مولانا غلام رسول رسول سعیدی صاحب بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایک مدرسہ میں شیخ الحدیث ہیں اور اپنے معتقدین کی نظر میں ’’
محدث اعظم و سعید ملت ،علامہ‘‘ہیں(نعمۃ الباری :ج١ ص١١٣) مولانا غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب کی شرح نعمۃ الباری پیش نظر ھے ،
اس میں کچھ چیزیں قابل تعاقب ہیں
١
:اس میں صحیح بخاری کی احادیث پر بھی نقد کیا گیا کہ یہ حدیث ضعیف ھے حالانکہ وہ حدیث متصل باسند ہوتی جن کے متعلق محدثین اور علمائ امت کا اجماع ھے کہ بخاری میں جتنی بھی باسند احآدیث ہیں وہ تمام کی تمام صحیح ہیں ۔مگر افسوس کہ سعیدی بریلوی صاحب جو صحیح بخاری کی احآدیث پر نقد کر رہے ہیں اور ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے ان للہ و نا الیہ راجعون ۔
٢:اور اپنی یہ حالت ھے کہ ضعیف اور موضوع روایات سے استدلال کرنے سے ان کی نعمۃ الباری ، شرح صحیح مسلم اور تبیان القرآن بھری پڑی ھے جس پر عنقریب بحث کی جائے گی بلکہ بریلویت ،فقہ حنفی اور بدعات کی تائید میں جیسی مرضی بے اصل روایت ملے اس کو لکھ مارتے ہیں،گویا وہ احآدیث جن کی صحت پر اجماع ہو چکا ھے ان کو ضعیف ثابت کرنا اور خود موضؤع ،بے اصل اور ضعیف روایات سے استدلال کرنا سعیدی بریلوی صاحب کا وطیرہ ھے ۔
٣:صحیح بخاری میں موجود فقہی مباحث کی صورت میں رد کیا ہے کہ امام بخاری ان احادیث سے یہ مسئلہ ثابت کرنا چاہتے ہیں اور یہ صحیح نہیں ہے فقہ حنفی کا مسئلہ ہی راجح ہے ،حقائق بتائیں گے کہ حق کیا ہے فقہ حنفی یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔دوسرے لفظوں میں صحیح بخاری کا توڑ پیش کیا ھے سعیدی بریلوی صاحب نے منۃ الباری میں ،انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
اس کی حقیقت بھی واضح کریں گے ان شائ اللہ ۔
٤:حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی فتح الباری پر بے جا تنقید کی گئی ھے تعصب کی انتہائ دیکھیے حافظ ابن حجر کے متعلق لکھتے ہیں :’’حافظ ابن حجر عسقلانی کے ممدوح امام بخاری نے اپنی ’’صحیح بخاری‘‘میں امام اعظم ابو حنیفہ کی عبارات میں متعدد مقامات پر اپنے زعم میں تناقض اور تضآد ثآبت کیا ھے ،وہاں پر حآفظ ابن حجر عسقلانی نے امام بخاری شدت سے تائید کی ھے اور اس تناقض اور تضاد کو برقرار رکھا ھے ،امام بخاری کے متعلق تو ہماری مجال نہیں ہے ،وہ ہمارے نزدیک فن حدیث میں ایسے ہی محترم ہیں جیسے علم فقہ میں ہمارے نزدیک امام اعظم ابو حنیفہ مکرم ہیں ،لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی سے قصاص لینے کاتو ہمیں حق پہنچتا ھے ۔‘‘(نعمۃ الباری :ج١ص١٠٦)
نعمۃ الباری اسی تعصب سے بھری ہوئی ھے اور بلاوجہ ابن حجر کا رد کیا گیا جو علم و تحقیق سے خالی ہے ،اس کی حقیقت بھی ہم واضح کریں گے اور قارئین پر مطلع کریں گے کہ سعیدی صاحب نے ابن حجر سے قصاص لینے میں انصاف سے کام لیا ہے یا تقلید اور بدعات کا پرچار کرنے کی خاطریہ روش اپنائی ھے۔
٥:تاویلات باطلہ اور بعیدہ کا سہارا لیا ہے اور بدعات کا خوب اثبات کیا ھے منۃ الباری میں ،اس پر بھی کلام ھو گی ۔
٦:محدثین پر بے جا تنقید کی ہے اور ان کے متعلق غیر مناسب الفاظ استعمال کئے ہیں کیونکہ وہ تقلید اور بدعات کا رد کرتے تھے۔اس پر بھی بحث ھو گی ۔ان شائ اللہ
٧:اصول حدیث اور جرح و تعدیل کا دور سے بی مس نہیں کیا اور نہ ہی اس کا خیال رکھا ھے بس اپنی مرضی کے ترکش چلائے ہیں ۔
الغرض سعیدی بریلوی صاحب نے انصاف سے کام نہیں کاش وہ منۃ الباری میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے اور قرآن و حدیث کے مطابق شرح لکھتے ۔مگر افسوس جب بھی کسی مقلد نے حدیث کی شرح لکھی تو صرف اس غرض سے کہ فقہ حنفی کا دفاع کیا جائے اور احادیث کا توڑ کیا جائے اس کی داستان پڑھنے کے لئے ’’پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث کی خدمات حدیث ‘‘کا مطالعہ کیا جائے ۔
راقم اس پر مفصل تبصرہ کرے گا پہلے صحیح بخاری کی جن احادیث کو سعیدی بریلوی صاحب نے ضعیف ثابت کیا ہے ان پر بحث کی جائے گی پھر دیگر بحوث پر منصفانہ تجزیہ کیا جائے گا انشائ اللہ
صحیح بخاری میں ضعیف احادیث ہیںسعیدی بریلوی کے نزدیک
!
