیر کے معروف مؤرخین مثلاً علامہ شبلی نعمانی، قاضی سلیمان منصور پوری، اکبر شاہ نجیب آبادی وغیرہ نے بھی 9 ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو از روئے تحقیق جدید صحیح ترین تاریخ ولادت قرار دیا ہے۔ (دیکھئے:سیرت النبی از شبلی نعمانی : ص۱۷۱؍ ج۱/تاریخ اسلام از اکبر شاہ :ص۸۷ ؍ج۱/رحمۃ للعالمین از منصور پوری: ص۳۶۱ ؍ج۲)

بارہ ربیع الاول یوم وفات ہے:
جمہور مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بارہ ربیع الاول حضور ﷺ کا یوم وفات ہے۔ بطورِ مثال چند ایک حوالہ جات سپردِ قلم کئے جاتے ہیں:

01. ابن سعد، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن عباس رض سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو فوت ہوئے (طبقات ابن سعد : ص۲۷۲ ج۲)

02. حافظ ذہبی نے بھی اسے نقل کیا ہے ۔ (دیکھئے تاریخ اسلام از ذہبی: ص۵۶۹)

03. حافظ ابن کثیر ابن اسحق کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ بارہ ربیع الاول کو فوت ہوئے۔ (البدایۃ والنھایۃ: ۲۵۵؍۵)

04. مؤرخ ابن اثیر رقم طراز ہیں کہ نبی اکرم ﷺ بارہ ربیع الاول بروز سوموار فوت ہوئے۔ (اسدالغابۃ: ۴۱؍۱/الکامل:۲۱۹؍۴)

05. حافظ ابن حجرؒ نے بھی اسے ہی جمہور کا مؤقف قرار دیا۔ (فتح الباری ۲۶۱؍۱۶)

06. محدث ابن حبان کے بقول بھی تاریخ وفات بارہ ربیع الاول ہے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن حبان: ص۴۰۴)

07. امام نووی نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ (شرح مسلم :۱۵؍۱۰۰)

08. مؤرخ ومفسر ابن جریر طبری نے بھی بارہ ربیع الاول کو تاریخ وفات قرار دیا ہے۔ (تاریخ طبری:۲۰۷؍۳)

09. امام بیہقی کی بھی یہی رائے ہے۔ (دلائل النبوۃ: ۲۲۵؍۷)

10. ملا علی قاری کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ۱۰۴؍۱۱)

11. سیرت نگار مولانا شبلی نعمانی کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ (سیرت النبی: ص۱۸۳؍ج۲)

12. قاضی سلیمان منصور پوری کی بھی یہی رائے ہے۔ (رحمۃ للعالمین:ص۲۵۱ ج۱)

13. صفی الرحمن مبارکپوری کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ (الرحیق: ص۷۵۲)

14. ابوالحسن علی ندوی کی بھی یہی رائے ہے۔ (السیرۃ النبویۃ: ص۴۰۴)

15. مولانا احمد رضا خان بریلوی کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ بارہ ربیع الاوّل کو فوت ہوئے۔ (ملفوظات)

ایک اور تاریخی حقیقت:
گذشتہ حوالہ جات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بارہ ربیع الاول یومِ ولادت نہیں بلکہ یوم وفات النبی ﷺ ہے اور برصغیر میں عرصہ دراز تک اسے ‘بارہ وفات’ کے نام ہی سے پکارا جاتا رہا ہے۔ اس دن جشن اور خوشی منانے والوں پر جب یہ اعتراض ہونے لگے کہ یہ تو یوم وفات ہے اور تم وفات پر شادیانے بجاتے ہو!… تو اس معقول اعتراض سے بچنے کےلئے کچھ لوگوں نے اس کا نام ‘بارہ وفات’ کی بجائے ‘عید میلاد’ رکھ دیا جیسا کہ روزنامہ ‘مشرق’ لاہور کی ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۴ء کی درج ذیل خبر سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے:

”اس سے پیشتر یہ یوم بارہ وفات کے نام سے منسوب تھا مگر بعد میں انجمن نعمانیہ ٹیکسالی گیٹ کے زیر اہتمام پیر جماعت علی شاہ، مولانا محمد بخش مسلم، نور بخش توکلی اور دیگر علما نے ایک قرار داد کے ذریعے اسے ‘میلاد النبی ﷺ’ کا نام دے دیا۔”

قصہ مختصر کہ اس روز جشن اور خوشیاں منانے والوں کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ وہ جس تاریخ کو خوشیاں مناتے ہیں، وہ نبی اکرم ﷺ کا یومِ پیدائش نہیں بلکہ یوم وفات ہے!

