• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غامدی صاحب کی اس بات پر آپ اھل علم کی رائے:

شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
السلام علیکم، غامدی صاحب کے پیج پر یہ پوسٹ کیا ہوئا تھا، اس پر آپ اھل علم کی رائے جاننا چاہتا ہوں، اور ساتھ ہی اسلاف کا اس بارے میں کیا رویہ تھا؟
غامدی صاحب کی بات:
’’ کسی کو کافر قرار دینے کا حق صرف الله ہی کو حاصل ہوتا ہے- وہ پیغمبروں کے زمانے میں اس کا اعلان کرتا ہے- یہ اعلان بھی آخری مرتبہ رسالت مآبؐ کے ذریعے سے ان کے زمانے کے لوگوں کے لئے ہو گیا تھا- بعد کے لوگوں کے معاملے میں ہم میں سے کسی کو حق نہیں کہ اس طرح کے فتوے دے- ہم سب انسان ہیں اور اب انسانوں ہی کی حیثیت سے ہمیں بات کرنی ہے- الله کے آخری پیغمبر نے اپنا پیغام دے دیا جو ہمارے پاس قرآن و احادیث کی صورت میں موجود ہے- اس پیغام کو ہمیں دنیا تک پہنچانا ہے- اس پیغام کی تعبیرو تشریح جب بھی کی جاے گی انسان کریں گے اور اس تعبیر و تشریح میں غلطی ہو سکتی ہے- لہٰذہ اس کی بنیاد پر لوگوں کو کافر قرار دینا بدترین جرم ہے- یہی چیز ہے جو مسلمان امّت کو بھی تقسیم کرنے کا باعث بن رہی ہے- کفر و ایمان کے فیصلے خدا کرتا ہے- دنیا میں بھی جب اس نے پیغمبروں کے آنے کے بعد یہ فیصلے کیے ہیں تو اسی کا حق تھا اور آخرت میں بھی وہی کرے گا- ہمارا کام یہ ہے کہ ہم دین کی صحیح بات لوگوں تک پہنچائیں اور ان کو یہ سمجھائیں کہ کفر، شرک اور بدعت کیا ہوتی ہے، ان کی تعلیم دینا ہی دراصل ہماری ذمہ داری ہے-‘‘

جاوید احمد غامدی

جزاک اللہ خیر،
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
{{{تکفیر میں بھی عدل و انصاف اور علم کی ضرورت ہے }}}

الشیخ علامہ صالح بن فوزان الفوزان ( حفظہ اللہ )
(رکن کبارعلماءکمیٹی ،سعودی عرب )

فضیلة الشیخ ( حفظ اللہ ) نے اپنے رسالے " ظاہرة التبدیع ، والتفسیق و التکفیر ، و ضوابطھا " ( ص ۷۲) میں فرمایا:

( تکفیر کا لا پرواہانہ طور پر کسی پر اطلاق کرنا ان جاہلوں کا کام ہے جو سمجھتے ہیں کہ ہم علماءہیں ! ( حالانکہ درحقیقت ) انہیں دین کی کوئی سمجھ بوجھ حاصل نہیں بلکہ انہوں نے تو محض کچھ کتابیں پڑھ کر اور غلط لوگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تکفیر ، تبدیع اور تفسیق جیسے مسمیات کو اس کے مر تکبین یا حقدار وں پر بنا کے چسپاں کر دیا !

