- شمولیت
- اکتوبر 28، 2015
- پیغامات
- 81
- ری ایکشن اسکور
- 14
- پوائنٹ
- 58
اس مکالمہ کا باعث جناب کفایت اللہ صاحب کا ایک پرانا مکالمہ "تارکین رفع الیدین کے تمام شبہات کا ایک تاریخی اوردندان شکن جواب۔
'نماز' میں موضوعات آغاز کردہ از کفایت اللہ، مئی 25، 2011۔ " ہوا۔
یہ موضوع اگر چہ خاصا پرانا ہوچکا ہے لیکن کیا کہئے ،قائلین بھی تو صدیوں پہلے اس کا محاکمہ ہوچکنے کے باوجود ایک ایسے وقت میں اس مسئلے کو بار بار اٹھائے جارہے ہیں جب بنیادی دینی مسائل میں ملحدین و لادین عناصر کے پیدا کردہ شبہات کے خلاف یکجا ہونے اور کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
میرے خیال میں مذکورہ مکالمہ چونکہ مخالف آراء کو وزن دیئے بغیر یک بیک بند کردیا گیا تھا، لہذا اس کی دوبارہ یاددہانی میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس کے اٹھائے ہوئے بعض الجھنوں پر تبصرہ کی ضرورت ہے۔ بالخصوص موضوع کیلئے ایک اشتعال انگیز عنوان کا انتخاب، پھر لکھنے والےکا حاکمانہ انداز گفتگواور اس کےآخر میں ایک انتہائی دلخراش، مضحکہ خیز اور اندھا دھند "انکشاف" کہ "صحیح ابوعوانہ اورمسندحمیدی میں عصرحاضر کے دیوبندیوں نے تحریف کر ڈالی ہے" میرے لئے مزید اضطراب کا سبب بنا ہوا ہے اور جس کی سچائی کو جاننا ضروری ہے۔ فالی اللہ المشتکی وانا للہ وانا الیہ راجعون۔
اس فورم کے منتظمین اگر واقعی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف سے محبت رکھتے ہیں تو امید ہے کہ وہ حق بات کو بلا تفریق مسلک پھیلنے سے نہیں روکیں گے۔
اس موضوع پر بحث کا مقصد راہ اعتدال کا تعین کرنا ہے نیز یہ بتانا ہے کہ قرآن وحدیث سے مسلمانوں کو جو آسانیاں اور رخصتیں ملتی ہیں، ان سے مسلمانوں کو محروم کرنا بلکہ الٹا ان رخصتوں پر مبنی مسائل کو امت میں افتراق و انتشار کا آلہ کار بنانا، ظلم عظیم ہے! یہ واضح کرتا چلوں کہ رفع الیدین کیا، اختلافی مسائل کی اکثریت یہی افضل و مفضول کے قضیے پر مبنی ہیں، متشددین کو چھوڑ کر امت کی اکثریت نے اس محاکمے کو تسلیم کرلیا ہے، مگر کیا کیا جائے، آج آفتاب کے وجود کیلئے بھی دلائل کے انباروں کا مطالبہ ہورہا ہے! اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ آفتاب کے اندھوں کو بھی آفتاب کی روشنی دکھا جائے کہ اس کی رحمت بیکراں سے کیا عجب ہے!
اے حدیث کے نام لیواوں ذرا ہوش کے ناخن لو، کیا تم حدیث کا نام اسی لئے لیتے ہوں تاکہ مخالف رائے کا گھلا گھونٹ کر پنپنے نہ دو۔ کیا کسی بھی اختلافی مسئلے میں مخالف رائے کا کوئی وزن نہیں ہوتا بلکہ ہر اختلافی مسئلے میں قرآن و حدیث کا سارہ ذخیرہ آپ ہی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور فریق مخالف دلیل وبرہان سے بالکل تہی دست ہوکر قیاس ہی قیاس کا دست نگر رہ جاتا ہے اور وہ بھی قرآن و حدیث کے مقابل! کیا ہی خوب فیصلہ ہے آپ کا!
