فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبد الباری بن عواض الثبیتی حفظہ اللہ نے 16-جمادی ثانیہ- 1434کا خطبہ جمعہ " عیش پرستی خطرات و نقصانات" کے عنوان پر دیا،جس میں انہوں نے قرآن کی روشنی میں عیش پرستی کے انفرادی اور اجتماعی خطرات سے آگاہ کیا، اور بتلایا کہ انبیاء کرام کی دعوت کے سامنے عیش پرستوں ہی نے روڑے اٹکائے، انہوں نے یہ بھی بتلایا کہ "عیش پرستی"کے اسباب کیا ہیں، اور اسکے بھیانک نتائج کیا بر آمد ہوسکتے ہیں، اسی لئے والدین کو عیش و عشرت کی بنیاد پر اپنی اولاد کی تربیت کرنے سے منع کیا تا کہ کل اس امتِ مسلمہ کی قیادت سنبھال سکیں۔
پہلا خطبہ:
اللہ تعالی کے کمال و جلال کے مطابق تمام تعریفات اسی کیلئے ہے، میں اُسکی تعریف کے ساتھ ساتھ آسمان و زمین کے برابرشکر بھی اسکی بارگاہ میں پیش کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ اپنے اسماء و صفات میں یکتا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، آپکی نماز، روزہ، اور دعاؤں کا کوئی مد مقابل نہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، صحابہ کرام، اور تمام پیروکاروں پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔
حمد و ثناء اور درود کے بعد!
میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں اللہ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو [70] (اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی[الأحزاب: 70، 71]
اقوامِ عالم اور مختلف تہذیبوں کے بارے میں اللہ کا یہ فرمان سنو!: وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرلیتے ہیں تو وہاں کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ بدکرداریاں کرنے لگتے ہیں پھر اس بستی پر عذاب کی بات صادق آجاتی ہے تو ہم اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔ [الإسراء: 16] یہ اس وقت کی منظر کشی ہے جب کوئی بھی قوم عیش پرستی کواپنی ثقافت، عیش و عشرت کو ہدف، اور اسی زندگی کا مقصد بھی بنا لے، دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ یہ ایسی امت کی تاریخ ہے جو: عیش پرستی میں غرق ہو چکی ہو، جن میں آرام و آسائشیں حد سے زیادہ ہوں، جو عجیب و غریب خواہشات کی تکمیل کیلئے اخلاقیات کی دھجیاں اڑادیں، اخلاقی اقدار اسی جدو جہد میں بہہ جائیں، قوانین کی پرواہ نہ کی جائے ، اللہ اور روزِ قیامت کو بھلا دیا جائے، جن پر اسباب ِزوال سر اٹھا نے لگیں۔
تاریخ ہمیں سبق دیتی ہے کہ: جب عیش و عشرت عام ہو، یا دنیاوی لذتوں میں قوم ڈوب جائے تو پوری قوم پریشانی، تذبذب، اور کمزوری کا شکار ہوجاتی ہے،آخر کار دینی تعلیمات اور احکامات کا مذاق اڑانے سے ان میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
"عیش پرستی " معاشرتی ناسور ہے، اگر کسی معاشرے کو یہ مرض لاحق ہو جائے تو اسکی عزت خاک میں ملا دیتا ہے، اور اسے دنیا دار بنا دیتا ہے، اور اگر کسی فرد کو یہ مرض لاحق ہو جائے تو یہ اس کی کمزوری اور سستی کی علامت بن جاتا ہے۔
عیش پرستی سے ہماری مراد یہ کہ : انسان دنیاوی لذتوں اور چاہتوں کا بن کر رہ جائے، اللہ تعالی کی عنائت کردہ نعمتوں کے طریقہ استعمال میں حدِ اعتدال سے بھی بڑھ جائے، اور جسمانی لذتوں کو پانے کیلئے اپنی تمام تر توانائی صرف کردے۔
قرآنِ کریم نے انبیاء کرام کے بارے میں عیش پرستوں کا موقف واضح کیا ہے، یہ بھی بتلایا کہ یہ ہی لوگ دعوتِ توحید کے سامنے آکھڑے ہوئے، نوح علیہ السلام کی دعوت کیلئے رکاوٹ بھی یہ ہی لوگ تھے، اور انکی کٹ حجتی کیا تھی؟ کہ نوح -علیہ السلام-کے پیروکاروں میں فقر و فاقہ سے مارے لوگ ہیں ان میں کوئی چوہدری، اور وڈیرا نہیں ہے، قرآن نے اسے یوں بیان کیا: فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَى لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ تو اس کی قوم کے کافر سرداروں نے جواب دیا: ہم تو تجھے اپنے ہی جیسا آدمی خیال کرتے ہیں اور جو تیرے پیروکار ہیں وہ بادی النظر میں ہمیں کمینے معلوم ہوتے ہیں۔ پھر تم لوگوں کو ہم پر کسی طرح کی فضیلت بھی نہیں بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا ہی سمجھتے ہیں'' [هود: 27]