کیونکہ وہ اللہ کے دین میں عدم فقاہت کی وجہ سے ان حساس امور کو ان کے اصل مقام پر رکھنا نہیں جانتے تھے ۔۔۔

ان کی مثال تو اس جاہل انسان سی ہے جو کسی اسلحہ پر قابو پا لیتا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کا صحیح استعمال کس طرح کیا جائے ۔ ایسے شخص سے کوئی بعید نہیں کہ وہ مبادا اپنے آپ کو یا اپنے اہل و عیال کو ہی قتل کر دے کیونکہ وہ اس آلہ کے صحیح استعمال سے واقف نہیں )


اسی طرح فضیلة الشیخ (حفظہ اللہ ) نے اپنے فتوی " المنتقی من فتاویہ" ( ۱ /۲۱۱) میں فرمایا :

( ہر کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی پر تکفیر کا اطلاق کرے یا پھر مختلف جماعتوں یا افراد کی تکفیر سے متعلق کلام کرے ۔ تکفیر کے اپنے ضوابط ہیں جو کوئی نواقص اسلام میں سے کسی قول فعل کا مرتکب ہو گا تو صرف اس پر کفر کا حکم لگایا جائے گا ، اور نواقص اسلام معروف ہیں جیسے ان میں سے سب سے بڑا اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا ہے اور اس کے علاوہ علم غیب کا دعوی کرنا ، حکم بغیر ماانزل ( غیر شرعی فیصلے کرنا ) (۲) کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

وَمَن لَّم یَحکُم بِمَا انزَ لَ اللہ فَا و لَئِک ھُمُ الکَافِرُونَ ( المائدہ ؛۴۴)

اور جو کوئی بھی اللہ کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق حکم نہیں کرتے پس ایسے ہی لوگ کافر ہیں

چناچہ تکفیر ایک خطرناک معاملہ ہے کسی لے لیئے لائق نہیں کہ وہ کسی دوسرے کے حق میں تکفیر کا اعلان کرے یہ تو شرعی عدالت اور راسخ العلم علماءکرام کا حق ہے جو کہ اسلام اور اس کے نواقص سے پوری طرح باخبر ہیں ، اسی طرح لوگوں اور معاشروں کے احوال سے بھی بخوبی آگاہ ہیں تو ایسے ہی لوگ تکفیر وغیرہ کا حکم لگانے کے اہل ہیں ۔

جہاں تک سوال ہے جاہلوں ، عوام الناس اور مختلف اقسام کے پڑھے لکھے لو گوں کا تو انہیں بالکل بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی شخص ،جماعت یا ملک پر کفر کا حکم لگائیں کیونکہ یہ لوگ قطعاً اس کے اہل نہیں )


اپنی کتاب " البیان لا خطاءبعض الکتاب" (ص۴۰۱) کے ایک مقام پر فضیلة الشیخ ( حفظہ اللہ ) نے فرمایا :

" واما کون التکفیر فیہ قسوة و خطورہ ، فذلک لا یمنع من اطلاقہ علی من اتصف بہ ۔۔۔"

(اگرچہ تکفیر میں سنگدلی اور خطرہ پایا جاتا ہے ، لیکن یہ اس بات سے مانع نہیں کہ [نصوص میں ] اس صفت سے متصف کیا گیا ہے اس پر اس کا اطلاق نہ کیا جائے ۔۔۔)


واللہ اعلم
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
الله تعالی کا ارشاد ہے

ليس البر أن تولوا وجوهكم قبل المشرق والمغرب ولكن البر من آمن بالله واليوم الآخر والملائكة والكتاب والنبيين وآتى المال على حبه ذوي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل والسائلين وفي الرقاب وأقام الصلاة وآتى الزكاة والموفون بعهدهم إذا عاهدوا والصابرين في البأساء والضراء وحين البأس أولئك الذين صدقوا وأولئك هم المتقون


نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا چہرہ مشرق یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ نیکی یہ ہے کہ الله پر ، یوم آخرت پر فرشتوں پر کتاب پر اور نبیوں پر ایمان لاؤ اور مال دو رشتہ داروں کو یتیموں کو مسکینوں کو مسافر کو اور غلاموں کو اور نماز قائم کرو اور الزكاة دو اور عھد کو پورا کرو اور مصیبت اور تکلیف میں صبر کرو یہی لوگ سچے ہیں اور متقی ہیں


