• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیر منصوص صفات کی اللہ عزوجل کی طرف نسبت

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
بعض صفات باری تعالی تو ایسی ہیں جن کا ذکر کتاب وسنت میں آ گیا تو ان پر تو ایمان واجب ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی غیر منصوص صفت کی اللہ کی طرف نسبت کی گنجائش ہے یا نہیں۔ اس بارے راقم کا امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اتباع میں موقف یہ ہے کہ بحث وتحقیق کے بعد اس کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن اس موضوع پر کچھ باقاعدہ لکھنے سے پہلے اپنا ذہن کھولنا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے دلائل سامنے آ سکیں جو اس کے قائل نہیں ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالی نے کہا ہے: ولہ المثل الاعلی۔ جس کی ایک تفسیر جو کہ میری نظر میں راجح ہے، یہ بیان کی گئی ہے کہ اس آیت مبارکہ میں مثل سے مراد صفات ہیں اور اللہ کے لیے جمیع اعلی صفات ثابت ہیں۔ یہ تو مطلقا اعلی صفات کا اللہ کے لیے اثبات ہے لیکن سوال کسی متعین صفت کے اثبات کا ہے جو نصوص میں وارد نہ ہوئی ہو جیسا کہ صفت کمال۔ کیا ہم کمال کو اللہ کی صفت قرار دے سکتے ہیں جبکہ یہ نصوص میں وارد نہیں ہوئی لیکن اس اعتبار سے کہ یہ ایک اعلی صفت ہے لہذا اس کا اثبات اللہ کے جائز ہے؟

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کتاب وسنت میں جو اللہ کی صفات وارد ہوئی ہیں، صرف وہی اللہ کی صفات نہیں ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی ہیں جنہیں قرآن مجید اپنے بیان میں کلمات کہتا ہے کہ ان کلمات کو لکھنے کے لیے سات سمندر بھی ناکافی ہیں۔ اب ان غیر منصوص صفات میں سے کسی صفت اعلی کی نسبت اللہ کی طرف کرنے کی کیا گنجائش ہے؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بعض صفات باری تعالی تو ایسی ہیں جن کا ذکر کتاب وسنت میں آ گیا تو ان پر تو ایمان واجب ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی غیر منصوص صفت کی اللہ کی طرف نسبت کی گنجائش ہے یا نہیں۔ اس بارے راقم کا امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اتباع میں موقف یہ ہے کہ بحث وتحقیق کے بعد اس کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن اس موضوع پر کچھ باقاعدہ لکھنے سے پہلے اپنا ذہن کھولنا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے دلائل سامنے آ سکیں جو اس کے قائل نہیں ہیں۔
علوی بھائی! انسان ناقص ہے اور ناقص علم رکھتا ہے۔ اگر ہم کسی غیر منصوص صفت کی اللہ کی طرف نسبت کریں اور اپنی ناقص عقل کے مطابق اسے صفتِ کمال سمجھ رہے ہوں حالانکہ حقیقت میں وہ صفتِ کمال نہ ہو بلکہ اس میں کوئی نقص یا عیب وغیرہ پایا جاتا ہو تو؟؟! جیسے بریلوی حضرات بعض اوقات اپنی تئیں نبی کریمﷺ کی شان بیان کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ اس بات کا کسی کی شان سے تعلق نہیں ہوتا مثلاً نبی کریمﷺ کا سایہ نہ ہونا یا آپ کا نور ہونا وغیرہ وغیرہ!

میری رائے میں درج ذیل آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ سے اللہ کی طرف غیر منصوص صفت کی نسبت کرنے کی نفی ہوتی ہے:

اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي، وَنُورَ صَدْرِي، وَجَلَاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي
درج بالا حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے مبارک نام وہ ہیں:
1۔ جو اللہ رب العٰلمین نے خود بيان فرمائے بمعنیٰ کسی کتاب میں اُتارے (یہ اسماء منصوص ہیں اور ہماری بحث سے باہر ہیں۔)
2۔ جو اللہ رب العٰلمین نے خود بیان فرمائے بمعنیٰ اپنی کسی ’مخلوق‘ کو سکھائے (ظاہر ہے کہ یہاں مخلوق سے مراد صرف اور صرف فرشتے یا انبیائے کرام علیہم السلام ہو سکتے ہیں، ہمارے جیسے عام انسان نہیں۔) اس کا تعلق دنیا سے بھی ہو سکتا ہے اور آخرت سے بھی (مثلاً اللہ رب العٰلمین نبی کریمﷺ کو قیامت کے دن اپنے کچھ مبارک نام بتائیں گے جن کے واسطے سے نبی کریمﷺ سفارش فرمائیں گے۔) بہرحال یہ بھی ہمارے متعلق نہیں۔
3۔ وہ اسماء جو صرف اللہ کے علم غیب میں ہیں۔ (اس علم غیب کا کسی عام آدمی کو کیسے علم ہو سکتا ہے؟)

ہمیں جس بات کا علم نہیں، اور خاص طور پر جب وہ ہو بھی اللہ رب العٰلمین کے متعلق، تو ہم اس کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟ فرمانِ باری ہے:

ولا تقف ما ليس لك به علم إن السمع والبصر والفؤاد كل أولئك كان عنه مسئولا
قل إنما حرم ربي الفواحش ۔۔۔۔۔ وأن تقولوا على الله ما لا تعلمون


لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اللہ رب العٰلمین کو صرف ان ناموں سے پکارا جا سکتا ہے جو قرآن کریم یا صحیح احادیث مبارکہ میں موجود ہیں، فرمانِ باری ہے:

وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚسَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٨٠﴾ ۔۔۔ سورة الأعراف

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
بھایی انس صاحب آپنے اچھا جواب دیاہے فجزاک اللہ خیر الجزا ۔حقیقت یہی ہے کہ اللہ کے وہ اسما وصفات جو قرآن وحدیث میں موجود ہیں اسی پراکتفا کرناچاہیے اس سے زیادہ انسان بیان بھی نہیں کرسکتااور نہ ھی کوشش کرنی چاہیے ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ،
حدیث کے اس حصے کی تشریح کرتے ہوئے کیا اس کو انبیاء اور ملائکۃ تک محدود کر دینا درست ہے؟ مجھے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ الفاظ عام ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے احدا کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو کہ عام ہونے کی صیغوں میں سے ایک صیغہ ہے کیونکہ نکرہ ہے۔ اور پھر یہ کہ اس نکرہ کے بعد من، بیان کا ہے یعنی بیانیہ ہے کہ احدا کو بیان کر رہا ہے کہ احدا سے مراد اللہ کی مخلوق ہے اور مخلوق صرف انبیاء اور ملائکۃ نہیں ہیں۔

قال الذی عندہ علم من الکتاب میں راجح قول عند المفسرین اور محققین یہی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول نہیں ہے۔ اب جو بھی ہے، غیر نبی ہے لیکن نبی کے مقابلے میں کتاب کا کچھ ایسا علم انہیں دیا گیا جو نبی وقت کو نہیں دیا گیا۔ اسی طرح حضرت موسی اور خضر علیہما السلام کے واقعے میں معروف قول یہی ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نبی نہیں ہیں۔ لہذا یہاں بھی غیر نبی کو وہ علم دیا گیا ہے جو نبی وقت کو نہیں دیا گیا۔

وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا
اس آیت مبارکہ میں یہ کہا گیا کہ اسمائے حسنی اللہ کے لیے ثابت ہیں، اسمائے حسنی کا صیغہ بھی اس آیت مبارکہ میں اصولی اعتبار سے عام ہے یعنی خاص نہیں ہے کہ یہ اسمائے حسنی متعین ہوں۔ ویسے بھی آیت کا معنی یہی محسوس ہوتا ہے کہ جو بھی اچھا نام ہو، وہ اللہ کے لیے ثابت ہے۔ لہذا اس نام سے دعا کرنا جائز ہے۔ یعنی میں ترجمہ یوں کروں گا کہ "اور اللہ ہی کے لیے ہیں تمام اچھے نام پس تم اچھے ناموں کے ساتھ اللہ کو پکارو"۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ایک شخص کو یہ دعا کرنے کی تلقین کی یا دلیل الحائرین دلنی علی طریق الصادقین۔۔۔۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے مجموع الفتاوی میں نقل کیا ہے۔ یہاں امام احمد رحمہ اللہ نے اللہ عزوجل کے لیے اسم دلیل کا اثبات کیا ہے۔ اگر ہم اپنی دعا میں اللہ تعالی کو مجری السحاب یعنی بادلوں کو چلانے والے، مصرف الریاح یعنی ہواوں کو پھیرنے والے، فارج الکربات یعنی دکھوں اور کرب کو دور کرنے والے، ھازم الاحزاب یعنی لشکروں کا شکست دینے والے، کاسی العظام لحما بعد الموت یعنی موت کے بعد ہڈیوں پر گوشت چڑھانے والے وغیرہ کہہ کر پکاریں تو کیا دعا میں ایسا کہنا ناجائز ہو گا جبکہ ان افعال کی نسبت اللہ کی طرف کرنے میں شاید کوئی دو رائے نہ ہوں؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بعض صفات باری تعالی تو ایسی ہیں جن کا ذکر کتاب وسنت میں آ گیا تو ان پر تو ایمان واجب ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی غیر منصوص صفت کی اللہ کی طرف نسبت کی گنجائش ہے یا نہیں۔ اس بارے راقم کا امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اتباع میں موقف یہ ہے کہ بحث وتحقیق کے بعد اس کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن اس موضوع پر کچھ باقاعدہ لکھنے سے پہلے اپنا ذہن کھولنا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے دلائل سامنے آ سکیں جو اس کے قائل نہیں ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالی نے کہا ہے: ولہ المثل الاعلی۔ جس کی ایک تفسیر جو کہ میری نظر میں راجح ہے، یہ بیان کی گئی ہے کہ اس آیت مبارکہ میں مثل سے مراد صفات ہیں اور اللہ کے لیے جمیع اعلی صفات ثابت ہیں۔ یہ تو مطلقا اعلی صفات کا اللہ کے لیے اثبات ہے لیکن سوال کسی متعین صفت کے اثبات کا ہے جو نصوص میں وارد نہ ہوئی ہو جیسا کہ صفت کمال۔ کیا ہم کمال کو اللہ کی صفت قرار دے سکتے ہیں جبکہ یہ نصوص میں وارد نہیں ہوئی لیکن اس اعتبار سے کہ یہ ایک اعلی صفت ہے لہذا اس کا اثبات اللہ کے جائز ہے؟

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کتاب وسنت میں جو اللہ کی صفات وارد ہوئی ہیں، صرف وہی اللہ کی صفات نہیں ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی ہیں جنہیں قرآن مجید اپنے بیان میں کلمات کہتا ہے کہ ان کلمات کو لکھنے کے لیے سات سمندر بھی ناکافی ہیں۔ اب ان غیر منصوص صفات میں سے کسی صفت اعلی کی نسبت اللہ کی طرف کرنے کی کیا گنجائش ہے؟
ابو الحسن بھائی آپ نے لکھا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اتباع میں یہ موقف ہے کہ بحث و تحقیق کے بعد اس کی گنجائش موجود ہے؟
کیا یہ ممکن ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی وہ تحریر جس سے آپ یہ گنجائش اخذ کر رہے ہیں وہ اصل تحریر یہاں لکھ سکیں اللہ آپ کو جزائے خیر دے کیوں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی العقیدہ الواسطیہ کی تو ابتداء ہی آپ کی بات کی نفی کر رہی ہے، میں آپ کو جھٹلا نہیں رہا ہو سکتا ہے کہ ان کی کسی اور کتاب میں ایسا کوئی قرینہ ہو تو وہ حوالے کے ساتھ یہاں درج کریں
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
((فصل في ما يجوز أن يسمى الله به ويدعى به و يخبر عنه به))

