• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجویز غسل نبی کے بارے بہت ہی خوبصورت روایت اور اسکی سند کی تحقیق (بقلم اسد الطحاوی الحنفی )

شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
کرامتوں کا بیان
امام بیھقی دلائل النبویٰ میں ایک روایت لاتے ہیں :
أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَقِيهُ فِي كِتَابِ السُّنَنِ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرِ بْنِ دَاسَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: لَمَّا أَرَادُوا غُسْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: وَاللهِ مَا نَدْرِي أَنُجَرِّدُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثِيَابِهِ، كَمَا نُجَرِّدُ مَوْتَانَا، أَمْ نُغَسِّلُهُ وَعَلَيْهِ ثِيَابُهُ، فَلَمَّا اخْتَلَفُوا، أَلْقَى الله عَزَّ وَجَلَّ النَّوْمَ حَتَّى مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَذَقْنُهُ فِي صَدْرِهِ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ مُكَلِّمٌ مِنْ نَاحِيَةِ الْبَيْتِ لَا يَدْرُونَ مَنْ هُوَ، أَنِ اغْسِلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثِيَابُهُ , فَقَامُوا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَغَسَّلُوهُ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ وَيُدَلِّكُونَهُ بِالْقَمِيصِ دُونَهُ أَيْدِيهِمْ، فَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي، مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا غَسَّلَهُ إِلَّا نِسَاؤُهُ هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ

عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب صحابہ کرام ؓ نے نبی ﷺ کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا : معلوم نہیں کہ جس طرح ہم اپنے فوت ہونے والے دیگر افراد کے (بوقت غسل) کپڑے اتار دیتے تھے اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے بھی کپڑے اتار دیں یا ہم کپڑوں سمیت غسل دیں ، جب انہوں نے اختلاف کیا تو اللہ نے ان پر نیند طاری کر دی حتیٰ کہ ان میں سے ہر شخص کی تھوڑی اس کے سینے کے ساتھ لگنے لگی ۔ پھر گھر کے ایک کونے سے کسی نے ان سے بات کی مگر صحابہ کو اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ کون تھا ، (اس نے کہا) نبی ﷺ کو کپڑوں سمیت غسل دو ، وہ کھڑے ہوئے اور آپ کو اس طرح غسل دیا کہ آپ کی قمیص آپ پر تھی ، وہ قمیص کے اوپر پانی گراتے تھے اور آپ کی قمیص کے ساتھ ملتے تھے
اسکو نقل کرنے کے بعد امام بیھقی فرماتے ہیں اسکی سند صحیح ہے
اور پھر اس روایت کے کثیر شواہد بیان کرتے ہیں آگے متعدد اسناد کےساتھ امام بیھقی نے اس سند کی تصحیح کر کے تمام رجال کی خود تصحیح کر دی ہے لیکن ہم تحقیقی طور پر اس روایت کے سند کا تعارف پیش کر دیتے ہیں
مطلوبہ روایت کی سند کی تحقیق!

۱۔ سند کا پہلا راوی : أبو على الحسين بن محمد بن محمد بن على الروذبارى الطوسي
یہ امام بیھقی کا شیخ ہے اور امام حاکم کا بھی شیخ ہے اور یہ نیساپور کے جید محدثین میں سے ایک ہیں
امام االسمعانی صاحب الانساب فرماتے ہیں :

