• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیرمسلم تہوار کی مٹھائی : تجزیاتی تحریر

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
غیرمسلم سے اس کے تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق علماء کے دو نظرئے سامنے آتے ہیں ۔
(1) ایک نظریہ تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس موقع سے ہدیہ قبول کرنا اس کے تہوار میں تعاون ہوگا۔
(2) دوسرےنظریہ کے حساب سے کفار کی طرف سے ان کی عید کی مناسبت سے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے ۔

پہلے نظریہ کے حاملین عمومی دلائل پیش کرتے ہیں جن میں کفر و شرک پر تعاون پیش کرنے کی ممانعت آئی ہے ۔
یہ اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ کفاراپنے تہوار پہ اکثر غیراللہ کی عبادت بجالاتے ہیں ، ہم مسلمانوں کو ان کے کسی ایسے تہوار پر تعاون نہیں پیش کرنا چاہئے جس میں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بطور پڑوسی اور میل جول کی وجہ سے اگر کوئی ایساہدیہ پیش کرے جوغیراللہ پہ نہ چڑھایاگیا ہواور نہ ہی وہ ہدیہ شرعا حرام ہو تو اس کے قبول کرنے میں میری نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے ۔ یہ احسان وسلوک کے درجہ میں ہوگا۔ اور اس کا حکم عام ہدیہ کی طرح ہوگا جس کی قبولیت کا ثبوت ملتا ہے البتہ جومٹھائیاں مسلمانوں کی تضحیک ورسوائی ، ان کو نیچا دکھانے ، یا کسی طرح اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے تقسیم کرے تو اسے قبول نہیں جائے ، اس میں سراسراسلام اور مسلمانوں کی توہین ہے مثلا
٭ راستے میں تہوار کی نسبت سے تقسیم ہونے والی مٹھائی قبول نہ کی جائے ۔
٭ محفل قائم کرکے مسلمانوں کے نام پر یا عام محفل میں تقسیم ہونے والی مٹھائی اور ہدئے قبول نہ کئے جائیں ۔
٭بلاپہچان گھر آنے والی مٹھائی بھی تسلیم نہ کی جائے ۔
٭ اسلام اور مسلمانوں کو برابھلاکہنے والے کافر سے بھی مٹھائی قبول نہ جائے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کا رشتہ رکھاجائے ۔
٭ ہندؤں کے ساتھ بیٹھ کر ایک جگہ مسلمانوں کو مٹھائی نہیں کھانی چاہئے ۔
٭جو اہانت وحقارت سے مٹھائی پیش کرے اس کی مٹھائی بھی قبول نہ کی جائے ۔
غیرمسلم تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق بعض آثار ملتے ہیں جنہیں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں ذکر کیا ہے ۔
ان میں سے ایک یہ ہے ۔
حدثنا جرير ، عن قابوس ، عن أبيه ؛ أن امرأة سألت عائشة قالت : إن لنا أظآرا من المجوس ، وإنه يكون لهم العيد فيهدون لنا ؟ فقالت : أما ما ذبح لذلك اليوم فلا تأكلوا ، ولكن كلوا من أشجارهم۔
ترجمہ:قابوس بن ابی ظبیان اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہوئے کہا: ہماری کچھ مجوسی پڑوسن ہیں ، اوران کے تیوہار کے دن ہوتے ہیں جن میں وہ ہمیں ہدیہ دیتے ہیں ، اس کا کیا حکم ہے؟ تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اس دن جو چیز ذبح کی جائے اسے نہ کھاؤ ، لیکن ان کی طرف سے سزی اور پھل کی شکل میں جو ملے اسے کھالو۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 87]
اس کی سند میں موجود قابوس بن ابی ظبیان پر ضعف کا حکم لگایا جاتا ہے جبکہ اسے کئی محدثین نے قابل حجت قرار دیا ہے ۔
(1) امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اس کی توثیق کی ہے۔
(2) ابواحمد بن عدی نے "لاباس بہ" کہکر توثیق کی ہے۔
(3) علامہ ذہبی نے تاریخ الاسلام میں قابوس کو"حَسَنُ الْحَدِيثِ " کہا ہے ۔
(4) احمد بن سعید نے اسے "جائز الحدیث " کہاہے۔
(5) امام طبرانی نے ایک روایت کو جس میں قابوس موجود ہےاسے حسن کہا ہے۔
(6) امام ابن حجر نے اپنی کتاب "الداریہ فی تخریج احادیث الھدایہ" میں ایک روایت کو جس میں قابوس موجود ہے اس سے استدلال کیا ہے ۔
(7) امام ترمذی نے قابوس والی ایک روایت کو حسن کہا ہے ، روایت وحکم دیکھیں :
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا صَاعِدٌ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، أَخْبَرَنَا قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ قَالَ: قُلْنَا لابْنِ عَبَّاسٍ: أَرَأَيْتَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ: {مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ}[الأحزاب: 4] مَا عَنَى بِذَلِكَ؟ قَالَ: قَامَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا يُصَلِّي؛ فَخَطَرَ خَطْرَةً؛ فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ الَّذِينَ يُصَلُّونَ مَعَهُ: أَلاَ تَرَى أَنَّ لَهُ قَلْبَيْنِ، قَلْبًا مَعَكُمْ وَقَلْبًا مَعَهُمْ؟! فَأَنْزَلَ اللَّهُ:{مَاجَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ }[الأحزاب: 4].(ترمذی :3199)
قال ابوعیسی : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
گویا قابوس ترمذی کے نزدیک قابل حجت ہیں۔ ترمذی کی 3927 نمبر کی حدیث میں بھی قابوس موجود ہے، اس روایت کے متعلق امام ترمذی نے صرف قابوس کے والد ابوظبیان کا سلمان فارسی کے زمانہ نہ پانے کی بات ذکرکی ہے ۔
(8) احمد شاکر نے بھی ترمذی والی سند کو صحیح کہا ہے ۔(مسند أحمد: 4/132 )
اسی طرح دوسرا اثر دیکھیں :
حدثنا وكيع ، عن الحسن بن حكيم ، عن أمه ، عن أبي برزة ؛ أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه ۔
ترجمہ:ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے کچھ مجوسی پڑوسی تھے جو انہیں نیروز اور مہرجان کے تیوہاروں میں ہدیہ دیتے تھے ، تو آپ اپنے گھروالوں سے کہتے تھے کہ : میوے کی شکل میں جوچیز ہو اسے کھالو اور اس کے علاوہ جو ہو اسے لوٹادو[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 88]
اس میں حسن بن حکیم ثقفی کی ماں جوکہ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے مولاۃ ہیں کا حال نامعلوم ہے۔ یہ اثر ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہے ۔
حدثنا وكيع عن الحكم بن حكيم عن ابيه عن أبي برزة :أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه ۔ (اعلام السنن 12/706 علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی)
مجہول الحال کی روایت متابعات و شواہد میں قابل قبول ہے ۔
تہوار پہ غیرمسلم سے ہدیہ قبول کرنے سے متعلق شیخ الاسلام کے علاوہ امام احمد بن حنبل اور سعودی عرب کے مشہور شیخ محمد بن صالح المنجد کی یہی رائے ہے ۔
ہندوستان والوں کو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں ہندؤں کی اکثریت کی بناپر مسلمانوں کے ہزاروں قسم کے معاملات ہندؤں سے وابستہ ہیں، بلکہ کثیر تعداد میں مسلمانوں کے دوست واحباب ہندو ہیں ۔ کافروں سے دوستی اسلام میں جائز نہیں ہے لیکن دینی غرض سے کافروں سے تعلق رکھنا جائز ہے ۔ ایسے ماحول میں کافروں سے سارے معاملات کرنا اور خوشی کے موقع پر اپنے ملاقاتی جو اسلام اور مسلمانوں کی قدر کرتاہو تحفہ قبول نہ کرنا اس کے دل میں اسلام کے تئیں تنافر پیدا کرسکتا ہےاور یہ اسلام کے حسن سلوک اور تالیف قلب کے خلاف ہے ۔ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں غیرمسلموں کو دین کی دعوت دینا کتنا دشوارہے ، عید کا موقع ایک سنہرا موقع ہے جب ہم مائل بہ دین اسلام ہندؤں سے حسن سلوک کے ساتھ کچھ کہہ سنا سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی اوپر مذکور میرے چند موانع کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ میں سرے سے کفار کے تہوار پہ مٹھائی اور ہدیہ تسلیم کرنے کا قائل نہیں ہوں تاہم سرے سے انکار بھی نہیں کرسکتا۔

