• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید کا خطبہ منبر پر دینا بدعت ہے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عید کا خطبہ منبر پر دینا بدعت ہے؟

سوال: عید کا خطبہ منبر پر دینے کا کیا حکم ہے؟ میں نے کچھ دوستوں سے سنا ہے کہ یہ واضح بدعت ہے، تو کیا ان کی بات صحیح ہے؟

Published Date: 2016-09-07
الحمد للہ:


اول:

صحیح اور راجح موقف کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کا خطبہ منبر پر نہیں دیتے تھے۔

امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری: (2/17) میں عنوان قائم کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"باب ہے: عید گاہ کی جانب منبر کے بغیر جانے کے بیان میں" انتہی

پھر اس کے بعد یہ حدیث : (956)ذکر کی:

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ جاتے اور سب سے پہلے عید نماز پڑھاتے اور سلام پھیرنے کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے، لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں وعظ و نصیحت فرماتے اور نیکی کا حکم دیتے، پھر اس کے بعد اگر کسی مہم پر صحابہ کرام کو روانہ کرنا ہوتا تو افراد چن کر روانہ کر دیتے، یا کسی کام کا حکم دینا ہوتا تو حکم دے کر گھروں کی جانب واپس روانہ ہوتے" ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : لوگوں کا اسی پر عمل جاری و ساری رہا ، یہاں تک کہ میں مدینہ کے گورنر مروان کے ساتھ عید الاضحی یا عید الفطر کے موقع پر عید گاہ گیا ، جب ہم عید گاہ پہنچے تو وہاں کثیر بن صلت نے منبر بنایا ہوا تھا، تو مروان نے نماز سے قبل منبر پر چڑھنا چاہا تو میں نے اس کے کپڑے سے کھینچا، تو مروان اپنا کپڑا چھڑوا کر منبر پر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے لوگوں سے خطاب کیا، اس پر میں [ابو سعید] نے کہا: "اللہ کی قسم ! تم نے دین بدل دیا ہے"
تو مروان نے کہا: "ابو سعید! جو باتیں تم جانتے ہو [ان کا دور ]اب نہیں رہا"
ابو سعید نے جواب دیا: "اللہ کی قسم ! جو باتیں میرے علم میں ہیں وہ ان سے کہیں بہتر ہیں جو میرے علم میں نہیں ہیں!"
مروان نے کہا: "لوگ نماز کے بعد ہمارے خطاب کیلیے بیٹھتے نہیں تھے، اس لیے میں نے اپنے خطاب کو ہی نماز سے پہلے کر دیا"


ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"عید گاہ میں منبر نہیں ہوتا تھا، اور نہ ہی مدینہ میں [مسجد نبوی کا ] منبر عید گاہ لایا جاتا تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین پر کھڑے ہو کر خطاب کرتے تھے، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید گاہ میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے سے پہلے بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی ، پھر بلال کا سہارا لیکر خطاب کیلیے کھڑے ہوئے اور لوگوں کو تقوی الہی کا حکم دیا ، اطاعت گزاری کی ترغیب دلائی اور لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمائی، پھر آپ خواتین کی جانب تشریف لے آئے، اور انہیں بھی وعظ و نصیحت فرمائی" متفق علیہ" انتہی
"زاد المعاد" (1/ 429)

ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:

" عیدین ، حج اور دیگر خطبوں کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسجد نبوی میں اکثر خطاب منبر پر ہوتے تھے۔" انتہی
"فتح الباری" (3/ 403)

مزید کیلیے سوال نمبر: (49020)

دوم:

ایسے جزوی مسائل کو اختلافات ، تصادم، اور مسلمانوں میں پھوٹ کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے، اور نہ ہی جلد بازی کرتے ہوئے ان پر بدعت کا فتوی لگانا چاہیے، اگر یہ عمل بدعت ہوتا تو ابو سعید رضی اللہ عنہ اس پر ضرور قدغن لگاتے جیسے کہ انہوں نے مروان کے نماز سے پہلے خطبہ دینے پر قدغن لگایا۔

