• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم غزوۂ بدر کبریٰ - اسلام کا پہلا فیصلہ کن معرکہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
پیٹھ کے بل گر پڑا۔ اس کے پاؤں سے خون کا فوارہ نکل رہا تھاجس کا رخ اس کے ساتھیوں کی طرف تھا لیکن اس کے باوجود وہ گھٹنوں کے بل گھسٹ کر حوض کی طرف بڑھا اور اس میں داخل ہوا ہی چاہتا تھا تا کہ اپنی قسم پوری کرلے اتنے میں حضرت حمزہؓ نے دوسری ضرب لگائی اور وہ حوض کے اندر ہی ڈھیر ہوگیا۔
مبارزت:
یہ اس معرکے کا پہلا قتل تھا اور اس سے جنگ کی آگ بھڑک اُٹھی ، چنانچہ اس کے بعد قریش کے تین بہترین شہسوارنکلے جو سب کے سب ایک ہی خاندان کے تھے۔ ایک عُتبہ اور دوسرا اس کا بھائی شیبہ جو دونوں ربیعہ کے بیٹے تھے اور تیسرا ولید جو عتبہ کا بیٹا تھا۔ انہوں نے اپنی صف سے الگ ہوتے ہی دعوت مُبارزت دی۔ مقابلے کے لیے انصار کے تین جوان نکلے۔ ایک عوفؓ ، دوسرے معوذؓ - یہ دونوں حارث کے بیٹے تھے اوران کی ماں کا نام عفراء تھا -تیسرے عبد اللہ بن رواحہ۔ قریشیوں نے کہا : تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا : انصار کی ایک جماعت ہیں۔ قریشیوں نے کہا: آپ لو گ شریف مدمقابل ہیں لیکن ہمیں آپ سے سروکار نہیں۔ ہم تو اپنے چچیرے بھائیوں کو چاہتے ہیں، پھر ان کے منادی نے آواز لگائی: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ... ! ہمارے پاس قوم کے ہمسروں کو بھیجو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : عبیدہؓ بن حارثؓ ! اٹھو۔ حمزہؓ ! اٹھئے۔ علی! اٹھو۔ جب یہ لوگ اُٹھے اور قریشیوں کے قریب پہنچے تو انہوں نے پوچھا : آپ کو ن لوگ ہیں ؟ انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔ قریشیوں نے کہا : ہاں آپ لوگ شریف مدمقابل ہیں، اس کے بعد معرکہ آرائی ہوئی۔ حضرت عبیدہ نے - جو سب سے معمر تھے - عتبہ بن ربیعہ سے مقابلہ کیا، حضرت حمزہؓ نے شیبہ سے اور حضرت علیؓ نے ولید سے۔1 حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے تو اپنے اپنے مقابل کو جھٹ مارلیا لیکن حضرت عبیدہ اور ان کے مدّ ِ مقابل کے درمیان ایک ایک وار کا تبادلہ ہوااور دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو گہرا زخم لگایا۔ اتنے میں حضرت علیؓ اور حضرت حمزہؓ اپنے اپنے شکار سے فارغ ہوکر آگئے ، آتے ہی عتبہ پر ٹوٹ پڑے ، اس کا کام تمام کیا اور حضرت عبیدہ کو اٹھا لائے۔ ان کا پاؤں کٹ گیا تھا اورآواز بند ہوگئی تھی جو مسلسل بند ہی رہی یہاں تک کہ جنگ کے چوتھے یا پانچویں دن جب مسلمان مدینہ واپس ہوتے ہوئے وادیٔ صفراء سے گزر رہے تھے ان کا انتقال ہوگیا۔
حضرت علیؓ اللہ کی قسم کھاکر فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی:
هَـٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَ‌بِّهِمْ ۖ (۲۲: ۱۹)
''یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا ہے۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام۔ مسند احمد ابوداؤد کی روایت اس سے مختلف ہے۔ (مشکوٰۃ ۲/۳۴۳ ) اور وہ یہ ہے کہ عبیدہ نے ولید سے مبارزت کی ، علی نے شیبہ سے اور حمزہ نے عتبہ سے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
عام ہجوم:
اس مبارزت کا انجام مشرکین کے لیے ایک برا آغاز تھا وہ ایک ہی جست میں اپنے تین بہترین شہ سوار وں اور کمانڈروں سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے، اس لیے انہوں نے غیظ وغضب سے بے قابو ہو کر ایک آدمی کی طرح یکبار گی حملہ کردیا۔
دوسری طرف مسلمان اپنے رب سے نصرت اور مدد کی دعا کرنے اور اس کے حضور اخلاص و تضر ع اپنانے کے بعد اپنی اپنی جگہوں پر جمے اور دفاعی موقف اختیار کیے مشرکین کے تابڑ توڑ حملوں کو روک رہے تھے اور انہیں خاصا نقصان پہنچارہے تھے۔ زبان پر أحد أحد کا کلمہ تھا۔
رسول اللہﷺ کی دعا:
ادھر رسول اللہﷺ صفیں درست کرکے واپس آتے ہی اپنے پاک پروردگار سے نصرت ومدد کا وعدہ پورا کرنے کی دعا مانگنے لگے۔ آپﷺ کی دعا یہ تھی :
((اللّٰہم انجز لی ما وعدتنی، اللّٰہم أنشدک عہدک ووعدک۔))
''اے اللہ ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرمادے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے تیرا عہد اور تیرے وعدے کا سوال کررہا ہوں۔''
جب گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی، نہایت زور کا رَن پڑا اور لڑائی شباب پر آگئی تو آپﷺ نے یہ دعا فرمائی :
((اللہم إن تہلک ہذہ العصابۃ الیوم لا تعبد اللہم إن شئت لم تعبد بعد الیوم أبداً۔))
''اے اللہ ! اگر آج یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ اے اللہ ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت کبھی نہ کی جائے۔''
آپﷺ نے خوب تضرع کے ساتھ دعا کی یہاں تک کہ دونوں کندھوں سے چادر گر گئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے چادر درست کی اور عرض پرداز ہوئے :''اے اللہ کے رسول ! بس فرمائیے ! آپ نے اپنے رب سے بڑے الحاح کے ساتھ دعا فرمالی۔'' ادھر اللہ نے فرشتوں کو وحی کی کہ :
أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا ۚ سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا الرُّ‌عْبَ (۸: ۱۲)
''میں تمہارے ساتھ ہوں ، تم اہل ِ ایمان کے قدم جماؤ ، میں کافروں کے دل میں رُعب ڈال دوں گا۔''
اور رسول اللہﷺ کے پاس وحی بھیجی کہ :
