الله تعالی کا ارشاد ہے
ليس البر أن تولوا وجوهكم قبل المشرق والمغرب ولكن البر من آمن بالله واليوم الآخر والملائكة والكتاب والنبيين وآتى المال على حبه ذوي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل والسائلين وفي الرقاب وأقام الصلاة وآتى الزكاة والموفون بعهدهم إذا عاهدوا والصابرين في البأساء والضراء وحين البأس أولئك الذين صدقوا وأولئك هم المتقون
نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا چہرہ مشرق یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ نیکی یہ ہے کہ الله پر ، یوم آخرت پر فرشتوں پر کتاب پر اور نبیوں پر ایمان لاؤ اور مال دو رشتہ داروں کو یتیموں کو مسکینوں کو مسافر کو اور غلاموں کو اور نماز قائم کرو اور الزكاة دو اور عھد کو پورا کرو اور مصیبت اور تکلیف میں صبر کرو یہی لوگ سچے ہیں اور متقی ہیں
الله تعالی کہتا ہے
وقضى ربك ألا تعبدوا إلا إياه وبالوالدين إحسانا
اور الله کا فیصلہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت ہو گی اور والدین سے جسن سلوک
الله تعالی کہتا ہے
ان اللہ لا تغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذالک لمن یشاء”-|النساء:۱۱۶|
“اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کوچاہے گا بخش دے گا”-
” انہ من یشرک فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ وماوہ النار وما للظالمین من انصار” المائدہ:28
جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر بہشت کو حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکا نہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں”۔
الغرض الله کی ذات و صفات میں کسی اور کو شریک کرنا شرک ہے الله اور اس کے رسولوں فرشتوں کتابوں کا انکار کفر ہے جس میں نبی علیہ السلام کو آخری نبی نہ ماننا بھی نظم رسالت کا کفر ہے
یہود مدینہ ایک کاتب تورات عذرا یا عزیر کو الله کا بیٹا کہتے تھے جو ان کے مطابق نہ نبی تھا نہ رسول تھا لیکن اس کے حوالے سے ان کا غلو اس قدر پڑھا کہ اس کو الله کا بیٹا کہہ دیا
نصاری الله کے ساتھ عیسیٰ کو شریک کرنے کے مرتکب ہوئے- عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے اہل کتاب کے مختلف فرقے تھے بعض ان کو نور من نور الله کہتے تھے جو مجسم ہوا (انجیل یوحنا) بعض ان میں الله کی روح کے حلول کے قائل تھے (انجیل مرقس ) بعض ان میں سے عیسیٰ کو ایک نیک انسان کہتے تھے یہاں تک کہ الله نے ان کو متبنی بیٹا کہا (انجیل لوقا) یہاں تک کہ ٣٢٥ ق م میں انہوں نے کہا کہ الله تین میں سے ایک ہے جس پر قرآن کہتا ہے اس کو ماننے والے سب کافر ہیں
مسلمانوں کے موجودہ فرقے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو الله کے اختیار میں اور صفات میں شریک کرتے ہیں مثلا مسلمانوں کا عمل رسول الله پر پیش ہونے کا عقیدہ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو علم الغیب ہونا- یہ سب نبی علیہ السلام کے حوالے سے غلو کا شکار ہیں اور ان کو اتنا بلند کرتے ہیں کہ وہ صفات جو رب کائنات کی ہیں ان تک لے جاتے ہیں طرفہ تماشہ ہے کہ یہود و نصاری کو برا کہتے ہیں اور قرآن پڑھنے سے عوام کو منع کرتے ہیں کہ جو اس کو سترہ علوم کے بغیر علماء کی زیر نگرانی نہ پڑھے وہ گمراہ ہو جائے گا
جادو شرک کی قبیل کے اعمال ہیں لہذا جو ان کو کرے وہ مشرک ہے
کسی بھی شے کو حلال یا حرام قرار دینا الله کا حق ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ میں شہد نہیں کھاؤں گا جو الله نے حلال کیا ہے اگر امت کو پتا چلتا تو ہو سکتا تھا کہ اس میں اختلاف پیدا ہو جاتا اور شہد کھانا حرام سمجھا جاتا لہذا الله تعالی نے سوره التحریم میں کہا
یٰٓا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ (التحریم 1/66)
اے نبی ! جسے اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا آپ اسے حرام کیوں کرتے ہیں
ایک چیز کو طبعیتا پسند نہ کرنا الگ بات ہے اور کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرنا الگ مثلا نبی علیہ السلام کے سامنے گوہ کا گوشت کھایا گیا آپ کو پیش کیا گیا لیکن آپ نے اس کو نہیں کھایا اور دوسروں کو کھانے دیا ، لہذا گوہ کھانا مباح ہے حرام نہیں