اور پھر بھی اگر یہ جشن ولادت ہے تو تب بھی بدعت ہے!

اگر بالفرض یہ تسلیم کر لیا جائے کہ بارہ ربیع الاول ہی آنحضرت ﷺ کا یوم ولادت ہے تو تب بھی اس تاریخ کو جشن عید اور خوشیاں منانا اور اسے کارِ ثواب سمجھنا از روئے شریعت درست نہیں کیونکہ جب خود حضور ﷺ نے اپنی ولادت کا ‘جشن’ نہیں منایا، کبھی ‘عید میلاد’ کا انتظام یا حکم نہیں فرمایا، نہ ہی صحابہ کرام نے کبھی یہ خود ساختہ ‘عید میلاد’ منائی اور نہ تابعین، تبع تابعین، مفسرین، محدثین اور ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ) سے اس کا کوئی ثبوت فراہم ہوتا ہے تو لامحالہ یہ دین میں اضافہ ہے جسے آپ بدعت کہیں یا کچھ اور… بہرصورت اگر اسے کارِ ثواب ہی قرار دینا ہے تو پھر اس ہٹ دھرمی سے پہلے اعلان کر دیجئے کہ آنحضرت ﷺ سمیت تمام صحابہ، تابعین، تبع تابعین وغیرہ اس ثواب سے محروم رہے اور ہم گنہگار (نعوذ باللہ) ان عظیم لوگوں سے سبقت لے گئے ہیں!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
بدعت عید میلاد کا موجد کون؟
عید میلاد کا جشن سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں رافضی وغالی شیعہ جنہیں فاطمی بھی کہا جاتا ہے، نے حب نبوی اور حب اہل بیت کی آڑ میں اس وقت جاری کیا جب انہیں مصر میں باقاعدہ حکومت واقتدار مل گیا۔ ان لوگوں نے نہ صرف’ میلاد النبی ﷺ’ کا تہوار جاری کیا بلکہ حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن وحسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ‘میلاد’ بھی سرکاری سطح پر جاری کئے۔ اس کے ثبوت اور حوالہ جات سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان فاطمیوں اور رافضیوں کے عقائد واعمال پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔

چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ ”یہ کافر وفاسق، فاجر وملحد، زندیق وبےدین، اسلام کے منکر اور مجوسیت وثنویت کے معتقد تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کیا، زنا کو جائز، شراب اور خون ریزی کو حلال قرار دیا۔ یہ دیگر انبیا کو گالیاں دیتے اور سلف صالحین پر لعن طعن کرتے تھے۔”
نیز لکھتے ہیں کہ ”فاطمی خلفاء بڑے مالدار، عیاش اور جابر وسرکش تھے۔ ان کے ظاہر وباطن میں نجاست کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کے دور حکومت میں منکرات وبدعات ظہور پذیر ہوئیں… سلطان صلاح الدین ایوبی نے ۵۶۴ ہجری میں مصر پر چڑھائی کی اور ۵۶۸ ہجری تک ان کا نام ونشان مٹا دیا۔” (البدایۃ والنھایۃ : ۱۱؍۲۵۵ تا ۲۷۱)

بدعت عیدمیلاد اور میلاد حسن وحسین کے موجد یہی فاطمی شیعہ تھے اس کے ثبوت کےلئے چند حوالہ جات ذکر کئے جاتے ہیں

01. مصر ہی کے ایک معروف مفتی علامہ محمد بخیت اپنی کتاب ”أحسن الکلام فیما یتعلق بالسنة والبدعة من الأحکام” میں صفحہ ۴۴،۴۵پر رقم طراز ہیں کہ
”إن أول من أحدثھا بالقاھرة الخلفاء الفاطمیون وأولھم المعز لِدین اﷲ توجه من المغرب إلی مصر في شوال سنة (۳۶۱ھ) إحدی وستین وثلاث مائة ھجریة …”
”سب سے پہلے قاہرہ (مصر) میں عید میلاد فاطمی حکمرانوں نے ایجاد کی اور ان فاطمیوں میں سے بھی المعزلدین اللہ سرفہرست ہے۔ جس کے عہد حکومت میں چھ میلاد ایجاد کئے گئے یعنی میلاد النبی ﷺ، میلاد علی، میلاد فاطمہ رضی اللہ عنہا، میلاد حسن، میلاد حسین اور حاکم وقت کا میلاد… یہ میلاد بھرپور رسم ورواج کے ساتھ جاری رہے حتیٰ کہ افضل بن امیر الجیوش نے بالآخر انہیں ختم کیا۔”

