• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فاتحہ خوانی اور نیاز حرام ہے ؟

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بریلویں کے امام احمد رضا خانصاحب کے نزدیک تیجہ اور چالیسواں
سوم ساتویں او ر چالیسویں کے بارے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں(ملاحظہ کریں ،ص ۳۳۴احکام شریعت)
دجل اور فریب ایسی کا نام ہے سوال لکھا نہیں لیکن جس سوال پر یہ جواب دیا گیا وہ لکھ دیا گیا سوال میں عرض کئے دیتا ہوں

مسئلہ ۲۶۶: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اکثر بلاد ہندیہ میں رسم ہے کہ میّت کے روز وفات سے اس کے اعزہ واقارب واحباب کی عورات اس کے یہاں جمع ہوتی ہیں، ا س اہتمام کے ساتھ جو شادیوں میں کیا جاتا ہے ۔ پھر کچھ دوسرے دن اکثر تیسرے دن واپس آتی ہیں، بعض چالیس دن تک بیٹھتی ہیں، اس مدت اقامت میں عورات کے کھانے پینے، پان چھالیا کا اہتمام اہل میّت کرتے ہیں جس کے باعث ایک صرف کثیر کے زیر بارہوتے ہیں، اگر اس وقت ان کا ہاتھ خالی ہو توا س ضرورت سے قرض لیتے ہیں، یوں نہ ملے توسودی نکلواتے ہیں، اگر نہ کریں تومطعون و بدنام ہوتے ہیں، یہ شرعاً جائز ہے کیا؟ بینوا توجروا

اب زرا ہائٹ لائٹ کئے گئے الفاظ پر غور فرمالیں یعنی میت کے پہلے روز سےتیسرے روز تک کھانا میت کے گھروالوں کی طرف سے کیا جاتا اس اہتمام سے جیسا کہ شادی بیاہ کے موقع پر کیا جاتا ہے حتی کہ کھانے پینے، پان چھالیہ کا اہتمام بھی اہل میّت کرتے ہیں اور اگر اس وقت یہ خالی ہاتھ ہوں تو قرض لیتے ہیں اگر بلاسودی قرض نہ ملے تو سودی قرض لے کر یہ اہتمام کرتے ہیں تو اس سودی قرض لے کر یہ اہتمام کرنے کے بارے فرمایا گیا کہ
سبحان اللہ اے مسلمان یہ پوچھتاہے،یوں پوچھ کہ یہ ناپاک رسم کتنے قبیح اورشدید گناہوں،سخت وشنیع خرابیوں پر مشتمل ہے
اور دوسری بات یہ کہ جواب بھی پورا نہیں لکھا گیا وہ بھی میں ہی عرض کئے دیتا ہوں
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد اﷲ الذی ارسل نبینا الرحیم الغفور بالرفق والتیسیر واعدل الامور فسن الدعوۃ عند السرور دون الشرور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وبارک علیہ وعلٰی اٰلہ الکرام وصحبہ الصدور۔

سب خوبیاں اﷲ کے لیے جس نے ہمارے رحم کرنے بخشنے والے نبی کر نرمی وآسانی کے ساتھ بھیجا اور کاموں میں اعتدال رکھا، تو دعوت کا طریقہ سرور کےوقت رکھا نہ کہ شرور کے وقت، خدائے تعالٰی ان پر ان کی معزز آل، اور مقدم اصحاب پر درود سلام اور برکت نازل فرمائے۔ (ت)
سبحان اﷲ! اے مسلمان! یہ پوچھتا ہے جائز ہے یا کیا؟ یوں پوچھو کہ یہ ناپاک رسم کتنے قبیح اور شدید گناہوں سخت وشنیع خرابیوں پرمشتمل ہے۔

اولاً یہ دعوت خود ناجائز وبدعت شنیعہ قبیحہ ہے۔ امام احمد اپنے مسند اور ابن ماجہ سنن میں بہ سند صحیح حضرت جریر بن عبداللہ بجلی سے راوی:کنا نعد الاجتماع الی اھل المیّت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ ۱؎۔ہم گروہِ صحابہ اہل میّت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے۔

(۱؎ مسند احمد بن حنبل مروی از مسند عبداللہ بن عمرو دارالفکر بیروت ۲ /۲۰۴)
(سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی النہی عن الاجتماع الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۱۷)