أبو على الحسين بن محمد بن محمد بن على الروذبارى الطوسي، كانت له رحلة إلى العراق سمع فيها السنن لأبى داود من أبى بكر محمد ابن بكر بن عبد الرزاق بن داسه التمار بالبصرة، وسمع بطوس أبا الحسن محمد بن محمد بن على الأنصاري، سمع منه الحاكم أبو عبد الله [محمد بن عبد الله- الحافظ وأبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي وأبو الفتح نصر بن الحسن الحاكمى، وهو آخر من حدث عنه [إن شاء الله-] ، وذكره الحاكم في التاريخ لنيسابور فقال: أبو على بن أبى الحسن بن أبى عبد الله الروذبارى الطوسي، كتبنا عن جده أبى عبد الله وعن أبيه أبى الحسن، ورد أبو على نيسابور بمسألة جماعة من الأشراف والعلماء ليسمع منه كتاب السنن لأبى داود السجستاني
ابو علی الحسین بن محمد بن الروزباری الطوری
انہوں نے عراق میں السنن ابی داود کا سماع کیا اور ابی بکر محمد بن عبدالراز سے بصرہ مں اور طوس میں ان سے امام احاکم نے اور امام بیھقی وغیرہ نے سماع کیا ہے یہ آخری تھے جنہوں نے ان سے سماع حدیث کیا ہے اور امام حاکم نے انکو اپنی تاریخ نیساپور میں شامل کیا ہے یہ نیساپور کے بڑے اجلہ علماء میں سے تھے ،
(الأنساب)


امام الذھبی ثقات ائمہ کا ذکر کرتے ہوئے انکو بھی شامل کرتے ہوئے انکے بارے میں تذکرہ الحفاظ میں فرماتے ہیں :

وفيها مات ببغداد المسند أبو القاسم إسماعيل بن الحسن بن هشام الصرصري أحد الثقات، وشيخ الحنابلة أبو عبد الله الحسن بن حامد البغدادي الوراق، وصاحب التصانيف وعالم ما وراء النهر القاضي الحليمي، والمسند أبو علي الحسين بن محمد بن محمد الروذباري الطوسي راوي سنن أبي داود
اور وہ جنکی وفات ہوئی بغداد میں المسند ابو القاسم اسماعیل، جو ثقات میں سے ایک تھے
اور شیخ حنابلہ ابو عبداللہ بن حامد البغدادی
اور صاحب تصانیف اور عالم الوقت النھر القاضی الحلیمی
اور مسند ابو علی الحسین بن محمد بن محمد الروذباری الطوسی جو سنن ابی داود کے راوی ہیں
(تذکرہ الحفاظ جلد۳، ص ۱۸۶)


۲۔سند کا دوسرا راوی : أبو بكر محمد بن بكر بن داسة
امام ذھبی سیر اعلام میں انکے بارے فرماتے ہیں :

3164- ابن داسة :
الشيخ الثقة العالم, أبو بكر محمد بن بكر بن محمد بن عبد الرزاق بن داسة البصري التمار, رواي السنن.
سمع أبا داود السجستاني، وأبا جعفر محمد بن الحسن بن يونس الشيرازي، وإبراهيم بن فهد الساجي, وغيرهم.

الشیخ الثقہ العالم ابو بکر محمد بن عبدالرزاق المعروف ابن داستہ البصری یہ راوی ہیں السنن کے انہوں نے سماع کیا ہے ابو داود السجستانی سے وغیرہ سے
(سیر اعلام النبلاء برقم :3164)


۳۔سند کا تیسرا راوی : أبو داود السجستاني
یہ صاحب سنن ابی داود مشہور متفقہ علیہ ثقہ ثبت امام ہیں جنکے تعارف کی ضرورت نہیں ہے

۴۔ سند کا چوتھا راوی : نفیلی یہ امام ابی داود کے شیخ ہیں اور امام ابی داود اکثر انہی سےروایات بیان کرتے ہیں
امام ذھبی سیر اعلام میں انکے بارے فرماتے ہیں
ـ:
221 - النفيلي عبد الله بن محمد بن علي بن نفيل بن زراع بن علي * (خ، 4)
وقيل: ابن عبد الله بن قيس بن عصم، الإمام، الحافظ، عالم الجزيرة، أبو جعفر القضاعي، ثم النفيلي، الحراني، أحد الأعلام.
قال الآجري: سمعت أبا داود يقول: أشهد على أني لم أر أحفظ من النفيلي (3
) .
وقال أبو حاتم: حدثنا ابن نفيل الثقة المأمون (4) .
وقال الدارقطني: هو ثقة، مأمون، محتج به (5) .
وقال أبو أحمد الحاكم: كتبوا عنه في أيام هشيم (6) .