02. علامہ تقی الدین احمد بن علی مقریزی اس بدعت کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں: ”کان للخلفاء الفاطمیین في طول السنة أعیاد ومواسم وھي موسم رأس السنة وموسم أول العام ویوم عاشوراء ومولد النبي ﷺ ومولد علي بن أبي طالب ومولد فاطمة الزھراء ومولد الحسن ومولد الحسین ومولد الخلیفة الحاضر”(المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار:ج۱؍ ص۴۹۰)
”فاطمی حکمران سال بھر میلاد، تہوار اور جشن مناتے رہتے۔ اس سلسلے میں ہر سال کے آغاز (New year) پر اور عاشورا کے روز جشن منایا جاتا۔ اسی طرح میلاد النبی ﷺ، میلاد علی رض، میلاد فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا، میلاد حسن رض، میلاد حسین رض اور حاکم وقت کا میلاد بھی منایا جاتا۔”

03. علامہ ابوالعباس احمد بن علی قلقشندی بھی اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”فاطمی حکمران بارہ ربیع الاول کو تیسرا جلوس نکالتے تھے اور اس جلوس کے موقع پر ان کا معمول یہ تھا کہ دارالفطرۃ (مقام) میں ۲۰ قنطار (پیمانہ) عمدہ شکر سے انواع واقسام کا حلوہ تیار کیا جاتا اور پیتل کے ۳۰۰ خوبصورت برتنوں میں ڈال لیا جاتا۔ پھر جب میلاد کی رات ہوتی تو شریک میلاد مختلف لوگ مثلا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) داعی ومبلغ اور خطباء وقرأ حضرات، قاہرہ اور مصر کی دیگر یونیورسٹیوں کے اعلیٰ عہدیداران اور مزاروں وغیرہ کے دربان ونگران حضرات میں تقسیم کیا جاتا۔” (دیکھئے: صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ، ج۳؍ ص۴۹۸ تا ۴۹۹)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
بدعت میلاد: مصر کے فاطمیوں سے عراق (اِربل وموصل) کے سنّیوں تک:
عیدوں اور میلادوں کا جو سلسلہ مصر کے رافضی حکمرانوں نے ایجاد کیا تھا، وہ اگرچہ خلیفہ افضل بن امیر الجیوش نے اپنے عہد حکومت میں ختم کر دیا مگر اس کے مضر اثرات اطراف واکناف میں پھیل چکے تھے۔ حتیٰ کہ رافضی شیعوں سے سخت عداوت رکھنے والے سنی بھی ان کی دیکھا دیکھی عید میلاد منانے لگے۔ البتہ سنیوں نے اتنی ترمیم ضرور کرلی کہ شیعوں کی طرح میلاد علی رض، میلاد حسن وحسین رض وغیرہ کی بجائے صرف میلاد النبی ﷺ پر زور دیا۔

چنانچہ ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل المعروف ابوشامہ کے بقول: ”وکان أول من فعل ذلك بالموصل الشیخ عمر بن محمد الملا أحد الصالحین المشھورین وبه اقتدی في ذلك صاحب إربل وغیرہ”۔ (الباعث علی انکار البدع والحوادث ص۲۱)
”(سنیوں میں سے) سب سے پہلے موصل شہر میں عمر بن محمد ملا نامی معروف زاہد نے میلاد منایا۔ پھر اس کی دیکھا دیکھی ‘اربل’ کے حاکم نے بھی (سرکاری طور پر) جشن میلاد منانا شروع کر دیا۔”

اربل کا یہ حاکم ابوسعید کوکبوری بن ابی الحسن علی بن بکتیکن بن محمد تھا جو مظفر الدین کوکبوری کے لقب سے معروف تھا۔ ۵۸۶ ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے اربل کا گورنر مقرر کیا مگر یہ بےدین، عیاش اور ظالم وسرکش ثابت ہوا،

جیسا کہ یاقوت حموی لکھتے ہیں کہ: ”یہ گورنر بڑا ظالم تھا، عوام پر بڑا تشدد کرتا، بلاوجہ لوگوں کے اَموال ہتھیا لیتا اور اس مال ودولت کو غریبوں، فقیروں پر خرچ کرتا اور قیدیوں کو آزاد کرنے میں صرف کرتا اور ایسے ہی شخص کے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ ؎

کساعیة للخیر من کسب فرجھا لك الویل لا تزني ولا تتصدقي
”یہ تو اس عورت کی طرح ہے جو بدکاری کی کمائی سے صدقہ خیرات کرتی ہے۔ اے بدکار عورت! تیرے لئے ہلاکت ہے۔ نہ تو زنا کر اور نہ ایسی گندی کمائی سے صدقہ کر۔” (معجم البلدان: ص ۱۳۸، ج۱)