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَ‌بَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْ‌دِفِينَ ﴿٩﴾ (۸: ۹)
''میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔''
فرشتوں کا نزول:
اس کے بعد رسول اللہﷺ کو ایک جھپکی آئی۔ پھر آپﷺ نے سر اٹھا یا اور فرمایا: ''ابو بکر خوش ہو جاؤ ، یہ جبریل ؑہیں ، گرد وغبار میں اٹے ہوئے۔'' ابن اسحاق کی روایت میں یہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : ''ابوبکر خوش ہو جاؤ ، تمہارے پاس اللہ کی مدد آگئی۔ یہ جبریل علیہ السلام ہیں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے اور اس کے آگے آگے چلتے ہوئے آرہے ہیں اور گرد وغبار میں اَٹے ہوئے ہیں۔''
اس کے بعد رسول اللہﷺ چھپر کے دروازے سے باہر تشریف لائے۔ آپﷺ نے زرہ پہن رکھی تھی۔ آپﷺ پُر جوش طور پر آگے بڑھ رہے تھے اور فرماتے جارہے تھے :
سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ‌ ﴿٤٥﴾ (۵۴: ۴۵)
''عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔''
اس کے بعد آپﷺ نے ایک مٹھی کنکریلی مٹی لی اور قریش کی طرف رُخ کر کے فرمایا: ((شاھتِ الوجوہ۔))چہرے بگڑ جائیں اور ساتھ ہی مٹی ان کے چہروں کی طرف پھینک دی۔ پھر مشرکین میں سے کوئی بھی نہیں تھا جس کی دونوں آنکھوں،نتھنے اور منہ میں اس ایک مٹھی مٹی سے کچھ نہ کچھ گیا نہ ہو۔ اسی کی بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمَا رَ‌مَيْتَ إِذْ رَ‌مَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَ‌مَىٰ (۸: ۱۷)
''جب آپ (ﷺ ) نے پھینکا تو درحقیقت آپ (ﷺ )نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جوابی حملہ:
اس کے بعد رسول اللہﷺ نے جوابی حملے کا حکم اور جنگ کی ترغیب دیتے ہو ئے فرمایا: ''شدوا'' چڑھ دوڑو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! ان سے جو آدمی بھی ڈٹ کر ، ثواب سمجھ کر ، آگے بڑھ کر اور پیچھے نہ ہٹ کر لڑے گا اور مار اجائے گا اللہ اسے ضرور جنت میں داخل کرے گا۔''
آپﷺ نے قتال پر ابھارتے ہوئے یہ بھی فرمایا : اس جنت کی طرف اٹھو جس کی پہنائیاں آسمانوں اور زمین کے برابر ہیں۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ) عمیر بن حمام نے کہا : بہت خوب بہت خوب۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم بہت خوب بہت خوب ، کیوں کہہ رہے ہو ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول! کوئی بات نہیں سوائے اس کے کہ مجھے توقع ہے کہ میں بھی اسی جنت والوں میں سے ہوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا: تم بھی اسی جنت والوں میں سے ہو۔ اس کے بعد وہ اپنے توشہ دان سے کچھ کھجوریں نکال کر کھانے لگے۔ پھر بولے : اگر میں اتنی دیر تک زندہ رہا کہ اپنی کھجوریں کھا لوں تو یہ تولمبی زندگی ہوجائے گی، چنانچہ ان کے پاس جو کھجور یں تھیں انہیں پھینک دیا، پھر مشرکین سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔1
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسلم ۲/۱۳۹ مشکوٰۃ ۲/۳۳۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اسی طرح مشہور خاتون عفراء کے صاحبزادے عوف بن حارث نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! پروردگار اپنے بندے کی کس بات سے (خوش ہوکر ) مسکراتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : ''اس بات سے کہ بندہ خالی جسم (بغیر حفاظتی ہتھیار پہنے ) اپنا ہاتھ دشمن کے اندر ڈبودے '' یہ سن کر عوف نے اپنے بدن سے زِرہ اتار پھینکی اور تلو ار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
جس وقت رسول اللہﷺ نے جوابی حملے کا حکم صادر فرمایا ، دشمن کے حملوں کی تیزی جاچکی تھی اور ان کا جوش و خروش سرد پڑرہا تھا۔ اس لیے یہ باحکمت منصوبہ مسلمانوں کی پوزیشن مضبوط کرنے میں بہت مؤثر ثابت ہوا ، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب حملہ آور ہونے کا حکم ملا اور ابھی ان کا جوشِ جہاد شباب پر تھا تو انہوں نے نہایت سخت تند اور صفایا کن حملہ کیا۔ وہ صفوں کی صفیں درہم برہم کرتے اور گردنیں کاٹتے آگے بڑھے۔ ان کے جوش و خروش میں یہ دیکھ کر مزید تیز ی آگئی کہ رسول اللہﷺ بہ نفس نفیس زرہ پہنے تیز تیز چلتے تشریف لا رہے ہیں اور پورے یقین وصراحت کے ساتھ فرمارہے ہیں کہ ''عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا ، اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔'' اس لیے مسلمانوں نے نہایت پُر جوش و پرخروش لڑائی لڑی، اور فرشتوں نے بھی ان کی مدد فرمائی۔ چنانچہ ابن سعد کی روایت میں حضرت عکرمہؓ سے مروی ہے کہ اس دن آدمی کا سر کٹ کر گرتا اور یہ پتا نہ چلتا کہ اسے کس نے مارا۔ اور آدمی کاہاتھ کٹ کر گرتا اور یہ پتہ نہ چلتا کہ اسے کس نے کاٹا۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک مشرک کا تعاقب کررہا تھا کہ اچانک اس مشرک کے اوپر کو ڑے مارنے کی آواز آئی۔ اور ایک شہسوار کی آواز سنائی پڑی جو کہہ رہا تھا کہ حیزوم! آگے بڑھ۔ مسلمان نے مشرک کو اپنے آگے دیکھا کہ وہ چِت گرا ، لپک کر دیکھا تو اس کی ناک پر چوٹ کا نشان تھا ، چہرہ پھٹا ہوا تھا جیسے کوڑے سے مارا گیا ہو اور یہ سب کا سب ہرا پڑ گیا تھا۔ اس انصاری مسلمان نے آکر رسول اللہﷺ سے یہ ماجرا بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا :''تم سچ کہتے ہو ، یہ تیسرے آسمان کی مدد تھی۔''1