النفیلی عبداللہ بن محمد بن علی بن نفیل ہیں یہ امام حافظ یہ اعلاام میں سےایک تھے
امام ابی دود فرماتے یں میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نفیلی کے حافظے جیسا کوئی نہ دیکھا
ابی حاتم فرماتے ہیں کہ مجھے بیان کیا ابن نفیل ثقہ اور مامون نے
امام دارقطنی فرماتے ہیں : یہ ثقہ اور مامون تھے ان سے احتجاج کیا گیا ہے
اور امام حاکم فرماتے ہیں : ان سے لکھا ہے
(سیر اعلام النبلاء برقم : 221)


۵۔ سند کا پانچواں راوی : محمد بن سلمہ الحرانی
امام ذھبی سیر اعلام میں انکے بارے فرماتے ہیں :

13 - محمد بن سلمة أبو عبد الله الحراني * (م، 4)
الإمام، المحدث، المفتي، أبو عبد الله الحراني.
حدث عن: خصيف الجزري، ومحمد بن عجلان، ومحمد بن إسحاق، وخاله؛ أبي عبد الرحيم خالد بن أبي يزيد، وجماعة.
روى عنه: أبو جعفر النفيلي، وأحمد بن حنبل، ومحمد بن الصباح الجرجرائي، والحسن بن أحمد بن أبي شعيب الحراني، وعمرو بن هشام أبو أمية، وأبو يوسف محمد بن أحمد الصيدلاني، ومحمد بن وهب بن أبي كريمة، وعدة.
قال ابن سعد: كان ثقة، فاضلا، توفي في آخر سنة إحدى وتسعين ومائة.
وقال أبو جعفر النفيلي: مات في أول سنة اثنتين وتسعين ومائة.
قلت: حديثه في الكتب سوى (صحيح البخاري) .

امام محمد بن سلمہ یہ محدث مفتی ہیں


انکے شیوخ اور شاگردوں کے بعد امام ذھبی امام ابن سعد سے توثیق نقل کرتے ہیں :
یہ ثقہ اور ٖفاضل تھے
میں (امام ذھبی) کہتا ہوں کہ انکی روایت صحیح بخاری میں ہے
(سیر اعلام النبلاء برقم
ـ 13)


۶۔ سند کا چھٹا راوی : محمد بن اسحاق بن یسار

ان پر کچھ محدثین کی طرف سے جروحات ہیں لیکن عندالجمہور امام محمد بن اسحاق ثقہ و صدوق درجے کے راوی ہیں
جیسا کہ امام ابن عدی نے الکامل میں ان تفصیلی کلام کرنے کے بعد اپنا فیصلہ دیتے ہوئے فرمایا ہے

وربما أخطأ أو وهم في الشيء بعد الشيء كما يخطئ غيره ولم يتخلف عنه في الرواية عنه الثقات والأئمة، وهو لا بأس به
کہ ان سے بعض اوقات وھم اور خطاء ہو جاتی تھی جیسا کہ اور راویان کو بھی ہوجاتا ہے لیکن جب یہ ثقات سے روایات بیان کریں تو ان میں کوئی حرج نہیں ہے
(الکامل فی ضعفاء لابن عدی )


۷۔ ساتوں راوی : یحییٰ بن عباد

امام ابن ابی حاتم امام یحییٰ بن معین سے انکی توثیق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

710 - يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير بن العوام، مات قديما وهو ابن ست وثلاثين، وكانت له مروءة، روى عن أبيه روى عنه عبد الله بن أبي بكر ومحمد بن إسحاق سمعت أبي يقول ذلك.
نا عبد الرحمن أنا يعقوب بن إسحاق فيما كتب إلي قال نا عثمان بن سعيد [الدارمي - 1] قال سألت يحيى بن معين عن يحيى بن عباد [بن عبد الله - 2] بن الزبير كيف هو؟ فقال: ثقة.
(الجرح والتعديل برقم: 710)