علماء کی پر بات کو من و عن تسلیم کرنا بھی شرک ہے جس میں اہل کتاب مبتلا تھے اور اب مسلمان بھی جو صریح گمراہی کو علماء کے اقوال پر قبول کرتے ہیں قرآن کہتا ہے
اتّخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللہ (سورہ توبہ: ۳۱) ترجمہ: انھوں نے اپنے احبار(مولویوں) اور رہبان(پیروں) کو، اللہ کے سوا رب بنا لیا
عدی بن حاتم رضی الله عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے رسول الله ہم ان علماء کو رب تو نہیں کہتے تھے آپ نے فرمایا جس کو یہ حلال کہتے تھے کیا تم لوگ اس کو حلال نہیں کہتے تھے اور جس کو یہ حرام کہتے تھے کیا تم لوگ اس کو حرام نہیں کہتے تھے صحابی نے کہا صورت حال تو یہی تھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہی رب بنانا ہے
صحابہ کی طرف سے تکفیر
انکار زكواة
صحابہ نے الزكاة کے انکاری قبائل سے جہاد کیا اور اس کی وجہ تھی کہ بعض قبائل اسلام میں داخل ہوئے لیکن ایمان ان کے دلوں میں نہیں تھا انہی قبائل نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد انکار کیا جس پر ان سے جہاد کیا گیا کیونکہ الزكاة الله کا ایک صریح حکم ہے اس کا مطلق انکار کفر ہے
صحیح مسلم میں ہے
عن أبی هريرة (رضی اللّٰه عنه) قال لما توفی رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم واستخلف أبوبکر (رضی اﷲ عنه) بعده وکفر من کفر من العرب، قال عمر بن الخطاب (رضی اﷲ عنه) لأبی بکر (رضی اﷲ عنه): کيف نقاتل الناس وقد قال رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم: أمرت أن أقاتل الناس حتی يقولوا: لا إلٰه إلا اﷲ فمن قال لا إلٰه إلا اﷲ فقد عصم منی ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه علی اﷲ؟ فقال أبو بکر (رضی اﷲ عنه): واﷲ، لأقاتلن من فرق بين الصلاة والزکاة، فإن الزکاة حق المال. واﷲ لو منعونی عقالاً کانوا يؤدونه إلی رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم لقاتلتهم علی منعه. فقال عمر بن الخطاب (رضی اﷲ عنه): فواﷲ ما هو إلا أن رأيت اﷲ عزوجل قد شرح صدر أبی بکر (رضی اﷲ عنه) للقتال. فعرفت أنه الحق. (مسلم، رقم ٢٠)
ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) آپ کے بعد آپ کے خلیفہ ہوئے اور (بعض قبائل) انھوں نے کفر اختیار کیا جنھوں نے کفر اختیار کیا ، تو عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہا: ہم ان لوگوں سے کیسے قتال کریں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان کر چکے ہیں: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں، جب تک یہ لا الٰه الا الله نہ کہہ دیں۔ چنانچہ جس نے لا الٰه الا الله کہہ دیا، اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان بچا لی، الاّ یہ کہ اس پر کوئی حق قائم ہوجائے، اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ یہ سن کر ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے کہا: بخدا، میں ان سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم، اگر انھوں نے ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں اس روکنے پر ان سے لڑوں گا۔ عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے کہا: الله کی قسم، یہ ایسے شخص ہیں جن کا سینہ اللہ نے قتال کے لیے کھول دیا ہے۔ میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔ ”
دین کے کسی بھی رکن کا انکار اسلام کا انکار ہے بخاری کی حدیث جبریل میں اسلام کے بنیادی ارکان میں توحید اور رسول الله کی رسالت، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا ، رمضان کے روزے اور حج بیت اللہ شامل ہے اس پر مزید احسان کی کیفیت ہے
اگر کوئی سب چیزیں کرے لیکن بیت الله کا حج نہ کرے نہ اس کی خواہش ہو تو اس کے لئے بھی حدیث میں ہے کہ چاہے یہودی مرے یا نصرانی- اس کی وجہ ہے کہ یہود و نصاری کعبہ کو بیت الله نہیں مانتے ، لہذا اگر کوئی استطاعت کے باوجود بیت الله کا حج نہیں کرتا تو وہ یہود و نصاری جیسا برتاو کر رہا ہے
نبوت کا دعوی
صحابہ نے نبوت کے مدعی افراد کی بھی تکفیر کی کیونکہ حدیث میں ہے کہ اس امت میں تیس دجال ہوں گے اور محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے آخری نبی اور رسول ہیں جن کے بعد اب کسی پر وحی نہیں آئے گی