جس کی حرمت پر متواتر حدیثیں ناطق___ امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں:یکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من اھل المیّت لا نہ شرع فی السرور لافی الشرور وھی بدعۃ مستقبحۃ۲؎۔اہل میّت کی طرف سے کھانے کی ضیافت تیار کرنی منع ہے کہ شرع نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غمی میں۔ اوریہ بدعت شنیعہ ہے۔

(۲؎ فتح القدیر فصل فی الدفن مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲ /۱۰۲)

اسی طرح علامہ حسن شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں فرمایا:ولفظہ یکرہ الضیافۃ من اھل المیّت لانھا شرعت فی السرور لا فی شرور وھی بدعۃ مستقبحۃ۳؎۔میّت والوں کی جانب سے ضیافت منع ہے اس لیے کہ اسے شریعت نے خوشی میں رکھا ہے نہ کہ غمی میں اور یہ بری بدعت ہے۔ (ت)

(۳؎ مراقی الفلاح علٰی ھامش حاشیۃ الطحطاوی فصل فی حملہا ودفنہانور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص۳۳۹)

فتاوٰی خلاصہ وفتاوٰی سراجیہ وفتاوٰی ظہیریہ وفتاوٰی تاتار خانیہ اور ظہیریہ سے خزانۃ المفتین وکتاب الکراہیۃ اور تاترخانیۃ سے فتاوٰی ہندیہ میں بالفاظ متقاربہ ہے:والفظ للسراجیۃ لایباح اتخاذ الضیافۃ عند ثلثۃ ایام فی المصیبۃ ۱؎اھ زاد فی الخلاصہ لان الضیافۃ تتخذ عند السرور ۲؎ ۔سراجیہ کے الفاظ ہیں کہ غمی میں یہ تیسرے دن کی دعوت جائز نہیں، اھ خلاصہ میں یہ اضافہ کیا کہ دعوت تو خوشی میں ہوتی ہے (ت)

(۱؎ فتاوٰی سراجیہ کتاب الکراہیۃ باب الولیمہ منشی نولکشور لکھنؤ ص۷۵)
(۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الکراہیۃ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴ /۳۴۲)

فتاوٰی امام قاضی خاں کتاب الح و الاباحۃ میں ہے:یکرہ اتخاذ الضیافۃ فی ایام المصیبۃ لانھا ایام تاسف فلا یلیق بھا مایکون للسرور ۳؎۔غمی میں ضیافت ممنوع ہے کہ یہ افسوس کے دن ہیں تو جو خوشی میں ہوتاہے ان کے لائق نہیں۔

(۳؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الکراہیۃ منشی نولکشور لکھنؤ ۴ /۷۸۱)

تبیین الحقائق امام زیلعی میں ہے:لاباس بالجلوس للمصیبۃ الی ثلث من غیر ارتکاب محظور من فرش البسط والاطعمۃ من اھل المیّت ۴؎ ۔مصیبت کے لیے تین دن تک بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں جبکہ کسی امر ممنوع کا ارتکا ب نہ کیا جائے۔ جیسے مکلف فرش بچھانے اور میّت والوں کی طرف سے کھانے۔

(۴؎ تبیین الحقائق فصل فی تعزیۃ اہل البیت مطبعہ کبرٰی امیریہ مصر ۱ /۲۴۶)

امام بزازی وجیز میں فرماتے ہیں :یکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الاول والثالث و بعد الاسبوع ۵؎ ۔یمنی میّت کے پہلے یا تیسرے دن یا ہفتہ کے بعد جو کھانے تیار کرائے جاتے ہیں سب مکروہ و ممنوع ہیں۔

(۵؎ فتاوٰی بزازیہ علی ھامش فتاوٰی ہندیہ الخامس والعشرون فی الجنائز نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۸۱)

علامہ شامی ردالمحتا رمیں فرماتے ہیں:اطال ذلک فی المعراج وقال وھذہ الافعال کلھا للسمعۃ والریاء فیتحرز عنھا ۶؎ ۔یعنی معراج الدرایہ شرح ہدایہ نے اس مسئلہ میں بہت طویل کلام کیا اور فرمایا: یہ سب ناموری اور دکھاوے کے کام ہیں ان سے احتراز کیا جائے۔

(۶؎ ردالمحتار باب صلٰوۃ الجنائز مطلب فی کراہیۃ الضیافۃ الخ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر ۱ /۲۰۳)