((....وَيُفَرِّقُ بَيْنَ دُعَائِهِ وَالْإِخْبَارِ عَنْهُ فَلَا يُدْعَى إلَّا بِالْأَسْمَاءِ الْحُسْنَى ؛ وَأَمَّا الْإِخْبَارُ عَنْهُ : فَلَا يَكُونُ بِاسْمِ سَيِّئٍ ؛ لَكِنْ قَدْ يَكُونُ بِاسْمِ حَسَنٍ أَوْ بِاسْمِ لَيْسَ بِسَيِّئِ وَإِنْ لَمْ يُحْكَمْ بِحُسْنِهِ . مِثْلَ اسْمِ شَيْءٍ وَذَاتٍ وَمَوْجُودٍ ؛ إذَا أُرِيدَ بِهِ الثَّابِتُ - وَأَمَّا إذَا أُرِيدَ بِهِ " الْمَوْجُودُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ " فَهُوَ مِنْ الْأَسْمَاءِ الْحُسْنَى - وَكَذَلِكَ الْمُرِيدُ وَالْمُتَكَلِّمُ ؛فَإِنَّ الْإِرَادَةَ وَالْكَلَامَ تَنْقَسِمُ إلَى مَحْمُودٍ وَمَذْمُومٍ فَلَيْسَ ذَلِكَ مِنْ الْأَسْمَاءِ الْحُسْنَى بِخِلَافِ الْحَكِيمِ وَالرَّحِيمِوَالصَّادِقِ وَنَحْوِ ذَلِكَ فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَكُونُ إلَّا مَحْمُودًا )) .
"مجموع الفتاوى 6/142
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امام ابن حنبل صفات کے بارے میں قاعدہ بیان فرماتے ہیں
صفات اللہ توقیفۃ لا یوصف اللہ الا بما وصف بہ نفسہ او وصف بہ رسولہ

قرآن و حدیث میں اللہ کی صفات کا تذکرہ تین انداز میں ہے
1۔ اللہ تعالی یا آپﷺ نے واضح انداز میں صفت کا تذکرہ کیا ہو
قل للہ العزۃ جمیعا
2۔جو اسماء سے ماخوذ ہوں
الغفور سے صفت مغفرت ‘ السمیع سے سماعت وغیرہ
اللہ تعالی اپنے افعال کا تذکرہ کرتے ہیں جو صفات پر دلالت کرتے ہیں
الرحمان علی العرش استوی (الستواء علی العرش)
ینزل ربنا الی السماء الدنیا (نزول الی السماء الدنیا)
وجاء ربک والملک صفا صفا (صفت مجیی)
ان تین صورتوں کے علاوہ ہمیں غیر منصوص صفات کی نسبت اللہ کی طرف نہین کرنی چاہیے
واللہ اعلم
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ویسے مزید کوئی حتمی بات تو مطالعہ کے بعد ہی کی جا سکتی ہے لیکن فی الحال کچھ استفادات درج کر رہا ہوں جو زیر مطالعہ ہیں
قال البخاري: ((بَابُ {قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلِ اللَّهُ} [الأنعام: 19] ، «فَسَمَّى اللَّهُ تَعَالَى نَفْسَهُ شَيْئًا، وَسَمَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ القُرْآنَ شَيْئًا، وَهُوَ صِفَةٌ مِنْ صِفَاتِ اللَّهِ» ، وَقَالَ: {كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ} [القصص: 88] ))
يقول الراجحي: ((فيه إثبات أنه يطلق على الله -تعالى- أنه شيء وذلك من باب الخبر، وقول البخاري (فسمي الله نفسه شيئًا) كما قال الله -تعالى-: قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلِ اللَّهُ فسمى الله نفسه شيئًا أي: أخبر عن نفسه بأنه شيء، فكل موجود شيء، والذي لا شيء معدوم، فلا يقال: من صفاته أنه شيء، لكن يخبر عنه أنه شيء، فباب الخبر أوسع من باب الصفات، فيخبر عن الله بأنه شيء، ولا يقال: من صفاته أنه شيء)). بتصرف .
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
وقال الغنيمان: (( يريد بهذا أن يطلق على الله -تعالى- أنه شيء، وكذلك صفاته، وليس معنى ذلك أن "الشيء" من أسماء الله الحسنى، ولكن يخبر عنه -تعالى- بأنه شيء، وكذا يخبر عن صفاته بأنها شيء؛ لأن كل موجود يصح أن يقال: إنه شيء))
 
Top