اسی ‘صاحب اربل’ ہی کے بارے میں امام سیوطی رقم طراز ہیں کہ: ”وأول من أحدث فعل ذلك صاحب إربل الملك المظفر أبوسعید کوکبوري” (الحاوی للفتاوی: ص۱۸۹ ج۱)
”سب سے پہلے (اربل میں) جس نے عید میلاد کی بدعت ایجادکی، وہ اربل کا حاکم الملک المظفر ابوسعید کوکبوری تھا۔”

شاہ اربل بدعت میلاد کا انعقاد کس جوش وخروش اور اہتمام وانصرام سے مناتا تھا، اس کا تذکرہ ابن خلکان نے ان الفاظ میں کیا ہے:

”محرم کے شروع ہوتے ہی بغداد، موصل، جزیرہ، سنجار، نصیبین اور عجم کے شہروں سے فقہا، صوفیا، وعظا، قرأ اور شعرا حضرات اربل آنا شرو ع ہو جاتے اور شاہ اربل مظفرالدین کوکبوری ان ‘مہمانوں’ کےلئے چار چار، پانچ پانچ منزلہ لکڑی کے قبے تیار کرواتا۔ ان میں سب سے بڑا قبہ اور خیمہ خود بادشاہ کا ہوتا اور باقی دیگر ارکانِ حکومت کےلئے ہوتے۔ ماہِ صفر کے آغاز میں ان قبوں اور خیموں کو خوب سجا دیا جاتا اور ہر قبے میں آلات رقص وسرود کا اہتمام کیا جاتا۔ ان دنوں لوگ اپنی کاروباری اور تجارتی مصروفیات معطل کر کے سیروتفریح کےلئے یہاں جمع ہوتے۔ حاکم وقت ہر روز عصر کے بعد ان قبوں کی طرف نکلتا اور کسی ایک قبے میں رقص وسرود کی محفل سے لطف اندوز ہوتا۔ پھر وہیں محفل میں رات گزارتا اور صبح کے وقت شکار کےلئے نکل جاتا، پھر بوقت دوپہر اپنے محل میں واپس لوٹ آتا۔ عیدمیلاد تک شاہ اربل کا یہی معمول رہتا۔ ایک سال ۸؍ ربیع الاول اور ایک سال ۱۲؍ ربیع الاول کو عیدمیلاد منائی جاتی۔ اس لئے کہ (اس وقت بھی) آنحضرت ﷺ کے یوم ولادت کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ عیدمیلاد سے دو دن پہلے شاہِ اربل اونٹوں، گائیوں اور بکریوں کی بہت بڑی تعداد اور طبلے، سارنگیاں وغیرہ کے ساتھ میلاد منانے نکلتا اور ان جانوروں کو ذبح کرکے شرکائے میلاد کی پرتکلف دعوت کی جاتی۔”۔ (وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان لابن خلکان : ص۱۱۷ ؍ج۴)

سبط ابن جوزی کا بیان ہے کہ ”اس بادشاہ (کوکبوری) کے منعقد کردہ جشن میلاد کے دستر خوان پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے اس نے دستر خوان پر ۵ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ۱۰۰ گھوڑے، ایک لاکھ پیالے اور ۳۰ ہزار حلوے کی پلیٹیں شمار کیں۔ اس کے پاس محفل میلا دمیں بڑے بڑے مولوی اور صوفی حاضر ہوتے جنہیں وہ خلعت فاخرہ سے نوازتا، ان کےلئے خیرات کے دروازے کھول دیتا اور صوفیا کےلئے ظہر سے فجر تک مسلسل محفل سماع منعقد کراتا جس میں وہ بذات خود شریک ہوکر رقص کرتا۔ ہر سال اس محفل میلاد پر یہ بادشاہ تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔”۔ (مرآۃ الزمان: ص۲۸۱ ج۸)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
بدعت میلاد اور نفس پرست علماء:
بدعت میلاد جب شیعوں سے سنّیوں اور سنّیوں کے بھی بادشاہوں میں رائج ہو گئی تو اب ان بادشاہوں کے خلاف آواز حق بلند کرنا یا دوسرے لفظوں میں ان کے بدعات وخرافات پر مذمت کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ بعض خود غرض مولویوں نے بادشاہ وقت کی ان تمام خرافات کو عین شریعت اور کارِ ثواب قرار دے دیا۔

