• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیراللہ کی پکار لگانے والوں سے جنگ و جدال کے لئے مدد طلب کرنا کیسا ہے؟

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

عصر حاضر کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس میں اس وقت تقریبا ہر شخص ہی مبتلا ہے۔ اس مسئلے کی سنگینی اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب اہل ایمان میں سے کوئی شخص اس سے دوچار ہوتا ہے۔
اور وہ مسئلہ ہے
غیراللہ کی پکار لگانے والوں سے جنگ و جدال کے لئے مدد طلب کرنا کیسا ہے؟

جہاں یہ ایک نیا مسئلہ ہے وہیں اجتہادی بھی ہے۔

اوپن فورم پر لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت کم و بیش ہر شخص اس مسئلے میں الجھن کا شکار ہے۔ چنانچہ اس مسئلے پر کھل کر بات کرنے سے زیادہ فوائد حاصل ہونے کی توقع ہے۔

یہ مسئلہ نیا اس لئے ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں، قرونِ اولیٰ کے دور میں یہ مسئلہ ایسے نہیں تھا جیسا کہ ہمارے دَور میں ہے۔ یعنی ایک طرف ایک شخص ‘‘یاعلی مدد’’ کے نعرے لگاتا ہے، کوئی ‘‘یاغوث’’ کے نعرے لگاتا ہے، کوئی‘‘یاپیر دستگر’’ کے نعرے لگاتا ہے وغیرہ وغیرہ اور وہی شخص مخصوص اداروں کا سربراہ بھی ہے جن کے ہاتھ میں طاقت و قوت ہے۔ کچھ ایسا ہی حال ان حکمرانوں کا بھی ہے جو غیراللہ کی پکار بھی لگاتے ہیں اور ایسے لوگوں کی کھلے عام سرپرستی بھی کرتے ہیں۔ لیکن وہ حاکم وقت بھی ہیں اس لئے اقتدار کی تمام تر طاقت و قوت ان کے قبضے میں ہے۔ حالانکہ خیر القرون میں یہ صورتِ حال نہ تھی۔

یہ مسئلہ اجتہادی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ تو غیراللہ سے پکار لگانے والوں سے جنگ و جدال کے لئے مدد طلب کرنے کو کچھ دنیاوی وجوہات کی بنیاد پر ناگزیر خیال کرتے ہوئے اس پر عمل کرتے ہیں اور کچھ لوگ اس سے کلیۃ بیزار ہیں۔ اور اس کے پاس جو دلائل ہیں جن کا جواب عام طور پر وہ لوگ ارشاد نہیں فرماتے جو ایسی مدد کو ناگزیر خیال کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ مسئلہ اجتہادی نوعیت کا ہے۔

فورم پر میرے جیسے عامی انسان سے لے کر بڑے بڑے بزرگ مفتیانِ کرام موجود ہیں۔ اور صرف ایک ہی مسلک کے ماننے والے نہیں بلکہ مختلف مسالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا اس مسئلے پر کھلے عام بحث میں ممکن ہے کہ کوئی متفقہ اور مدلل فیصلہ سامنے آ سکے۔
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
یہ تو بہت پیچیدہ مسلہ ہے۔
اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ جیسے آج کل تحویل ملزمان کا معاہدہ ہوتا ہے دو ممالک میں تو کیا یہ معاہدہ درست ہے اگر کسی مسلمان چور کو غیر مسلم حکومت کے حوالے کرنا پڑے تو کر سکتے ہیں؟
اس کے لئے تو ایک دو نہیں بلکہ تمام علماء کرام کو میدان میں آنا چاہئے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
میرے خیال میں تو یہ مسئلہ قرون اولیٰ بھی موجود ہے - حضرت علی رضی الله عنہ کے دور خلافت میں بھی بنو حنفیہ قبیلے کے لوگوں نے ان کو رب کا درجہ دے دیا تھا -جس پر حضرت علی رضی الله عنہ ان کے خلاف کا روائی کرتے ہوے ان کے مردوں اور عورتوں کو زندہ جلوہ دیا تھا -اگرچہ بعد میں حضرت عبّاس رضی الله عنہ کی سرزش پر انہوں نے اپنے اس اقدام سے رجوع بھی کر لیا تھا - کہ ان کے خلاف تلوار سے قتل کرنا چاہیے تھا - اسی طرح حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کے دور خلافت میں عرب کے کچھ قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا توانھوں نے ان مرتدین زکوٰۃ کے خلاف قتال کیا -اگرچہ وہ سب کلمہ گو لوگ تھے-

لیکن یہاں یہ اشکال باقی ہے کہ عام عوام جن میں بدعتی اور مشرک لوگ بھی شامل ہیں ان کے خلاف کروائی کون کرے- کیوں کہ قرون اولیٰ کے حکمران بہر حال مسلمان تھے اور کاروائی خلیفہ وقت کی طرف سے ہی ہوئیں - لیکن جب حکمران بذات خود قرانی نص کافرقرار پا چکا ہو (جیسا کہ ہمارے دور کے حکمران ہیں) تو پہلے اس کو معزول کرنا اور اس کے خلاف بغاوت کرنا ہرشخص پر واجب ہو جاتا ہے - اور میرے خیال سے مسلمان خلیفہ وقت ہی اس بات کا فیصلہ کرے کہ ان بدعتی اور مشرک عوام کو کیا سزا دی جانی چاہیے (واللہ عالم) -
 
شمولیت
اگست 15، 2013
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
130
پوائنٹ
21
جواد بھائی بنو حنفیہ قبیلے کے لوگ تو قتل اس پاداش میں زندہ جلائے گئے یا قتل قتل کئے گئے جیسا کہ آپ نے خود تحریر کیا ہے۔ مسئلے کی نوعیت یہ نہیں ہے بلکہ مسئلے کی نوعیت یہ ہے کہ
غیراللہ کی پکار لگانے والوں سے جنگ و جدال کے لئے مدد طلب کرنا کیسا ہے؟
اسی طرح مانعین زکوۃ کا معاملہ بھی نفس مضمون سے میل نہیں کھاتا۔ کیونکہ وہ اپنے کبیرہ گناہ کی سزا کے طور پر قتل کئے گئے۔
یہاں اس مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ
غیراللہ کی پکار لگانے والوں سے جنگ و جدال کے لئے مدد طلب کرنا کیسا ہے؟
کیا یہ ٹھیک ہے؟
کیا ضرورت کے وقت ایسا کیا جا سکتا ہے؟
کیا یہ بالکل غلط ہے؟
کیا ایسا کرنے والے گناہ کے یا ثواب کے مرتکب ہیں؟
اسے اختیار کرنے اور اختیار نہ کرنے کی مصلحت کیا ہے؟
صحابہ کرام اور قرون اولی کے لوگوں کا اس کے متعلق کیا عمل و کردار ہے؟
 
Top