محمد ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- مئی 23، 2012
- پیغامات
- 110
- ری ایکشن اسکور
- 83
- پوائنٹ
- 70
طارق محمود حفظہ اللہ
محترم ساتھیوں
السلام علیکم :-
آج کے اس پرفتن دور میں جہاں مختلف فتنے جابجا سر اٹھا رہے ہیں انہی فتنوں میں سے ایک فتنہ قادیانیت ہے اس فتنے سے ہر مسلمان واقف ہے کیونکہ یہ ختم نبوت کے منکر ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی مرزا قادیانی کو نبی مانتے ہیں(العیاذ باللہ) ان کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کا وصال ہو چکا ہے اور احادیث میں جن عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی پیشن گوئی کی گئی ہیں وہ مرزا قادیانی ہے مگر امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام قرب قیامت باذن اللہ نازل ہو ں گے اور اس کے متعدد دلائل موجود ہیں۔ نزول عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں موجود احادیث کے بارے میں قادیانیوں کا موقف یہ ہے کہ احادیث میں عیسیٰ علیہ السلام کے صرف نزول کا ذکر موجود ہے ان کے آسمان کی جانب اٹھائے جانے کی کوئی صراحت یا ان کے آسمان پر حیات ہونے اور ان کے نزول سے متعلق روایات میں آسمان سے نزول کی صراحت موجود نہیں ہے۔ چنانچہ وہ نزول سے مراد پیدائش لیتے ہیں جس کو وہ مرزا قادیانی کی طرف منسوب کرتے ہیں لہٰذا آج ہمارا محور موضوع اس مدعا سے متعلق احادیث ہیں جن میں عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کا ذکر تو موجود نہیں ہے مگران کا آسمان پر حیات ہونا اور آسمان سے نزول ہی کا لفظ موجود ہے۔ اب ہم ترتیب وار آپ کے سامنے وہ احادیث پیش کرتے ہیں۔
‘‘یخرج اعور الدجال مسیح الضلالۃ قبل المشرق فی زمن اختلاف من الناس ورقۃ فیبلغ ماشاء اللہ ان یبلغ من الارض فی اربعین یوم اللہ اعلم ما مقدار ھا فیلقی المومنون شدۃ شدیدۃ ثم ینزل عیسیٰ بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم من السماء فیؤم الناس فاذا رفع راسہ من رکعتہ قال : سمع اللہ لمن حمدہ قتل اللہ المسیح الدجال وظھرالمسلمون۔۔۔۔الی اخر’’
(مجمع الزوائد جلد۱۲ رقم ۱۲۵۴۳،مسند البزار رقم ۹۶۴۲)
ترجمہ:‘‘دجال مشرق سے زمانہ اختلاف میں نکلے گا اوروہ زمین پر چالیس دن رہے گا ان(چالیس دن) کی مقدار اللہ ہی بہتر جانتا ہے اوروہ (دن) مسلمانوں پر بہت ہی شدت والے ہوں گے پھر آسمان سے عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا اور وہ لوگوں کو (نماز) پڑھائیں گے اور جب وہ رکوع سے سر اٹھائیں گے اور کہیں گے سمع اللہ لمن حمدہ ، اللہ نے دجال کو ہلاک کیا اور مسلمانوں کو ظاہر کیا’’
اول : اس روایت پر قادیانیوں کاپہلا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اس روایت میں ‘‘السمائ‘‘کے الفاظ صحیح نہیں ہے اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ علیہ الاسماء والصفات میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
‘‘رواہ البخاری فی الصحیح عن یحییٰ بن بکرو اخرجہ مسلم ومن وجہ اخرعن یونس وانماارادنزولہ من السماء بعد الرفیع الیہ’’