مقبول احمد سلفی
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
ایک بھائی نے فیس بوک گروپ میں اس پوسٹ پر اپنے کچھ احساسات قلمبند کئے ہیں، احباب کی اطلاع اور گفت وشنید کے لئے یہاں شیئر کیا جاتا ہے ۔

بڑی اچھی بات پہ توجہ مرکوز کی آپ نے ، یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں جتنا کہ ہمارے درمیان مشکل بنادیا گیاہے جیساکہ آپ نے بھی دوطرح کےطبقوں کی بات کی ۔ دراصل وہ لوگ جو صرف انسانیت کے حامی ہیں وہ ان باتوں میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے اور جو لوگ پرہیزگار ہیں وہ اتنا پرہیزکرتے ہیں کہ نفرت ظاہر ہونے لگتی ہے جبکہ غیرمسلم کے ساتھ کھانے پینے میں کوئی قباحت نہیں ، بس حرام حلال کا فرق رکھاجائے ۔مگر انسانیت کے علمبرداراسلام کے تقاضوں کو بھی مدنظر نہیں رکھتے جس سے ان مسلموں کے لئے جو شرعی طور پر چلنا چاہتے ہیں ان کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیساکہ میں اپنے ہندو واقف کاروں کو کبھی دیوالی پہ وش نہیں کیا مگر میرے کچھ دوستوں کو مجھ سے اختلاف ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے مجھ سے زیادہ قریب ہوگئے ۔کسی کی قربت حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کے رنگ میں خود کو رنگ دیا جائے جیساکہ دیوالی پہ ہورہاہے آج کل ۔اور مجھے ڈرہے کہ ہم انسانیت کے نام پہ بھٹک جائیں گے ۔ قرآن سے جب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ غیرمسلم تمہارا دوست نہیں ہوسکتا تو اس کا مطلب انسانیت کا زوال نہیں ؟ بات صرف سمجھنے کی ہے ،اللہ پاک فرماتاہے کہ ہم نے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کردیں لیکن عقل رکھنے والا سمجھے گا
۔ (کنی روز-سیالکوٹ پنچاب)

تبصرہ رومن میں تھا میں نے آسانی کے لئے اردو میں کردیا ۔
فیس بوک لنک
 
شمولیت
مئی 16، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
75
غیرمسلم کے ساتھ کھانے پینے میں کوئی قباحت نہیں ، بس حرام حلال کا فرق رکھاجائے
یہ بات درست ہے ۔۔۔کچھ روز قبل ایک صاحب نے ایسا ہی سؤال کیا تھا ۔۔۔تو اس مجلس میں ایک صاحب علم شخص موجود تھے(سید عبدالقیوم غزنوی۔۔یاد رہے کہ موصوف نے 18 سال حضرت حافظ یحییٰ عزیز میرمحمدی صاحب کی معیت میں گزارے ہیں ۔۔۔جو کہ جماعت اہل حدیث کے مایہ ناز عالم و واعظ تھے) تو ان کا جواب بھی یہی تھا۔۔۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
یہ بات درست ہے ۔۔۔کچھ روز قبل ایک صاحب نے ایسا ہی سؤال کیا تھا ۔۔۔تو اس مجلس میں ایک صاحب علم شخص موجود تھے(سید عبدالقیوم غزنوی۔۔یاد رہے کہ موصوف نے 18 سال حضرت حافظ یحییٰ عزیز میرمحمدی صاحب کی معیت میں گزارے ہیں ۔۔۔جو کہ جماعت اہل حدیث کے مایہ ناز عالم و واعظ تھے) تو ان کا جواب بھی یہی تھا۔۔۔
کھانے پینے کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر اس کے خاص مواقع پر کھانا جو شرکیہ ہوں ان کا حکم الگ ہوگا ۔عام کھانے پینے میں بھی کچھ حدود سامنے رکھنے ہوں گے ۔
ہندوستانی ماحول دنیا سے بہت الگ ہے ، یہاں اگر کوئی مسلمان ہندؤں کے درمیان رہتا ہے خاص طور پربازارمیں تو تہوار پہ زبردستی چندہ وصول کیا جاتا ہے اور مٹھائی کھلائی جاتی ہے ، اگر ایسا نہ کرے تو شامت آجائے گی ۔ یہ مسئلہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے قدرے نازک ہے۔
 
