• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم غزوۂ بدر کبریٰ - اسلام کا پہلا فیصلہ کن معرکہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مالِ غنیمت کا مسئلہ:
رسول اللہﷺ نے معرکہ ختم ہونے کے بعد تین دن بدر میں قیام فرمایا ، اور ابھی آپﷺ نے میدانِ جنگ سے کوچ نہیں فرمایا تھا کہ مالِ غنیمت کے بارے میں لشکر کے اندر اختلاف پڑگیا اور جب یہ اختلاف شدت اختیار کر گیا تو رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ آپﷺ کے حوالے کردے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکم کی تعمیل کی اور اس کے بعد اللہ نے وحی کے ذریعہ اس مسئلے کا حل نازل فرمایا۔
حضرت عبادہ بن صامتؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ نبیﷺ کے ساتھ مدینے سے نکلے اور بدر میں پہنچے۔ لوگوں سے جنگ ہوئی اور اللہ نے دشمن کو شکست دی۔ پھر ایک گروہ ان کے تعاقب میں لگ گیا اور انہیں کھدیڑ نے اور قتل کرنے لگا اور ایک گروہ مالِ غنیمت پر ٹوٹ پڑا اور اسے بٹورنے اور سمیٹنے لگا اور ایک گروہ نے رسول اللہﷺ کے گرد گھیرا ڈالے رکھا کہ مبادا دشمن دھوکے سے آپﷺ کو کوئی اذیت پہنچادے۔ جب رات آئی اور لوگ پلٹ پلٹ کر ایک دوسرے کے پاس پہنچے تو مالِ غنیمت جمع کرنے والوں نے کہا کہ ہم نے اسے جمع کیا ہے، لہٰذا اس میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں۔ دشمن کا تعاقب کرنے والوں نے کہا :''تم لوگ ہم سے بڑھ کر اس کے حق دار نہیں کیونکہ اس مال سے دشمن کو بھگانے اور دور رکھنے کاکام ہم نے کیا تھا۔'' اور جو لوگ رسول اللہﷺ کی حفاظت فرما رہے تھے انہوں نے کہا :''ہمیں یہ خطرہ تھا کہ دشمن آپ کو غفلت میں پاکر کوئی اذیت نہ پہنچا دے اس لیے ہم آپﷺ کی حفاظت میں مشغول رہے۔'' اس پراللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١﴾ (۸: ۱)
''لوگ آپﷺ سے مال ِ غنیمت کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دو غنیمت اللہ اور رسولﷺ کے لیے ہے، پس اللہ سے ڈرو ، اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرلو اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو اگر واقعی تم لوگ مومن ہو۔''
اس کے بعد رسول اللہﷺ نے مالِ غنیمت کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم فرمادیا۔1
اسلامی لشکر مدینے کی راہ میں:
رسول اللہﷺ تین روز بدر میں قیام فرماکر مدینے کے لیے چل پڑے۔ آپﷺ کے ہمراہ مشرک قیدی بھی تھے اور مشرکین سے حاصل کیا ہوا مالِ غنیمت بھی۔ آپﷺ نے حضرت عبد اللہ بن کعبؓ کو اس کی نگرانی سونپی تھی۔ جب آپﷺ وادیٔ صفرا ء کے درّے سے باہر نکلے تو درّے اور نازیہ کے درمیان ایک ٹیلے پر پڑاؤ ڈالا اور وہیں خمس (پانچواں حصہ ) علیحدہ کر کے باقی مال ِ غنیمت مسلمانوں پر برابر تقسیم کردیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسند احمد ۵ / ۳۲۳ ، ۳۲۴ حاکم ۲/۳۲۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اور وادیٔ صفراء ہی میں آپﷺ نے حکم صادر فرمایا کہ نضر بن حارث کو قتل کردیا جائے۔ اس شخص نے جنگ ِ بدر میں مشرکین کا پرچم اُٹھارکھا تھا اور یہ قریش کے اکابر مجرمین میں سے تھا۔ اسلام دشمنی اور رسول اللہﷺ کی ایذاء رسانی میں حد درجہ بڑھا ہوا تھا۔ آپﷺ کے حکم پر حضرت علیؓ نے اس کی گردن مار دی۔