یہ بات درست اور ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر عید گاہ لے جانے کا حکم نہیں دیا، تاہم امید ہے کہ اس میں گنجائش ہو گی، خصوصاً اگر عید گاہ میں منبر کی ضرورت ہو تو وہاں گنجائش کی ضرورت مزید بڑھ جائے گی۔

ابن بطال رحمہ اللہ "شرح البخاری" (2/ 554) میں کہتے ہیں:

"اشہب مجموعہ میں کہتے ہیں: عیدین کے دن منبر عید گاہ لے جانے کی گنجائش موجود ہے، چاہے تو منبر عید گاہ لے جائیں اور اگر چاہے تو نہ لے کر جائیں" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:

"عید کی نماز میں امام کیلیے منبر پر خطاب کرنا مسنون ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:

"کچھ علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ یہ سنت ہے؛ کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عید کے دن خطاب کیا اور پھر نیچے اتر کر خواتین کے پاس گئے، اب ان اہل علم کا کہنا ہے کہ: نیچے اترنے کا عمل کسی اونچی جگہ سے ہی ہوتا ہے، چنانچہ اسی پر عمل جاری و ساری ہے۔

جبکہ دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ عید گاہ میں منبر نہ لیکر جانا زیادہ بہتر ہے۔
تاہم عید گاہ میں منبر لے جانے یا نہ لے جانے ہر دو صورت کی گنجائش ہے، ان شاء اللہ" انتہی

" مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (16 /350)

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

https://islamqa.info/ur/210286
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
کیا سیدنا مروانؓ کا خطبہ عید کو صلوٰۃ پر مقدم کرنا بدعت تھا؟
================================

ایک بہت ہی فاضل دوست نے بتایا کہ ایک صاحب معترض ہوئے کہ تم مروان بن الحکمؓ کو صحابی مانتے ہو جبکہ صحیح بخاری میں روایت موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن ( مدینہ کے باہر ) عیدگاہ تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے، نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے۔ تمام لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں وعظ و نصیحت فرماتے، اچھی باتوں کا حکم دیتے۔ اگر جہاد کے لیے کہیں لشکر بھیجنے کا ارادہ ہوتا تو اس کو الگ کرتے۔ کسی اور بات کا حکم دینا ہوتا تو وہ حکم دیتے۔ اس کے بعد شہر کو واپس تشریف لاتے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگ برابر اسی سنت پر قائم رہے لیکن معاویہ کے زمانہ میں مروان جو مدینہ کا حاکم تھا پھر میں اس کے ساتھ عیدالفطر یا عید الاضحی کی نماز کے لیے نکلا ہم جب عیدگاہ پہنچے تو وہاں میں نے کثیر بن صلت کا بنا ہوا ایک منبر دیکھا۔ جاتے ہی مروان نے چاہا کہ اس پر نماز سے پہلے ( خطبہ دینے کے لیے ) چڑھے اس لیے میں نے ان کا دامن پکڑ کر کھینچا اور لیکن وہ جھٹک کر اوپر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے خطبہ دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ واللہ تم نے ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ) بدل دیا۔ مروان نے کہا کہ اے ابوسعید! اب وہ زمانہ گزر گیا جس کو تم جانتے ہو۔ ابوسعید نے کہا کہ بخدا میں جس زمانہ کو جانتا ہوں اس زمانہ سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا۔ مروان نے کہا کہ ہمارے دور میں لوگ نماز کے بعد نہیں بیٹھتے، اس لیے میں نے نماز سے پہلے خطبہ کو کر دیا۔