ابو داؤد مازنی کہتے ہیں کہ میں ایک مشرک کو مارنے کے لیے دوڑ رہا تھا کہ اچانک اس کا سر میری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گر گیا۔ میں سمجھ گیا کہ اسے میرے بجائے کسی اور نے قتل کیا ہے۔
ایک انصاری حضرت عباسؓ بن عبد المطلب کو قید کر کے لایا تو حضرت عباسؓ کہنے لگے: ''واللہ ! مجھے اس نے قید نہیں کیا ہے ، مجھے تو ایک بے بال کے سر والے آدمی نے قید کیا ہے جو نہایت خوبرو تھا اور چتکبرے گھوڑے پر سوار تھا۔ اب میں اسے لوگوں میں نہیں دیکھ رہا ہو ں۔'' انصاری نے کہا :''اے اللہ کے رسول! انہیں میں نے قید کیا ہے۔'' آپﷺ نے فرمایا : خاموش رہو۔ اللہ نے ایک بزرگ فرشتے سے تمہاری مدد فرمائی ہے۔
حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ رسول اللہﷺ نے بدر کے روز مجھ سے اور ابوبکرؓ سے کہا: تم میں سے ایک
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسلم ۲/۹۳ وغیرہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کے ساتھ جبرئیل اور دوسرے کے ساتھ میکائیل ؑ ہیں اور اسرافیل بھی ایک عظیم فرشتہ ہیں جو جنگ میں آیا کرتے ہیں۔1
میدان سے ابلیس کا فرار:
جیسا کہ ہم بتاچکے ہیں کہ ابلیس لعین ، سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی شکل میں آیا تھا اور مشرکین سے اب تک جدا نہیں ہوا تھا ، لیکن جب اس نے مشرکین کے خلاف فرشتوں کی کاروائیاں دیکھیں تو اُلٹے پاؤں پلٹ کر بھاگنے لگا ، مگر حارث بن ہشام نے اسے پکڑ لیا ، وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ واقعی سراقہ ہی ہے ، لیکن ابلیس نے حارث کے سینے پر ایسا گھونسامارا کہ وہ گر گیااور ابلیس نکل بھاگا۔ مشرکین کہنے لگے: سراقہ کہا ں جارہے ہو؟ کیا تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم ہمارے مدد گا ر ہو ہم سے جدا نہ ہوگے ؟ اس نے کہا : میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جسے تم نہیں دیکھتے۔ مجھے اللہ سے ڈرلگتا ہے، اور اللہ بڑی سخت سزا والا ہے۔ اس کے بعد بھاگ کر سمندر میں جارہا۔
شکست ِ فاش:
تھوڑی دیر بعد مشرکین کے لشکر میں ناکامی اور اضطراب کے آثار نمودار ہوگئے ، ان کی صفیں مسلمانوں کے سخت اور تابڑ توڑ حملوں سے درہم برہم ہونے لگیں اور معرکہ اپنے انجام کے قریب جاپہنچا۔ پھر مشرکین کے جھتے بے ترتیبی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ مسلمانوں نے مارتے کاٹتے اور پکڑ تے باندھتے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ ان کو بھرپور شکست ہوگئی۔
ابو جہل کی اکڑ:
لیکن طاغوت اکبر ابو جہل نے جب اپنی صفوں میں اضطراب کی ابتدائی علامتیں دیکھیں تو چاہا کہ اس سیلاب کے سامنے ڈٹ جائے۔ چنانچہ وہ اپنے لشکر کو للکار تا ہوا اکڑ اور تکبر کے ساتھ کہتا جارہا تھا کہ سراقہ کی کنارہ کشی سے تمہیں پست ہمت نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس نے محمد (ﷺ ) کے ساتھ پہلے سے ساز باز کر رکھی تھی۔ تم پر عتبہ ، شیبہ اور ولید کے قتل کا ہول بھی سوارنہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان لوگوں نے جلد بازی سے کام لیا تھا۔ لات و عزی کی قسم! ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ انہیں رسیوں میں جکڑ لیں۔ دیکھو! تمہارا کوئی آدمی ان کے کسی آدمی کو قتل نہ کرے بلکہ انہیں پکڑو اور گرفتار کرو تاکہ ہم ان کی بُری حرکت کا انہیں مزہ چکھائیں۔
لیکن اسے اس غرور کی حقیقت کا بہت جلد پتہ لگ گیا کیونکہ چند ہی لمحے بعد مسلمانوں کے جوابی حملے کی تندی کے سامنے مشرکین کی صفیں پھٹنا شروع ہوگئیں ، البتہ ابوجہل اب بھی اپنے گر د مشرکین کاا یک غول لیے جماہوا تھا۔ اس غول نے ابوجہل کے چاروں طرف تلواروں کی باڑھ اور نیزوں کا جنگل قائم کررکھا تھا ، لیکن اسلامی ہجوم کی آندھی نے اس باڑھ کو بھی بکھیر دیا اور اس جنگل کو بھی اکھیڑ دیا۔ اس کے بعد یہ طاغوتِ اکبر دکھا ئی پڑا۔ مسلمانوں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسند احمد ۱/۱۴۷ ، بزارح۱۴۶۷ مستدرک حاکم ۳/۱۳۴ ، انہوں نے اسے صحیح کہا ہے۔ اورذہبی نے موافقت کی ہے ، مسند ابو یعلی ۱/۲۸۴ ح ۳۴۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نے دیکھا کہ وہ ایک گھوڑے پر چکر کاٹ رہا ہے۔ ادھر اس کی موت دوانصاری جوانوں کے ہاتھوں اس کا خون چوسنے کی منتظر تھی۔
ابوجہل کا قتل:
حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کا بیان ہے کہ میں جنگ بدر کے روز صف کے اندر تھا کہ اچانک مڑا تو کیا دیکھتا ہو ں کہ دائیں بائیں دو نوعمرجوان ہیں۔ گویا ان کی موجودگی سے میں حیران ہو گیا کہ اتنے میں ایک نے اپنے ساتھی سے چھپا کر مجھ سے کہا :''چچاجان ! مجھے ابوجہل کو دکھلادیجیے۔'' میں نے کہا :بھتیجے !تم اسے کیا کروگے ؟ اس نے کہا:''مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کو گالی دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میرا وجود اس کے وجود سے الگ نہ ہوگا یہاں تک کہ ہم میں جس کی موت پہلے لکھی ہے وہ مر جائے۔'' وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس پر تعجب ہوا۔ اتنے میں دوسرے شخص نے مجھے اشارے سے متوجہ کرکے یہی بات کہی۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے چند ہی لمحوںبعد دیکھا کہ ابو جہل لوگوں کے درمیان چکر کاٹ رہا ہے۔ میں نے کہا :''ارے دیکھتے نہیں ! یہ رہا تم دونوں کا شکار جس کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے۔'' ان کا بیان ہے کہ یہ سنتے ہی وہ دونوں اپنی تلواریں لیے جھپٹ پڑے اور اسے مار کر قتل کردیا۔ پھر پلٹ کر رسول اللہﷺ کے پاس آئے ، آپﷺ نے فرمایا : تم میں سے کس نے قتل کیا ہے ؟ دونوں نے کہا : میں نے قتل کیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:اپنی اپنی تلواریں پوچھ چکے ہو ؟ بولے نہیں۔ آپﷺ نے دونوں کی تلواریں دیکھیں اور فرمایا : تم دونوں نے قتل کیا ہے۔ البتہ ابو جہل کا سامان معاذبن عَمرو بن جموح کو دیا۔ دونوں حملہ آوروں کا نام معاذبن عَمر و بن جموح اور معاذ بن عفراء ہے۔ 1
ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ معاذ بن عمرو بن جموح نے بتلایا کہ میں نے مشرکین کو سنا وہ ابو جہل کے بارے میں جو گھنے درختوں جیسی - نیزوں اور تلواروں کی - باڑھ میں تھا کہہ رہے تھے: ابو الحکم تک کسی کی رسائی نہ ہو۔ معاذؓ بن عمرو کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ بات سنی تو اسے اپنے نشانے پر لے لیا اور اس کی سمت جمارہا۔ جب گنجائش ملی تومیں نے حملہ کر دیا اور ایسی ضرب لگائی کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے اڑ گیا۔ واللہ! جس وقت یہ پاؤں اڑا ہے تو میں اس کی تشبیہ صرف اس گٹھلی سے دے سکتا ہوں جو موسل کی مار پڑنے سے جھٹک کر اڑ جائے۔ ان کابیان ہے کہ ادھر میں نے ابو جہل کو مارا اور ادھر اس کے بیٹے عکرمہ نے میرے کندھے پر تلوار چلا ئی جس سے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۴۴۴ ، ۲/۵۶۸ مشکوٰۃ ۲/۳۵۲۔ دوسری روایات میں دوسرانام معوذ بن عَفراء بتایا گیا ہے۔ (ابن ہشام ۱/۶۳۵ ) نیز ابو جہل کا سامان صرف ایک ہی آدمی کو اس لیے دیا گیا کہ بعد میں حضرت معاذ (معوذ) بن عفراء اسی جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔ البتہ ابو جہل کی تلوار حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو دی گئی کیونکہ ان ہی نے اس (ابو جہل ) کا سر تن سے جدا کیا تھا۔ (دیکھئے :سنن ابی داؤد باب من اجاز علی جریح الخ ۲/۳۷۳ )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
میرا ہاتھ کٹ کر میرے بازو کے چمڑ ے سے لٹک گیا اور لڑائی میں مخل ہونے لگا۔ میں اسے اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے سارا دن لڑا ، لیکن جب وہ مجھے اذیت پہنچانے لگا تو میں نے اس پر اپنا پاؤں رکھا اور اسے زور سے کھینچ کر الگ کردیا 1 اس کے بعد ابوجہل کے پاس معوذؓ بن عفراء پہنچے۔ وہ زخمی تھا۔ انہوں نے اسے ایسی ضرب لگائی کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا صرف سانس آتی جاتی رہی۔ اس کے بعد معوذ بن عفراء بھی لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔
جب معرکہ ختم ہوگیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا :''کون ہے جو دیکھے کہ ابو جہل کا انجام کیاہو ا۔'' اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی تلاش میں بکھر گئے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اسے اس حالت میں پایا کہ ابھی سانس آجارہی تھی۔ انہوں نے اس کی گردن پر پاؤں رکھا اور سر کاٹنے کے لیے ڈاڑھی پکڑی اور فرمایا : او اللہ کے دشمن ! آخر اللہ نے تجھے رسوا کیا نا ؟ اس نے کہا : ''مجھے کاہے کو رسوا کیا ؟ کیا جس شخص کوتم لوگوں نے قتل کیا ہے اس سے بھی بلند پایہ کوئی آدمی ہے''؟''یا جس کو تم لوگوں نے قتل کیا ہے اس سے بھی اوپر کوئی آدمی ہے ؟'' پھر بو لا : ''کاش ! مجھے کسانوں کے بجائے کسی اور نے قتل کیا ہوتا۔'' اس کے بعد کہنے لگا : ''مجھے بتاؤ آج فتح کس کی ہوئی ؟ '' حضرت عبد ا للہ بن مسعود نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول کی۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعودسے - جو اس کی گردن پر پاؤں رکھ چکے تھے - کہنے لگا : او بکری کے چرواہے ! تو بڑی اونچی اور مشکل جگہ پر چڑھ گیا۔ واضح رہے کہ عبد اللہ بن مسعودؓ مکے میں بکریاں چرایا کرتے تھے۔
اس گفتگو کے بعد عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر کاٹ لیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں لاکر حاضر کر تے ہوئے عرض کیا :''یارسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ !یہ رہا اللہ کے دشمن ابوجہل کا سر۔'' آپﷺ نے تین بار فرمایا: ''واقعی۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔'' اس کے بعد فرمایا :
((اللہ أکبر، الحمد للہ الذی صدق وعدہ ونصر عبدہ وہزم الأحزاب وحدہ۔))
''اللہ اکبر ، تمام حمد اللہ کے لیے ہے جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھا یا ، اپنے بندے کی مدد فرمائی ، اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی۔''
پھر فرمایا : چلو مجھے اس کی لاش دکھاؤ۔ ہم نے آپﷺ کو لے جاکر لاش دکھائی۔ آپﷺ نے فرمایا : یہ اس امت کا فرعون ہے۔
ایمان کے تابناک نقوش:
حضرت عمیر بن الحمام اور حضرت عوف بن حارث ابن عَفراء کے ایمان افروز کارناموں کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معرکے میں قدم قدم پر ایسے مناظر پیش آئے جن میں عقیدے کی قوت اور اصول کی پختگی نمایاں اور جلوہ گر تھی۔ اس معرکے میں باپ اور بیٹے میں بھائی اور بھائی میں صف آرائی ہوئی۔ اصولوں کے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 حضرت معاذؓ بن عمرو بن جموح حضرت عثمانؓ کے دور خلافت تک زندہ رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اختلاف پر تلواریں بے نیام ہوئیں اور مظلوم ومقہور نے ظالم وقاہر سے ٹکر ا کر اپنے غصے کی آگ بجھائی۔