الله تعالی کہتا ہے

وقضى ربك ألا تعبدوا إلا إياه وبالوالدين إحسانا


اور الله کا فیصلہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت ہو گی اور والدین سے جسن سلوک


الله تعالی کہتا ہے

ان اللہ لا تغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذالک لمن یشاء”-|النساء:۱۱۶|

“اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کوچاہے گا بخش دے گا”-

” انہ من یشرک فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ وماوہ النار وما للظالمین من انصار” المائدہ:28

جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر بہشت کو حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکا نہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں”۔

الغرض الله کی ذات و صفات میں کسی اور کو شریک کرنا شرک ہے الله اور اس کے رسولوں فرشتوں کتابوں کا انکار کفر ہے جس میں نبی علیہ السلام کو آخری نبی نہ ماننا بھی نظم رسالت کا کفر ہے

یہود مدینہ ایک کاتب تورات عذرا یا عزیر کو الله کا بیٹا کہتے تھے جو ان کے مطابق نہ نبی تھا نہ رسول تھا لیکن اس کے حوالے سے ان کا غلو اس قدر پڑھا کہ اس کو الله کا بیٹا کہہ دیا

نصاری الله کے ساتھ عیسیٰ کو شریک کرنے کے مرتکب ہوئے- عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے اہل کتاب کے مختلف فرقے تھے بعض ان کو نور من نور الله کہتے تھے جو مجسم ہوا (انجیل یوحنا) بعض ان میں الله کی روح کے حلول کے قائل تھے (انجیل مرقس ) بعض ان میں سے عیسیٰ کو ایک نیک انسان کہتے تھے یہاں تک کہ الله نے ان کو متبنی بیٹا کہا (انجیل لوقا) یہاں تک کہ ٣٢٥ ق م میں انہوں نے کہا کہ الله تین میں سے ایک ہے جس پر قرآن کہتا ہے اس کو ماننے والے سب کافر ہیں

مسلمانوں کے موجودہ فرقے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو الله کے اختیار میں اور صفات میں شریک کرتے ہیں مثلا مسلمانوں کا عمل رسول الله پر پیش ہونے کا عقیدہ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو علم الغیب ہونا- یہ سب نبی علیہ السلام کے حوالے سے غلو کا شکار ہیں اور ان کو اتنا بلند کرتے ہیں کہ وہ صفات جو رب کائنات کی ہیں ان تک لے جاتے ہیں طرفہ تماشہ ہے کہ یہود و نصاری کو برا کہتے ہیں اور قرآن پڑھنے سے عوام کو منع کرتے ہیں کہ جو اس کو سترہ علوم کے بغیر علماء کی زیر نگرانی نہ پڑھے وہ گمراہ ہو جائے گا

جادو شرک کی قبیل کے اعمال ہیں لہذا جو ان کو کرے وہ مشرک ہے

کسی بھی شے کو حلال یا حرام قرار دینا الله کا حق ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ میں شہد نہیں کھاؤں گا جو الله نے حلال کیا ہے اگر امت کو پتا چلتا تو ہو سکتا تھا کہ اس میں اختلاف پیدا ہو جاتا اور شہد کھانا حرام سمجھا جاتا لہذا الله تعالی نے سوره التحریم میں کہا
یٰٓا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ (التحریم 1/66)

اے نبی ! جسے اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا آپ اسے حرام کیوں کرتے ہیں

ایک چیز کو طبعیتا پسند نہ کرنا الگ بات ہے اور کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرنا الگ مثلا نبی علیہ السلام کے سامنے گوہ کا گوشت کھایا گیا آپ کو پیش کیا گیا لیکن آپ نے اس کو نہیں کھایا اور دوسروں کو کھانے دیا ، لہذا گوہ کھانا مباح ہے حرام نہیں

علماء کی پر بات کو من و عن تسلیم کرنا بھی شرک ہے جس میں اہل کتاب مبتلا تھے اور اب مسلمان بھی جو صریح گمراہی کو علماء کے اقوال پر قبول کرتے ہیں قرآن کہتا ہے

اتّخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللہ (سورہ توبہ: ۳۱) ترجمہ: انھوں نے اپنے احبار(مولویوں) اور رہبان(پیروں) کو، اللہ کے سوا رب بنا لیا

عدی بن حاتم رضی الله عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے رسول الله ہم ان علماء کو رب تو نہیں کہتے تھے آپ نے فرمایا جس کو یہ حلال کہتے تھے کیا تم لوگ اس کو حلال نہیں کہتے تھے اور جس کو یہ حرام کہتے تھے کیا تم لوگ اس کو حرام نہیں کہتے تھے صحابی نے کہا صورت حال تو یہی تھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہی رب بنانا ہے

صحابہ کی طرف سے تکفیر

انکار زكواة

صحابہ نے الزكاة کے انکاری قبائل سے جہاد کیا اور اس کی وجہ تھی کہ بعض قبائل اسلام میں داخل ہوئے لیکن ایمان ان کے دلوں میں نہیں تھا انہی قبائل نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد انکار کیا جس پر ان سے جہاد کیا گیا کیونکہ الزكاة الله کا ایک صریح حکم ہے اس کا مطلق انکار کفر ہے
صحیح مسلم میں ہے

عن أبی هريرة (رضی اللّٰه عنه) قال لما توفی رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم واستخلف أبوبکر (رضی اﷲ عنه) بعده وکفر من کفر من العرب، قال عمر بن الخطاب (رضی اﷲ عنه) لأبی بکر (رضی اﷲ عنه): کيف نقاتل الناس وقد قال رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم: أمرت أن أقاتل الناس حتی يقولوا: لا إلٰه إلا اﷲ فمن قال لا إلٰه إلا اﷲ فقد عصم منی ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه علی اﷲ؟ فقال أبو بکر (رضی اﷲ عنه): واﷲ، لأقاتلن من فرق بين الصلاة والزکاة، فإن الزکاة حق المال. واﷲ لو منعونی عقالاً کانوا يؤدونه إلی رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم لقاتلتهم علی منعه. فقال عمر بن الخطاب (رضی اﷲ عنه): فواﷲ ما هو إلا أن رأيت اﷲ عزوجل قد شرح صدر أبی بکر (رضی اﷲ عنه) للقتال. فعرفت أنه الحق. (مسلم، رقم ٢٠)

ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) آپ کے بعد آپ کے خلیفہ ہوئے اور (بعض قبائل) انھوں نے کفر اختیار کیا جنھوں نے کفر اختیار کیا ، تو عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہا: ہم ان لوگوں سے کیسے قتال کریں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان کر چکے ہیں: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں، جب تک یہ لا الٰه الا الله نہ کہہ دیں۔ چنانچہ جس نے لا الٰه الا الله کہہ دیا، اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان بچا لی، الاّ یہ کہ اس پر کوئی حق قائم ہوجائے، اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ یہ سن کر ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے کہا: بخدا، میں ان سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم، اگر انھوں نے ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں اس روکنے پر ان سے لڑوں گا۔ عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے کہا: الله کی قسم، یہ ایسے شخص ہیں جن کا سینہ اللہ نے قتال کے لیے کھول دیا ہے۔ میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔ ”

دین کے کسی بھی رکن کا انکار اسلام کا انکار ہے بخاری کی حدیث جبریل میں اسلام کے بنیادی ارکان میں توحید اور رسول الله کی رسالت، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا ، رمضان کے روزے اور حج بیت اللہ شامل ہے اس پر مزید احسان کی کیفیت ہے