چنانچہ عمر بن حسن المعروف ابن دحیہ اندلسی نامی ایک مولوی نے ”التنویر في مولد البشیر والنذیر” نامی کتاب لکھی جس میں قرآن وسنت کے نصوص کو سیاق وسباق سے کاٹ کر اور انہیں تاویلات باطلہ کا لبادہ اوڑھا کر عید میلاد کو شرعی امر ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور بادشاہ وقت سے ہزار دینار انعام حاصل کیا۔ (ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ۱۳؍۱۲۴/وفیات الاعیان: ۴؍۱۱۹/الحاوی للفتاوی: ۱؍۱۸۹)

واضح رہے کہ اس ابن دحیہ اندلسی کو محدثین نے ضعیف اور ناقابل اعتماد راوی قرار دیا ہے مثلاً امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ یہ متہم (جس پر جھوٹ کا الزام ہو) راوی ہے۔ (میزان الاعتدال :۳؍۱۸۶)

اسی طرح حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ ”یہ ظاہری مذہب کا حامل تھا۔ ائمہ کرام اور سلف صالحین کی شان میں گستاخی کرتا تھا۔ خبیث اللسان، احمق، شدید متکبر، دینی اُمور میں کم علم اور بے عمل شخص تھا۔” (لسان المیزان:ص۲۹۶؍ ج۴)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
بدعت میلاد برصغیر (لاہور) میں:
گذشتہ صفحات میں یہ بات بتائی جا چکی ہے کہ بدعت میلاد چوتھی صدی ہجری (۳۶۱ھ) میں مصر کے فاطمیوں (غالی شیعہ) نے ایجاد کی پھر چھٹی صدی ہجری میں سنیوں میں بھی یہ رواج پا گئی۔ تاہم گردش ایام کے ساتھ یہ بدعت طبعی موت مر گئی۔ پھر برسوں بعد برصغیر میں انگریز کے آخری دور میں یہ دوبارہ زندہ ہو گئی۔ اس لئے کہ برصغیر کی عیسائی حکومت ہر ۲۵ دسمبر کو سرکاری سطح پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یومِ ولادت کا جشن مناتی تھی جس کی دیکھا دیکھی بعض کم علم مسلمانوں نے حب نبوی کے احساس سے اپنے طور پر عید میلاد النبی ﷺ منانا شروع کر دی۔ اگرچہ بعض لوگ بدعت میلاد کے قلابے اکبر دور سے ملاتے ہیں مگر معقول بات یہی دکھائی دیتی ہے کہ عیسائیوں کے کرسمس کے ردعمل میں مسلمانوں نے عید میلاد کو رواج دیا۔ اس سلسلے میں درج ذیل دو تاریخی حوالے قابل توجہ ہیں:

01. روزنامہ ‘کوہستان’ ۲۲؍ جولائی ۱۹۶۴ء میں احسان بی اے ‘لاہور میں عید میلاد النبی ﷺ ‘ کی سرخی کے تحت لکھتے ہیں کہ ”لاہور میں عید میلاد النبی ﷺ کا جلوس سب سے پہلے ۵ ؍جولائی ۱۹۳۳ء مطابق ۱۲؍ربیع الاول ۱۳۵۲ھ کو نکلا۔ اس کےلئے انگریزی حکومت سے باقاعدہ لائسنس حاصل کیا گیا تھا۔ اس کا اہتمام انجمن فرزندانِ توحید موچی دروازہ نے کیا۔ اس انجمن کا مقصد ہی اس کے جلوس کا اہتمام کرنا تھا۔ انجمن کی ابتدا ایک خوبصورت جذبہ سے ہوئی۔ موچی دروازہ لاہور کے ایک پرجوش نوجوان حافظ معراج الدین اکثر دیکھا کرتے تھے کہ ہندو اور سکھ اپنے دھرم کے بڑے آدمیوں کی یاد بڑے شاندار طریقے سے مناتے ہیں اور ان دنوں ایسے لمبے لمبے جلوس نکلتے ہیں کہ کئی بازار ان کی وجہ سے بند ہو جاتے ہیں۔ حافظ معراج الدین کے دل میں خیال آیا کہ دنیا کےلئے رحمت بن کر آنے والے حضرت محمد ﷺ کی یاد میں اس سے بھی زیادہ شاندار جلوس نکلنا چاہئے … انہوں نے ایک انجمن قائم کی جس کا مقصد عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر جلوس مرتب کرنا تھا۔