شمولیت
مئی 16، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
75
کھانے پینے کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر اس کے خاص مواقع پر کھانا جو شرکیہ ہوں ان کا حکم الگ ہوگا ۔عام کھانے پینے میں بھی کچھ حدود سامنے رکھنے ہوں گے ۔
ہندوستانی ماحول دنیا سے بہت الگ ہے ، یہاں اگر کوئی مسلمان ہندؤں کے درمیان رہتا ہے خاص طور پربازارمیں تو تہوار پہ زبردستی چندہ وصول کیا جاتا ہے اور مٹھائی کھلائی جاتی ہے ، اگر ایسا نہ کرے تو شامت آجائے گی ۔ یہ مسئلہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے قدرے نازک ہے۔
برادر کبیر میرے کہنے کا مطلب بھی ۔۔۔عام کھانے پینے کے حوالہ سے ہے ۔۔وہ اشیاء جو انکی خاص رسومات سے تعلق رکھتی ہیں ۔۔۔ان کا حکم الگ ہے ۔۔۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
اصل میں ہمیں یہاں غیرمسلم کے تہوار کے پس منظر میں بات کرنا ہے خاص طور سے ہندوستانی مسلمانوں کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ۔ اس میں کچھ حصہ لیں اور دیگراراکین سے بھی اس پہ بحث کی گذارش ہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
غیرمسلم تیوہارکی مٹھائی : تجزیاتی تحریر کاجائزہ
از: کفایت اللہ سنابلی
غیرمسلم کے تیوہار پر ہدیہ قبول کرنے سے متعلق بعض آثار ملتے ہیں لیکن یہ سارے آثار ضعیف وغیر ثابت ہیں جیساکہ میں نے اپنے ایک مضمون میں وضاحت کی ہے۔
لیکن حال ہی میں محترم مقبول احمد سلفی صاحب نے ان آثار میں سے دو اثر کو بڑے ہی عجیب وغریب انداز میں صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ذیل میں اس کا جائزہ پیش خدمت ہے:
◼ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کااثر:
حدثنا وكيع ، عن الحسن بن حكيم ، عن أمه ، عن أبي برزة ؛ أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه ۔
ترجمہ:ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے کچھ مجوسی پڑوسی تھے جو انہیں نیروز اور مہرجان کے تیوہاروں میں ہدیہ دیتے تھے ، تو آپ اپنے گھروالوں سے کہتے تھے کہ : میوے کی شکل میں جوچیز ہو اسے کھالو اور اس کے علاوہ جو ہو اسے لوٹادو[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 88]
اس سند میں حسن بن حکیم کی والدہ ہیں ان کی کوئی توثیق کہیں نہیں ملتی حتی کی ان کے نام تک کی صراحت مجھے کہیں نہیں مل سکی ۔اب جس کی توثیق تو درکنار اس کا نام تک معلوم نہ ہوسکے اس کی روایت کو کیونکر صحیح کہا جاسکتاہے! لیکن مقبول احمد سلفی صاحب لکھتے ہیں:
⬅ ’’اس میں حسن بن حکیم ثقفی کی ماں جوکہ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے مولاۃ ہیں کا حال نامعلوم ہے۔ یہ اثر ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہے۔
حدثنا وكيع عن الحكم بن حكيم عن ابيه عن أبي برزة :أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه ۔ (اعلام السنن 12/706 علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی)مجہول الحال کی روایت متابعات و شواہد میں قابل قبول ہے ۔‘‘
⬅ یہاں مقبول سلفی صاحب نے مشہور دیوبندی عالم ظفر تھانوی صاحب کی کتاب سے یہی روایت نقل کرکے اسے دوسرا طریق بتا دیا !!! علم حدیث کا معمولی طالب علم بھی یہ پڑھ کرحیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ ظفر تھانوی صاحب نے بھی اس روایت کو مذکورہ سند ہی سے ذکرکیا اور ابن ابی شیبہ ہی کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔پھر یہ دوسرا طریق کیسے ہوگیا ؟
غور کریں سند بھی ایک ، کتاب بھی ایک ، پھر دوسرا طریق کیسے ؟
⬅ واضح رہے کہ ظفر تھانوی صاحب کی جس عبارت سے مقبول سلفی صاحب نے حوالہ پیش کیا ہے وہ اصل میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام ہے جسے تھانوی صاحب نے اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ سے نقل کردیاہے۔اورابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
ظفر تھانوی صاحب نے نقل میں غلطی کی یا کاتب نے غلطی کی اور سند کے اندر ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے نیچے (عن ابیہ) لکھ دیا جبکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصل کتاب میں (عن امہ) ہے دیکھئے : (اقتضاء الصراط المستقیم ص:120 مطبوعہ المطبعۃ الشرفیۃ ، الطبعۃ الاولی)۔اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی (عن امہ) ہے۔ دیکھئے: ( مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 88 )
⬅ نیز سند میں وکیع کے شیخ کی جگہ الحکم بن حکیم لکھا ہوا ہے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصل کتاب میں بھی ایسے ہی ہے اوریہیں پر ناسخ سے غلطی ہوئی ہے کیونکہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ کی اصل کتاب مصنف میں وکیع کے شیخ کانام پوری صراحت سے الحسن بن حكيم ہی لکھا ہواہے۔ اور اس اثر کے لئے مصنف ابن ابی شیبہ میں کوئی دوسرا طریق ہے ہی نہیں ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اقتضاء الصراط کے ناسخ نے غلطی سے نام غلط درج کردیا ہے ۔ چناں چہ اقتضاء الصراط کے محقق نسخے میں اس کی اصلاح کردی گئی اور محقق نے اصل کتاب میں اس غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے صحیح نام الحسن بن حكيم ہی درج کیا ہے اور حاشیہ میں لکھا:
في المطبوعة: الحكم، وهو خطأ، والصواب هو: الحسن بن حكيم بن طهمان أبو حكيم
یعنی (قدیم) مطبوعہ نسخے میں یہاں حکم لکھا ہے جو غلط ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ الحسن بن حكيم بن طهمان أبو حكيم ہے(اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم 2/ 52)
