• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیبت ایک خطرناک گناہ :

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی اس میں غیبت پر ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کیا یہ صحیح ہے
یہ واقعہ امام أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (المتوفى: 643 ھ) نے اپنی کتاب ’’ الاحادیث المختارہ ‘‘ میں درج ذیل الفاظ سے نقل کیا ہے ،

وأخبرنا أبو الضوء شهاب بن محمود بن أبي الحسن الحاتمي بهراة أن عبد السلام بن أحمد بن إسماعيل بن محمد أخبرهم أنا أبو عبد الله محمد بن أبي مسعود الفارسي أنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي شريح أنا أبو محمد يحيى بن محمد بن صاعد نا أبو بدر عباد بن الوليد الغبري نا حبان بن هلال نا حماد بن سلمة عن ثابت البناني عن أنس بن مالك قال كانت العرب تخدم بعضها بعضا في الأسفار وكان مع أبي بكر وعمر رجل يخدمهما فناما فاستيقظا ولم يهيء لهما طعاما فقال أحدهما لصاحبه إن هذا ليوائم نوم نبيكم صلى الله عليه وسلم (فَقَالا إِنْ هَذَا لَيُوَائِمُ نَوْمَ بَيْتِكُمْ)
فأيقظاه فقالا ائت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقل له إن أبا بكر وعمر يقرئانك السلام وهما يستأدمانك فقال أقرأهما للسلام وأخبرهما أنهما قد ائتدما ففزعا فجاءا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالا يا رسول الله بعثنا إليك نستأدمك فقلت قد ائتدما فبأي شيء ائتدمنا قال بلحم أخيكما والذي نفسي بيده إني لأرى لحمه بين أنيابكما قالا فاستغفر لنا قال هو فليستغفر لكما ‘‘

ترجمہ :
خادم رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل عرب کا یہ دستور تھا کہ سفر میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے اور ان دونوں بزرگوں نے اپنی خدمت کیلئے ایک شخص کو ساتھ لے رکھا تھا ، راستے میں کسی جگہ پڑاو ڈالا گیا ، جہاں حضرات شیخین آرام کر نے کیلئے لیٹے اور سو گئے ، امید تھی کہ جب بیدار ہونگے تو کھانا تیار رہے گا ، لیکن ہوا یہ کہ خادم بھی آرام کیلئے لیٹا اور آنکھ لگ گئ ، جب شیخین بیدار ہوئے تو دیکھا کہ خادم نے کھانا تیار نہیں کیا ہے بلکہ وہ بے خبر سورہا ہے ، یہ دیکھ کر ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا ، یہ تو ایسا سورہا ہے جیسے کوئی اپنے گھر پر اطمینان سے سوتا ہے چناچہ اسے بیدار کیا اور کہا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر ان سے ہمارا سلام کہو اور عرض کرو کہ ابو بکر وعمر سالن طلب کر رہے ہیں ، وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاکر عرضی پیش کرتا ہے تو آپ نے فرمایا : جاو ان دونوں سے میرا سلام کہو اور بتلادو کہ تم دونوں نے سالن کھا لیا ہے ، خادم نے جب آکر شیخین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنایا تو وہ دونوں گھبرا گئے اور آپ کی خدمت میں جلدی سے حاضر ہو کر عرض کرنے لگے: اے اللہ کے رسول ہم نے آپ کے پاس سالن کیلئے بھیجا تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ تم دونو نےسالن کھا لیا ہے ، آخر وہ کونسا سالن ہے جسے ہم لوگوں نے کھا یا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کا گوشت بطور سالن کے استعمال کیا ہے [یعنی تم دونوں نے اسکی غیبت کی ہے ] اس ذات کی قسم جس ہاتھ میں میری جان ہے میں اسکا گوشت ابھی بھی تمہارے دانتوں میں دیکھ رہا ہوں ، یہ سن کر شیخین نے عرض کیا ! اے اللہ کے رسول ہم سے غلطی ہو گئی آپ ہمارے لئے دعائے استغفار کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاو اپنے اس بھائی سے جسکی غیبت کی ہے کہو کہ وہ تمہارے لئے مغفرت کی دعا کرے ۔ [الصحیحہ للالبانی : 2608]