۸۔ آٹھواں راوی : عبداللہ بن زبیر یہ صحابی رسول ہیں
امام ابن حجر عسقلانی الصابہ میں انکے بارے فرماتے ہیں :



4700- عبد اللَّه بن الزّبير:
بن العوّام بن العوّام «1» بن خويلد بن أسد بن عبد العزّى القرشي الأسديّ.
أمّه أسماء بنت أبي بكر الصديق. ولد عام الهجرة، وحفظ عن النبيّ صلى اللَّه عليه وسلّم وهو صغير، وحدّث عنه بجملة من الحديث، وعن أبيه، وعن أبي بكر، وعمر، وعثمان، وخالته عائشة، وسفيان بن أبي زهير وغيرهم.
وهو أحد العبادلة وأحد الشجعان من الصحابة، وأحد من ولى الخلافة منهم. يكنى أبا بكر. ثم قيل له أبو خبيب بولده.
(الإصابة في تمييز الصحابة)

۹۔نوواں راوی :
اسکی نویں راوی اماں عائشہؓ ہیں

اور اس تحقیق سے معلوم ہوا ا س روایت کی سند صحیح ہے

تحقیق:دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی


 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته!
۶۔ سند کا چھٹا راوی : محمد بن اسحاق بن یسار

ان پر کچھ محدثین کی طرف سے جروحات ہیں لیکن عندالجمہور امام محمد بن اسحاق ثقہ و صدوق درجے کے راوی ہیں
جیسا کہ امام ابن عدی نے الکامل میں ان تفصیلی کلام کرنے کے بعد اپنا فیصلہ دیتے ہوئے فرمایا ہے

وربما أخطأ أو وهم في الشيء بعد الشيء كما يخطئ غيره ولم يتخلف عنه في الرواية عنه الثقات والأئمة، وهو لا بأس به
کہ ان سے بعض اوقات وھم اور خطاء ہو جاتی تھی جیسا کہ اور راویان کو بھی ہوجاتا ہے لیکن جب یہ ثقات سے روایات بیان کریں تو ان میں کوئی حرج نہیں ہے
(الکامل فی ضعفاء لابن عدی )
الله تعالی اس پر قائم رہنے کی توفیق دے!
نماز میں امام، مقتدی اور منفرد سب کے لئے کے فاتحہ کے لازم ہونے کے معاملہ میں بھی محمد بن اسحاق بن يسار کو اسی طرح تسلیم کرلیں!
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
ہم کبھی محمد بن اسحاق بن یسار امیر المومنین فی حدیث کی تضعیف کے قائل نہیں ہوئے نہ تھے ۔۔۔۔۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته!
اچھی بات ہے!
یہ اس کے پیش نظر کہا تھا کہ مقتدی کے لئے بھی فاتحہ کے واجب ہونے کی حدیث کے متعلق بریلویہ کچھ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں:

اس روایت میں اےک راوی محمد بن اسحاق ہے جسکے متعلق یحیٰی بن القطان کہتے ہیں کذاب ہے ،ابن عدی فرماتے ہیں مرغ باز تھا،علی کہتے ہیں منکر تقدیر تھا ، سلےمان التیمی فرماتے ہیں کذاب ہے ،ابو داؤد کہتے ہیں معتزلی تھا ،امام نسائی فرماتے ہیں لیس بالقوی ، دارقطنی فرماتے ہیں کذاب ہے ۔میزان الاعتدال ج۶/ص ۷۵/۸۵
یحیٰی بن معین فرماتے ہیں ضعیف لےس بالقوی ۔
تہذیب التہذیب ج۹/ص۷۳
محمد بن اسحاق رمی بالتشیع والقد ر
یہ بزرگ شیعہ اور منکر تقدیر ہونے میں شہرت رکھتے تھے ۔تقریب التہذیب ص۴۳۴
امام مالک بن انس فرماتے ہیں کذاب ،دجال من الدجاجلة ،فرہانی فرماتے ہیں زندیق ہے ۔الکامل ج۷/ص۵۵۲
سنائیے :۔