ہمیں سخت تعجب ہوتا ہے جب دینی علوم میں رسوخ رکھنے والے اصحاب کی طرف سے ایسے الزامات سامنے آتے ہیں، خاص کر وہ لوگ جنکا اوڑھنا بچھونا صحیح بخاری اور فتح الباری جیسی کتب ہوں۔ سب پہلی بات تو یہ ہے کہ اس روایت میں جو یہ الفاظ آتے ہیں کہ سیدنا مروانؓ نے سب سے پہلے یہ فعل انجام دیا تو یہ راوی کا وہم یا اسکا اپنا خیال ہے کیونکہ احادیث کی کتب میں ایسی کئی روایات موجود ہیں جن میں اس فعل کو سب سے پہلے کرنے کی بابت دوسرے کئی حضرات کے بھی نام آتے ہیں جیسا کہ مصنف عبدالرزاق الجز الثالث، باب اول من خطب ثم صلیٰ رقم الحدیث ۵۶۴۴ اور مصنف ابن ابی شیبہ الجز الثانی تحت رخص ان یتخطب قبل الصلوٰۃ میں تصریح موجود ہے کہ عیدالفطر کی صلوٰۃ سے قبل جنہوں نے سب پہلے خطبہ دیا وہ سیدنا عمر بن خطابؓ تھے جبکہ علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری الجز الثانی تحت کتاب العیدین صفحہ ۴۵۵ میں لکھتے ہیں کہ ابن منذر نے حسن بصری سے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ حسن بصری نے کہا کہ صلوٰۃ سے قبل سب سے پہلےجس نے خطبہ دیا وہ سیدنا عثمانؓ تھے۔ جبکہ اسی صفحہ پر ابن حجر عسقلانی محدث عبدالرزاق کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ صلوٰۃ العید سے قبل سب سے پہلے خطبہ زیاد بن ابو سفیانؓ نے بصرہ میں دیا تھا۔

عبدالرزق اپنی مصنف میں جہاں اس فعل کو سب سے اول کرنے کی سیدنا عمرؓ کی روایت لائے ہیں وہی وہ ابن شہاب زہری کے حوالے سے ایک اثر لائے ہیں جس میں مذکور ہے کہ صلوٰۃ العید سے قبل خطبہ سب سے پہلے سیدنا معاویہؓ نے دیا تھا۔ (الجزا لثالث رقم الحدیث ۵۶۴۶)
جبکہ مسند احمد کی روایت کے تحت سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ صلوٰۃ العید سے قبل یا بعد میں دونوں مواقع پر خطبہ دینے کو سنت رسولﷺ جانا کرتے تھے۔ (جلد ۱۲، رقم الحدیث ۱۶۰۵۳)

سو ہمارے معترض احباب کیا فرماتے ہیں کیا سیدنا مروانؓ کے ساتھ ساتھ وہ سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ، سیدنا معاویہؓ اور سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ پر بھی اس بدعت کے اجراء کا الزام لگائینگے جبکہ حقیقت میں سیدنا مروانؓ نے تو یہ فعل ان اصحاب رسولﷺ کے بعد یعنی ان کی اتباع میں ادا کیا تھا۔ المختصر سیدنا مروانؓ کا یہ فعل کسی طور سے بدعت نہیں بلکہ اپنے ماقبل اصحاب رسولﷺ کی پیروی میں تھا۔

دوم یہ کہ بخاری کی اس روایت سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا مروانؓ نے یہ فعل غالباً ایک یا دو دفعہ ہی کیا ہو گا اور سیدنا ابو سعید الخدریؓ کے تنبیہ کرنے پر اس سے رجوع کرلیا۔ کیونکہ اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ یہ فعل سیدنا مروانؓ کا مستقل عمل تھا تو پھر کیا وجہ ہے کہ کسی دوسری روایت میں اس "بدعی فعل" کی منسوخی کا ذکر نہیں ملتا کہ نئے گورنر نے آکر اس "بدعت" کو موقوف کرکے واپس اصل سنت کی طرف لوٹا دیا ہو۔پھر روایت کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں کہ جب سیدنا مروانؓ خطبہ دیکر منبر سے اترے تو ابو سعید الخدریؓ نے ان سے سنت کی تبدیلی کے الفاظ بیان فرمائے گویا جب تک سیدنا مروانؓ خطبہ دیتے رہے، ابو سعید الخدریؓ نے بیٹھ کر پورا خطبہ سنا، جو کہ یہ ثابت کرتا ہے کہ سیدنا ابو سعیدؓ کے نزدیک بھی یہ فعل کوئی بدعت سئیہ نہیں بلکہ صرف مستحب کو ترک کرنا تھا کیونکہ اگر یہ بدعت سئیہ ہوتا تو وہ کبھی پورا خطبہ بیٹھ کر نہ سنتے۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کا فعل ملتا ہے ککہ جب انہوں نے ایک موذن کو اذان کے بعد مسجد میں تثویب کہتے سنا تو مسجد سے چلے آئے اور وہاں صلوٰۃ ادا نہ کی۔ اب سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بھی سیدنا مروانؓ کے دور گورنری مدینہ میں حیات تھے اور آپؓ بھی اس خطبہ عید میں حاضر رہے ہونگے لیکن کیا وجہ ہوئی کہ انہوں نے اس بابت کوئی احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی اس خطبہ کا بائیکاٹ کرکے بلا صلوٰۃ ادا کئے چلے آئے۔پھر یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہے کہ سیدنا مروانؓ کا یہ فعل صرف ایک دفعہ ہی کتب احادیث میں ملتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا مروانؓ نے سیدنا ابو سعید الخدریؓ کی تنبیہ کے بعد اپنے اس عمل سے رجوع کرلیا تھا اور جب ۶۴ ہجری میں وہ برسرخلافت آئے تو اس سال عید الفطر اور عید الاضحٰی کے خطبہ آپؓ نے ہی دیئے اور سنت کے مطابق دئیے، اسی لئے اس بابت دوبارہ کہیں سے کوئی اعتراض وارد نہیں ہوا۔