ابن اسحاق نے ابن ِ عباسؓ سے روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا :''مجھے معلوم ہے کہ بنو ہاشم وغیرہ کے کچھ لوگ زبردستی میدانِ جنگ میں لائے گئے ہیں۔ انھیں ہماری جنگ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ لہٰذا بنو ہاشم کا کوئی آدمی کسی کی زد میں آجائے تو وہ اسے قتل نہ کرے۔ ابو البختری بن ہشام کسی کی زد میں آجائے تو وہ اُسے قتل نہ کرے اور عباس بن عبد المطلبؓ کسی کی زد میں آجائیں تو وہ بھی انہیں قتل نہ کرے کیونکہ وہ بالجبر لائے گئے ہیں۔'' اس پر عُتبہ کے صاحبزادے حضرت ابو حذیفہؓ نے کہا :''کیا ہم اپنے باپ بیٹوں ، بھائیوں اور کنبے قبیلے کے لوگوں کو قتل کریں گے اور عباس کو چھوڑ دیں گے اللہ کی قسم ! اگر اس سے میری مڈبھیڑ ہوگئی تو میں تو اسے تلوار کی لگام پہنادوں گا '' یہ خبر رسول اللہﷺ کو پہنچی تو آپﷺ نے عمر بن خطابؓ سے فرمایا : کیا رسول اللہﷺ کے چچا کے چہرے پر تلوار ماری جائے گی ؟ حضرت عمرؓ نے کہا :''یارسول اللہ ! مجھے چھوڑیے میں تلوارسے اِس کی گردن آڑا دوں۔ کیونکہ واللہ! یہ شخص منافق ہو گیا ہے۔''
بعد میں ابو حذیفہؓ کہا کرتے تھے ، اس دن میں نے جو بات کہہ دی تھی اس کی وجہ سے میں مطمئن نہیں ہوں۔ برابر خوف لگا رہتا ہے۔ صرف یہی صورت ہے کہ میری شہادت اس کا کفارہ بن جائے اور بالآخر وہ یمامہ کی جنگ میں شہید ہوہی گئے۔
ابو البختری کو قتل کرنے سے اس لیے منع کیا گیا تھا کہ مکے میں یہ شخص سب سے زیادہ رسول اللہﷺ کی ایذا رسانی سے اپنا ہاتھ روکے ہوئے تھا۔ آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچا تا تھا اور نہ اس کی طرف سے کوئی ناگوار بات سننے میں آئی تھی ، اور یہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کے بائیکاٹ کا صحیفہ چاک کیا تھا۔
لیکن ان سب کے باوجود ابو البختری قتل کر دیا گیا۔ ہوا یہ کہ حضرت مجذرؓ بن زیاد بلوی سے اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ اس کے ساتھ اس کا ایک اور ساتھی بھی تھا۔ دونوں ساتھ ساتھ لڑ رہے تھے۔ حضرت مجذرؓ نے کہا: ''ابوالبختری ! رسول اللہﷺ نے ہمیں آپ کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔'' اس نے کہا : اور میرا ساتھی ؟ حضرت مجذرؓ نے کہا : نہیں ، واللہ! ہم آپ کے ساتھی کو نہیں چھوڑسکتے۔ اس نے کہا : اللہ کی قسم! تب میں اور وہ دونوں مریں گے۔ اس کے بعد دونوں نے لڑائی شروع کردی۔ مجذرؓ نے مجبورا ً اسے بھی قتل کردیا۔
مکے کے اندر جاہلیت کے زمانے سے حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ اور اُمیہ بن خلف میں باہم دوستی تھی۔ جنگ بدر کے روز امیہ اپنے لڑکے علی کا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا کہ اتنے میں ادھر سے حضرت عبد الرحمن بن عوف کا گزر ہوا۔ وہ دشمن سے کچھ زِرہیں چھین کر لادے لیے جارہے تھے۔ اُمیہ نے انہیں دیکھ کر کہا :''کیاتمہیں میری ضرورت ہے ؟ میں تمہاری ان زِرہوں سے بہتر ہوں۔ آج جیسا منظر تومیں نے دیکھا نہیں۔ کیا تمہیں دودھ کی حاجت نہیں ''؟ ...مطلب یہ تھا کہ جو مجھے قید کرے گا میں اسے فدیے میں خوب دودھیل اونٹنیاں دوں گا...یہ سن کر عبد الرحمن بن عوفؓ نے زِرہیں پھینک دیں اور دونوں کو گرفتار کر کے آگے بڑھے۔
حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ میں امیہ اور اس کے بیٹے کے درمیان چل رہاتھا کہ اُمیہ نے پوچھا : آپ لوگوں میں وہ کون سا آدمی تھا جو اپنے سینے پر شتر مرغ کا پَر لگائے ہوئے تھا ؟ میں نے کہا : وہ حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ تھے۔ اُمیہ نے کہا : یہی شخص ہے جس نے ہماری اندر تباہی مچا رکھی تھی۔
حضرت عبد الرحمنؓ کہتے ہیں کہ واللہ! میں ان دونوں کو لیے جارہا تھا کہ اچانک حضرت بلالؓ نے امیہ کو میرے ساتھ دیکھ لیا - یادرہے کہ امیہ حضرت بلالؓ کو مکے میں ستایا کرتا تھا...حضرت بلالؓ نے کہا: اوہو! کفار کا سرغنہ، امیہ بن خلف ! اب یا تو میں بچوں گا یا یہ بچے گا۔ میں نے کہا: اے بلالؓ ! یہ میرا قیدی ہے ، انہوں نے کہا : اب یاتو میں رہوں گا یایہ رہے گا۔ پھر نہایت بلند آواز سے پکار ا:''اے اللہ کے انصارو ! یہ رہاکفار کا سرغنہ اُمیہ بن خلف ، اب یاتو میں رہوں گا یا یہ رہے گا۔'' حضرت عبد الرحمنؓ کہتے ہیں کہ اتنے میں لوگوں نے ہمیں کنگن کی طرح گھیرے میں لے لیا۔ میں ان کا بچاؤ کر رہا تھا مگر ایک آدمی نے تلوار سونت کر اس کے بیٹے کے پاؤں پر ضرب لگائی اور وہ تیورا کر گر گیا۔ اُدھر اُمیہ نے اتنے زور کی چیخ ماری کہ میں نے ویسی چیخ کبھی سنی ہی نہ تھی۔ میں نے کہا : نکل بھاگو ، مگر آج بھاگنے کی گنجائش نہیں ، اللہ کی قسم ! میں تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا۔ حضرت عبد الرحمنؓ کا بیان ہے کہ لوگوں نے اپنی تلوار وں سے ان دونوں کو کاٹ کر ان کاکام تمام کردیا۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمنؓ کہا کرتے تھے :''اللہ بلالؓ پر رحم کرے۔ میری زِرہیں بھی گئیں اور میرے قیدی کے بارے میں مجھے تڑ پا بھی دیا۔''