امام بخاری نے اس کو روایت کیا ہے اورامام مسلم نے ایک اور طریق سے یونس سے روایت کیا ہے اور اس میں اپنی طرف اٹھایا جانے کے بعد آسمان سے نزول ہی مراد ہے۔ اور بخاری میں روایت اور راوی تمام ہیں مگر یہ الفاظ یعنی ‘‘من السماءِ‘‘ نہیں ہیں اس لئے یہ تحریف ہے ۔
دوئم: ان کا دوسرا اعتراض اس روایت پر یہ ہے کہ اس کا ایک راوی ابو بکر محمد بن اسحاق بن محمدالناقدہے جس کے متعلق یہ موجود ہے کہ وہ روایت بیان کرنے میں تساہل سے کام لیتا تھا اس لئے یہ الفاظ اس راوی کا تساہل ہی ہے اور اس کا ایک اور راوی احمد بن ابراہیم ضعیف ہے اس وجہ سے بھی یہ روایت حجت نہیں ہے ۔
سوئم: تیسرا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ بیہقی کا قلمی نسخہ پہلی بار ۱۳۲۸ہجری میں چھپا تھا یعنی مرزا غلام احمد کے جہنم واصل ہونے کے بعد چھپا تھا اس لئے اس میں یہ الفاظ تحریف کر دیئے گئے تھے اور اس کے ثبوت کے طور پر امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تفسیر میں بھی اس روایت کو نقل کیا مگر ‘‘من السماء’’کے الفاظ نقل نہیں کیے ہیں۔
اعتراض کا جواب :
ان کے تمام اعتراضات کے جواب ان ہی کے اعتراضات میں موجود ہیں کیونکہ جب انسان گمراہ ہو جائے تو اس کی عقل بھی ماری جاتی جس کا ثبوت یہ ہے کہ قادیانیوں کے مطابق ‘‘من السماء‘‘ کے الفاظ راوی کا تساھل ہیں اگر یہ راوی کا متساھل ہے تو ۱۳۲۸ ہجری میں تحریف کیسے ہوئی جب راوی کا تساہل ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ الفاظ بیہقی کی روایت میں موجود تھے اور امام بیہقی نے راوی سے ہی نقل کیے تھے تو یہ تمام اعتراضات از خود باطل ہو گئے اور دوسری بات اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ روایت کرنے والے صرف امام بیہقی رحمہ اللہ ہی نہیں ہیں بلکہ امام بزار نے اپنی مسند میں بھی اس کو روایت کیا ہے جس کو امام ہیثمی رحمہ اللہ نے مسند بزار کے حوالے سے بھی نقل کیا ہے۔
چنانچہ یہ روایت الحمدللہ ان اعتراضات سے پاک ہے اور جہاں تک اس کی سند کا تعلق ہے تو جن راوۃ پر قادیانی اعتراض کرتے ہیں مسند البزار کی سند میں وہ رواۃ ہی نہیں ہیں امام بزار نے اس کو دوسری سند سے روایت کیا ہے اور اس کے تمام رجال صحیح ہیں اور محدث العصر ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب‘‘قص المسیح الدجال و نزول عیسی علیہ سلام’’میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
تو یہ روایت صحیح ہے اور اس روایت میں نزول من السماء کے الفاظ سے بالکل واضح ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول آسمان سے ہوگا اور قادیانیوں کی تاویل باطل ہے اور وہ عیسیٰ ابن مریم ہی ہیں جن کے بارے میں نبی ﷺ نے خبر دی ہے اوریہ حدیث ان کے آسمان سے نزول کی نہایت واضح دلیل ہے۔