اس کے بعد آپﷺ عرق الظبیہ پہنچے تو عقبہ بن ابی معیط کے قتل کا حکم صادر فرمایا۔ یہ شخص جس طرح رسول اللہﷺ کو ایذاء پہنچایا کرتا تھا اس کا کچھ ذکرپیچھے گزر چکا ہے۔ یہی شخص ہے جس نے رسول اللہﷺ کی پیٹھ پر نماز کی حالت میں اونٹ کی اوجھ ڈالی تھی اور اسی شخص نے آپﷺ کی گردن پہ چادر لپیٹ کر آپﷺ کو قتل کرنا چاہا تھا اور اگر ابوبکرؓ بروقت نہ گئے ہوتے تو اس نے (اپنی دانست میں تو )آپﷺ کا گلا گھونٹ کر مار ہی ڈالاتھا۔ جب نبیﷺ نے اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا تو کہنے لگا: ''اے محمد ! بچوں کے لیے کون ہے ؟'' آپ نے فرمایا : آگ1 اس کے بعد حضرت عاصم بن ثابت انصاریؓ نے - اور کہا جاتا ہے کہ حضرت علیؓ نے - اس کی گردن ماردی۔
جنگی نقطۂ نظر سے ان دونوں طاغوتوں کا قتل کیا جانا ضروری تھا کیونکہ یہ صرف جنگی قیدی نہ تھے بلکہ جدید اصطلاح کی روسے جنگی مجرم بھی تھے۔
تہنیت کے وفود:
اس کے بعد آپﷺ مقامِ رَوحا ء پہنچے تو ان مسلمان سربراہوں سے ملاقات ہوئی جو دونوں قاصدوں سے فتح کی بشارت سن کر آپﷺ کا استقبال کرنے اور آپﷺ کو فتح کی مبارک باد پیش کرنے کے لیے مدینے سے نکل پڑے تھے۔ جب انہوں نے مبارک پیش کی تو حضرت سلمہ بن سلامہؓ نے کہا :'' آپ لوگ ہمیں کاہے کی مبارک باد دے رہے ہیں ہمارا ٹکراؤ تو اللہ کی قسم ! گنجے سر کے بوڑھوں سے ہوا تھا جو اونٹ جیسے تھے۔'' اس پر رسول اللہﷺ نے مسکرا کر فرمایا : بھتیجے! یہی لوگ سر برآوردگانِ قوم تھے۔
اس کے بعد حضرت اسید بن حضیرؓ عرض پر داز ہوئے :''یارسول اللہ!(ﷺ ) اللہ کی حمد ہے کہ اس نے آپ کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشی۔ واللہ ! میں یہ سمجھتے ہوئے بدر سے پیچھے نہ رہا تھا کہ آپ کا ٹکراؤ دشمن سے ہوگا ، میں تو سمجھ رہا تھا کہ بس قافلے کا معاملہ ہے ، اور اگر میں یہ سمجھتا کہ دشمن سے سابقہ پڑے گا تو میں پیچھے نہ رہتا۔'' رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' سچ کہتے ہو۔''
اس کے بعد آپﷺ مدینہ منور ہ میں اس طرح مظفر ومنصور داخل ہوئے کہ شہر اور گرد وپیش کے سارے دشمنوں پر آپﷺ کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ اس فتح کے اثر سے مدینے کے بہت سے لوگ حلقۂ بگوش اسلام ہوئے اور اسی موقع پر عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں نے بھی دکھاوے کے لیے اسلام قبول کیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یہ حدیث کتب صحاح میں مروی ہے ، مثلاً: دیکھئے: سنن ابی داؤد مع شرح عون المعبود ۳/۱۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
آپﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے ایک دن بعد قیدیوں کی آمد آمد ہوئی۔ آپ نے انہیں صحابہ کرامؓ پر تقسیم فرمادیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائی۔ اس وصیت کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود کھجور کھاتے تھے لیکن قیدیوں کو روٹی پیش کرتے تھے۔ (واضح رہے کہ مدینے میں کھجور بے حیثیت چیز تھی اور روٹی خاصی گراں قیمت )
قیدیوں کا قضیہ:
جب رسول اللہﷺ مدینہ پہنچ گئے تو آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا۔ حضرت ابو بکرؓ نے کہا :''یا رسول اللہ! (ﷺ ) یہ لوگ چچیرے بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگ ہیں۔ میری رائے ہے کہ آپﷺ ان سے فدیہ لے لیں۔ اس طرح جو کچھ ہم لیں گے وہ کفارکے خلاف ہماری قوت کا ذریعہ ہوگا اور یہ بھی متوقع ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے دے اور وہ ہمارے بازو بن جائیں۔''