اگر کوئی سب چیزیں کرے لیکن بیت الله کا حج نہ کرے نہ اس کی خواہش ہو تو اس کے لئے بھی حدیث میں ہے کہ چاہے یہودی مرے یا نصرانی- اس کی وجہ ہے کہ یہود و نصاری کعبہ کو بیت الله نہیں مانتے ، لہذا اگر کوئی استطاعت کے باوجود بیت الله کا حج نہیں کرتا تو وہ یہود و نصاری جیسا برتاو کر رہا ہے

نبوت کا دعوی

صحابہ نے نبوت کے مدعی افراد کی بھی تکفیر کی کیونکہ حدیث میں ہے کہ اس امت میں تیس دجال ہوں گے اور محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے آخری نبی اور رسول ہیں جن کے بعد اب کسی پر وحی نہیں آئے گی

یہ دونوں گروہ ابو بکر رضی الله عنہ کی خلافت میں ظاہر ہوئے تھے جو الگ الگ قبائل تھے بعض لوگوں نے ان کو ایک قرار دے دیا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ دونوں گروہ ایک تھے جبکہ یہ صحیح نہیں اور احادیث کے الفاظ اس موقف کو رد کرتے ہیں دوم زکوٰۃ کے انکاری باقی اسلامی ارکان کو مانتے تھے لہذا وہ مشرک عرب کی طرح نہیں تھے

غالی شیعہ گروہ

علی رضی الله عنہ نے بعض زندیقوں کا جلوایا جنہوں نے علی کی الوہیت کا عقیدہ اختیار کیا

خوارج

خوارج نے گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر کہا اور اس میں صحابہ تک کو مطلقا کافر کہہ کر ان کا قتال کیا صحابہ نے ان کی تکفیر کی کیونکہ گناہ کبیرہ تک کی معافی ہے اور خوارج کا موقف افراط پر مبنی تھا

بخاری میں ہے:

عن أنس بن مالك (رضی اﷲ عنه) قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم: أمرت أن أقاتل الناس حتی يقولوا: لا إلٰه إلا اﷲ فإذا قالوها وصلوا صلاتنا واستقبلوا قبلتنا وذبحوا ذبيحتنا فقد حرمت علينا دماؤهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم علی اﷲ. (رقم ٣٨٥)

انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ یہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیں ۔ پھر جب یہ اقرار کرلیں اور ہماری نمازیں پڑھنے لگیں، ہمارے قبلے کی طرف رخ کرنے لگیں اور ہمارے طریقے پر جانور ذبح کرنے لگیں تو ہم پر ان کا خون اور مال حرام ہو گیا، الاّ یہ کہ ان پر کوئی حق قائم ہو جائے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔

اس روایت کے ظاہر کے مطابق خوارج تمام شرائط پوری کرتے ہیں وہ ہمارے قبلے کی طرف نماز پڑھتے ہیں ، یہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرارکرتے ہیں ، اسلامی طریقے پر جانور ذبح کرتے ہیں تو پھر ان کا خوں کس طرح مباح ہوا؟

نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم ان ظاہری شرائط پر مبنی ہے جو مشاہدات میں سے ہیں اور عقائد کا تذکرہ نہیں کیونکہ اس حدیث میں یہ مضمر ہے کہ ان سب کا صحیح عقیدہ ہو –صحیح عقیدہ کے بعد ہی ظاہری اعمال کا وزن ہے ورنہ نماز ایک ورزش، روزہ ایک فاقه اور صدقات ایک دنیا دکھاوا ہے
اسی بنیاد پر صحابہ نے خوارج کی تکفیر کی اور علی رضی الله عنہ نے ان سے قتال کیا اور خارجی کہا گیا

احتیاط

مشرکین کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف تعاون کرنا بھی حرام ہے – الله کا حکم ہے

ومن یتولھم منکم فانہ منھم ان اللہ لا یھدی القوم الظلمین

اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا۔ بے شک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