اب ہم اس حوالے سے ایک اور حدیث پیش کرتے ہیں جو اس باب میں صراحت سے بیان کرتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر حیات ہیں اور قرب قیامت ان کا نزول ہو گا یہ حدیث بعض وجوہات کی بنا پر ذخیرہ احادیث سے منظر عام پر نہ آسکی اور اس کی وہ وجہ بھی ہم بیان کریں گے پہلے حدیث آپ کے سامنے پیش ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال لما کان لیلۃ اسری برسول اللہﷺ لقی ابراہیم علیہ السلام و موسی وعیسیٰ علیہ سلام فتذ کروا الساعۃ فبداوا بابراہیم علیہ السلام فسالوہ عنھا فلم یکن عندہ منھا علم ثم سالوا موسی علیہ السلام فلم یکن عندہ منھا علم ، فرد الحدیث الی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فقال قد عھد الیَّ فیما دون وجبتھا ، فأما وجبتھا فلا یعلمھا الا اللہ، فذکر خروج الدجال ، قال: فأنزل ، فأقتلہ فیرجع الناس الی بلادھم فیستقبلھم یاجوج، وماجوج(وھم من کل حدب ینسلون) فلا یمرون بماء الا شربوہ، ولا بشیء الا أفسدوہ، فیجأرون الی اللہ، فأ دعو اللہ اَنْ یمیتھم . فتنتن الارض من ریحھم فیجأرون الی اللہ . فأدعو اللہ . فیُرْسل السمائَ بالمائِ فیحملھم فیلقیھم فی البحر . ثم نتسف الجبال و تمد الارض مدٌَ الْادیم . فعھد الیٌَ :متیٰ کان ذلک کانت الساعۃُ من الناس کالحامل التی لا یدری اھلھا متٰی تفجوھم بولادھا۔
ترجمہ:‘‘جس رات نبی ﷺ کو معراج ہوئی تو آپ کی ملاقات ابراہیم علیہ السلام ،موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی وہ آپس میں قیامت کے بارے میں بات چیت کرنے لگے(۱) سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام سے اس بابت پوچھا مگر انہیں اس کے بابت علم نہ تھا پھر موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا انہیں بھی اس کا علم نہ تھا پھر عیسیٰ علیہ السلام سے اس متعلق بات کرنے کو کہا گیا مجھے قیامت قائم ہونے سے قبل کی باتیں بتائی گئی ہیں مگر اس کا قائم ہونا اللہ کے سواء کوئی نہیں جانتا ہے پھر انہوں نے دجال کے ظاہر ہونے کا ذکر کیا اور فرمایا میں نازل ہو کر اسے قتل کروں گا اور لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہوں گے پھر ان کو یاجوج ماجوج ملیں گے وہ ہر ٹیلے سے اتر رہے ہوں گے اور جس (نہر یا چشمے) پر سے گزریں گے تو اس کو ختم کردیں گے اور کوئی چیز ایسی نہ بچے گی جس کو برباد نہ کر دیں پس پھر لوگ اللہ سے فریاد کریں گے اور میں بھی اللہ سے دعا کروں گا کہ ان کو ہلاک کر دے پھر ساری زمین میں ان کے جسموں کی بو پھیل جائے گی پھر لوگ اللہ سے فریاد کریں گے اور میں بھی دعا کروں گا پس اللہ بارش برسائے گا جو ان کو بہا کر سمندر میں پھینک دے گی پھر پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا اور زمین کو چمڑے کی طرح کر دیا جائے گا اور مجھے بتایا گیا ہے کہ جب یہ واقع ہوجائے گا تو قیامت اتنی قریب ہو گی کہ جیسے حاملہ عورت (جس کا وقت قریب ہو) کے گھر والوں کو پتا نہیں ہوتا کہ کس وقت زچگی ہو جائے گی’’۔
اس حدیث میں پوری صراحت سے موجود ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں حیات ہیں اور قرب قیامت ان کا نزول ہو گا اور یہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہی ہیں جن کے بارے میں نبی ﷺنے بیان فرمایا ہے یہ کوئی پیدا ہونے والا مرزا قادیانی نہیں ہے ۔