پھر نوح علیہ السلام کے بعد بھی انہی لوگوں نے انبیاء کا راستہ روکا، فرمایا: وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ اور اس کی قوم کے جن سرداروں نے (اس دعوت کو ماننے سے) انکار کیا اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا اور جنہیں ہم نے دنیا کی زندگی میں عیش و آرام دے رکھا تھا، کہنے لگے'':یہ تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے، وہی کچھ کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور پیتا بھی وہی کچھ ہے جو تم پیتے ہو۔ [المؤمنون: 33]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تو انہوں نے خوب بازارِ تکذیب و عناد گرم کیا، اللہ تعالی نے انہیں کے بارے میں دھمکی آمیز وحی نازل کی: وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا اور جھٹلانے والے کھاتے پیتے لوگوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دیجیے اور تھوڑی مدت انہیں اسی حال میں رہنے دیجئے [المزمل: 11]
ایک اور مقام پر قرآن کریم نے اسی چیز کو بہت ہی واضح انداز میں بیان کیا: وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ اور ہم نے جس بستی میں بھی کوئی رسول بھیجا تو اس کے کھاتے پیتے لوگوں نے اسے یہی کہا کہ: ''جو پیغام تم لے کر آئے ہو، ہم اس کے منکر ہیں [سبأ: 34]
اسی لئے اللہ تعالی نے عیش پرست لوگوں کے بارے میں فرمایا: حَتَّى إِذَا أَخَذْنَا مُتْرَفِيهِمْ بِالْعَذَابِ إِذَا هُمْ يَجْأَرُونَ یہاں تک کہ جب ہم ان کے عیاش لوگوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے تو اس وقت وہ چیخنا چلانا شروع کردیں گے [المؤمنون: 64]
پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ کی قسم !مجھے تمہارے بارے میں فقر و فاقہ کا ڈر نہیں ، مجھے اس بات کا خدشہ ہے کہ تمہیں بھی اسی طرح دنیا دی جائے گی جیسے پہلی اقوام کو دی گئی ؛ پھر تم اس کے پیچھے لگ کر مقابلہ بازی پر اتر آؤ گےجیسے پہلی اقوام نے کیا، اور آخر کار یہ دنیا تمہیں بھی اسی طرح برباد کر دے گی جیسے اُنہیں کیا)
جن لوگوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت کی تھی انہوں نے دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینے کے سنہرے واقعات ہمارے لئے چھوڑتے ہوئے عیش و عشرت کی زندگی سے یکسر انکار کر دیا، یہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ہیں، جنکی پیدائش ہی عیش پرستی کے ماحول میں ہوئی ،پھر پرورش بھی اسی ماحول میں پائی، مکہ کے گلی کوچے اسکی جوانی اور خوبصورتی کے چرچوں سے گونجتے تھے، اُنکی والدہ بھی بہت مالدار خاتون تھی، بہترین لباس زیب تن کرنے کیلئے دیتی، جبکہ مکہ کی گلیاں اس کی استعمال شدہ خوشبو سے معطر رہتی۔
لیکن جب آپکو جنگ اُحد میں شہید کردیا جاتا ہے تو کفن کیلئے کوئی چیز نہیں ملتی، صرف ایک چادر وہ بھی اتنی چھوٹی کہ سر ڈھکنے سے پاؤں کھل جائیں اور پاؤں ڈھکنے پر سر ننگا ہو جائے، چنانچہ آپ نے یہ منظر دیکھ کر فرمایا: (سر کو کفن ہی سے ڈھک دو، پاؤں ڈھکنے کیلئے اِن پر "اذخر" بوٹی ڈال دو) انہیں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا-آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے- (میں نے تجھے مکہ میں دیکھا تھا، سب سے بہترین لباس تیرا ہوتا، اور تیرے چمکدار بہترین بال ہوتے تھے، آج تیرے سر کی یہ پراگندہ حالت ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی: مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا مومنوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی تو اپنی ذمہ داری پوری کرچکا ہے اور کوئی موقع کا انتظار کر رہاہے۔ اور انہوں نے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ [الأحزاب: 23]
مسلمان بھائیوں!