یہ دونوں گروہ ابو بکر رضی الله عنہ کی خلافت میں ظاہر ہوئے تھے جو الگ الگ قبائل تھے بعض لوگوں نے ان کو ایک قرار دے دیا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ دونوں گروہ ایک تھے جبکہ یہ صحیح نہیں اور احادیث کے الفاظ اس موقف کو رد کرتے ہیں دوم زکوٰۃ کے انکاری باقی اسلامی ارکان کو مانتے تھے لہذا وہ مشرک عرب کی طرح نہیں تھے
غالی شیعہ گروہ
علی رضی الله عنہ نے بعض زندیقوں کا جلوایا جنہوں نے علی کی الوہیت کا عقیدہ اختیار کیا
خوارج
خوارج نے گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر کہا اور اس میں صحابہ تک کو مطلقا کافر کہہ کر ان کا قتال کیا صحابہ نے ان کی تکفیر کی کیونکہ گناہ کبیرہ تک کی معافی ہے اور خوارج کا موقف افراط پر مبنی تھا
بخاری میں ہے:
عن أنس بن مالك (رضی اﷲ عنه) قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم: أمرت أن أقاتل الناس حتی يقولوا: لا إلٰه إلا اﷲ فإذا قالوها وصلوا صلاتنا واستقبلوا قبلتنا وذبحوا ذبيحتنا فقد حرمت علينا دماؤهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم علی اﷲ. (رقم ٣٨٥)
انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ یہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیں ۔ پھر جب یہ اقرار کرلیں اور ہماری نمازیں پڑھنے لگیں، ہمارے قبلے کی طرف رخ کرنے لگیں اور ہمارے طریقے پر جانور ذبح کرنے لگیں تو ہم پر ان کا خون اور مال حرام ہو گیا، الاّ یہ کہ ان پر کوئی حق قائم ہو جائے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔
اس روایت کے ظاہر کے مطابق خوارج تمام شرائط پوری کرتے ہیں وہ ہمارے قبلے کی طرف نماز پڑھتے ہیں ، یہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرارکرتے ہیں ، اسلامی طریقے پر جانور ذبح کرتے ہیں تو پھر ان کا خوں کس طرح مباح ہوا؟
نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم ان ظاہری شرائط پر مبنی ہے جو مشاہدات میں سے ہیں اور عقائد کا تذکرہ نہیں کیونکہ اس حدیث میں یہ مضمر ہے کہ ان سب کا صحیح عقیدہ ہو –صحیح عقیدہ کے بعد ہی ظاہری اعمال کا وزن ہے ورنہ نماز ایک ورزش، روزہ ایک فاقه اور صدقات ایک دنیا دکھاوا ہے
اسی بنیاد پر صحابہ نے خوارج کی تکفیر کی اور علی رضی الله عنہ نے ان سے قتال کیا اور خارجی کہا گیا
احتیاط
مشرکین کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف تعاون کرنا بھی حرام ہے – الله کا حکم ہے
ومن یتولھم منکم فانہ منھم ان اللہ لا یھدی القوم الظلمین
اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا۔ بے شک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
یہ نقطہ اہم ہے کہ اگر کوئی شخص کفار کو مسلمانوں کی خفیہ خبریں دے اور اس شخص کے دل میں رسول الله اور الله کی محبت نہ ہو تو ہی اس کو کافر کہا جا سکتا ہے مثلا حاطب بن ابی بلتہ رضی الله عنہ کا مشھور واقعہ ہے کہ انہوں نے کفار کو نبی صلی الله علیہ وسلم کی مکہ پر حملے کی خبر دینا چاہی جس کی خبر نبی صلی الله علیہ وسلم کو ہوئی اور آپ نے ان کو معاف کیا کیونکہ وہ الله اور اس کے رسول سے محبت کرتے تھے –
حدیث میں بعض اعمال کو کفر کہا گیا ہے مثلا حدیث میں ہے کہ نماز ترک کرنا کفر ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ مدینہ میں منافقین تھے جن کی آزمائش نماز سے کی جاتی تھی قرآن کہتا ہے کہ ان کا انداز ایسا تھا کہ نماز میں سست تھے اور دکھاوا زیادہ تھا اور مسکین کی مدد کم – اج اگر کوئی مسلمان اس میں سستی کرے تو اس کو کافر و منافق نہیں کہا جائے گا کیونکہ سست ہونا الگ بات ہے اور اس کا مطلق انکار الگ
حدیث میں آتا ہے کہ مسلم کو گالی دینا فسق اور قتل کفر ہے اس کی تعبیر بھی یہی ہے کہ دیکھا جائے گا کہ گالی دینے والا کون ہے- صحابہ نے ایک دوسرے کو گالی بھی دی لیکن اس پر انہوں نے تکفیر نہیں کی، اپس کی جنگوں میں قتل بھی ہوئے لیکن جب جنگ ختم ہوئی تو کسی نے کسی کو کافر نہیں کہا –
گناہ کبیرہ (جو شرک کے علاوہ ہوں) کے مرتکب شخص کو کافر نہیں کہا جائے گا مثلا شراب پینا یا جوا کھیلنا شیطانی کام ہے کفر نہیں اسی طرح زنا گناہ ہے لیکن کفر و شرک نہیں