پھر معترضین کو ذرا اس بات کا بھی پاس رہے کہ ہم عصر افراد میں سیدنا مروانؓ کا درجہ مجتہد کا تھا جن کے فتاویٰ اور قضایا سے امام مالک جیسی شخصیات استنباط و استدلال کرتی رہی ہیں۔ اپنی گورنری کے دور میں انہوں نے سیدنا ابو ہریرہؓ کی اصلاح کرائی جس میں وہ ایک مسئلہ کے تحت صوم کے فاسد ہونے کا فتوی دیتے تھے جبکہ اس سے صوم فاسد نہیں ہوتا تھا۔ (صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب صائم یصبح جنباً، رقم الحدیث ۱۹۲۵) اور صحیح مسلم کی حدیث کے تحت سیدنا ابو ہریرہؓ نے اس مسئلہ س سے توجہ دلانے پر رجوع بھی کرلیا تھا۔ (صحیح مسلم، کتاب الصوم، باب صحۃ الصوم من طلع علیہ الفجر وھو جنب) یہی وجہ ہوئی کہ سیدنا معاویہؓ جیسے فقیہ و مجتہد صحابی سیدنا مروانؓ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ و اما القاری (الکتاب اللہ)، الفقیہ (فی دین اللہ)، المتشدد فی حدود اللہ، مروان یعنی سیدنا مروانؓ کتاب اللہ کے قاری ہیں، اللہ کے دین کے فقیہ ہیں اور اللہ کی حدود قائم کرنے میں شدید ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء، الجز الثالث، صفحہ ۴۴۷، البدایہ والنہایہ جلد ۸ صفحہ ۲۵۷) اسی طرح ابن تیمیہ نے بھی سیدنا مروانؓ کے مفتی ہونے کی صراحت کی ہے اور لکھا ہے کہ جامعین صحاح نے سیدنا مروانؓ سے متعدد احادیث کی تخریج کی ہے اور ان کا قول اہل فتویٰ میں شمار ہوتا ہے (منھاج السنۃ جلد سوم صفحہ ۱۸۹)۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب الاصابہ میں ان کو صحابہ کے القسم الثانی کے طبقہ میں رکھ کر فرماتے ہیں کہ مروانؓ اپنے دور کے فقہاء میں شمار کئے جاتے تھے۔ (الاصابہ جلد ۵ تحت الترجمہ مروان بن الحکم)