عیش پرستی میں گھِرنے سے انسان میں غرور، تکبر، ظلم، اور زیادتی پیدا ہوتی ہے، جسکی بنا پر انسان حق بات کو جھٹلانے اور انکار کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، جیسے کہ قرآن نے یہ بات بیاں کی فرمایا: وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ اور یہ بھی کہا کہ :''ہم مال اور اولاد کے لحاظ سے تم سے بڑھ کر ہیں اور ہمیں کوئی عذاب نہیں دیا جائے گا۔ [سبأ: 35]
عیش و عشرت کے گھمنڈ میں آکر انسان یہ بھی بھول جاتا ہے کہ یہ مجھ پر اللہ کا فضل ہے، یہ اُسی کی کرم نوازی ہے، یہ دیکھو ! باغ والوں کے بارے میں قرآن نے یہ ہی بیان کیا ہے: أَنَا أَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا ''میں تجھ سے مالدار بھی زیادہ ہوں اور افرادی قوت بھی زیادہ رکھتا ہوں'' [الكهف: 34]، یہ لوگ دنیا کی حالت اور اسکے انجام کو بھول بیٹھے، اللہ تعالی کا انداز حکمرانی اس دنیا میں کیا ہے اسے بھی بُھلا دیا، وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا یہی کہتے کہتے وہ اپنے باغ میں داخل ہوا درآنحالیکہ وہ اپنے آپ پر ظلم کر رہا تھا اور کہنے لگا: '' میں تو نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی اجڑ بھی سکتا ہے۔ [الكهف: 35] بلکہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے اور کہنے لگے: وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُدِدْتُ إِلَى رَبِّي لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِنْهَا مُنْقَلَبًا اور نہ ہی میں یہ گمان کرتا ہوں کہ قیامت قائم ہوگی اور اگر مجھے اپنے رب کے ہاں پلٹاکرلے جایا بھی گیا تو میں یقینا اس سے بہتر جگہ پاؤں گا''[الكهف: 36]
قارون کو دیکھ لیں جسے اللہ تعالی نے ڈھیروں خزانے عنائت کئے، اللہ تعالی کی نعمتوں اور اُسکی عظمت کو بُھلا بیٹھا اور بڑے ہی تکبرانہ انداز سے کہنے لگا: إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِي یہ تو جو کچھ مجھے ملا ہے اس علم کی بدولت ملا ہے جو مجھے حاصل ہے [القصص: 78]
اسی عیش پرستی نے فرعون کو اپنی قوم کے رب ہونے کا دعوی کرنے پر مجبور کیا، اس کا حال قرآن نے یوں بیان کیا: يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي اے میری قوم کیا یہ مصر کی بادشاہی میری نہیں؟ اور یہ نہریں (بھی) جو میرے نیچے بہ رہی ہیں؟ [الزخرف: 51]
عیش پرستی کی چند علامات یہ ہیں: بیکار چیزوں پر دل لگا لینا، وقتِ حاضر اور مستقبل کے بارے میں دور اندیشی کم ہو جاتی ہے، بھیڑ چال بڑھ جاتی ہے، اطاعتِ الہی کا شوق ماند پڑ جاتا ہے، اخروی زندگی میں کام آنے والے اعمال سے انسان دور ہو جاتا ہے، راحت و سکون کا عادی بن جاتا ہے، شہوانی امور پر نظریں گڑ جاتی ہیں، زندگی میں توازن نہیں رہتا، نا مساعد حالات کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے، سست روی غالب آجاتی ہے۔