رسول اللہﷺ نے فرمایا : ''ابن ِ خطاب! تمہاری کیا رائے ہے ؟ ''انہوں نے کہا : ''واللہ ! میری وہ رائے نہیں ہے جو ابوبکرؓ کی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں کو...جو حضرت عمرؓ کا قریبی تھا - میرے حوالے کردیں اور میں اس کی گردن ماروں۔ عقیل بن ابی طالب کو علیؓ کے حوالے کریں اور وہ اس کی گردن ماریں اور فلاں کوجو حمزہؓ کا بھائی ہے حمزہؓ کے حوالے کریں اور وہ اس کی گردن ماردیں یہاں تک کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لیے نرم گوشہ نہیں ہے ، اور یہ حضرات مشرکین کے صنادِید وائمہ اور قائدین ہیں۔''
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے ابو بکرؓ کی بات پسند فرمائی اور میری بات پسند نہیں فرمائی ، چنانچہ قیدیوں سے فدیہ لینا طے کرلیا۔ اس کے بعد جب اگلا دن آیا تو میں صبح ہی صبح رسول اللہﷺ اور ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہو ا۔ وہ دونوں رورہے تھے۔ میں نے کہا : ''اے اللہ کے رسول ! مجھے بتائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں ؟ اگر مجھے بھی رونے کی وجہ ملی تو روؤں گا اور اگر نہ مل سکی تو آپ حضرات کے رونے کی وجہ سے روؤں گا۔'' رسول اللہﷺ نے فرمایا : ''فدیہ قبول کرنے کی وجہ سے تمہارے اصحاب پر جو چیز پیش کی گئی ہے۔ اسی کی وجہ سے رو رہا ہوں۔'' اور آپﷺ نے ایک قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : مجھ پر ان کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب پیش کیا گیا۔1 اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَ‌ىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ تُرِ‌يدُونَ عَرَ‌ضَ الدُّنْيَا وَاللَّـهُ يُرِ‌يدُ الْآخِرَ‌ةَ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٦٧﴾ لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّـهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٦٨﴾ (۸: ۶۷،۶۸ )
'' کسی نبی کے لیے درست نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خونریزی کرلے۔ تم لوگ دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے ، اور اللہ غالب حکمت والاہے۔ اگر اللہ کی طرف سے نوشتہ سبقت نہ کرچکا ہوتا تو تم لوگوں نے جو کچھ لیا ہے اس پر تم کو سخت عذاب پکڑ لیتا۔''
اور اللہ کی طرف سے جو نوشتہ سبقت کرچکا تھا وہ یہ تھا: إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً (۴۷: ۴) یعنی ''مشرکین کو جنگ میں قیدی کرنے کے بعد یا تو احسان کرو یا فدیہ لے لو۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 تاریخ عمر بن خطاب ابن جوزی۔ ص ۳۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
چونکہ اس نوشتے میں قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت دی گئی ہے، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قبولِ فدیہ پر سزا نہیں دی گئی بلکہ صرف سرزنش کی گئی اور یہ بھی اِس لیے کہ انہوں نے کفار کوا چھی طرح کچلنے سے پہلے قیدی بنا لیا تھا ، اور کہا جاتا ہے کہ آیت مذکورہ بعد میں نازل ہوئی اور جو نوشتہ اللہ کی طرف سے سبقت کرچکا تھا اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ تھا کہ اس امت کے لیے مال ِ غنیمت حلال ہے یا کہ اہل بدر کے لیے رحمت ومغفرت ہے۔