مذکورہ احادیث اور ان جیسی بے شمار احادیث صراحت سے موجود ہیں جن میں عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی بابت بیان ہوا ہے مگر وہی بات ہے ’جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ‘ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اسلام پر ثابت کر دے۔ (آمین)
اب اس پر تبصرہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ حدیث منظرعام پر نہ آسکی اور نزول عیسیٰ علیہ السلام جیسے معاملے میں اس روایت کو عموماََ بیان نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ جو مجھے محسوس ہوئی ہے کہ محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو اپنی تحقیق کے مطابق ضعیف قرار دیا ہے اور یہ حدیث ان کی کتاب ‘‘قص المسیح الدجالــ و نزول عیسی علیہ السلام‘‘ میں بھی موجود نہیں ہے مگر پاکستان کے ایک بڑے محقق حافظ زبیر علی زئی(رحمتہ اللہ علیہ) نے اس روایت کو ابن ماجہ کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے۔
لہٰذا اس مقام پر شیخ البانی رحمہ اللہ اور حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے مابین حدیث کی تصحیح اور تضعیف میں اختلاف ہے۔ لہٰذا صحیح ب اور حق کے قریب بات ان دونوں بزرگوں کی تحقیق میں سے کس کی ہے؟ ان شاءاللہ اب ہم اس پر تحقیقی تبصرہ پیش کریں گے۔
روایت کی تحقیق:
علامہ ناصر الدین البانی(رحمۃ اللہ علیہ) اپنی معرکۃ الاراء کتاب سلسلہ احادیث الضعیفہ میں اس روایت کے حوالہ جات نقل کرنے کے بعد رقمطراز ہیں۔
‘‘عن موثر بن غفارۃ،عن عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) مرفوعا. وقال الحاکم ‘‘ھذا حدیث صحیح الاسناد’’ وواقفہ الذھبی ثم البوصیری. قلتُ:وفیہ نظر ان موثر بن غفازہ لم یوثقہ ابن حبان ولذلک قال الحافظ‘‘مقبول’’ یعنی عند المتابعۃ و لم اجد لہ متابعاََ ، فالحدیث ضعیف غیر مقبول بھذا السیاق، وبعضہ فی ‘‘مسلم’’ (سلسلہ الضعیفہ: ۴۳۱۸)
ترجمہ: ‘‘موثر بن غفاز ہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا ہے ـ" اس حدیث کی سند صحیح ہے" اور امام ذہبی اور بوصیری نے اس کی موافقت کی ہے مگر میں(البانی) کہتا ہوں اس میں نظر کی ضرورت ہے کیونکہ موثر بن غفازہ کو ما سوائے ابن حبان کے کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے اور حافظ ابن حجر نے اس کو " مقبول" کہا ہے یعنی متابعت کے طور پر مگر میں نے اس کی متابعت کو نہیں پایا پس یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف اور غیر مقبول ہے اور اس کا بعض حصہ مسلم میں بھی ہے’’۔
اس حدیث میں موثر بن غفازہ پر البانی صاحب نے جرح کی ہے اور اسے یا مجہول سے تعبیر کیا ہے یا پھر ان کو اس راوی کی ثقاہت پر اطمینان نہ ہو سکا چنانچہ ہم دونوں پہلوسے اس کا جائزہ لیتے ہیں اگر البانی صاحب نے اس کو مجہول سے تعبیر کرکے اس کو ضعیف قرار دیا ہے تو اگر ہم مجہول کے بارے میں محدثین کے اصول پر نظر ڈالیں تو موثر کسی صورت مجہول ثابت نہیں ہوتا ہے کیونکہ اس کی ثقاہت ثابت ہے چنانچہ مجہول کی تعریف مندرجہ ذیل بیان کی گئی ہے ۔
مجھول الحال: من روی عنہ اثنان فاکثر لکن لن یوثق (تیسیر مصطلح الحدیث)
‘‘مجھول الحال : اس سے روایت کرنے والے دو ہوں یا زیادہ لیکن اس کی توثق نہ کی گئی ہو’’۔