⏺ اس تفصیل سے واضح ہوگا کہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اثر کی صرف اور صرف ایک ہی سند ہے اور یہی سند ظفر تھانوی صاحب کی کتاب میں بھی درج ہے لیکن بعض راویوں کے نام میں کتابت کی غلطی ہے ۔اس حقیقت سے غافل ہو کر مقبول سلفی صاحب نے اسے دوسرا طریق سمجھ لیا جو سخت حیرت کا باعث ہے کیونکہ اس طرح کی غلطیوں پر علم حدیث کا معمولی طالب علم بھی آگاہ ہوجاتا ہے ۔
الغرض جب واضح ہوگیا کہ اس کی صرف اور صرف ایک ہی سند ہے جو ضعیف ہے تو پھر متابع اور شاہد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
◼ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کااثر:
حدثنا جریر ، عن قابوس ، عن أبیہ ؛ أن امرأۃ سألت عائشۃ قالت: إن لنا أظآرا من المجوس ، وإنہ یکون لہم العید فیہدون لنا ؟ فقالت: أما ما ذبح لذلک الیوم فلا تأکلوا ، ولکن کلوا من أشجارہم۔
قابوس بن ابی ظبیان اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا۔ اس نے کہا کہ: ہماری کچھ مجوسی پڑوسن ہیں ، اوران کے تیوہار کے دن ہوتے ہیں جن میں وہ ہمیں ہدیہ دیتے ہیں ، اس کا کیا حکم ہے؟ تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:اس دن جو چیز ذبح کی جائے اسے نہ کھاؤ ، لیکن ان کی طرف سے سبزی اور پھل کی شکل میں جو ملے اسے کھالو۔(مصنف ابن أبی شیبۃ: سلفیۃ:۸؍۸۷)
⏺ ہم نے اس سند کو ضعیف لکھا تھا کیونکہ قابوس ضعیف ہے ، نیز جریر نے صراحت کردی ہے کہ انہوں نے قابوس سے جب سنا تھا تو اس وقت قابوس کا حافظہ فاسد تھا۔اس لئے اس اثر کے ضعیف ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا لیکن مقبول سلفی صاحب نے جریر کے صریح بیان کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اس مردود اثر کو صحیح ثابت کرنے کے لئے صرف یہ کیا کہ بعض اہل علم سے قابوس کی توثیق نقل کردی جبکہ ہم نے اپنے مضمون میں خود یہ لکھ رکھا تھا کہ بعض محدثین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن اس کا ضعیف ہونا ہی راجح ہے ، اس لئے محض بعض محدثین سے اس کی توثیق نقل کردینا کہاں کا انصاف ہے ؟ مقبول سلفی صاحب نے قابوس کی توثیق ثابت کرنے کے لئے کل آٹھ حوالے دئے ہیں ان کاجائزہ پیش خدمت ہے:
پہلا حوالہ ابن معین رحمہ اللہ کا دیا گیا ہے حالانکہ ابن معین رحمہ اللہ نے اس راوی کو ضعیف الحدیث بھی کہا ہے دیکھئے [العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 3/ 29]
لہٰذا توثیق میں ان کا حوالہ ساقط ہے اور تطبیق دیں تو کہہ سکتے ہیں کہ توثیق دینداری کے لحاظ سے ہے اور تضعیف حافظہ کے لحاظ سےہے۔
دوسرا حوالہ امام ابن عدی کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے "لاباس بہ" کہہ کر توثیق کی ہے۔
عرض کہ امام ابن عدی کے الفاظ’’وأرجو انه لا بأس به ‘‘ ہیں دیکھیں: [الكامل لابن عدي ت عادل وعلي: 7/ 176]
اور اس صیغے سے امام ابن عدی ہرجگہ توثیق نہیں کرتے بلکہ کبھی کبھی جن کو وہ ضعیف مانتے ہیں ان کے لئے بھی وہ الفاظ بول دیتے ہیں اور ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی حدیث لکھی جائے گی چنانچہ ایک راوی کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وأرجو أنه لا بأس به، وهو من جملة الضعفاء الذين يكتب حديثهم[الكامل لابن عدي ت عادل وعلي: 2/ 219]
تیسرا حوالہ امام ذہبی رحمہ اللہ کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب تاریخ اسلام میں اسے حسن الحدیث کہا ہے ۔
عرض ہے کہ امام ذہبی نے تاریخ اسلام میں اس راوی کے ترجمہ میں نہیں بلکہ ایک دوسری جگہ اسے حسن الحدیث کہا ہے اورحاشیہ میں محقق دکتور بشار عواد نے امام ذہبی رحمہ اللہ کی تردید کردی ہے دیکھئے: [تاريخ الإسلام ت بشار 2/ 400]۔
دوسری طرف تاریخ اسلام میں جہاں امام ذہبی نے اس راوی کا ترجمہ پیش کیا ہے وہاں صرف اس پر جرح ہی نقل کی ہے اور کسی ایک بھی امام کی توثیق نقل نہیں کی ہے اور انہ ہی اسے خود اسے حسن الحدیث کہاہے دیکھیں:[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 952]۔
بلکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی ایک دوسری کتاب میں پوری صراحت کے ساتھ اسے ضعیف قراردیتے ہوئے لکھا ہے:
قابوس بن أبي ظبيان ضعيف ، یعنی قابوس بن ابی ظبیان ضعیف ہے[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 450]
چوتھا حوالہ احمدبن سعید کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے جائز الحدیث کہا ہے ۔
عرض ہے کہ یہ توثیق نہیں ہے کیونکہ ضعیف کے لئے بھی ایسا کہا جاتا ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی حدیث لکھی جاسکتی ہے۔
نیز مجھے اس قول کا مصدر نہیں مل سکا کہ موصوف نے اسے کہا ں سے نقل کیا ہے ؟ مجھے لگتا کہ ابن معین کے شاگر احمدبن سعید نے جو ابن معین کا قول جائز الحدیث نقل کیا ہے اس سے مقبول سلفی صاحب نے یہ سمجھ لیا کہ یہ احمدبن سعید کا قول ہے ۔جبکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ امام ابن معین کا قول ہے اور اوپر بتایا جاچکا ہے خود امام ابن معین نے اسے ضعیف کہاہے۔اگر ایسا ہی ہے تو اسماء الرجال پر بات کرتے ہوئے اس طرح کی لاپروائی انتہائی معیوب بات ہے۔
پانچوں حوالہ امام طبرانی کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے اسے کی ایک روایت کو حسن کہا ہے۔
عرض ہے کہ یہ ضمنی توثیق ہے اور راجح صریح توثیق کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
چھٹا حوالہ یہ دیا گیا ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے درایہ میں اس کی روایت سے استدلال کیا ہے۔
عرض ہے کہ اس سے توثیق کہاں ثابت ہوئی ؟ روایت سے استدلال روایت کی تصحیح کو مستلزم نہیں ہے اس لئے یہ دور کی کوڑی بے کارہے۔مزید یہ کہ خود ابن حجرحمہ اللہ نے اس راوی کو