علامہ الالبانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے ،
لیکن انکی یہ بات درست نہیں ،کیونکہ اس روایت کا محفوظ طریق مرسل ہے ،
یعنی صحیح اور ثابت بات یہ ہے کہ یہ روایت صحابی کے واسطہ کے بغیر مرسل مروی ہے ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفصیل درج ذیل ہے ::
ملتقى أهل الحديث > منتدى الدراسات الحديثية
هذا حديثٌ يرويه حماد بن سلمة، واختُلف عنه:
1- فرواه حبان بن هلال، عنه، عن ثابت البناني، عن أنس. قاله عباد بن الوليد أبو بدر الغبري (الخرائطي في مساوئ الأخلاق 180، والضياء في المختارة 1696-1697)
2- وخالفه عفان بن مسلم، فرواه عن حماد، عن ثابت، عن عبد الرحمن بن أبي ليلى مرسلاً. قاله جعفر بن محمد الصائغ (قوام السنة الأصبهاني في الترغيب والترهيب 2231، وأشار إليه الضياء في المختارة عقب الرواية الموصولة).
والمرسل هو الأشبه بالصواب.
@ وقد رواه أبو الشيخ الأصبهاني في التوبيخ والتنبيه (249) مِن رواية أسباط، عن السدي قال: "زُعِمَ أن سلمان كان مع رجلين مِن أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم" فذكره، مرسلاً.
@ وقد ذكره الحكيم الترمذي في نوادر الأصول (1/283) بلا إسنادٍ عن يحيى بن أبي كثير مرسلاً.

قلتُ: فالحديث ليس صحيحاً ولا يثبت. والألباني رحمه الله نظر إلى ظاهر الإسناد فقال (الصحيحة 2608): ((وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم غير أبي بدر الغبري، قال أبو حاتم وتبعه الحافظ: "صدوق". وذكره ابن حبان في الثقات. وروى عنه جمع من الحفاظ الثقات)). اهـ قلتُ: بل الذي قال عنه صدوقٌ إنما هو ابن أبي حاتم، وأمَّا أبو حاتم فقال عنه: "شيخ". وهذا مذكورٌ في ذات الموضع مِن ترجمة الغبري في الجرح والتعديل، فقد قال ابن أبي حاتم: ((سمعتُ مِنه مع أبي، وهو صدوق. نا عبد الرحمن قال: سئل أبي عنه، فقال: شيخ)). اهـ

وعِلَّة هذا الحديث أنَّ أبا بدر الغبري لَزِمَ الطريقَ وسَلَكَ الجادَّةَ فأسنده عن ثابت عن أنس، فخالَفَ مَن هو أوثق منه وهو عفان بن مسلم إذ رواه عن ثابت عن عبد الرحمن بن أبي ليلى مرسلاً، فأُعِلَّت روايته. ومع ذلك يقول الألباني رحمه الله في رواية أبي بدر الغبري لهذا الحديث: ((وقد توبع، فقال الضياء عقبه: "وقد رواه عفان بن مسلم عن حماد بن سلمة عن ثابت عن عبد الرحمن بن أبي ليلى: أن العرب كانت تخدم بعضهم بعضا في الأسفار. فذكره)). اهـ قلتُ: وهذه هفوةٌ مِن الشيخ غفر الله له، إذ كيف تكون المخالفةُ متابعةً!! بل رواية عفان تُعِلُّ رواية الغبري لا أنها تقويها.

والله أعلى وأعلم
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
یہ واقعہ امام أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (المتوفى: 643 ھ) نے اپنی کتاب ’’ الاحادیث المختارہ ‘‘ میں درج ذیل الفاظ سے نقل کیا ہے ،

وأخبرنا أبو الضوء شهاب بن محمود بن أبي الحسن الحاتمي بهراة أن عبد السلام بن أحمد بن إسماعيل بن محمد أخبرهم أنا أبو عبد الله محمد بن أبي مسعود الفارسي أنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي شريح أنا أبو محمد يحيى بن محمد بن صاعد نا أبو بدر عباد بن الوليد الغبري نا حبان بن هلال نا حماد بن سلمة عن ثابت البناني عن أنس بن مالك قال كانت العرب تخدم بعضها بعضا في الأسفار وكان مع أبي بكر وعمر رجل يخدمهما فناما فاستيقظا ولم يهيء لهما طعاما فقال أحدهما لصاحبه إن هذا ليوائم نوم نبيكم صلى الله عليه وسلم (فَقَالا إِنْ هَذَا لَيُوَائِمُ نَوْمَ بَيْتِكُمْ)
فأيقظاه فقالا ائت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقل له إن أبا بكر وعمر يقرئانك السلام وهما يستأدمانك فقال أقرأهما للسلام وأخبرهما أنهما قد ائتدما ففزعا فجاءا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالا يا رسول الله بعثنا إليك نستأدمك فقلت قد ائتدما فبأي شيء ائتدمنا قال بلحم أخيكما والذي نفسي بيده إني لأرى لحمه بين أنيابكما قالا فاستغفر لنا قال هو فليستغفر لكما ‘‘