زاد المعاد میں علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ عبد الرحمنؓ بن عوف نے اُمیہ بن خلف سے کہا کہ گھٹنوں کے بل بیٹھ جاؤ۔ وہ بیٹھ گیا اور حضرت عبدالرحمنؓ نے اپنے آپ کو اس کے اوپر ڈال لیا، لیکن لوگوں نے نیچے سے تلوار مار کر اُمیہ کو قتل کردیا۔ بعض تلواروں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف کا پاؤں بھی زخمی ہوگیا۔
امام بخاری نے عبد الرحمن بن عوف سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ میں نے امیہ بن خلف سے طے کیا تھا کہ وہ مکہ میں میرے اموال ومتعلقات کی حفاظت کرے گا اور میں مدینہ میں اس کے اموال ومتعلقات کی حفاظت کروں گا۔ بدر کے دن جب لوگوں نے راحت اختیار کی تو میں ایک پہاڑ کی طرف نکلا کہ اسے (قیدیوں میں ) سمیٹ لو ں۔ لیکن بلال نے اسے دیکھ لیا اور نکل کر انصار کی ایک مجلس پر جاکر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: امیہ بن خلف ہے ، اب یا تو وہ رہے گا یا میں رہوں گا۔ اس پر انصار کے ایک گروہ نے ان کے ساتھ نکل کر ہمار ا پیچھا کر لیا۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ ہمیں پالیں گے تو میں نے امیہ کے بیٹے کو پیچھے چھوڑ دیا تاکہ وہ اسی میں مشغول رہیں۔ مگر انہوں نے اسے قتل کر کے پھر ہمارا پیچھا کر لیا۔ امیہ بھاری بھرکم آدمی تھا۔جب انہوں نے ہمیں پالیا تو میں نے اس سے کہا: بیٹھ جاؤ، وہ بیٹھ گیا اور میں نے اپنے آپ کو اس کے اوپر ڈال لیا۔ تاکہ اسے بچاسکوں۔ مگر لوگوں نے میرے نیچے سے تلوار مار مار کر اسے قتل کر دیا۔ کسی کی تلوار میرے پاؤں میں بھی جالگی۔ چنانچہ عبد الرحمنؓ اپنے پاؤں کی پشت پر اس کا نشان دکھایا کرتے تھے۔1
حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیااور قرابت کی کوئی پروا نہ کی۔ بلکہ مدینہ آئے تو رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباس کو قید میں پاکر کہا : اے عباس ! اسلام لائیے ، واللہ آپ اسلام لائیں تو یہ میرے نزدیک خطاب کے بھی اسلام لانے سے زیادہ پسند ہے اور ایسا صرف اس لیے ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہﷺ کو آپ کا اسلام لانا پسند ہے۔2
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے بیٹے عبد الرحمن کو -جو اس وقت مشرکین کے ہمراہ تھے - پکارکر کہا : اوخبیث ! میرا مال کہا ں ہے ؟ عبد الر حمن نے کہا :

لم یبق غیر شکۃ ویعبوب​
وصارم یقتل ضلال الشیب​

''ہتھیار ، تیز روگھوڑے اور اس تلوار کے سوا کچھ باقی نہیں جو بڑھاپے کی گمراہی کا خاتمہ کرتی ہے۔ ''
جس وقت مسلمانوں نے مشرکین کی گرفتاری شروع کی رسول اللہﷺ چھپر میں تشریف فرماتھے اور حضرت سعد بن معاذؓ تلوار حمائل کیے دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ رسول اللہﷺ نے دیکھا کہ حضرت سعدؓ کے چہرے پر لوگوں کی اس حرکت کا ناگوار اثر پڑ رہا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :''اے سعد ! واللہ! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم کو مسلمانوں کا یہ کام ناگوار ہے۔'' انہوں نے کہا : جی ہاں ! اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول ! یہ اہل ِ شرک کے ساتھ پہلا معرکہ ہے جس کا موقع اللہ نے ہمیں فراہم کیا ہے۔ اس لیے اہلِ شرک کو باقی چھوڑنے کے بجائے مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ انہیں خوب قتل کیا جائے اور اچھی طرح کچل دیا جائے۔''
اس جنگ میں حضرت عکاشہ بن محصن اسدیؓ کی تلوار ٹوٹ گئی۔ وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے انہیں لکڑی کا ایک پھٹا تھمادیا اور فرمایا: عکاشہؓ ! اسی سے لڑائی کرو۔ عکاشہؓ نے اسے رسو ل اللہﷺ سے لے کر ہلا یا تو وہ ایک لمبی ، مضبوط اور چم چم کرتی ہوئی سفید تلوار میں تبدیل ہوگیا۔ پھر انہو ں نے اسی سے لڑائی کی یہاں تک کہ اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ اس تلوار کا نام
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ، کتاب الوکالہ ۱/۳۱۸ زاد المعاد ۲/۸۹
2 مستدرک حاکم (فتح القدیر للشوکانی ۲/۳۲۷ )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
عون ...یعنی مدد ...رکھا گیا تھا۔ یہ تلوار مستقلاً حضرت عکاشہؓ کے پاس رہی اوروہ اسی کو لڑائیوں میں استعمال کرتے رہے یہاں تک کہ دَورِ صدیقی میں مرتدین کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اس وقت بھی یہ تلوار اُن کے پاس ہی تھی۔
خاتمۂ جنگ کے بعد حضرت مُصعب بن عمیر عبدریؓ اپنے بھائی ابو عزیر بن عُمیر عبدری کے پاس سے گزرے۔ ابو عزیز نے مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑی تھی اور اس وقت ایک انصاری صحابی اِس کا ہاتھ باندھ رہے تھے۔ حضرت مصعبؓ نے اس انصاری سے کہا : ''اس شخص کے ذریعے اپنے ہاتھ مضبوط کرنا، اس کی ماں بڑی مالدار ہے وہ غالبا ً تمہیں اچھا فدیہ دے گی ۔'' اس پر ابوعزیز نے اپنے بھائی مُصعبؓ سے کہا : کیا میرے بارے میں تمہاری یہی وصیت ہے ؟ حضرت مصعب نے فرمایا : (ہاں) تمہارے بجائے یہ ...انصاری ...میرا بھائی ہے۔