بہر حال چونکہ حضرت ابوبکرؓ کی رائے کے مطابق معاملہ طے ہوچکا تھا، اس لیے مشرکین سے فدیہ لیا گیا۔ فدیہ کی مقدار چار ہزار اور تین ہزار درہم سے لے کر ایک ہزار درہم تک تھی۔ اہل ِ مکہ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے جبکہ اہل ِ مدینہ لکھنے پڑھنے سے واقف نہ تھے، اس لیے طے کیا گیا کہ جس کے پاس فدیہ نہ ہووہ مدینے کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے۔ جب یہ بچے اچھی طرح سیکھ جائیں تو یہی اس کا فدیہ ہوگا۔
رسول اللہﷺ نے قیدیوں پر احسان بھی فرمایا اور انہیں فدیہ لیے بغیر رہا کردیا۔ اس فہرست میں مطلب بن حنطب ، صیفی بن ابی رفاعہ اور ابو عزہ جمحی کے نام آتے ہیں۔ آخر الذکر کو آئندہ جنگ احد میں قید اور قتل کیا گیا۔ (تفصیل آگے آرہی ہے )
آپﷺ نے اپنے داماد ابو العاص کو بھی اس شرط پر بلا فدیہ چھو ڑ دیا کہ وہ حضرت زینبؓکی راہ نہ روکیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ حضرت زینبؓ نے ابو العاص کے فدیے میں کچھ مال بھیجا تھا جس میں ایک ہار بھی تھا۔ یہ ہا ر درحقیقت خدیجہ ؓ کا تھا اور جب انہوں نے حضرت زینبؓکو ابو العاص کے پا س رخصت کیا تھا تو یہ ہار انہیں دے دیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے اسے دیکھا تو آپﷺ پر بڑی رِقت طاری ہوگئی اور آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اجازت چاہی کہ ابوالعاص کو چھوڑ دیں۔ صحابہ نے اسے بسرو چشم قبول کر لیا اور رسول اللہﷺ نے ابو لعاص کو اس شرط پر چھوڑ دیا کہ وہ حضرت زینبؓکی راہ چھوڑ دیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو العاص نے ان کا راستہ چھوڑ دیا اور حضرت زینبؓ نے ہجرت فرمائی۔ رسول اللہﷺ نے حضرت زیدؓ بن حارثہ اور ایک انصاری صحابی کو بھیج دیا کہ تم دونوں بطن یا جج میں رہنا۔ جب زینبؓ تمہارے پاس سے گزریں تو ساتھ ہو لینا۔ یہ دونوں حضرات تشریف لے گئے اور حضرت زینبؓکو ساتھ لے کر مدینہ واپس آئے۔ حضرت زینبؓکی ہجرت کا واقعہ بڑا طویل اور المناک ہے۔
قیدیوں میں سہیل بن عمرو بھی تھا جو بڑا زبان آور خطیب تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا :''اے اللہ کے رسول! سہیل بن عمرو کے اگلے دو دانت تڑوادیجیے ا س کی زبان لپٹ جایا کرے گی اور وہ کسی جگہ خطیب بن کر آپ کے خلاف کبھی کھڑا نہ ہو سکے گا۔'' لیکن رسول اللہﷺ نے ان کی یہ گزارش مسترد کردی کیونکہ یہ مثلے کے ضمن میں آتا ہے جس پر قیامت کے روز اللہ کی طرف سے پکڑ کا خطرہ تھا۔
حضرت سعد بن نعمانؓ عمرہ کرنے کے لیے نکلے تو انہیں ابو سفیان نے قید کر لیا۔ ابو سفیان کا بیٹا عمرو بھی جنگ ِ بدر کے قیدیوں میں تھا۔ چنانچہ عمرو کوابو سفیان کے حوالے کردیا گیا اور اس نے حضرت سعدؓ کو چھوڑ دیا۔
قرآن کا تبصر ہ:
اسی غزوے کے تعلق سے سورۂ انفال نازل ہوئی جو درحقیقت اس غزوے پر ایک الٰہی تبصرہ ہے ...گر یہ تعبیر صحیح ہو ...اور یہ تبصرہ بادشاہوں اور کمانڈروں وغیرہ کے فاتحانہ تبصروں سے بالکل ہی جدا گانہ ہے۔ اس تبصرے کی چند باتیں مختصراً یہ ہیں :
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مسلمانوں کی نظر ان کو تاہیوں اور اخلاقی کمزوریوں کی طرف مبذول کرائی جوان میں فی الجملہ باقی رہ گئیں تھیں۔اور جن میں سے بعض بعض کا اظہار اس موقع پر ہوگیا تھا۔ اس توجہ دہانی کا مقصود یہ تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو ان کمزوریوں سے پاک صاف کر کے کا مل ترین بن جائیں۔
اس کے بعداس فتح میں اللہ تعالیٰ کی جو تائید اور غیبی مدد شامل تھی ، اس کا ذکر فرمایا۔ اس کا مقصود یہ تھا کہ مسلمان اپنی شجاعت وبسالت کے فریب میں نہ آجائیں۔ جس کے نتیجے میں مزاج وطبائع پر غرور وتکبر کا تسلط ہو جاتا ہے ، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کریں اور اس کے اور پیغمبرﷺ کے اطاعت کیش رہیں۔