گویا سیدنا مروانؓ کی حیثیت ہم عصر امت میں ایک مجتہد و فقیہ کی تھی اور اپنی اسی فقہی بصیرت کے تحت انہوں نے خطبہ عید کی تقدیم کا اجتہاد کیا جس پر سیدنا ابو سعید الخدریؓ نے انہیں تنبیہ کی تو انہوں نے اس سے رجوع کرلیا۔ مقام حیرت تو یہ ہے کہ خیر القرون کے افراد کے فقہی اجتہادات کو بدعت کے زمرے میں پیش کرنے والے سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کے اس اجتہاد کو کیا بدعت کہنے کی جرات کرسکتے ہیں جس کے تحت انہوں نے صلوٰۃ العید میں اذان و اقامت کہلائی جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری جلد دوم میں "واختلف فی اول من احداث الاذان فیھا" کے تحت لکھتے ہیں کہ "وروی ابن المنذر عن ابی قلابہ قال: اول من احدثہ عبداللہ بن زبیر " اور صحیح بخاری کی ہی روایت سے ابن حجر کے اس قول کی تصدیق ہوتی ہے کہ "سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کو کہلابھیجا کہ عیدالفطر کے دن صلوٰۃ کے لئے اذان نہیں ہے اور خطبہ صلوٰۃ کے بعد ہوتا ہے ( صحیح البخاری ، کتاب العیدین) اب سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی اس روایت میں موجود ایک عمل اگر سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کریں تو وہ انکا اجتہاد اور دوسرا عمل نظائر ماقبل کی بنیاد پر سیدنا مروانؓ انجام دیں تو وہ بدعت سئیہ اور سیدنا مروانؓ کو صحابیت سے خارج کرنے کے مترادف۔ فیا للعجب۔ سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کا عمل ایک صحابی کا مرجوح اجتہاد بن جاتا ہے لیکن جب اس سے ہلکی نوعیت کا اجتہاد سیدنا مروانؓ کی طرف سے آتا ہے جس سے ان کا رجوع بھی ثابت ہے تو یار لوگ اس کو اجتہاد کی جگہ بدعت قرار دینے کی سعی میں لگ جاتے ہیں۔ یہ طرز فکر ہی ثابت کرتا ہے کہ اصل نفس مسئلہ، سنت یا بدعت نہیں بلکہ شخصیت ہے۔ کاش معترضین صحیح بخاری کی یہ روایت نقل کرنے سے پہلے اس روایت پر حافظ ابن حجر عسقلانی کا تبصرہ بھی پڑھ لیتے جس میں وہ ہمارے کرم فرماؤں کے برخلاف اس فعل کو بدعت قرار دینے کے بجائے اس کو سیدنا مروانؓ کا اجتہاد قرار دے رہے ہیں۔ (فتح الباری، جلد دوم، تحت کتاب العیدین، باب الخروج الی المصلیٰ بغیر منبر)

تحریر: محمد فھد حارث
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
سیدنا مروانؓ
محترم،
میرا اعتراض فقط یہ ہے کہ مروان کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے دوئم اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور آں جناب اس کو رضی اللہ عنہ لکھ رہے ہیں تعجب ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے دفاع کی بات کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ وہی ملعون ہے جو مدینہ کے منبر سے علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا تھا۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے
اس کا حوالہ درکار ہے!
یہ وہی ملعون ہے جو مدینہ کے منبر سے علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا تھا۔
انجینیئر محمد علی مرزا کے ایک پمفلٹ "واقعہ کربلا ٧٢ صحیح احادیث کی روشنی میں" کا تحقیقی جائزہ
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
اس کا حوالہ درکار ہے!
marwan pr lanat.png


یہ مسند البزار کی صحیح احادیث ہیں



مسائل الإمام أحمد(كتاب العلل ومعرفة الرجال)
المجلد: الثالث
الصفحة: ١٧٦
برقم :٤٧٨١
حدثني أبي قال,حدثنا اسماعيل قال حدثنا إبن عون عن عمير بن إسحاق قال: كان مروان أميرا علينا ست سنين فكان يسب عليا كل جمعة ثم عزل ثم استعمل سعيد بن العاص سنتين فكان لا يسبه ثم أعيد مروان فكان يسبه .