( جب مشرکین کی لاشوں کو کنویں میں ڈالنے کا حکم دیا گیا اور عتبہ بن ربیعہ کو کنویں کی طرف گھسیٹ کر لے جایا جانے لگا تو رسول اللہﷺ نے اس کے صاحبزادے حضرت ابو حذیفہؓ کے چہرے پر نظر ڈالی ، دیکھا تو غمزدہ تھے ، چہرہ بدلا ہوا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا :''ابو حذیفہ ! غالبا ً اپنے والد کے سلسلے میں تمہارے دل کے اندر کچھ احساسات ہیں ؟'' انہوںنے کہا :'' نہیں واللہ، یا رسول اللہ ! میرے اندر اپنے باپ کے بارے میں اور ان کے قتل کے بارے میں ذرا بھی لرزش نہیں۔ البتہ میں اپنے باپ کے متعلق جانتا تھا کہ ان میں سوجھ بوجھ ہے۔ دوراندیشی اور فضل وکمال ہے، اس لیے میں آس لگائے بیٹھا تھا کہ یہ خوبیاں انہیں اسلام تک پہنچادیں گی ، لیکن اب ان کا انجام دیکھ کر اور اپنی توقع کے خلاف کفر پر ان کا خاتمہ دیکھ کر مجھے افسوس ہے۔'' اس پر رسول اللہﷺ نے حضرت حذیفہؓ کے حق میں دعائے خیر فرمائی اور ان سے بھلی بات کہی۔
فریقین کے مقتو لین :
یہ معرکہ ، مشرکین کی شکست ِ فاش اور مسلمانوں کی فتح ِ مبین پر ختم ہوا۔ اور اس میں چودہ مسلمان شہید ہوئے۔ چھ مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے ، لیکن مشرکین کو بھاری نقصان اٹھا نا پڑا۔ ان کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید کیے گئے جو عموماً قائد ، سردار اوربڑے بڑے سر بر آوردہ حضرات تھے۔
خاتمۂ جنگ کے بعد رسول اللہﷺ نے مقتولین کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا : تم لوگ اپنے نبی کے لیے کتنا برا کنبہ اور قبیلہ تھے۔ تم نے مجھے جھٹلایا جبکہ اوروں نے میری تصدیق کی۔ تم نے مجھے بے یارومددگار چھوڑا جبکہ اوروں نے میری تائید کی۔ تم نے مجھے نکالا جبکہ اوروں نے مجھے پناہ دی۔'' اس کے بعد آپ نے حکم دیا اور انہیں گھسیٹ کر بدر کے ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔
حضرت ابو طلحہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے حکم سے بدر کے روز قریش کے چوبیس بڑے بڑے سرداروں کی لاشیں بدر کے ایک گندے خبیث کنویں میں پھینک دی گئیں۔ آپﷺ کا دستورتھا کہ آپ جب کسی قوم پر فتح یاب ہوتے تو تین دن میدانِ جنگ میں قیام فرماتے تھے۔ چنانچہ جب بدر میں تیسرا دن آیا تو آپﷺ کے حسب الحکم آپﷺ کی سواری پر کجاوہ کسا گیا۔ اس کے بعد آپﷺ پیدل چلے اور پیچھے پیچھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی چلے یہاں تک کہ آپﷺ کنویں کی بار پر کھڑے ہوگئے۔ پھر انہیں ان کا اور ان کے باپ کا نام لے لے کر پکارنا شروع کیا۔ اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں ! کیا تمہیں یہ بات خوش آتی ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی ہوتی؟ کیونکہ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے ہم نے برحق پایا تو کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے تم نے برحق پایا ؟ حضرت عمرؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ! آپ ایسے جسموں سے کیاباتیں کررہے ہیں جن میں رُوح ہی نہیں ؟ نبیﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تم لوگ ان سے زیادہ سننے والے نہیں لیکن یہ لوگ جواب نہیں دے سکتے۔ 1
مکے میں شکست کی خبر:
مشرکین نے میدانِ بدر سے غیر منظم شکل میں بھاگتے ہوئے تتر بتر ہو کر گھبراہٹ کے عالم میں مکے کا رخ کیا۔ شرم وندامت کے سبب ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح مکے میں داخل ہوں۔
ابن ِ اسحاق کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جو شخص قریش کی شکست کی خبر لے کر مکے وارد ہوا وہ حَیْسمان بن عبد اللہ خزاعی تھا۔ لوگوں نے اس سے دریافت کیا کہ پیچھے کی کیا خبر ہے ؟ اس نے کہا : عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ابو الحکم بن ہشام ، اُمیہ بن خلف ...اورمزید کچھ سرداروں کا نام لیتے ہوئے ...یہ سب قتل کردیئے گئے۔ جب اس نے مقتولین کی فہرست میں اشراف قریش کو گنا نا شروع کیا تو صفوان بن اُمیہ نے جو حطیم میں بیٹھا تھا کہا: اللہ کی قسم! اگر یہ ہوش میں ہے تو اس سے میرے متعلق پوچھو۔ لوگوں نے پوچھا: صفوان بن امیہ کا کیا ہوا ؟ اس نے کہا : وہ تو وہ دیکھو ! حطیم میں بیٹھا ہوا ہے۔ واللہ! اس کے باپ اور اس کے بھائی کو قتل ہوتے ہوئے میں نے خود دیکھا ہے۔
رسول اللہﷺ کے مولیٰ ابورافعؓ کا بیان ہے کہ میں ان دنوں حضرت عباسؓ کا غلام تھا۔ ہمارے گھر میں اسلام داخل ہوچکا تھا۔ حضرت عباسؓ مسلمان ہوچکے تھے ، امّ الفضلؓ مسلمان ہو چکی تھیں ، میں بھی مسلمان ہو چکا تھا ، البتہ حضرت عباسؓ نے اپنا اسلا م چھپا رکھا تھا۔ ادھر ابو لہب جنگ بدر میں حاضر نہ ہوا تھا۔ جب اسے خبر ملی تو اللہ نے اس پر ذلت و روسیاہی طاری کردی اور ہمیں اپنے اندر قوت وعزت محسوس ہوئی۔ میں کمزور آدمی تھا تیر بنایا کرتا تھا اور زمزم کے حجرے میں بیٹھا تیر کے دستے چھیلتا رہتا تھا۔ واللہ ! اس وقت میں حجرے میں بیٹھا اپنے تیر چھیل رہا تھا۔ میرے پاس اُم ّ الفضلؓ بیٹھی ہوئی تھیں اور جو خبر آئی تھی اس سے ہم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 متفق علیہ۔ مشکوٰۃ ۲/۳۴۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
شاداں وفرحاں تھے کہ اتنے میں ابو لہب اپنے دونوں پاؤں بری طرح گھسیٹتا ہواآپہنچا اور حجرے کے کنارے پر بیٹھ گیا۔ اس کی پیٹھ میری پیٹھ کی طرف تھی۔ ابھی وہ بیٹھا ہی ہوا تھا کہ اچانک شور ہوا: یہ ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب آگیا۔ ابو لہب نے اس سے کہا: میرے پاس آؤ ، میری عمر کی قسم ! تمہارے پاس خبر ہے۔ وہ ابو لہب کے پاس بیٹھ گیا۔ لوگ کھڑے تھے۔ ابو لہب نے کہا: بھتیجے بتاؤ لوگوں کا کیا حال رہا ؟ اس نے کہا : کچھ نہیں۔ بس لوگوں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی اور ہم نے اپنے کندھے ان کے حوالے کردیئے۔ وہ ہمیں جیسے چاہتے تھے قتل کرتے تھے اور جیسے چاہتے تھے قید کرتے تھے ، اور اللہ کی قسم! میں اس کے باوجود لوگوں کو ملامت نہیں کر سکتا۔ درحقیقت ہماری مڈبھیڑ کچھ ایسے گورے چٹے لوگوں سے ہوئی تھی جو آسمان وزمین کے درمیان چتکبرے گھوڑوں پر سوار تھے۔ اللہ کی قسم! نہ وہ کسی چیز کو چھوڑتے تھے اور نہ کوئی چیز ان کے مقابل ٹک پاتی تھی۔