یہ نقطہ اہم ہے کہ اگر کوئی شخص کفار کو مسلمانوں کی خفیہ خبریں دے اور اس شخص کے دل میں رسول الله اور الله کی محبت نہ ہو تو ہی اس کو کافر کہا جا سکتا ہے مثلا حاطب بن ابی بلتہ رضی الله عنہ کا مشھور واقعہ ہے کہ انہوں نے کفار کو نبی صلی الله علیہ وسلم کی مکہ پر حملے کی خبر دینا چاہی جس کی خبر نبی صلی الله علیہ وسلم کو ہوئی اور آپ نے ان کو معاف کیا کیونکہ وہ الله اور اس کے رسول سے محبت کرتے تھے –

حدیث میں بعض اعمال کو کفر کہا گیا ہے مثلا حدیث میں ہے کہ نماز ترک کرنا کفر ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ مدینہ میں منافقین تھے جن کی آزمائش نماز سے کی جاتی تھی قرآن کہتا ہے کہ ان کا انداز ایسا تھا کہ نماز میں سست تھے اور دکھاوا زیادہ تھا اور مسکین کی مدد کم – اج اگر کوئی مسلمان اس میں سستی کرے تو اس کو کافر و منافق نہیں کہا جائے گا کیونکہ سست ہونا الگ بات ہے اور اس کا مطلق انکار الگ

حدیث میں آتا ہے کہ مسلم کو گالی دینا فسق اور قتل کفر ہے اس کی تعبیر بھی یہی ہے کہ دیکھا جائے گا کہ گالی دینے والا کون ہے- صحابہ نے ایک دوسرے کو گالی بھی دی لیکن اس پر انہوں نے تکفیر نہیں کی، اپس کی جنگوں میں قتل بھی ہوئے لیکن جب جنگ ختم ہوئی تو کسی نے کسی کو کافر نہیں کہا –

گناہ کبیرہ (جو شرک کے علاوہ ہوں) کے مرتکب شخص کو کافر نہیں کہا جائے گا مثلا شراب پینا یا جوا کھیلنا شیطانی کام ہے کفر نہیں اسی طرح زنا گناہ ہے لیکن کفر و شرک نہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ہم نے لوگوں کی تحریروں پر شرک اور آیات قرانی کے انکار کا فتوی لگایا ہے ان کی شکل و صورت پر نہیں نہ ہی کسی کے دل کا حال معلوم ہے
اگر کوئی کتاب لکھے اور غلط عقائد کا پر چار کرے اور عوام اس سب کو سن کر ان کو اولیاء الله کہہں تو اس کو باطن نہیں کہا جا سکتا

سوره توبہ مخصوص حالات و واقعات میں بازل ہوئی ہے اس کی آیات کو اس کے سیاق و سباق میں ہی سمجھنا چاہیے اس میں مشرک کے لئے جو کہا گیا ہے کہ وہ توبہ کریں اور نماز پڑھیں اور زکات دیں تو وہ تمہارے بھائی ہیں اس میں یہ مضمر ہے کہ وہ عقائد میں سے شرک نکال کر یہ سب کریں گے کیونکہ اصل جھگڑا تو یہی تھا اور مکی دور میں دعوت کا محور بھی

اسلام کے ارکان دین کا ظاہر ہیں یہ تو اس وقت فرض ہوتے ہیں جب عقائد صحیح ہوں اس سے پہلے نہیں چاہئے کوئی کتنی ہی نماز پڑھے یا روزہ رکھے

جو شخص الله اور اس کے رسول کی بات کو فوقیت دیتا ہے وہ ان مسالک والوں سے کیسے منسلک رہ سکتا ہے یہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں

دین سے پلٹنا ارتاد ہے اور دین کے سارے ارکان کو کرنے کے بعد ایمان میں خرابی پیدا کرنا الگ بات ہے
آپ اس کو بار بار ایک کرتے ہیں

آپ کو پہلے بھی کہا تھا کہ ہمارا فتوی عوام کے لئے نہیں، خواص کے لئے ہے جن کے یہ عوام معتقد ہیں