اس میں مندرجہ ذیل عہدیدار تھے:
(1) صدر: مستری حسین بخش (2) نائب صدر: مہر معراج دین (3) حافظ معراج الدین (4) پراپیگنڈہ سیکرٹری: میاں خیر دین بٹ (بابا خیرا) (5) خزانچی: حکیم غلام ربانی… اشتہارات کے ذریعہ جلوس نکالنے کے ارادہ کو مشتہر کیا گیا۔ چست اور چاق وچوبند نوجوانوں کی ایک رضا کار جماعت بنائی گئی اور جگہ جگہ نعتیں پڑھنے کا انتظام کیا گیا… الخ”

02. روزنامہ ‘مشرق’ مؤرخہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۸۴ء (۱۲؍ ربیع الاول ۱۴۰۴ھ) میں مصطفی کمال پاشا (صحافی) ”لاہور میں ۱۲ ربیع الاول کا جلوس کیسے شروع ہوا؟” کی سرخی کے بعد لکھتے ہیں کہ ”آزادی سے پیشتر ہندوستان میں حکومت برطانیہ ۲۵ دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم پیدائش کو بڑے تزک واحتشام کے ساتھ منانے کا انتظام کرتی اور اس روز کی فوقیت کو دوبالا کرنے کےلئے اس دن کو ‘بڑے دن’ کے نام سے منسوب کیا گیا … تاکہ دنیا میں ثابت کیا جا سکے کہ حضرت مسیح ہی نجات دہندہ تھے۔

حضور پاک ﷺ بارہ ربیع الاول کو اس دنیا میں تشریف لائے اور اسی روز وفات پائی۔ کچھ لوگ اس یوم مقدس کو ‘بارہ وفات’ کے نام سے پکارتے ہیں۔ آزادی سے پیشتر اس یوم کے تقدس کے پیش نظر مسلمانان لاہور نے اظہار مسرت وعقیدت کے طور پر جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا… ان دنوں کانگریس اپنے اجتماع موری دروازہ میں منعقد کیا کرتی تھی اور اس کے مقابلہ میں مسلمان اپنے اجتماع موچی دروازہ لاہور میں منعقد کرتے تھے، لہٰذا موچی دروازہ کو سیاسی مرکز ہونے کے علاوہ سب سے پہلے عید میلاد النبی ﷺ کا جلوس نکالنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ علمی طور پر اس کی قیادت انجمن فرزندانِ توحید موچی گیٹ کے سپرد ہوئی۔ جس میں حافظ معراج دین… وغیرہ شامل تھے۔

انجمن کی زیر قیادت جلوس کو دلہن کی طرح سجایا جاتا۔ جلوس میں شامل نوجوانوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتیں۔ سیاسی اور سماجی کارکنوں کے علاوہ جلوس کے آگے پہلوانوں کی ٹولی بھی شمولیت کرتی۔”

واضح رہے کہ (1) روزنامہ کوہستان نے انجمن فرزندانِ توحید کے عہد یداران کی تصاویر اخبارِ مذکور میں شائع کیں اور (2) روزنامہ مشرق نے اس لائسنس کا عکس بھی شامل اشاعت کیا جو (میلاد النبی ﷺ کے جلوس کی اجازت کےلئے) حکومت برطانیہ سے حاصل کیا گیا تھا۔ (3) علاوہ ازیں مذکورہ اخبارات کی فوٹو سٹیٹ تحریریں ماہنامہ ‘حرمین’ جامعہ علوم اثریہ، جہلم کے ادارہ کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
بدعت عید میلاد سے متعلقہ شبہات کا ازالہ اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ

عید میلاد کے بدعت ہونے میں کوئی شک تو باقی نہیں رہ جاتا مگر اس کے باوجود بعض علما اسے کسی نہ کسی طرح شرعی لبادہ پہنانا چاہتے ہیں خواہ اس کےلئے انہیں قرآنی آیات میں کھینچا تانی کرنا پڑے یا کفار (ابولہب وغیرہ) کے عمل سے استدلال کرنا پڑے مگر حق بہرحال حق ہے جو باطل کی ملمع سازیوں کے باوجود آخر کار نکھر ہی آتا ہے۔ اس لئے آئندہ سطور میں بدعت میلاد کو جائز قرار دینے والوں کے دلائل کاجائزہ پیش کیا جاتا ہے!