لين کہا ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5445] اور بعض کتب میں اس کی روایت کی تخریج کرتے ہوئے اس پرجرح نقل کی ہے مثلا ایک جگہ کہا:
وقابوس ضعفه النسائي ،یعنی امام نسائی نے قابوس کو ضعیف قراردیاہے[التمييز لابن حجر، ت دكتور الثاني: 1/ 340]
ساتواں حوالہ امام ترمذی کا ہے کہ انہوں نے اس کی حدیث کو حسن کہا ہے۔'
عرض ہے کہ تحسین میں امام ترمذی رحمہ اللہ کا تساہل معروف ہے امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے :
فلا يغتر بتحسين الترمذي ،یعنی امام ترمذی کی تحسین سے دھوکہ نہیں کھانا چاہے[ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 4/ 416]
لہٰذا دیگر ائمہ فن کی کی تضعیف کے مقابلے میں اس تحسین کو پیش کرنا غلط ہے۔
آٹھواں حوالہ علامہ شاکر رحمہ اللہ کا دیا گیا ہے جو معاصرین میں سے ہیں اور یہ بہت عجیب بات ہے کیونکہ راوی کی توثیق کے باب میں ناقدین ائمہ فن کی فہرست میں بطور حجت کسی معاصر محقق کا قول پیش کرنا بالکل بے معنی ہے ۔ہاں ایک شخص اپنی رائے کی تائید میں معاصر کا قول پیش کرسکتا ہے لیکن ائمہ ناقدین کے مقابلے میں آج کے معاصرین کی بات پیش کرنا عجیب تر ہے۔
علاوہ بریں معاصرین میں بھی اکثر اس راوی کو ضعیف ہی مانتے ہیں ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کو کئی مقامات پر ضعیف قرار دیا ہے مثلا دیکھیں: ( الأحاديث الضعيفة 9/ 367)
حافظ زبیرعلی زئی صاحب نے اسے جمہور کی نظر میں ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھا:
قابوس ضعیف ضعفہ الجمھور، یعنی قابوس ضعیف ہے جمہور نے اسے ضعیف قرار دیاہے۔ (انوار الصحیفہ ابو داؤد رقم 3032سنن ترمذی مع تحقیق علی زئی رقم633 )
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ راوی ضعیف ہے اور اکثر محدثین نے بھی اسے ضعیف ہی کہا ہے ۔ لہٰذا مقبول سلفی صاحب کا بعض کمزور اور کچھ غیرمتعلق حوالوں سے اسے ثقہ ثابت کرنا عجیب وغریب بات ہے ۔ اور حق اور راجح یہی ہے کہ جمہور و اکثر محدثین نے اس راوی کو ضعیف کہا ہے اور یہ ضعیف ہی ہے۔
مقبول سلفی صاحب نے آٹھ حوالے دئے ہیں جن میں ایک معاصر کا حوالہ اور ایک بے اصل حوالہ ہے یعنی احمدبن سعید کا اور کئی غیر متعلق حوالے ہیں ۔ لیکن پھر بھی اگر وہ آٹھ کی تعداد ہی دکھانا چاہتے ہیں توہم ذیل میں آٹھ کے دو گنا سولہ محدثین سے اس راوی پر جرح پیش کرتے ہیں:
▪(1) جرير بن عبد الحميد الضبى(المتوفى188)نے کہا:
أتينا قابوس بعد فساده [التاريخ الكبير للبخاري 7/ 193]
▪(2) امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
وفيه ضعف لا يحتج به[الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 339]
▪(3)امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ضعيف الحديث [العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 3/ 29]
▪(4)امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
ليس هو بذاك[العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت الأزهري: 1/ 205]
▪(5)امام أبو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی:277)نے کہا:
ضعیف الحَدیث لین، یکتب حَدیثہ، ولا یحتج بہ[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۷؍۱۴۵]
▪(6)امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
ليس بالقوي ضعيف [تهذيب التهذيب : 8/ 306 نیز دیکھیں: الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 88]
▪(7)امام زكريا بن يحيى الساجى رحمه الله (المتوفى307)نے کہا:
ليس بثبت[تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 8/ 306]
▪(8)امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:354)نے کہا:
کان ردیء الحفظ یتفرد عن أبیہ بما لا أصل لہ[المجروحین لابن حبان:۲؍۲۱۶]
▪(9)امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی:385)نے کہا:
ضعیف، ولکن لا یترک[سؤالات البرقانی للدارقطنی، ت الأزہری: ص:۱۲۱]
▪(10)امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
وقابوس لا يحتج بحديثه [مختصر خلافيات البيهقي 1/ 292]
▪(11)محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)نے کہا:
وقابوس ضعيف [ذخيرة الحفاظ لابن القيسراني: 1/ 555]
▪(12)امام ابن القطان رحمه الله (المتوفى628)نے کہا:
وقابوس مضعف [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 4/ 626]
▪(13)امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
قابوس بن أبي ظبيان ضعيف [المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 450]
▪(14)امام ابن الملقن رحمه الله (المتوفى804)نے کہا:
وقابوس هذا ليس بالقوي[البدر المنير لابن الملقن: 4/ 375]
▪(15)امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
رواه الطبراني، وفيه قابوس بن أبي ظبيان وهو ضعيف[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 7/ 43]
▪(16)حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
لين [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5445]
ہم صرف سولہ اقوال پر اکتفاء کرتے ہیں ورنہ ہمارے پاس ابھی اور بھی اقوال ہیں ۔
اس تفصیل کے بعد ہر انصاف پسند شخص کے لئے واضح ہوجائے گا کہ یہ راوی ثقہ ہے یا ضعیف ؟
خلاصہ کلام یہ کہ محترم جناب مقبول سلفی صاحب نے جن دو آثار کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ دونوں آثار ضعیف و مردود ہیں ۔
وکتبہ
کفایت اللہ سنابلی
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ @مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ آپ کی اس تحریر کا جواب شیخ @کفایت اللہ حفظہ اللہ نے یوں دیا ہے اور اس تحریر کو پڑھنے کے بعد آپ کا موقف بھی جاننا چاہتا ہوں۔جزاک اللہ خیراً
 