خوارج کے عقائد میں گناہ کبیرہ کی تکفیر شامل ہے جو خلاف قرآن ہے
ان کے اصول سیاسی مسائل پر تھے جس میں یہ صحابہ تک کو کافر کہنے لگے اور ان کا قتل کیا اس کے لئے آپ تاریخ کی کوئی بھی کتاب دیکھ سکتے ہیں
تاریخ الطبری وغیرہ

بخاری کی روایت ہے

ابو سلمہ اور عطاء بن یسار ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے حروریہ (حرورہ کے خوارج) کے متعلق پوچھا کہ کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے متعلق کچھ سنا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے نہیں معلوم کہ یہ حروریہ کیا چیز ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: “اس امت میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے آپ اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے مقابلے میں حقیر سمجھیں گے۔ یہ لوگ قرآن پڑھیں گے مگر اس طرح کہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر جاتا ہے ”


آپ دیکھیں خوارج سوره توبہ کی تمام شرائط پوری کرتے ہیں کلمہ پڑھتے ہیں نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کے نظریات ان کے ظاہری اسلام پر حاوی ہیں

خوارج عبادت گزار متکبرین تھے اور صحابہ کو ہی خطاوار کہتے اور ان کا قتل گھات لگا کر کرتے تھے

علی نے جن کو جلوایا ان کو روایات میں زندیق کہا گیا ہے جو فارسی لفظ کا معرب ہے جس کی تعریف کے مطابق اس کا مطلب کافر ہے
اس کے لئے لسان العرب دیکھ سکتے ہیں

بخاری کی حدیث ہے

عن عكرمة ثم أن عليًّا رضي الله عنه حرق قومًا؛ فبلغ ابنَ عباس فقال: لو كنت أنا لم أحرقهم؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تعذبوا بعذاب الله»، ولقتلتهم كما قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من بدل دينه فاقتلوه»

بخاری کی حدیث میں ہے جب علی کی جانب سے یہ اگ میں جلانے کی خبر ابن عباس کو ملی تو انہوں نے کہا

لو كنت أنا لم أحرقهم، لنهى رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: “لا تعذبوا بعذاب الله”

اگر میں ہوتا تو ان کو نہ جلاتا کونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے منع کیا ہے کہ الله کے عذاب سے عذاب دیا جائے

علی رضی الله نے اس پر ایک شعر کہا

لما رأيت الأمر أمراً منكراً *** أوقدت ناري ودعوت قنبرا

جب میں امر منکر دیکھا میں نے اگ بھڑکائی اور قنبر کو پکارا

قبنر علی کا غلام تھا جس کو انہوں نے یہ حکم دیا

ان کو زندیق یا کافر قرار دے کر ہی ایسا کیا گیا

یہ تمام واقعات مشھور و معروف ہیں اور تاریخ اسلام کی ہر کتاب میں موجود ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
بعض قبائل اسلام میں داخل ہوئے تھے لیکن ایمان میں نہیں قرآن کہتا ہے

قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولكن قولوا أسلمنا ولما يدخل الإيمان في قلوبكم وإن تطيعوا الله ورسوله لا يلتكم من أعمالكم شيئا إن الله غفور رحيم

الاعراب کہتے ہیں ہم ایمان لائے کہو تم ایمان نہیں لائے اسلام لائے اور ایمان تمہارے دل میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم الله اور الله کے رسول کی اطاعت کرو تو تمہارے عمل میں سے کچھ ضائع نہیں ہو گا اور بے شک الله غفور و رحیم ہے

اسی طرح کے قبائل نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد زکات کا انکار کیا یہ قبائل ظاہر میں تو اسلام پر عمل کر رہے تھے اور مسلمان ہونے کے دعوی دار بھی تھے لیکن ان میں اصل ایمان نہیں تھا اسی چیز نے ان کو انکار پر امادہ کیا اور ابو بکر نے ان سے جہاد کیا
حدیث کے الفاظ آپ کے مفروضے کے خلاف ہیں