اسی عیش پرستی کی وجہ سے چھوٹی موٹی چیزوں میں اپنا غیر معمولی روپیہ پیسہ جھونک دیا جاتا ہے جو کہ حرام ہے، کھانے پینے میں بے لگام ہو کر خرچ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے نعمت زحمت میں تبدیل ہو جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى (6) أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى ہرگز ایسا نہیں چاہیے کہ انسان سرکشی کرنے لگتا ہے[6] اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے [العلق: 6، 7]
اللہ کے بندو! عیش پرستی مال و دولت کو تباہ کر دیتی ہے، عزائم اور ارادوں کو نمک کی طرح پانی میں حل کردیتی ہے، انسان کو خود پسنداور غافل بنا دیتی ہے، اسی لئے عیش پرست انسان مزے لینے کیلئے ہر طریقہ آزماتا ہے، حرام کام کرنے کیلئے ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیتا ہے، اور آخر کار پوری قوم کو ترقی کے میدان میں تنزلی کا شکار ہونا پڑتا ہے، اور آگے بڑھتے ہوئے قدموں کو رُکنا پڑتا ہے، اس لئے کہ ارادے مضمحل ہو چکے ہیں اور توانائی صَرف کی جاچکی ہے، انسانی نفوس میں شرکشی اور حق ٹھکرانے کی بیماری لگ جاتی ہے، جیسے دلوں پر پردہ پڑ جاتا ہے۔
اصل میں عیش پرست افراد ہی معیشت کو نقصان پہنچاتے ہیں، انہی کی وجہ سے متوقع اہداف حاصل نہیں کئے جاسکتے ؛ کیونکہ یہ لوگ صرف اپنے لیے جینا جانتے ہیں ، انہیں اپنی قوم و ملک کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، اسی لئے ترقیاتی کاموں میں حصہ نہیں لیتے، اور نہ ہی ملک و قوم کیلئے کچھ پیش کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔
عیش و عشرت کیلئے فضول خرچی سے نفسیاتی بیماریاں بھی پھیلتی ہیں جن میں : بذدلی، خیانت، بخل ، اور رفاہِ عامہ کیلئے خرچ نہ کرنا، قابل ذکر ہیں۔
فضول خرچی اور پُر تعیش زندگی گزرانے والے کو بڑا ہی پرسکون سمجھو گے ، لیکن جب آپ اسے کُرید کر دیکھو گے تو پتہ چلے گا کہ اس کے سینے میں بڑے لمبے چوڑے تفریحی پروگرام ہیں جنکی تکمیل نہ ہونے پر اسکے ہر سانس سے ناکامی اور افسوس کا اظہار ہوگا۔
عیش و عشرت مال و دولت سے مشروط نہیں ہے، آپکو کتنے ہی کروڑ پتی لوگ ملے گے جو پر تعیش زندگی سے بالکل دور ہیں، ایسی زندگی سے انہوں نے اپنے آپ کو دور رکھا ہوا ہے، حلال طریقے سے کماتے ہیں اور حلال جگہ ہی خرچ کرتے ہیں، اسی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حلال دولت نیک آدمی کیلئے بہت بڑی نعمت ہے)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے) ایک بار فرمایا: (یقینا اللہ تعالی کو نعمتوں کے آثار اپنے بندوں پر اچھے لگتے ہیں) پھر آپ نے یہ بھی فرمایا: (کھاؤ ، پیو، پہنو، اور صدقہ کرو، فضول خرچی اور تکبر نہ کرو)
ایک مالدار شخص کی شاہ خرچیاں تو برداشت ہوسکتی ہیں لیکن ایک فقیر آدمی کی نہیں، عبد اللہ بن حمید کہتے ہیں کہ میرے دادا جان چادر اوڑھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، انہوں نے میرے دادا سے پوچھا: "یہ چادر کتنے کی لی ہے تم نے؟" کہا: "ساٹھ (60) درہم کی" پھر پوچھا تمہارے پاس ٹوٹل پیسے کتنے ہیں؟ کہا: "ایک ہزار درہم" عبد اللہ بن حمید کہتے ہیں یہ سن کے عمر اپنے دُرے سے یہ کہتے ہوئے مارنے لگے: "تمہارے پاس ٹوٹل مال ایک ہزار درہم ہے اس میں سے ایک چادر کیلئے ساٹھ درہم پھونک دئیے!!"
جبکہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ایک سوٹ چار سو سے پانچ سو درہم کا ہوتا تھا۔
حیرت اس وقت ہوتی ہے جب فقر و فاقہ کا مارا ہوا شخص بھی پر تعیش زندگی کیلئے نا مساعد حالات میں بھی مہنگا لباس، مہنگی گھریلو اشیاء خریدے، اور اس انداز سے خرچ کرےکہ جیسے وہ لاکھ پتی ہے ، ان اقدامات سے وہ اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاتا ہے، اور خود ہی اپنے آپ کو قرضوں کے بوجھ تلے دیتا ہے، اس کے ساتھ اگر تکبر بھی شامل ہوجائے تو یہ اِس سے بھی بڑی مصیبت ہے۔
اسی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی قیامت کے روز بات نہیں کریگا، اور نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کریگا)- حدیث کے راوی ابو معاویہ کہتے ہیں- (نہ انکی طرف نظرِ رحمت سے دیکھے گا، اور انہیں سخت عذاب دے گا: بوڑھا زانی ، جھوٹا حکمران، متکبر فقیر) مسلم
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفات اللہ کیلئے ہیں جسکی نعمتوں کے باعث خوشیاں مکمل ہوتی ہیں، میں اللہ سبحانہ و تعالی کی حمد بیان کرتے ہوئے اسکی پُر آسائش نعمتوں کا شکر بھی ادا کرتا ہوں ، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہی تمام مخلوقات کا رب ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، آپکو آسمانوں کی سیر کروائی گئی، اللہ تعالی آپ پر اور آپکی آل ،و اصحاب پر رحمت نازل فرمائے۔
حمدوشکر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے بعد!
میں اپنے نفس کو اور آپ سب سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت آئے تو تم مسلمان ہو [آل عمران: 102]
پر تعیش زندگی انسان کو علم حاصل کرنے سے دور رکھتی ہے، جسکی وجہ سے بلند ارادے ختم ہوجاتے ہیں، علم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، یہ ہی زندگی انہیں اپنے نفس کا غلام بنا دیتی ہے، اور مردانہ صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔
اس معاشرتی ناسور کا علاج کرنے کیلئے، ہمیں کچھ اقدام کرنا ہونگے،مثلا: دنیاوی آسائشوں کو کم کریں ، اپنی جان کو آرام ، سکون، اور فراوانی کی عادت مت ڈالیں، اپنی خواہشات کو کم سے کم کریں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کی سیرت کو پڑھیں، غیر ضروری اشیاء کو ترک کرنے کی عادت بنائیں، غریب لوگوں سے مل جل کررہیں۔
قانونِ الہی ہے کہ اللہ تعالی انبیاء کرام اور انکی دعوت کو ٹھکرانے والے عیش پرستوں کو تباہ و برباد کریگا، اور انہیں عذاب سے دوچار بھی کریگا، فرمانِ باری تعالی ہے: وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنْشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ (11) فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا إِذَا هُمْ مِنْهَا يَرْكُضُونَ (12) لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَى مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جن کے رہنے والا ظالم تھے تو انھیں ہم نے پیس کے رکھ دیا اور ان کے بعد دوسرے لوگ پیدا کردیئے۔[11] پھر جب ان کو ہمارا عذاب محسوس ہوا تو لگے وہاں سے بھاگنے۔[12] (ہم نے کہا) بھاگو نہیں بلکہ اپنے مکانوں اور اس عیش و عشرت کے سامان کی طرف لوٹ آؤ جس سے تم مزے اڑا رہے تھے شاید تم سے (حقیقت حال کے متعلق) سوال کیا جائے۔ [الأنبياء: 11- 13]
اللہ کے بندو! رسولِ ہدایت پر درود و سلام بھیجو جیسے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں اسکا حکم دیا ، إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔[الأحزاب: 56].