محترم،
اپ کا پیش کیا ہوا لنک میں پڑھ چکا میں نے اپ کے پیش کئے ہوئے لنک کی کوئی روایت پیش نہیں کی یہ روایت بالکل واضح اس میں مروان کا برا بھلا کہنا ثابت ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
میرا اعتراض فقط یہ ہے کہ مروان کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے دوئم اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور آں جناب اس کو رضی اللہ عنہ لکھ رہے ہیں تعجب ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے دفاع کی بات کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ وہی ملعون ہے جو مدینہ کے منبر سے علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا تھا۔
صحابی رسول سیدنا حکم اور بیٹے سیدنا مروان بن حکم رضی اللہ عنہما کو معاف کردیجئے ؛
اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر لعنت کی تھی ،تو بندہ خدا اتنی بات تو مبتدی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ سَبَبْتُهُ، أَوْ لَعَنْتُهُ، أَوْ جَلَدْتُهُ، فَاجْعَلْهَا لَهُ زَكَاةً وَرَحْمَةً ".(صحیح مسلم ،کتاب البر والصلۃ )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! میں بھی ایک بشر ہوں تو جس مسلمان کو میں برا کہوں یا لعنت کروں یا ماروں، تو اس کو پاک کر دے اور اس پر رحمت کر۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحیح مسلم ہی کی حدیث ہے کہ :

عن عائشة، قالت: دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلان فكلماه بشيء، لا أدري ما هو فأغضباه، فلعنهما، وسبهما، فلما خرجا، قلت: يا رسول الله من أصاب من الخير شيئا، ما أصابه هذان، قال: «وما ذاك» قالت: قلت: لعنتهما وسببتهما، قال: " أو ما علمت ما شارطت عليه ربي؟ قلت: اللهم إنما أنا بشر، فأي المسلمين لعنته، أو سببته فاجعله له زكاة وأجرا "
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ دو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے معلوم نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا باتیں کیں . آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر لعنت کی اور برا کہا: ان کو، جب وہ باہر نکلے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان دونوں کو کچھ فائدہ نہ ہو گا . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں۔“ میں نے عرض کیا: اس وجہ سے کہ آپ نے ان پر لعنت کی اور ان کو برا کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے معلوم نہیں میں نے جو شرط کی ہے اپنے پروردگار سے۔ میں نے عرض کیا ہے اے میرے مالک! میں آدمی ہوں تو جس مسلمان پر میں لعنت کروں یا اس کو برا کہوں اس کو پاک کر اور ثواب دے۔“
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور اہم بات تو یہ ہے کہ :
حکم بن العاص رضی اللہ عنہ پر لعنت میں جو روایات منقول و مروی ہیں ان کی صحت ہی مشکوک ہے ،امام ذہبی رحمہ اللہ تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں :

"وقد رُوِيَت أحاديث مُنْكرة في لَعْنه لَا يجوز الاحتجاج بها ۔۔۔الخ
یعنی حکم بن العاص رضی اللہ عنہ پر لعنت میں کچھ منکر روایات بیان کی جاتی ہیں ،
ان کی حالت یہ ہے کہ ان سے استدلال جائز نہیں "
https://archive.org/stream/FP3938/tiz03#page/n366
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حدیث کا اتنا بڑا عالم جن روایات کو منکر کہے ایسی روایات کی آڑ لے کر صحابہ و تابعین پر لعنت کرنا بہت بڑی بدبختی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
حافظ ابن قیمؒ اپنی کتاب المنار المنيف في الصحيح والضعيف ص۱۱۷ میں لکھتے ہیں:

ومن ذلك الأحاديث في ذَمُّ مُعَاوِيَةَ. ،وَكَلُّ حَدِيثٍ فِي ذَمِّهِ فَهُوَ كذب.، وَكُلُّ حَدِيثٍ فِي ذَمِّ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فهو كذب، وَكُلُّ حَدِيثٍ فِي ذَمِّ بَنِي أُمَيَّةَ فَهُوَ كذب، وَكَذَلِكَ أَحَادِيثَ ذَمِّ الْوَلِيدِ وَذَمِّ مَرَوَانَ بْنِ الحكم.