Last edited by a moderator:

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
السلام علیکم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ @مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ آپ کی اس تحریر کا جواب شیخ @کفایت اللہ حفظہ اللہ نے یوں دیا ہے اور اس تحریر کو پڑھنے کے بعد آپ کا موقف بھی جاننا چاہتا ہوں۔جزاک اللہ خیراً
شیخ کی تحریر ملاحظہ ہو:
معذرت کے ساتھ، دو مشائخ کے درمیان ہونے والی گفتگو پر ایسا لکھنا میری نظر میں مناسب نہیں اس سے ماحول بگڑ جاتا ہے، سامنے والا اگر مناسب سمجھتا ہے تو وقت ملنے پر جواب دے سکتا ہے اور نہیں بھی، اس لئے ایسا لکھنے سے احتیاط برتنا بہتر ہے۔

والسلام
 
Last edited:

sheikh fam

رکن
شمولیت
اپریل 16، 2016
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
53
غیرمسلم تیوہارکی مٹھائی : تجزیاتی تحریر کاجائزہ
از: کفایت اللہ سنابلی
غیرمسلم کے تیوہار پر ہدیہ قبول کرنے سے متعلق بعض آثار ملتے ہیں لیکن یہ سارے آثار ضعیف وغیر ثابت ہیں جیساکہ میں نے اپنے ایک مضمون میں وضاحت کی ہے۔
لیکن حال ہی میں محترم مقبول احمد سلفی صاحب نے ان آثار میں سے دو اثر کو بڑے ہی عجیب وغریب انداز میں صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ذیل میں اس کا جائزہ پیش خدمت ہے:
◼ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کااثر:
حدثنا وكيع ، عن الحسن بن حكيم ، عن أمه ، عن أبي برزة ؛ أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه ۔
ترجمہ:ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے کچھ مجوسی پڑوسی تھے جو انہیں نیروز اور مہرجان کے تیوہاروں میں ہدیہ دیتے تھے ، تو آپ اپنے گھروالوں سے کہتے تھے کہ : میوے کی شکل میں جوچیز ہو اسے کھالو اور اس کے علاوہ جو ہو اسے لوٹادو[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 88]
اس سند میں حسن بن حکیم کی والدہ ہیں ان کی کوئی توثیق کہیں نہیں ملتی حتی کی ان کے نام تک کی صراحت مجھے کہیں نہیں مل سکی ۔اب جس کی توثیق تو درکنار اس کا نام تک معلوم نہ ہوسکے اس کی روایت کو کیونکر صحیح کہا جاسکتاہے! لیکن مقبول احمد سلفی صاحب لکھتے ہیں:
⬅ ’’اس میں حسن بن حکیم ثقفی کی ماں جوکہ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے مولاۃ ہیں کا حال نامعلوم ہے۔ یہ اثر ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہے۔
حدثنا وكيع عن الحكم بن حكيم عن ابيه عن أبي برزة :أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه ۔ (اعلام السنن 12/706 علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی)مجہول الحال کی روایت متابعات و شواہد میں قابل قبول ہے ۔‘‘
⬅ یہاں مقبول سلفی صاحب نے مشہور دیوبندی عالم ظفر تھانوی صاحب کی کتاب سے یہی روایت نقل کرکے اسے دوسرا طریق بتا دیا !!! علم حدیث کا معمولی طالب علم بھی یہ پڑھ کرحیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ ظفر تھانوی صاحب نے بھی اس روایت کو مذکورہ سند ہی سے ذکرکیا اور ابن ابی شیبہ ہی کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔پھر یہ دوسرا طریق کیسے ہوگیا ؟
غور کریں سند بھی ایک ، کتاب بھی ایک ، پھر دوسرا طریق کیسے ؟
⬅ واضح رہے کہ ظفر تھانوی صاحب کی جس عبارت سے مقبول سلفی صاحب نے حوالہ پیش کیا ہے وہ اصل میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام ہے جسے تھانوی صاحب نے اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ سے نقل کردیاہے۔اورابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
ظفر تھانوی صاحب نے نقل میں غلطی کی یا کاتب نے غلطی کی اور سند کے اندر ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے نیچے (عن ابیہ) لکھ دیا جبکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصل کتاب میں (عن امہ) ہے دیکھئے : (اقتضاء الصراط المستقیم ص:120 مطبوعہ المطبعۃ الشرفیۃ ، الطبعۃ الاولی)۔اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی (عن امہ) ہے۔ دیکھئے: ( مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 88 )
⬅ نیز سند میں وکیع کے شیخ کی جگہ الحکم بن حکیم لکھا ہوا ہے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصل کتاب میں بھی ایسے ہی ہے اوریہیں پر ناسخ سے غلطی ہوئی ہے کیونکہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ کی اصل کتاب مصنف میں وکیع کے شیخ کانام پوری صراحت سے الحسن بن حكيم ہی لکھا ہواہے۔ اور اس اثر کے لئے مصنف ابن ابی شیبہ میں کوئی دوسرا طریق ہے ہی نہیں ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اقتضاء الصراط کے ناسخ نے غلطی سے نام غلط درج کردیا ہے ۔ چناں چہ اقتضاء الصراط کے محقق نسخے میں اس کی اصلاح کردی گئی اور محقق نے اصل کتاب میں اس غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے صحیح نام الحسن بن حكيم ہی درج کیا ہے اور حاشیہ میں لکھا:
في المطبوعة: الحكم، وهو خطأ، والصواب هو: الحسن بن حكيم بن طهمان أبو حكيم
یعنی (قدیم) مطبوعہ نسخے میں یہاں حکم لکھا ہے جو غلط ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ الحسن بن حكيم بن طهمان أبو حكيم ہے(اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم 2/ 52)
⏺ اس تفصیل سے واضح ہوگا کہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اثر کی صرف اور صرف ایک ہی سند ہے اور یہی سند ظفر تھانوی صاحب کی کتاب میں بھی درج ہے لیکن بعض راویوں کے نام میں کتابت کی غلطی ہے ۔اس حقیقت سے غافل ہو کر مقبول سلفی صاحب نے اسے دوسرا طریق سمجھ لیا جو سخت حیرت کا باعث ہے کیونکہ اس طرح کی غلطیوں پر علم حدیث کا معمولی طالب علم بھی آگاہ ہوجاتا ہے ۔