اطیعو اللہ واطیعو الرسول کی دعوت دینے والے دجا ل کذاب اور شیعہ کے دروازہ پر کیسے پہنچ گئے ؟

ملاحظہ فرمائیں
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
میری نظر میں مجھے اہل علم بریلویوں میں تو کوئی انکی تضعیف کرتے نظر نہیں آیا فتاویٰ رضویہ میں اعلیٰ حضرت بھی انکی توثیق کے قائل ہیں باقی دیوبندی حضرات کو دیکھا وہ تو انکو مطلق سنت و احکام میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں بر حال یہ عندہ الجمہور ثقہ و صدوق ہیں شیعہ تھے مذاہب کی وجہ سے بھی اکثر محدثین تعصب کی بنیاد پرجروحات کر دیتے تھے
انکے ساتھ تھوڑا بہت وہی ہوا جیسے امام اعظم ابی حنیفہؓ سے ہوا انکے منہج اور اصول کو سمجھے بغیر کچھ محدثین نے انکو منکر الحدیث بنا دیا تھا خیر!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته!
میری نظر میں مجھے اہل علم بریلویوں میں تو کوئی انکی تضعیف کرتے نظر نہیں آیا فتاویٰ رضویہ میں اعلیٰ حضرت بھی انکی توثیق کے قائل ہیں باقی دیوبندی حضرات کو دیکھا وہ تو انکو مطلق سنت و احکام میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں
متفق!
بر حال یہ عندہ الجمہور ثقہ و صدوق ہیں شیعہ تھے مذاہب کی وجہ سے بھی اکثر محدثین تعصب کی بنیاد پرجروحات کر دیتے تھے
اکثر کہنا درست نہیں! بعض اس امر کو مرتکب ضرور ہوئے ہیں! لیکن ان کی ایسی جروحاوت کی کوئی حثیت نہیں! کہ تعصب سے جارح خود مجروح قرار پاتا ہے، لہذا کم از کم خاص اس حوالہ اس کی جرح کی کوئی حثیت نہیں رہ جاتی۔
محمد بن اسحاق پر جرح غلط فہمی کا نتیجہ ہے! اس لئے جرح کے ثبوت کے باوجود مقبول نہیں!
انکے ساتھ تھوڑا بہت وہی ہوا جیسے امام اعظم ابی حنیفہؓ سے ہوا انکے منہج اور اصول کو سمجھے بغیر کچھ محدثین نے انکو منکر الحدیث بنا دیا تھا خیر!
غیر متفق! لیکن اس پر بحث سے یہاں گریز کروں گا! کہ اس بحث کا یہ محل نہیں!
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
تعصب ایک ایسی چیز ہے جس سے کوئی ہی ہو جو بچا ہو جسکو اللہ بچائے ورنہ محدثین و مفسرین و ناقدین میں تعصب کی بنیاد پر جروحات ہوتی رہی ہیں جسکی وجہ سے محدثین کو یہ متفقہ علیہ اصول بنانا پڑا کہ ہم عصر کی جرح قابل قبول نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
غیر متفق! لیکن اس پر بحث سے یہاں گریز کروں گا! کہ اس بحث کا یہ محل نہیں!
اس پر بھی اگر آپ علمی اور اصلی بحث کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ان شاءاللہ ہم کو محدثین کے اصول کے موافق ہی دیکھیں گے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
اس پر بھی اگر آپ علمی اور اصلی بحث کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ان شاءاللہ ہم کو محدثین کے اصول کے موافق ہی دیکھیں گے
اس پر پہلے ہی فورم پر کافی کچھ موجود ھے ۔
 
Top