سعيدي بريلوي صاحب نے لكها هي
بعض وہ حضرات جو صحیح بخاری کو حرف آخر قرار دیتے ہیں ان کی رائے ہے کہ بخاری میں مندرج ہر ہر حدیث صحیح ہے اور سند اور متن کے بیان میں ان سے کسی جگہ غلطی نہیں ہوئی ۔ ہماری رائے ان لوگوں سے بحرحال مختلف ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ بخاری میں دیگر تمام کتب احادیث کی بہ نسبت سب سے زیادہ صحیح احادیث ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ اس میں مندرج کوئی بھی حدیث ضعیف نہیں ہے۔
نعمۃالباری فی شرح صحیح البخاری جلد اول ص نمبر 94
.............................
اس کا رد پیش خدمت ہے
احمد رضا خان بریلوی صاحب نے ردّ کرتے ہوئے لکھا :
اقول اولاً : یہ بھی شرم نہ آئی کہ یہ محمد بن فضیل صحیح بخاری و صحیح مسلم کے رجال سے ہے۔
حوالہ : فتاویٰ رضویہ ، طبع جدید 174/5 ۔
تفصیلی رد کے لئے
البشارہ ڈاٹ کام پر جائیں
علامہ غلام رسول سعیدی صاحب جس وقت ظاہری حیات تھے اسوقت کسی کی ہمت نہیں تھی کہ انکے سامنے کوئی بیٹھ سکے۔ اب بھی میں چیلنج کرتا تمام اہل حدیث غیرمقلدین کو اب جس کے پاس کوئی سوال ہے وہ بندہ علامہ صاحب کی قبر مبارک پہ جا کر اپنا سوال رکھے انشاءاللہ اللہ کی مدد سے آج بھی آپ ایسا جواب ملے گا کہ صدیوں تک اہل باطل میں خاموشی چھا جائے گی۔
نعمة الباری پہ کیے گئے تعاقب کا جواب۔
علامہ صاحب علیہ الرحمہ نے جو بات بھی کی ہے وہ پہلے کے علماء کرام کے اقوال کو درج کرتے ہوئے حوالہ جات کے ساتھ کی ہے۔
۔صرف علامہ صاحب کے ذاتی موقف پہ تعاقب کیا جا سکتا ہے، وہ بھی دلیل کے ساتھ، تعصب کی عینک اتار کر۔
١۔ کا جواب
حدیث کا متصل بالسند ہونا حدیث کے ضعیف ہونے کو مانع نہیں۔ راوی کے ضعف کی بناء پہ بھی حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ حالانکہ وہ متصل بالسند ہوتی ہے۔
علماء کا اس بات پہ اجماع ہے کہ کتب احادیث میں اصح کتاب ”بخاری“ ہے۔
اس پہ تو اجماع نہیں کہ ہر حدیث صحیح ہے۔
معترض کے گھر سے بھی دلیل دی جا سکتی ہے۔
٢۔جب ضعیف حدیث کے مقابل صحیح حدیث ہو تب ضعیف سے استدلال کرنا درست نہیں، ورنہ جائز۔
مذکورہ کتب میں یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔
٣۔ امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے فقہی مباحث کی مخالفت علامہ صاحب نے ہی نہیں کی بلکہ آپ سے پہلے علماء کرام نے بھی کی ہے۔
جیسا کہ امام مسلم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے تراویح کی آٹھ رکعات کی۔۔۔۔
جب تم علامہ صاحب کا رد کر سکتے ہو تو علامہ صاحب نے علامہ ابن حجر رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ردکیا تو کیا قباحت۔؟
اتنا فرق ضرور کے علامہ صاحب نے رد کرتے وقت ادب و احترام کا دامن نہ چھوڑا، اورتم بد زبان اور بے لگام ہو گئے
تم نے حدیث کے متعلق
” لکھ مارتے“ کے الفاظ استعمال کیے۔
اتنا علم میں رہنا چاہیے کہ علامہ ابن حجر رحمۃ اللّٰہ علیہ مقلد تھے۔
٥۔ علامہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحریر اور تمہاری تحریر پڑھنے کے بعد قارئین پہ خود ہی واضح ہو جائے گا حق کیا اور باطل کیا۔؟
٦۔کوئی غیر مناسب الفاظ استعمال نہیں کیے گئے۔ بھتان لگایا گیا۔ اللہ علیم و خبیر ہے۔
٧۔ اصول حدیث اور جرح و تعدیل کے حوالے سے کبھی ملاقات تو کرتے، بات تو کرتے علامہ صاحب سے، ماں کا دودھ یاد نہ دلا دیتے تو کہتے۔
آپ کے استدلال دلائل کی بناء پہ لھابیت دیو بندیت آج بھی سکوت میں ہے۔
وکٹورین اھل حدیث اسلام کو نقصان پہچانے میں تشیع کے بعد دوسرے نمبر ہیں۔
تحریر کردہ:
فرید انور الشاذ
جامعہ نعیمیہ کراچی۔
صبح ٩:٢٩
١٦شوال المکرم ١٤٣٨۔
١١جولائی ٢٠١٧۔