قال لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ وكفر من كفر من العرب
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہو گئے

یہ قبائل اپنے تئیں مسلمان تھے لیکن ابو ہریرہ اور ابو بکر کے نزدیک نہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
جن قبائل نے زکواہ کا انکار کیا تھا ان میں ایمان داخل نھیں ھوا تھا وہ باقی ارکان کو ادا
کر رھے تھے

خوارج تمام ارکان کو ادا کر رھے تھے

ان کے ایمان میں میں صحابہ کا کفر شامل تھا

جن کی گواہی قرآن دیتا ھے لہذا ان کو خارجی کہا گیا

انکار مطلق الگ چیز ھے اور تشریح کی بنیاد پر خطا الگ چیز

شرک آج امت میں تعبیر و تشریح کے اختلاف کی وجہ سے ھے

اس وجہ سے قبر پرستوں کو مشرک کہتے ھیں ان کو مرتد نہیں

موجودہ فرقوں کو مشرک کہہ سکتے ھیں یا نہیں جبکہ وہ ارکان ادا کرتے ھیں
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
غامدی صاحب کی اس بات بلامبالغہ دُرپھٹے منہ،،،
یہ اقتباس اُن کے لئے نصیحت ہے جو “کاکوشاہ“ کو اپنا امام مانتے ہیں،،،
غآمدی صاحب!!! کے جواب میں خود ان ہی پر اعتراض موجود ہے،،،
ایک جگہ پر فرمایا کہ!!!
یہ اعلان بھی آخری مرتبہ رسالت مآبؐ کے ذریعے سے ان کے زمانے کے لوگوں کے لئے ہو گیا تھا-
آخری لائن میں خود ہی اپنی بات کی نفی کرگئے!!!۔
ہمارا کام یہ ہے کہ ہم دین کی صحیح بات لوگوں تک پہنچائیں،،،
پھر موصوف چاہتے ہیں کہ!!!۔۔۔
ان کو یہ سمجھائیں کہ کفر، شرک اور بدعت کیا ہوتی ہے،،،
دین کی صحیح بات سُن کر بھی اگر کافر، کفر سے باز نہیں آتا،،،
مشرک شرک کرنا نہیں چھوڑتا،،،
بدعتی اپنی بدعت سے باز نہیں آتا،،،
تو ان کو کیا کہا جائے گا؟؟؟۔۔۔
اصل بات یہ ہے یہ غامدی صاحب،،،
اُن لوگوں میں سے ہیں جو بندر کو گولاٹی مارتا دیکھیں،،،
تو ببانگ دہل کہہ اٹھیں کے اس سے اچھی گلاٹی تو میں مار سکتا ہوں،،،
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
غامدی صاحب کی اس بات بلامبالغہ دُرپھٹے منہ،،،
متفق !!
غامدی صاحب نے یہ فلسفہ محض اپنے اٹکل پچّو سےجھاڑا ہے،
جبکہ اسلاف نے ابتدائے اسلام سے ہی، احکام المرتدین بیان فرمائیں ہیں، کتب احادیث میں بھی اور کتب الفقہ میں بھی۔ بلکہ اس پر اپنی کتب میں مستقل ابواب قائم کئے ہیں!!
اگر کسی کی تکفیر کی ہی نہیں جا سکتی تو یہ تمام چہ معنی دارد!!
غامدی صاحب کے اس فلسفہ کی رو سے تو کسی شخص کو بھی کافر نہیں کہا جا سکتا، نہ کسی ہندو کو نہ کسی بدھست کو کسی کو بھی نہیں!! گو کہ وہ خود اپنے مسلمان ہونے کی نفی کررہا ہو!!
کیونکہ غامدی صاحب کے بقول تو نبی صلی اللہ علیہ کے زمانے کے لوگوں کے لئے نبی صلی اللہ نے فرمادیا، بعد والوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا!!
 
Last edited:
Top