یعنی ان جعلی روایات میں سے وہ احادیث ہیں جو امیر معاویہؓ کی تنقیص میں منقول ہیں اور ہر وہ حدیث جو ان کی مذمت میں ہے وہ دروغ اور جھوٹ ہے، اسی طرح ہر وہ حدیث جو عمروؓ بن العاص کی مذمت میں ہے وہ جھوٹ ہے، اور ہر وہ حدیث جو بنی امیہ کی مذمت میں ہے وہ دروغ ہے، اسی طرح وہ احادیث جو ولید اور مروان بن الحکمؒ کی مذمت میں ہیں وہ جعلی ہیں۔

ملا علی قاریؒ نے بھی ایسی روایات کے متعلق الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص ۴۷۷ پر ذکر کیا ہے:

وَمِنْ ذَلِكَ الْأَحَادِيثُ فِي ذَمِّ مُعَاوِيةَ وَذَمِّ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَذَمِّ بَنِي أُمَيَّةَ ۔۔۔وَكَذَا ذَمُّ يَزِيدَ وَالْوَلِيدِ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ

ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ ان جعلی روایات میں وہ احادیث ہیں جو امیر معاویہؓ کی مذمت میں عمروؓ بن العاص کی مذمت میں ہیں اور قبیلہ بن امیہ کی مذمت میں ہیں۔۔۔۔اور اسی طرح مروان بن الحکم کی مذمت میں مرویات بھی جعلی ہیں۔


مروان بن الحکم کے معصوم عن الخطاء اور غلطی سے مبرا ہونے کا ہرگز دعوی نہیں ہے، بہت ممکن ہے کئی مواقع میں مروان سے غلطی ہوئی ہو لیکن ساتھ ہی مروان کی خوبیوں کو دینی و قومی خدمات کو یکسر ختم کر کے اس کی خامیوں کی داستانیں نشر کرنا بھی کوئی (کار خیر) نہیں اور نہ اسلام و دین کی یہ کوئی بہتر خدمت ہے۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
گر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر لعنت کی تھی ،تو بندہ خدا اتنی بات تو مبتدی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ سَبَبْتُهُ، أَوْ لَعَنْتُهُ، أَوْ جَلَدْتُهُ، فَاجْعَلْهَا لَهُ زَكَاةً وَرَحْمَةً ".(صحیح مسلم ،کتاب البر والصلۃ )
محترم،
آپ کی اس منطق کے مطابق تو پھر حلالہ کرنے کروانے والا سود کا لین دین کرنے والے وغیرہ سب پر رحمت ہوتی ہو گی لعنت تو کسی پر نہیں ہو گی۔
اس حوالے سے صحیح مسلم میں باب قائم ہے اور اس باب میں اپ کے اس سوال کا جواب ہے کہ یہاں لعنت اس کے لئے رحمت ہو گی جو اس لعنت کے اہل نہیں ہو گا
بَابُ مَنْ لَعَنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ سَبَّهُ، أَوْ دَعَا عَلَيْهِ، وَلَيْسَ هُوَ أَهْلًا لِذَلِكَ، كَانَ لَهُ زَكَاةً وَأَجْرًا وَرَحْمَةً
یہ حدیث ان کے لئے ہے جو اس لعنت کا مستحق نہ ہو یہ دعا اس کے لئے کی ہے چنانچہ اسی کے تحت صحیح مسلم میں ام سلیم کے واقعہ میں یہ الفاظ ہیں "بِدَعْوَةٍ لَيْسَ لَهَا بِأَهْلٍ، أَنْ يَجْعَلَهَا لَهُ طَهُورًا وَزَكَاةً" تو یہ ان کے لئے ہے جو اس بدعا کے مستحق نہیں وگرنہ سود، حلالہ کرنے اور کراونے والوں پر جو لعنت کی گئی ہے اس کو بھی رحمت اور مغفرت میں شمار کریں گے؟
اب یہ کیا مروان اس لعنت کے قابل نہیں تھا یقینا تھا مروان ایک عظیم المرتبت صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ پر مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کران کو برابھلا کہتا تھا اور سات سال تک دیتا رہا
اور اپ اس کا دفاع فرما رہے ہیں۔