الغرض جب واضح ہوگیا کہ اس کی صرف اور صرف ایک ہی سند ہے جو ضعیف ہے تو پھر متابع اور شاہد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
◼ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کااثر:
حدثنا جریر ، عن قابوس ، عن أبیہ ؛ أن امرأۃ سألت عائشۃ قالت: إن لنا أظآرا من المجوس ، وإنہ یکون لہم العید فیہدون لنا ؟ فقالت: أما ما ذبح لذلک الیوم فلا تأکلوا ، ولکن کلوا من أشجارہم۔
قابوس بن ابی ظبیان اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا۔ اس نے کہا کہ: ہماری کچھ مجوسی پڑوسن ہیں ، اوران کے تیوہار کے دن ہوتے ہیں جن میں وہ ہمیں ہدیہ دیتے ہیں ، اس کا کیا حکم ہے؟ تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:اس دن جو چیز ذبح کی جائے اسے نہ کھاؤ ، لیکن ان کی طرف سے سبزی اور پھل کی شکل میں جو ملے اسے کھالو۔(مصنف ابن أبی شیبۃ: سلفیۃ:۸؍۸۷)
⏺ ہم نے اس سند کو ضعیف لکھا تھا کیونکہ قابوس ضعیف ہے ، نیز جریر نے صراحت کردی ہے کہ انہوں نے قابوس سے جب سنا تھا تو اس وقت قابوس کا حافظہ فاسد تھا۔اس لئے اس اثر کے ضعیف ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا لیکن مقبول سلفی صاحب نے جریر کے صریح بیان کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اس مردود اثر کو صحیح ثابت کرنے کے لئے صرف یہ کیا کہ بعض اہل علم سے قابوس کی توثیق نقل کردی جبکہ ہم نے اپنے مضمون میں خود یہ لکھ رکھا تھا کہ بعض محدثین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن اس کا ضعیف ہونا ہی راجح ہے ، اس لئے محض بعض محدثین سے اس کی توثیق نقل کردینا کہاں کا انصاف ہے ؟ مقبول سلفی صاحب نے قابوس کی توثیق ثابت کرنے کے لئے کل آٹھ حوالے دئے ہیں ان کاجائزہ پیش خدمت ہے:
پہلا حوالہ ابن معین رحمہ اللہ کا دیا گیا ہے حالانکہ ابن معین رحمہ اللہ نے اس راوی کو ضعیف الحدیث بھی کہا ہے دیکھئے [العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 3/ 29]
لہٰذا توثیق میں ان کا حوالہ ساقط ہے اور تطبیق دیں تو کہہ سکتے ہیں کہ توثیق دینداری کے لحاظ سے ہے اور تضعیف حافظہ کے لحاظ سےہے۔
دوسرا حوالہ امام ابن عدی کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے "لاباس بہ" کہہ کر توثیق کی ہے۔
عرض کہ امام ابن عدی کے الفاظ’’وأرجو انه لا بأس به ‘‘ ہیں دیکھیں: [الكامل لابن عدي ت عادل وعلي: 7/ 176]
اور اس صیغے سے امام ابن عدی ہرجگہ توثیق نہیں کرتے بلکہ کبھی کبھی جن کو وہ ضعیف مانتے ہیں ان کے لئے بھی وہ الفاظ بول دیتے ہیں اور ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی حدیث لکھی جائے گی چنانچہ ایک راوی کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وأرجو أنه لا بأس به، وهو من جملة الضعفاء الذين يكتب حديثهم[الكامل لابن عدي ت عادل وعلي: 2/ 219]
تیسرا حوالہ امام ذہبی رحمہ اللہ کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب تاریخ اسلام میں اسے حسن الحدیث کہا ہے ۔
عرض ہے کہ امام ذہبی نے تاریخ اسلام میں اس راوی کے ترجمہ میں نہیں بلکہ ایک دوسری جگہ اسے حسن الحدیث کہا ہے اورحاشیہ میں محقق دکتور بشار عواد نے امام ذہبی رحمہ اللہ کی تردید کردی ہے دیکھئے: [تاريخ الإسلام ت بشار 2/ 400]۔
دوسری طرف تاریخ اسلام میں جہاں امام ذہبی نے اس راوی کا ترجمہ پیش کیا ہے وہاں صرف اس پر جرح ہی نقل کی ہے اور کسی ایک بھی امام کی توثیق نقل نہیں کی ہے اور انہ ہی اسے خود اسے حسن الحدیث کہاہے دیکھیں:[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 952]۔
بلکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی ایک دوسری کتاب میں پوری صراحت کے ساتھ اسے ضعیف قراردیتے ہوئے لکھا ہے:
قابوس بن أبي ظبيان ضعيف ، یعنی قابوس بن ابی ظبیان ضعیف ہے[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 450]
چوتھا حوالہ احمدبن سعید کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے جائز الحدیث کہا ہے ۔
عرض ہے کہ یہ توثیق نہیں ہے کیونکہ ضعیف کے لئے بھی ایسا کہا جاتا ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی حدیث لکھی جاسکتی ہے۔
نیز مجھے اس قول کا مصدر نہیں مل سکا کہ موصوف نے اسے کہا ں سے نقل کیا ہے ؟ مجھے لگتا کہ ابن معین کے شاگر احمدبن سعید نے جو ابن معین کا قول جائز الحدیث نقل کیا ہے اس سے مقبول سلفی صاحب نے یہ سمجھ لیا کہ یہ احمدبن سعید کا قول ہے ۔جبکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ امام ابن معین کا قول ہے اور اوپر بتایا جاچکا ہے خود امام ابن معین نے اسے ضعیف کہاہے۔اگر ایسا ہی ہے تو اسماء الرجال پر بات کرتے ہوئے اس طرح کی لاپروائی انتہائی معیوب بات ہے۔
پانچوں حوالہ امام طبرانی کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے اسے کی ایک روایت کو حسن کہا ہے۔
عرض ہے کہ یہ ضمنی توثیق ہے اور راجح صریح توثیق کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
چھٹا حوالہ یہ دیا گیا ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے درایہ میں اس کی روایت سے استدلال کیا ہے۔
عرض ہے کہ اس سے توثیق کہاں ثابت ہوئی ؟ روایت سے استدلال روایت کی تصحیح کو مستلزم نہیں ہے اس لئے یہ دور کی کوڑی بے کارہے۔مزید یہ کہ خود ابن حجرحمہ اللہ نے اس راوی کو