پھر ان بلند اغراض ومقاصد کاتذکرہ کیاگیا ہے جن کے لیے رسول اللہﷺ نے اس خوفناک اور خون ریز معرکے میں قدم رکھا تھا اور اسی ضمن میں ان اخلاق واوصاف کی نشان دہی کی گئی ہے جو معرکوں میں فتح کا سبب بنتے ہیں۔
پھر مشرکین ومنافقین کو اور یہود اور جنگی قیدیوں کو مخاطب کرکے فصیح وبلیغ نصیحت فرمائی گئی ہے تاکہ وہ حق کے سامنے جھک جائیں اور اس کے پابند بن جائیں۔
اس کے بعد مسلمانوں کو مالِ غنیمت کے معاملے میں مخاطب کرتے ہوئے انہیں اس مسئلے کے تمام بنیادی قواعد و اصول سمجھائے اور بتائے گئے ہیں۔
پھر اس مرحلے پر اسلامی دعوت کو جنگ وصلح کے جن قوانین کی ضرورت تھی ان کی توضیح اور مشروعیت ہے تاکہ مسلمانوں کی جنگ اور اہل ِ جاہلیت کی جنگ میں امتیاز قائم ہوجائے ، اور اخلاق وکردار کے میدان میں مسلمانوں کو برتری حاصل رہے ، اور دنیا اچھی طرح جان لے کہ اسلام محض ایک نظر یہ نہیں ہے بلکہ وہ جن اصولوں اور ضابطوں کا داعی ہے ان کے مطابق اپنے ماننے والوں کی عملی تربیت بھی کرتا ہے۔
پھر اسلامی حکومت کے قوانین کی کئی دفعات بیان کی گئی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت کے دائرے میں بسنے والے مسلمان اور اس دائرے سے باہر رہنے والے مسلمانوں میں کیا فرق ہے۔
متفرق واقعات:
۲ ھ میں رمضان کا روزہ اور صدقۂ فطر فرض کیا گیا اور زکوٰۃ کے مختلف نصابوں کی تفصیلاً تعیین کی گئی۔ صدقۂ فطر کی فرضیت اور زکوٰۃ کے نصاب کی تعیین سے اس بوجھ اور مشقت میں بڑی کمی آگئی جس سے فقراء مہاجرین کی ایک بڑی تعداد دوچار تھی ، کیونکہ وہ طلب رزق کے لیے زمین میں دوڑ دھوپ کے امکانات سے محروم تھے۔
پھر نہایت نفیس موقع اور خوشگوار اتفاق یہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنی زندگی میں پہلی عید جو منائی وہ شوال ۲ ھ کی عید تھی جو جنگ بدر کی فتح مبین کے بعد پیش آئی۔ کتنی خوشگوار تھی یہ عید سعید جس کی سعادت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سر فتح وعزت کا تاج رکھنے کے بعد عطا فرمائی اور کتنا ایمان افروز تھا اس نماز عید کا منظر جسے مسلمانوں نے اپنے گھروں سے نکل کر تکبیر وتوحید اور تحمید وتسبیح کی آوازیں بلند کرتے ہوئے میدان میں جاکر ادا کیا تھا۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ مسلمانوں کے دل اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اوراس کی کی ہوئی تائید کے سبب اس کی رحمت ورضوان کے شوق سے لبریز اور اس کی طرف رغبت کے جذبات سے معمور تھے اور ان کی پیشانیاں اس کے شکر وسپاس کی ادائیگی کے لیے جھکی ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کا ذکر اس آیت میں فرمایا ہے :
وَاذْكُرُ‌وا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْ‌ضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِ‌هِ وَرَ‌زَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ (۸: ۲۶)
''اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے ، زمین میں کمزور بنا کر رکھے گئے تھے ، ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک لے جائیں گے، پس اس نے تمہیں ٹھکانا مرحمت فرمایا اور اپنی مدد کے ذریعے تمہاری تائید کی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی دی تاکہ تم لوگ اس کا شکر ادا کرو۔''


****​
 
Top