اس نشت میں میں اتنا ہی لکھنے پر اکتفاء کرتا ہوں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس کو نافع بنائے اور ہمیں حق و سچ بات کا سفیر و وکیل بنائے۔ آمین۔
'نماز' میں موضوعات آغاز کردہ از کفایت اللہ، مئی 25، 2011۔ " ہوا۔
یہ موضوع اگر چہ خاصا پرانا ہوچکا ہے لیکن کیا کہئے ،قائلین بھی تو صدیوں پہلے اس کا محاکمہ ہوچکنے کے باوجود ایک ایسے وقت میں اس مسئلے کو بار بار اٹھائے جارہے ہیں جب بنیادی دینی مسائل میں ملحدین و لادین عناصر کے پیدا کردہ شبہات کے خلاف یکجا ہونے اور کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
میرے خیال میں مذکورہ مکالمہ چونکہ مخالف آراء کو وزن دیئے بغیر یک بیک بند کردیا گیا تھا، لہذا اس کی دوبارہ یاددہانی میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس کے اٹھائے ہوئے بعض الجھنوں پر تبصرہ کی ضرورت ہے۔ بالخصوص موضوع کیلئے ایک اشتعال انگیز عنوان کا انتخاب، پھر لکھنے والےکا حاکمانہ انداز گفتگواور اس کےآخر میں ایک انتہائی دلخراش، مضحکہ خیز اور اندھا دھند "انکشاف" کہ "صحیح ابوعوانہ اورمسندحمیدی میں عصرحاضر کے دیوبندیوں نے تحریف کر ڈالی ہے" میرے لئے مزید اضطراب کا سبب بنا ہوا ہے اور جس کی سچائی کو جاننا ضروری ہے۔ فالی اللہ المشتکی وانا للہ وانا الیہ راجعون۔
اس فورم کے منتظمین اگر واقعی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف سے محبت رکھتے ہیں تو امید ہے کہ وہ حق بات کو بلا تفریق مسلک پھیلنے سے نہیں روکیں گے۔
اس موضوع پر بحث کا مقصد راہ اعتدال کا تعین کرنا ہے نیز یہ بتانا ہے کہ قرآن وحدیث سے مسلمانوں کو جو آسانیاں اور رخصتیں ملتی ہیں، ان سے مسلمانوں کو محروم کرنا بلکہ الٹا ان رخصتوں پر مبنی مسائل کو امت میں افتراق و انتشار کا آلہ کار بنانا، ظلم عظیم ہے! یہ واضح کرتا چلوں کہ رفع الیدین کیا، اختلافی مسائل کی اکثریت یہی افضل و مفضول کے قضیے پر مبنی ہیں، متشددین کو چھوڑ کر امت کی اکثریت نے اس محاکمے کو تسلیم کرلیا ہے، مگر کیا کیا جائے، آج آفتاب کے وجود کیلئے بھی دلائل کے انباروں کا مطالبہ ہورہا ہے! اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ آفتاب کے اندھوں کو بھی آفتاب کی روشنی دکھا جائے کہ اس کی رحمت بیکراں سے کیا عجب ہے!
اے حدیث کے نام لیواوں ذرا ہوش کے ناخن لو، کیا تم حدیث کا نام اسی لئے لیتے ہوں تاکہ مخالف رائے کا گھلا گھونٹ کر پنپنے نہ دو۔ کیا کسی بھی اختلافی مسئلے میں مخالف رائے کا کوئی وزن نہیں ہوتا بلکہ ہر اختلافی مسئلے میں قرآن و حدیث کا سارہ ذخیرہ آپ ہی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور فریق مخالف دلیل وبرہان سے بالکل تہی دست ہوکر قیاس ہی قیاس کا دست نگر رہ جاتا ہے اور وہ بھی قرآن و حدیث کے مقابل! کیا ہی خوب فیصلہ ہے آپ کا!
اس نشت میں میں اتنا ہی لکھنے پر اکتفاء کرتا ہوں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس کو نافع بنائے اور ہمیں حق و سچ بات کا سفیر و وکیل بنائے۔ آمین۔