ترجمہ :
خادم رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل عرب کا یہ دستور تھا کہ سفر میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے اور ان دونوں بزرگوں نے اپنی خدمت کیلئے ایک شخص کو ساتھ لے رکھا تھا ، راستے میں کسی جگہ پڑاو ڈالا گیا ، جہاں حضرات شیخین آرام کر نے کیلئے لیٹے اور سو گئے ، امید تھی کہ جب بیدار ہونگے تو کھانا تیار رہے گا ، لیکن ہوا یہ کہ خادم بھی آرام کیلئے لیٹا اور آنکھ لگ گئ ، جب شیخین بیدار ہوئے تو دیکھا کہ خادم نے کھانا تیار نہیں کیا ہے بلکہ وہ بے خبر سورہا ہے ، یہ دیکھ کر ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا ، یہ تو ایسا سورہا ہے جیسے کوئی اپنے گھر پر اطمینان سے سوتا ہے چناچہ اسے بیدار کیا اور کہا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر ان سے ہمارا سلام کہو اور عرض کرو کہ ابو بکر وعمر سالن طلب کر رہے ہیں ، وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاکر عرضی پیش کرتا ہے تو آپ نے فرمایا : جاو ان دونوں سے میرا سلام کہو اور بتلادو کہ تم دونوں نے سالن کھا لیا ہے ، خادم نے جب آکر شیخین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنایا تو وہ دونوں گھبرا گئے اور آپ کی خدمت میں جلدی سے حاضر ہو کر عرض کرنے لگے: اے اللہ کے رسول ہم نے آپ کے پاس سالن کیلئے بھیجا تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ تم دونو نےسالن کھا لیا ہے ، آخر وہ کونسا سالن ہے جسے ہم لوگوں نے کھا یا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کا گوشت بطور سالن کے استعمال کیا ہے [یعنی تم دونوں نے اسکی غیبت کی ہے ] اس ذات کی قسم جس ہاتھ میں میری جان ہے میں اسکا گوشت ابھی بھی تمہارے دانتوں میں دیکھ رہا ہوں ، یہ سن کر شیخین نے عرض کیا ! اے اللہ کے رسول ہم سے غلطی ہو گئی آپ ہمارے لئے دعائے استغفار کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاو اپنے اس بھائی سے جسکی غیبت کی ہے کہو کہ وہ تمہارے لئے مغفرت کی دعا کرے ۔ [الصحیحہ للالبانی : 2608]

علامہ الالبانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے ،
لیکن انکی یہ بات درست نہیں ،کیونکہ اس روایت کا محفوظ طریق مرسل ہے ،
یعنی صحیح اور ثابت بات یہ ہے کہ یہ روایت صحابی کے واسطہ کے بغیر مرسل مروی ہے ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفصیل درج ذیل ہے ::
ملتقى أهل الحديث > منتدى الدراسات الحديثية
هذا حديثٌ يرويه حماد بن سلمة، واختُلف عنه:
1- فرواه حبان بن هلال، عنه، عن ثابت البناني، عن أنس. قاله عباد بن الوليد أبو بدر الغبري (الخرائطي في مساوئ الأخلاق 180، والضياء في المختارة 1696-1697)
2- وخالفه عفان بن مسلم، فرواه عن حماد، عن ثابت، عن عبد الرحمن بن أبي ليلى مرسلاً. قاله جعفر بن محمد الصائغ (قوام السنة الأصبهاني في الترغيب والترهيب 2231، وأشار إليه الضياء في المختارة عقب الرواية الموصولة).
والمرسل هو الأشبه بالصواب.
@ وقد رواه أبو الشيخ الأصبهاني في التوبيخ والتنبيه (249) مِن رواية أسباط، عن السدي قال: "زُعِمَ أن سلمان كان مع رجلين مِن أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم" فذكره، مرسلاً.
@ وقد ذكره الحكيم الترمذي في نوادر الأصول (1/283) بلا إسنادٍ عن يحيى بن أبي كثير مرسلاً.