لين کہا ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5445] اور بعض کتب میں اس کی روایت کی تخریج کرتے ہوئے اس پرجرح نقل کی ہے مثلا ایک جگہ کہا:
وقابوس ضعفه النسائي ،یعنی امام نسائی نے قابوس کو ضعیف قراردیاہے[التمييز لابن حجر، ت دكتور الثاني: 1/ 340]
ساتواں حوالہ امام ترمذی کا ہے کہ انہوں نے اس کی حدیث کو حسن کہا ہے۔'
عرض ہے کہ تحسین میں امام ترمذی رحمہ اللہ کا تساہل معروف ہے امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے :
فلا يغتر بتحسين الترمذي ،یعنی امام ترمذی کی تحسین سے دھوکہ نہیں کھانا چاہے[ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 4/ 416]
لہٰذا دیگر ائمہ فن کی کی تضعیف کے مقابلے میں اس تحسین کو پیش کرنا غلط ہے۔
آٹھواں حوالہ علامہ شاکر رحمہ اللہ کا دیا گیا ہے جو معاصرین میں سے ہیں اور یہ بہت عجیب بات ہے کیونکہ راوی کی توثیق کے باب میں ناقدین ائمہ فن کی فہرست میں بطور حجت کسی معاصر محقق کا قول پیش کرنا بالکل بے معنی ہے ۔ہاں ایک شخص اپنی رائے کی تائید میں معاصر کا قول پیش کرسکتا ہے لیکن ائمہ ناقدین کے مقابلے میں آج کے معاصرین کی بات پیش کرنا عجیب تر ہے۔
علاوہ بریں معاصرین میں بھی اکثر اس راوی کو ضعیف ہی مانتے ہیں ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کو کئی مقامات پر ضعیف قرار دیا ہے مثلا دیکھیں: ( الأحاديث الضعيفة 9/ 367)
حافظ زبیرعلی زئی صاحب نے اسے جمہور کی نظر میں ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھا:
قابوس ضعیف ضعفہ الجمھور، یعنی قابوس ضعیف ہے جمہور نے اسے ضعیف قرار دیاہے۔ (انوار الصحیفہ ابو داؤد رقم 3032سنن ترمذی مع تحقیق علی زئی رقم633 )
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ راوی ضعیف ہے اور اکثر محدثین نے بھی اسے ضعیف ہی کہا ہے ۔ لہٰذا مقبول سلفی صاحب کا بعض کمزور اور کچھ غیرمتعلق حوالوں سے اسے ثقہ ثابت کرنا عجیب وغریب بات ہے ۔ اور حق اور راجح یہی ہے کہ جمہور و اکثر محدثین نے اس راوی کو ضعیف کہا ہے اور یہ ضعیف ہی ہے۔
مقبول سلفی صاحب نے آٹھ حوالے دئے ہیں جن میں ایک معاصر کا حوالہ اور ایک بے اصل حوالہ ہے یعنی احمدبن سعید کا اور کئی غیر متعلق حوالے ہیں ۔ لیکن پھر بھی اگر وہ آٹھ کی تعداد ہی دکھانا چاہتے ہیں توہم ذیل میں آٹھ کے دو گنا سولہ محدثین سے اس راوی پر جرح پیش کرتے ہیں:
▪(1) جرير بن عبد الحميد الضبى(المتوفى188)نے کہا:
أتينا قابوس بعد فساده [التاريخ الكبير للبخاري 7/ 193]
▪(2) امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
وفيه ضعف لا يحتج به[الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 339]
▪(3)امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ضعيف الحديث [العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 3/ 29]
▪(4)امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
ليس هو بذاك[العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت الأزهري: 1/ 205]
▪(5)امام أبو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی:277)نے کہا:
ضعیف الحَدیث لین، یکتب حَدیثہ، ولا یحتج بہ[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۷؍۱۴۵]
▪(6)امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
ليس بالقوي ضعيف [تهذيب التهذيب : 8/ 306 نیز دیکھیں: الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 88]
▪(7)امام زكريا بن يحيى الساجى رحمه الله (المتوفى307)نے کہا:
ليس بثبت[تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 8/ 306]
▪(8)امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:354)نے کہا:
کان ردیء الحفظ یتفرد عن أبیہ بما لا أصل لہ[المجروحین لابن حبان:۲؍۲۱۶]
▪(9)امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی:385)نے کہا:
ضعیف، ولکن لا یترک[سؤالات البرقانی للدارقطنی، ت الأزہری: ص:۱۲۱]
▪(10)امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
وقابوس لا يحتج بحديثه [مختصر خلافيات البيهقي 1/ 292]
▪(11)محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)نے کہا:
وقابوس ضعيف [ذخيرة الحفاظ لابن القيسراني: 1/ 555]
▪(12)امام ابن القطان رحمه الله (المتوفى628)نے کہا:
وقابوس مضعف [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 4/ 626]
▪(13)امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
قابوس بن أبي ظبيان ضعيف [المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 450]
▪(14)امام ابن الملقن رحمه الله (المتوفى804)نے کہا:
وقابوس هذا ليس بالقوي[البدر المنير لابن الملقن: 4/ 375]
▪(15)امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
رواه الطبراني، وفيه قابوس بن أبي ظبيان وهو ضعيف[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 7/ 43]
▪(16)حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
لين [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5445]
ہم صرف سولہ اقوال پر اکتفاء کرتے ہیں ورنہ ہمارے پاس ابھی اور بھی اقوال ہیں ۔
اس تفصیل کے بعد ہر انصاف پسند شخص کے لئے واضح ہوجائے گا کہ یہ راوی ثقہ ہے یا ضعیف ؟
خلاصہ کلام یہ کہ محترم جناب مقبول سلفی صاحب نے جن دو آثار کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ دونوں آثار ضعیف و مردود ہیں ۔
وکتبہ
کفایت اللہ سنابلی

Sent from my SM-J700F using Tapatalk
کیا غیر مسلم تہوار میں شرکت اور تہوار کی مبارکباد دی جا سکتی ہے ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب درکار ہے ۔ رہنمائ فرمائیں​
 
Top