اور تقریباً یہی بات تقریب تہذیب میں بھی موجود ہے ۔
‘‘من روی عنہ اکثر من واحد ولم یوثق الیہ الاشارہ بلفظ ‘‘مستور’’ او‘‘مجھول الحال’’ (تقریب التہذیب ص۵)
موثر بن غفازۃ: اس روای کی توثیق صرف ابن حبان نے ہی نہیں کی ہے بلکہ امام حاکم ، امام العجلی نے بھی اس کو ثقہ قرار دیا ہے اور حافظ ابن حجر نے اس کوتقریب التہذیب میں مقبول کہا ہے اور جس راوی کو حافظ ابن حجر ـ"مقبول" میں نقل کرتے ہیں اس کے بارے میں تقریب میں یہ اصول بیان ہوا ہے
‘‘من لیس لہ من الحدیث الا قلیل ولم یثبت فیہ ما یُترک حدیثہ من اجلہ والیہ الاشارہ بلفظ ‘‘مقبول’’ حیث یتابع والا فلین الحدیث’’
(تقریب التھذیب)
ترجمہ: ‘‘جس سے حدیث بہت کم نقل ہوئی ہوں اور اس سے حدیث کو ترک کرنے کی وجہ ثابت نہ ہو سکی ہو اس کا اشارہ لفظ‘‘مقبول’’ سے کیا ہے جہاں بھی موجود ہے ورنہ لین الحدیث ہے’’۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک اس راوی کی حدیث کو ترک کرنے کی کوئی معقول وجہ ثابت نہیں ہے یعنی اس پر کوئی جرح مفصل ثابت نہیں ہے اور اگر اس کے ثقہ ہونے کی تصدیق ہو جائے تو پھر مجہول الحال والی علت بھی اس پر لاگو نہیں ہو سکتی۔ اب ہم اس کے بارے میں محدثین کے اقوال نقل کرتے ہیں جس سے اس کا ثقہ ہونا ثابت ہوتا ہے ۔
‘‘امام العجلی: من اصحاب عبداللہ ثقۃ’’ (تاریخ الثقات: ۱۶۴۹
‘‘ اصحاب عبداللہ رضی اللہ عنہ میں سے ہے اور ثقہ ہے’’۔
‘‘امام حاکم: لما خرج حدیثہ مصححاََ لہ لیس بمجھول قد روی عن ابن مسعود والبراء بن عازب و روی عنہ جماعۃ بن التابعین’’
(تہذیب الکمال اکمل)
‘‘امام حاکم : اس کی حدیث صحیح ہوتی ہے اور اس پر مجہول کا اطلاق نہیں ہوتا ہے اس نے عبداللہ بن مسعود براء بن عازب سے روایت کیا ہے اور اس سے تابعین کی جماعت نے روایت کیا ہے۔
ابن حبان نے ثقہ کہا ہے۔ (ابن حبان الثقات ۵۷۳۵)
امام ذہبی: امام ذہبی نے مستدرک میں اس روایت کی موافقت کی ہے جو اس راوی کی توثیق کی ایک دلیل ہے چنانچہ الکاشف میں موجود ہے
‘‘موثر بن غفازۃ عن بن مسعود و عنہ جبلۃ بن سحیم وثق’’ (الکاشف)
‘‘موثر بن غفازہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور اس سے جبلہ بن سحیم نے اور اس کو ثقہ کہا گیا ہے’’۔
امام ذہبی کی موافقت سے بھی اس کی ثقاہت ثابت ہوتی ہے۔
حصول بحث یہ ہے کہ اس راوی میں کسی بھی قسم کا ضعف ثابت نہیں ہوتا ہے اس کی ثقاہت محدثین سے ثابت ہے چنانچہ اس کی بیان کردہ یہ روایت صحیح ہے ۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حافظ زبیر علی زئی(رحمۃ اللہ علیہ) کا موقف صواب ہے۔ واللہ اعلم
حاصل کلام
اللہ نے نبی اکرم ﷺ کو خاتم النبینﷺ بنا کر معبوث کیا ہے اور اس میں شک کرنے والا بھی مسلمان نہیں رہے گا یہ ایک ایسا امر ہے جس پر پوری امت مسلمہ پروانوں کی مانند جان نثار کرنے کو تیار ہے مگر شمع ختم نبوت کو کبھی ٹمٹمانے بھی نہیں دیں گے (ان شاء اللہ)۔ اللہ میری دعا قبول کرے اور ہر اس مسلمان کی جو اس شمع ختم نبوت پر نثار ہونا چاہتا ہے۔ اللہ ہم سب کی اس خواہش کو پورا کرے اور اسے اپنی بارگاہ میں قبول کرے۔آمین!
وما علینا الا البلاغ