یا اللہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- آپکی ازواج مطہرات اور آل پر ایسے رحمت نازل فرما جیسے توں نے ابراہیم پر نازل کی، یا اللہ اپنے حبیب محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- آپکی ازواج مطہرات اور آل میں ایسے برکت فرما جیسے توں نے ابراہیم میں کی، یا اللہ! خلفائے راشدین ابو بکر ، عمر، عثمان، اور علی آل اور صحابہ کرام سے راضی ہوجا، ان کے ساتھ ساتھ اپنے کرم و احسان کے صدقےہم سے بھی راضی ہوجا۔
اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،یا اللہ شرک اور مشروں کو ذلیل فرما، اے اللہ کفر اور کافروں کو ذلیل فرما، اے اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما ۔
یا اللہ! ہمارے شامی بھائیوں کی مدد فرما،یا اللہ انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ رب العالمین! انکی تائید، مدد فرما، اور پشت پناہی فرما، یا اللہ! انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ انکے نشانے درست فرما، یا اللہ ! انکی اپنے اور تیرے دشمنوں کے خلاف مدد فرما۔
یا اللہ ہمارے شامی بھائیوں کے پاس کپڑے نہیں؛ انہیں عطا فرما، کھانے کو نہیں ؛ انہیں کھلا، یا اللہ! پاؤں سے ننگے ہیں انہیں پہنا، مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا اللہ وہ مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا اللہ وہ مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا اللہ وہ مظلوم ہیں انکا بدلہ لے، یا قویِ، یا جبار، تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! شامی ظالم اور اسکے چیلوں پر اپنی گرفت فرما، یا اللہ ! ان میں انتشار پھیلا دے، یا اللہ !انہیں تتر بتر کر دے، تباہی و بربادی انکا مقدر بنا دے، یا اللہ اپنی قدرت کے نظارے دیکھا ۔
اے اللہ ! قرآن کو نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، لشکرو کو شکست خوردہ کرنے والے، ان کے وشمن کو شکستِ فاش دے، اور انہیں غالب فرما، یا اللہ ملک شام میں ہمارے بھائیوں کی مدد فرما، یا اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور ہمیں ہر ایسے قول و فعل کی توفیق دے جو ہمیں جنت کے قریب کر دے، یا اللہ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کرے۔
یا اللہ ہماری دینی اصلاح فرما تبھی ہم برائیوں سے دور رہ سکتے ہیں، اور ہماری دنیا بھی اچھی بنادے اسی میں ہماری معیشت ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی کر دے کہ وہیں ہم نے لوٹ کر جانا ہے، ہماری زندگیوں کو نیکیوں میں زیادتی کا باعث بنادے، اور موت کو ہر شر سے بچاؤ کا ذریعہ بنادے ۔
یا اللہ ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ ہمیں غلبہ عنائت فرما، ہم پر کسی کو غالب نہ کرنا، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما ہمارے خلاف نہ ہو، یا اللہ ہمیں ہدایت نصیب فرما، یا اللہ ہم پر ظلم کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا، تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔
یا اللہ ہماری توبہ قبول فرما، یا اللہ! ہمارے گناہوں کو مٹا دے، یا اللہ ! ہماری زبان کی حفاظت فرما، اور ہمارے سینے کی تمام بیماریوں کو ختم کردے۔
یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! رحمت کی بارش نازل فرما، نقصان دہ اور عذاب کی بارش نہ ہو، یا اللہ ! اپنے بندو کو بارش عطا کر۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی راہنمائی کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، اور اسے تندرستی بھی نصیب فرما، اے اللہ ! تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ رب العالمین! تمام مسلم حکمرانوں کی شریعت نافذ کرنے کی توفیق دے۔
یا اللہ ارحم الراحمین! تمام بیماروں کو شفایاب فرما، فوت شدگان پر رحم فرما، ہماری پریشانیاں ختم فرما، ہمارے قیدیوں کو رہا فرما۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے [الحشر: 10] رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے [الأعراف: 23]، رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی, اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔[البقرة: 201].
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]
تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ ذکر بہت بڑی چیز ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