ابو رافعؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے خیمے کا کنارہ اٹھا یا ، پھر کہا : وہ اللہ کی قسم فرشتے تھے ؟ یہ سن کر ابو لہب نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور میرے چہرے پر زور دار تھپڑ رسید کیا۔ میں اس سے لڑ پڑا۔ لیکن اس نے مجھے اٹھا کر زمین پر پٹک دیا۔ پھر میرے اوپر گھٹنے کے بل بیٹھ کر مجھے مارنے لگا۔ میں کمزور جو ٹھہرا، لیکن اُم ّ الفضل نے اٹھ کر خیمے کا ایک کھمبا لیا اور اسے ایسی ضرب ماری کہ سر میں بُری چوٹ آگئی اور ساتھ ہی بولیں: اس کا مالک نہیں ہے اس لیے اسے کمزور سمجھ رکھا ہے ؟ ابولہب رسوا ہو کر اٹھا اور چلا گیا۔ اس کے بعد اللہ کی قسم صرف سات راتیں گزری تھیں کہ اللہ نے اسے عدسہ (ایک قسم کے طاعون ) میں مبتلا کردیا اوراس کا خاتمہ کردیا۔ عدسہ کی گلٹی کو عرب بہت منحوس سمجھتے تھے ، چنانچہ (مرنے کے بعد ) اس کے بیٹوں نے بھی اسے یوں ہی چھوڑ دیا اور وہ تین روز تک بے گور وکفن پڑا رہا۔کوئی اس کے قریب نہ جاتا تھا اور نہ اس کی تدفین کی کوشش کرتا تھا۔ جب اس کے بیٹوں کو خطرہ محسوس ہو اکہ اس طرح چھوڑنے پر لوگ انہیں ملامت کریں گے تو ایک گڑھا کھود کر اسی میں لکڑی سے اس کی لاش دھکیل دی اور دور ہی سے پتھر پھینک پھینک کر چھپادی۔
غرض اس طرح اہل ِ مکہ کو میدان ِ بدر کی شکست ِ فاش کی خبر ملی اور ان کی طبیعت پر اس کا نہایت برا اثر پڑا حتیٰ کہ انہوں نے مقتولین پر نوحہ کرنے کی ممانعت کردی تاکہ مسلمانوں کو اس کے غم پر خوش ہونے کا موقع نہ ملے۔
اس سلسلے کاا یک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر میں اسود بن عبد المطلب کے تین بیٹے مارگئے، اس لیے وہ ان پر رونا چاہتا تھا۔ وہ اندھا آدمی تھا۔ ایک رات اس نے نوحہ کرنے والی عورت کی آواز سنی۔ جھٹ اپنے غلام کو بھیجا اور کہا :''ذرا ، دیکھو ! کیا نوحہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے ؟ کیا قریش اپنے مقتولین پر رورہے ہیں تاکہ میں بھی ... اپنے بیٹے ...ابو حکیمہ پر روؤں ، کیونکہ میرا سینہ جل رہا ہے۔'' غلام نے واپس آکر بتا یا کہ یہ عورت تو اپنے گم شدہ اُونٹ پر رورہی ہے۔ اسود یہ سن کر اپنے آپ پر قابو نہ پاس کا اور بے اختیار کہہ پڑا :

أتبـکی أن یضـل لہـا بعیــر ویمنعہـا مـن النوم السہــود​
فلا تبکی علی بکـر ولکــن علی بدر تقـاصرت الجـدود​
علي بدر سراۃ بنی ہصیـص ومخـزوم ورہـط أبی الولیـد​
وبـکی إن بکیت علی عقیل وبکي حارثاً أســد الأســود​
وبکیہــم ولا تسمي جمیعاً وما لأبی حـکیـمۃ من ندیــد​
ألا قد سـاد بعــدہم رجال ولولا یـوم بــدر لم یسـودوا​

''کیا وہ اس بات پر روتی ہے کہ اس کاا ونٹ غائب ہوگیا ؟ اور اس پر بے خوابی نے اس کی نیند حرام کر رکھی ہے ؟ تو اونٹ پر نہ رو بلکہ بدر پر روجہاں قسمتیں پھوٹ گئیں۔ ہاں ہاں ! بدر پر رو جہاں بنی ہصیص، بنی مخزوم اور ابو الولید کے قبیلے کے سر بر آوردہ افراد ہیں۔ اگر روناہی ہے تو عقیل پر رو اور حارث پر رو جو شیروں کا شیر تھا، تو ان لوگوں پر رو اورسب کا نام نہ لے اور ابوحکیمہ کا تو کوئی ہمسر ہی نہ تھا۔ دیکھو ! ان کے بعد ایسے ایسے لوگ سردار ہوگئے کہ اگر بدر کا دن نہ ہوتا تو وہ سردار نہ ہوسکتے تھے۔''
مدینے میں فتح کی خوش خبر ی:
ادھر مسلمانوں کی فتح مکمل ہوچکی تو رسول اللہﷺ نے اہل ِ مدینہ کو جلد از جلد خوشخبری دینے کے لیے دو قاصدروانہ فرمائے۔ ایک حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ جنہیں عوالی (بالائی مدینہ ) کے باشندوں کے پاس بھیجا گیا تھا اور دوسرے حضرت زید بن حارثہؓ جنہیں زیرین مدینہ کے باشندوں کے پاس بھیجا گیا تھا۔
اس دوران یہود اور منافقین نے جھوٹے پر وپیگنڈے کر کر کے مدینے میں ہلچل بپاکر رکھی تھی یہاں تک کہ یہ خبر بھی اڑا رکھی تھی کہ نبیﷺ قتل کر دیئے گئے ہیں ، چنانچہ جب ایک منافق نے حضرت زید بن حارثہؓ کو نبیﷺ کی اونٹنی قَصْوَاء پر سوار آتے دیکھا تو بول پڑا :''واقعی محمدﷺ قتل کردیئے گئے ہیں۔ دیکھو ! یہ تو انھی کی اونٹنی ہے۔ ہم اسے پہچانتے ہیں ، اور یہ زید بن حارثہؓ ہے ، شکست کھا کر بھاگا ہے اور ا س قدر مرعوب ہے کہ اس کی سمجھ میں نہیںآتا کہ کیا کہے۔'' بہرحال جب دونوں قاصد پہنچے تو مسلمانوں نے انہیں گھیر لیا اور ان سے تفصیلات سننے لگے حتیٰ کہ انہیں یقین آگیا کہ مسلمان فتح یاب ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ہر طرف مسرت وشادمانی کی لہر دوڑ گئی اور مدینے کے دَرو بام تہلیل وتکبیر کے نعروں سے گونج اُٹھے اور جو سربر آوردہ مسلمان مدینے میں رہ گئے تھے وہ رسول اللہﷺ کو اس فتح مبین کی مبارک باد دینے کے لیے بدر کے راستے پر نکل پڑے۔
حضرت اُسامہ بن زیدؓ کا بیان ہے کہ ہمارے پاس اس وقت خبر پہنچی جب رسول اللہﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہؓکو ، جو حضرت عثمانؓ کے عقد میں تھیں ، دفن کر کے قبر پر مٹی برابر کر چکے تھے۔ ان کی تیمار داری کے لیے حضرت عثمانؓ کے ساتھ مجھے بھی رسول اللہﷺ نے مدینے ہی میں چھوڑ دیا تھا۔
 
Top