• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیرمسلم تہوار کی مٹھائی : تجزیاتی تحریر

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہے کہ کفار کے تہوار پہ مبارک باد دینا جائز نہیں ہے ، ان کے تہوار پہ خود تحفہ دنیا چائز نہیں ہے ، ان کے تہوار میں کسی کفر وشرک والے کام پر تعاون کرنا چائز نہیں ہے اوران کے تہوار میں استعمال ہونے والی مخصوص مذہبی اشیاء کی تجارت جائز نہیں ہے ۔
ان چیزوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔
1۔ تہوار پر مبارک باد دینا:
آج کے دور میں یہ دوسرے ادیان والوں کو قریب لانے میں بعض اوقات بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال کینیڈا کے موجودہ وزیر اعظم ہیں جو کافر ہونے کے باوجود مسلمانوں کے معاملات میں بڑھ چڑھ کر آگے رہتے ہیں۔ اس سے ان کا جو امیج ہے وہ سب ہی جانتے ہیں۔ وہ تو عیسائی ہیں لیکن بطور مسلمان ایسا امیج بنا کر ہم اطمینان سے دین کی تبلیغ بھی کر سکتے ہیں اور افہام و تفہیم کا موقع بھی ملتا ہے۔
ماضی کے علماء اور فقہاء نے جو اس سلسلے میں منع کیا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں یہ کفار کی شان و شوکت سمجھی جاتی تھی کہ مسلمانوں جیسی غالب اور مضبوط قوم ان کے تہوار پر انہیں مبارک باد دے رہی ہے۔ اس سے لوگ اسلام سے دور ہٹتے تھے۔ آج کے دور میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہو چکا ہے۔ آج مبارک باد نہ دینا تنافر پیدا کرتا ہے اور یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان تنگ نظر اور شدت پسند ہیں۔ اس سے لوگ اسلام سے زیادہ دور بھاگتے ہیں۔
یہ تو ان تہواروں کا معاملہ ہے جن کی مبارک باد رواج نہیں بنی۔ کرسمس اور اس جیسے جو تہوار ہیں جن کی مبارک باد ایک رسم اور رواج رہ گئی ہے، یعنی جو ان دنوں میں دوسرے سے ملتا ہے وہ ہیپی کرسمس کہہ دیتا ہے، نہ یہ کہنے والے کے دل میں اس سے کرسمس کی عظمت بڑھتی ہے اور نہ سننے والے کے۔ اس کی واضح مثال کاروباری معاملات میں سامنے آتی ہے جب میل وغیرہ کے شروع میں کرسمس یا عید کی مبارکباد لکھی جاتی ہے۔ ان تہواروں میں تو مبارک باد کی قباحت اور کم ہونی چاہیے۔
2۔ مذہبی اشیاء کی تجارت:
جس چیز کی تجارت بذات خود جائز ہو اور اس کا صحیح استعمال بھی ہو تو اس کی تجارت پر صرف اس وجہ سے قدغن لگانے پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کفار کے تہوار میں استعمال ہوگی۔ البتہ جہاں یقین ہو کہ کفار کے تہوار میں استعمال ہوگی تو سبب بننے کی وجہ سے ممانعت ہونی چاہیے۔
و اللہ اعلم
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
ان چیزوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔
1۔ تہوار پر مبارک باد دینا:
آج کے دور میں یہ دوسرے ادیان والوں کو قریب لانے میں بعض اوقات بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال کینیڈا کے موجودہ وزیر اعظم ہیں جو کافر ہونے کے باوجود مسلمانوں کے معاملات میں بڑھ چڑھ کر آگے رہتے ہیں۔ اس سے ان کا جو امیج ہے وہ سب ہی جانتے ہیں۔ وہ تو عیسائی ہیں لیکن بطور مسلمان ایسا امیج بنا کر ہم اطمینان سے دین کی تبلیغ بھی کر سکتے ہیں اور افہام و تفہیم کا موقع بھی ملتا ہے۔
ماضی کے علماء اور فقہاء نے جو اس سلسلے میں منع کیا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں یہ کفار کی شان و شوکت سمجھی جاتی تھی کہ مسلمانوں جیسی غالب اور مضبوط قوم ان کے تہوار پر انہیں مبارک باد دے رہی ہے۔ اس سے لوگ اسلام سے دور ہٹتے تھے۔ آج کے دور میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہو چکا ہے۔ آج مبارک باد نہ دینا تنافر پیدا کرتا ہے اور یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان تنگ نظر اور شدت پسند ہیں۔ اس سے لوگ اسلام سے زیادہ دور بھاگتے ہیں۔
یہ تو ان تہواروں کا معاملہ ہے جن کی مبارک باد رواج نہیں بنی۔ کرسمس اور اس جیسے جو تہوار ہیں جن کی مبارک باد ایک رسم اور رواج رہ گئی ہے، یعنی جو ان دنوں میں دوسرے سے ملتا ہے وہ ہیپی کرسمس کہہ دیتا ہے، نہ یہ کہنے والے کے دل میں اس سے کرسمس کی عظمت بڑھتی ہے اور نہ سننے والے کے۔ اس کی واضح مثال کاروباری معاملات میں سامنے آتی ہے جب میل وغیرہ کے شروع میں کرسمس یا عید کی مبارکباد لکھی جاتی ہے۔ ان تہواروں میں تو مبارک باد کی قباحت اور کم ہونی چاہیے۔
2۔ مذہبی اشیاء کی تجارت:
جس چیز کی تجارت بذات خود جائز ہو اور اس کا صحیح استعمال بھی ہو تو اس کی تجارت پر صرف اس وجہ سے قدغن لگانے پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کفار کے تہوار میں استعمال ہوگی۔ البتہ جہاں یقین ہو کہ کفار کے تہوار میں استعمال ہوگی تو سبب بننے کی وجہ سے ممانعت ہونی چاہیے۔
و اللہ اعلم
آپ کی ان دونوں باتوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، میں نےانہیں باتوں کو اختصار میں کہاہے جو اقتباس آپ نے ذکر کیا ہے۔
 
Top