قرآنی دلائل:

01. ﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ قَد جاءَتكُم مَوعِظَةٌ مِن رَ‌بِّكُم وَشِفاءٌ لِما فِى الصُّدورِ‌ وَهُدًى وَرَ‌حمَةٌ لِلمُؤمِنينَ ٥٧ قُل بِفَضلِ اللَّهِ وَبِرَ‌حمَتِهِ فَبِذ‌ٰلِكَ فَليَفرَ‌حوا…٥٨﴾… (سورة يونس)
”اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں، ان کےلئے شفا ہے اور وہ رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کےلئے۔ (اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے۔”

اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ نصیحت، شفا، ہدایت اور رحمت وغیرہ حضور ﷺ کی پیدائش اور تشریف آوری ہی پر موقوف ہے۔ اس لئے سب سے بڑی رحمت ونعمت تو خود حضورﷺ کی ذات گرامی ٹھہری، لہٰذا آپ ﷺ کی تشریف آوری پر خوشی منانا چاہئے اور فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا میں بھی خوشی منانے کا حکم ہے۔

جواب:
01. سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا اور آپ ﷺ ہی حکم خداوندی سے اس کی قولی وعملی تفسیر وتشریح فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کی رسالت وبعثت کے بعد ۲۳ مرتبہ یہ دن آیا مگر آپ ﷺ نے ایک مرتبہ بھی اس کی قولی وعملی تفسیر فرماتے ہوئے عید میلاد نہیں منائی اور نہ ہی صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین، مفسرین ومحدثین وغیرہ کو اس آیت میں عید میلاد نظر آئی مگر داد ہے ان نکتہ دانوں کےلئے جنہیں چودہ سو سال بعد خیال آیا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عید میلاد النبی ﷺ منانے کا حکم دیا ہے اور ان پاکباز ہستیوں کو یہ نکتہ رسی نہ سوجھی کہ جنہیں نزول قرآن کے وقت براہ راست یہ حکم دیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں ولادت نبوی ﷺ یا عید میلاد کا کوئی ذکر واشارہ تک بھی نہیں بلکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نزول قرآن کی نعمت پر خوش ہوجاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کےلئے اسے نازل کیا ہے۔
علاوہ ازیں خوشی کا تعلق انسان کی طبیعت اور قلبی کیفیت سے ہوتا ہے نہ کہ وقت اور دن کے ساتھ۔ اس لئے اگر نزول قرآن یا صاحب قرآن (آنحضرتﷺ) پر خوش وخرم ہونے کا حکم ہے تو یہ خوشی قلبی طور پر ہر وقت موجود رہنی چاہئے، نہ کہ صرف بارہ ربیع الاول کو اس خوشی کا اظہار کرکے پورا سال عدم خوشی میں گزار دیا جائے۔ اگر آپ کہیں کہ خوشی تو سارا سال رہتی ہے تو پھر آپ سے از راہ ادب مطالبہ ہے کہ یا تو سارا سال بھی اسی طرح بھنگڑے ڈال کر اور جلوس نکال کر خوشی کا اظہار کیا کریں یا پھر باقی سال کی طرح بارہ ربیع الاول کو بھی سادگی سے گزارا کریں۔

02. ﴿وَأَمّا بِنِعمَةِ رَ‌بِّكَ فَحَدِّث ﴿١١﴾… سورة الضحىٰ ”اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا رہ۔”

اس آیت سے بھی یہ کشید کیا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُمت مسلمہ کےلئے سب سے بڑی نعمت ہیں لہٰذا اس نعمت عظمیٰ کا اظہار بھی بڑے پر شوکت جشن وجلوس سے کرنا چاہئے۔

جواب:
01. اس آیت میں اگرچہ انعامات خداوندی کے اظہار کا ذکر ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا کسی نعمت کے اظہار کےلئے اسلام نے جلوس نکالنے کا حکم دیا ہے؟ مثلاً آپ کے گھر میں بیٹا پیدا ہو تو تحدیث نعمت کے طور پر آپ شہر بھر میں جلوس نکالیں گے؟ اگر آپ ہاں بھی کہہ دیں تو اللہ کی نعمتیں شمار سے باہر ہیں، آخر کس کس نعمت پر جلوس نکالیں گے…؟

02. آنحضرت ﷺ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ ہیں مگر سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ صحابہ کرام نے اس نعمت عظمیٰ کی کس طرح قدر کی؟ کیا وہ آنحضرت ﷺ کا عید میلاد مناکر اور جلوس نکال کر آنحضرت ﷺ کی قدر ومنزلت کا خیال کیا کرتے تھے یا آپﷺ کے اقوال وفرمودات پر عمل پیرا ہوکر اس نعمت کا اظہار کیا کرتے تھے؟ جس طرح صحابہ کرام کیا کرتے تھے، من وعن اسی طرح ہمیں بھی کرنا چاہئے۔ اگر وہ جلوس نکالا کرتے تھے تو ہمیں بھی ان کی اقتدا کرنی چاہئے اگر ان سے آنحضرت ﷺ کی زندگی یا بعد از وفات ایک مرتبہ بھی جشن وجلوس منانا ثابت نہیں تو پھر کم از کم ہمیں بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔

03. یہ آیت آنحضرت ﷺ پرنازل ہوئی مگر آپ ﷺ نے زندگی بھر ایک مرتبہ بھی عید میلاد نہیں منائی، پھر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم اسے کارِ ثواب قرار دے کر دین میں اضافہ، اپنے عملوں کو برباد اور اللہ کے رسول ﷺ کی مخالفت کریں۔

03. ﴿وَذَكِّر‌هُم بِأَيّىٰمِ اللَّهِ…٥﴾… سورة ابراهيم ”اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلاؤ۔”

04. ﴿وَالسَّلـٰمُ عَلَىَّ يَومَ وُلِدتُ وَيَومَ أَموتُ وَيَومَ أُبعَثُ حَيًّا ٣٣﴾… سورة مريم ”اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ کھڑا کیا جاؤں گا، سلام ہی سلام ہے۔”

05. ﴿وَرَ‌فَعنا لَكَ ذِكرَ‌كَ ٤﴾… سورة الشرح ”اور ہم نے آپﷺ کا ذکر بلند کردیا”

جواب:
ان تینوں آیات سے بھی عید میلاد ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ آیات میں کہیں جشن عید میلاد کا ذکر نہیں۔ اگر اس کا کوئی اشارہ بھی ہوتا تو وہ صحابہ کرام سے آخر کیسے مخفی رہ سکتا تھا؟!

آیت (3) میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی قوم کو گذشتہ قوموں کے واقعات سے باخبر کریں کہ کس طرح ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے انہیں ہلاکت وعذاب سے دوچار کیا گیا اور اطاعت گزاروں کو کامیابی سے نوازا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ ؒ نے اپنی اصول تفسیر کی کتاب ‘الفوز الکبیر’ میں قرآنِ مجید کے پانچ علوم میں سے ایک کا نام ‘علم التذکیر بایام اللہ’ رکھا جس میں گذشتہ اقوام کے عروج وزوال، انعام واکرام یا ہلاکت وعذاب پر بحث کی جاتی ہے۔ اگر بالفرض اس آیت سے گذشتہ نبیوں کا میلاد منانا مراد ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے گذشتہ نبیوں کا میلاد کیوں نہ منایا؟ اور آنحضرت ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام وغیرہ کا میلاد کیوں نہ منایا؟

آیت (4) میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے اور انہوں نے کبھی میلاد نہ منایا نہ ان کے حواریوں نے ایسا کیا البتہ ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کے عرصہ دراز بعد تقریباً ۳۳۶؁میں پہلی مرتبہ رومیوں نے اس بدعت کو دین عیسوی میں ایجاد کیا۔ روم کے عیسائی علما نے باہم مشورہ سے طے کیا کہ مقامی بت پرستوں کے مقابلہ میں مسیحیوں کی شناخت کےلئے بھی کوئی تہوار ہونا چاہئے۔ رومی بت پرست ۶؍ جنوری کو اپنے ایک دیوتا کے احترام میں تہوار مناتے تھے لہٰذا عیسائیوں نے بھی کرسمس کےلئے یہی تاریخ منتخب کی مگر بعد میں عیسائیوں نے ۲۵ دسمبر کو کرسمس منانے پر اتفاق کر لیا کیونکہ اس تاریخ کو سب سے بڑے دیوتا (یعنی سورج) کا تہوار منایا جاتا تھا۔ پھر دین عیسوی کی اس بدعت کو جب اللہ کے رسول ﷺ نے ہرگز اختیار نہیں کیا تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس کی بنیاد پر میلاد النبیﷺ منائیں۔

علاوہ ازیں اگر یوم ولادت سے عید میلاد منانے کا جواز ہے تو پھر اس آیت میں موجود یَوْمَ أَمُوْتُ سے ‘یومِ سوگ ‘ بھی منانا چاہئے۔ اگر ‘یوم سوگ’ نہیں تو پھر جشن ولادت ہی کیوں؟

آیت (5) میں اللہ کے رسول ﷺ کی عظمت ورفعت کا ذکر ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے، بدعت میلاد کے مرہون منت قرار نہیں دیا۔ لیکن اگر اللہ کے رسول ﷺ کی رفعت وعظمت جشن میلاد ہی سے ممکن ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ جب تک یہ بدعت ایجاد نہیں ہوئی تھی تب تک حضور ﷺ کی رفعت کیسے قائم رہی؟
 
Top