قلتُ: فالحديث ليس صحيحاً ولا يثبت. والألباني رحمه الله نظر إلى ظاهر الإسناد فقال (الصحيحة 2608): ((وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم غير أبي بدر الغبري، قال أبو حاتم وتبعه الحافظ: "صدوق". وذكره ابن حبان في الثقات. وروى عنه جمع من الحفاظ الثقات)). اهـ قلتُ: بل الذي قال عنه صدوقٌ إنما هو ابن أبي حاتم، وأمَّا أبو حاتم فقال عنه: "شيخ". وهذا مذكورٌ في ذات الموضع مِن ترجمة الغبري في الجرح والتعديل، فقد قال ابن أبي حاتم: ((سمعتُ مِنه مع أبي، وهو صدوق. نا عبد الرحمن قال: سئل أبي عنه، فقال: شيخ)). اهـ

وعِلَّة هذا الحديث أنَّ أبا بدر الغبري لَزِمَ الطريقَ وسَلَكَ الجادَّةَ فأسنده عن ثابت عن أنس، فخالَفَ مَن هو أوثق منه وهو عفان بن مسلم إذ رواه عن ثابت عن عبد الرحمن بن أبي ليلى مرسلاً، فأُعِلَّت روايته. ومع ذلك يقول الألباني رحمه الله في رواية أبي بدر الغبري لهذا الحديث: ((وقد توبع، فقال الضياء عقبه: "وقد رواه عفان بن مسلم عن حماد بن سلمة عن ثابت عن عبد الرحمن بن أبي ليلى: أن العرب كانت تخدم بعضهم بعضا في الأسفار. فذكره)). اهـ قلتُ: وهذه هفوةٌ مِن الشيخ غفر الله له، إذ كيف تكون المخالفةُ متابعةً!! بل رواية عفان تُعِلُّ رواية الغبري لا أنها تقويها.

والله أعلى وأعلم
جزاك الله خيراً يا شيخُ مُحَدِّثي العصر
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جزاك الله خيراً يا شيخُ مُحَدِّثي العصر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
دعائے خیر کیلئے بہت شکریہ، اللہ تعالی آپ کو بھی جزاءِ خیر سے نوازے ، رب آپ کو سلامت رکھے ، آمین
لیکن میں عام مسلمان ہوں ، وہ بھی محض اللہ کے کرم سے ،
آپ نے مجھ فقیر کو محدثین عصر کا شیخ بنادیا، حال آنکہ بندہ علم کا طالب ہے ،
ہم صرف محدثین کی کتب اگر پڑھ ، سمجھ لیں تو یہ بھی بہت بڑی بات ہے،
بس دعاء کیا کریں کہ اللہ رب العزت محدثین کے منہج و عقیدہ پر قائم رکھے ،
اور ہمیں قرآن و حدیث کا حقیقی فہم عطا فرمائے ۔آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
دعائے خیر کیلئے بہت شکریہ، اللہ تعالی آپ کو بھی جزاءِ خیر سے نوازے ، رب آپ کو سلامت رکھے ، آمین
لیکن میں عام مسلمان ہوں ، وہ بھی محض اللہ کے کرم سے ،
آپ نے مجھ فقیر کو محدثین عصر کا شیخ بنادیا، حال آنکہ بندہ علم کا طالب ہے ،
ہم صرف محدثین کی کتب اگر پڑھ ، سمجھ لیں تو یہ بھی بہت بڑی بات ہے،
بس دعاء کیا کریں کہ اللہ رب العزت محدثین کے منہج و عقیدہ پر قائم رکھے ،
اور ہمیں قرآن و حدیث کا حقیقی فہم عطا فرمائے ۔آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمين يارب العالمين
ہم آپ سے مل تو نہیں سکے اس لیے آپ سے عقیدت ومحبت کرتے ہیں اور آپ کو دل سے دعائیں دیتے ہیں۔
 
Top