رہی بات امام ذہبی کے ان روایات کو ضعیف کہنے کی امام ذہبی نے تاریخ الاسلام میں ہی اس کو صحیح کہا ہے پڑھ لیں
وَقَالَ الشَّعْبِيّ: سمعت ابن الزُّبَيْر يَقُولُ: وربّ هذا البيت إنّ الحكم ابن أبي العاص وولده ملعونون عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. إسناده صحيح"تاریخ الاسلام 3/368
اسی پر البانی صاحب نے یہ تبصرہ کیا کہ پہلے اس کو صحیح کہا پر ان کا انکار کر دیا آپ بھی پڑھ لیں شیخ البانی کا تبصرہ پڑھ کر مزاج شریف کی طبیعت ہری ہو جائے گی۔
وأعجب من ذلك كلِّه تحفُّظُ الحافظ الذهبي بقوله في ترجمة (الحكم) من
" تاريخه " (2/ 96) :
"وقد وردت أحاديث منكرة في لعنه، لا يجوز الاحتجاج بها، وليس له في الجملة خصوص من الصحبة بل عمومها"!
كذا قال! مع أنه- بعد صفحة واحدة- ساق رواية الشعبي عن ابن الزبير مصححاً إسناده كما تقدم!! ومثل هذا التلون أو التناقض مما يفسح المجال لأهل الأهواء أن يأخذوا منه ما يناسب أهواءهم! نسأل الله السلامة.
سلسلہ احادیث الصحیحہ تحت رقم3240
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
ومن ذلك الأحاديث في ذَمُّ مُعَاوِيَةَ. ،وَكَلُّ حَدِيثٍ فِي ذَمِّهِ فَهُوَ كذب.، وَكُلُّ حَدِيثٍ فِي ذَمِّ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فهو كذب، وَكُلُّ حَدِيثٍ فِي ذَمِّ بَنِي أُمَيَّةَ فَهُوَ كذب، وَكَذَلِكَ أَحَادِيثَ ذَمِّ الْوَلِيدِ وَذَمِّ مَرَوَانَ بْنِ الحكم.
وَمِنْ ذَلِكَ مَا وَضَعَهُ بَعْضُ جَهَلَةِ أَهْلِ السُّنَّةِ فِي فضائل معاوية ابن أَبِي سُفْيَانَ قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ: "لا يصح فِي فَضَائِلَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ".
قُلْتُ وَمُرَادُهُ وَمُرَادُ مَنْ قَالَ ذَلِكَ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ أَنَّهُ لَمْ يَصِحُّ حَدِيثٌ فِي مَنَاقِبِهِ بِخُصُوصِهِ وَإِلا فَمَا صَحَّ عِنْدَهُمْ فِي مَنَاقِبِ الصَّحَابَةِ عَلَى الْعُمُومِ وَمَنَاقِبِ قُرَيْشِ فَمُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دَاخِلٌ فِيهِ.
محترم،
امام ابن قیم کی یہ بات بھی مانیں گے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بخوصوص کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے جس طرح معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بالخصوص میں احادیث وارد ہوئی ہے اسی طرح مروان کی مذمت میں بھی صحیح روایات وارد ہوئی ہیں اور یہ ان میں سے صحیح ہیں اس کو بہت سے اہل علم نے صحیح قرار دیا ہے اس لئے ان احادیث کو ضعیف و باطل کہنا غلط ہے۔
اور رہی بات مروان کی غلطیوں کی تو مجھے اس سے کوئی سروکار بھی نہیں ہے مجھے صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ ایک عظیم المرتبت صحابی رسول کو برسرمنبر گالیاں نکالنے والے کا اپ دفاع کر رہے ہیں اور وہ بھی یہ فرما کر کے اس خبیث سے یہ غلطی ہوئی ہے سات سال مسجد کے منبر سے وہ جگہ جہاں اخوت بھائی چارے اور آپس میں محبت کا درس دیا جاتا ہے اس منبر سے بلاتعطل کے سات سال گالیاں دی اور اس کو آپ غلطی فرما رہے ہیں اور پھر معزول ہونے کے بعد جب دوبارہ آیا تو پھر وہی غلطی کرتا رہا کیا غلطی ہے کہاں گئی دفاع صحابہ کی غیرت صحابہ کو برا نہ کہو ان پر طعن نہ کرو اس سے کیا مروان مبرا ہے ؟
 
Top