جامع الرموز آخر الکراھیۃ میں ہے :یکرہ الجلوس للمصیبۃ ثلثۃ ایام اواقل فی المسجد ویکرہ اتخاذ الضیافۃ فی ھذہ الایام وکذا اکلہا کمافی خیرۃ الفتاوی ۱؎ ۔یعنی تین دن یا کم تعزیت لینے کے لیے مسجد میں بیٹھنا منع ہے اور ان دنوں میں ضیافت بھی ممنوع اور اس کا کھانا بھی منع ہے، جیسا کہ خیرۃ الفتاوی میں تـصریح کی۔

(۱؎ جامع الرموز کتاب الکراہیۃ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران ۳ /۳۲۸)

اورفتاوٰی انقروی اور واقعات المفتین میں ہے :یکرہ اتخاذ الضیافۃ ثلاثۃ ایام واکلہا لانہا مشروعۃ للسرور ۲؂تین دن ضیافت اور اس کا کھانا مکروہ ہے کہ دعوت تو خوشی میں مشروع ہوئی ہے۔

(۲؎ فتاوٰی انقرویہ کتاب الکراہیۃ والاستحسان دارالاشاعت العربیۃ قندھار ۱ /۳۰)

کشف الغطاء میں ہے :ضیافت نمودن اہل میّت اہل تعزیت راوپختن طعام برائے آنہا مکروہ ست۔ باتفاق روایات چہ ایشاں رابہ سبب اشتغال بمصیبت استعداد وتہیہ آن دشوار است۳؎۔تعزیت کرنے والوں کے لیے اہل میّت کا ضیافت کرنا اور کھانا پکانا باتفاق روایات مکروہ ہے اس لیے کہ مصیبت میں مشغولی کی وجہ سے ا س کا اہتمام ان کے لیے دشوار ہے۔ (ت)

(۳؎ کشف الغطاء فصل نہم تعزیت ص۷۴)

اسی میں ہے :پس انچہ متعارف شدہ از پختن اہل مصیبت طعام را درسوم وقسمت نمودن آن میان اہل تعزیت واقران غیر مباح ونامشروع است وتصریح کردہ بداں در خزانہ چہ شرعیت ضیافت نزد سرور ست نہ نزد شرور وھو المشہور عند الجمہور ۴؎۔تو یہ رواج پڑگیا ہے کہ تیسرے دن اہل میّت کا کھانا پکاتے ہیں اور اہل تعزیت اور دوستوں کو بانٹتے کھلاتے ہیں ناجائز وممنوع ہے۔ خزانۃ میں اس کی تصریح ہے اس لیے کہ شرع میں ضیافت خوشی کے وقت رکھی گئی ہے مصیبت کے وقت نہیں اور یہی جمہور کے نزدیک مشہور ہے۔ (ت)

(۴؂ کشف الغطاء فصل نہم تعزیت ص۷۴)

ثانیاً غالباً ورثہ میں کوئی یتیم یااور بچہ نابالغ ہوتا ہے۔ یا اور ورثہ موجود نہیں ہوتے، نہ ان سے اس کا اذن لیاجاتا ہے، جب تو یہ امر سخت حرام شدید پر متضمن ہوتا ہے۔
اللہ عزوجل فرماتا ہے:ان الذین یاکلون اموال الیتامٰی ظلما انما یاکلون فی بطونھم نارا سیصلون سعیرا ۱؎ ۔بیشک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق کھاتے ہیں بلاشبہہ وہ اپنے پیٹوں میں انگارے بھرتے ہیں ، اور قریب ہے
کہ جہنم کے گہراؤ میں جائیں گے۔

(۱؎ القرآن ۴ /۱۰)

مال غیر میں بے اذن غیر تصرف خود ناجائز ہے،قال تعالٰی: لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل ۲؎ (اپنے مال آپس میں ناحق نہ کھاؤ۔ ت)

(۲؎ القرآن ۲ /۱۸۸)

خصوصاً نابالغ کا مال ضائع کرنا جس کا اختیار نہ خود اسے ہے نہ اس کے باپ نہ اسے کے وصی کولان الولایۃ للنظر لاللضرر علی الخصوص (اس لیے کہ ولایت فائدے میں نظر کے لیے ہے نہ کہ معین طور پر ضرر کے لیے۔ ت) اور اگر ان میں کوئی یتیم ہوا تو آفت سخت تر ہے ،والعیاذ باﷲ رب العالمین ۔ہاں اگر محتاجوں کے دینے کو کھانا پکوائیں توحرج نہیں بلکہ خوب ہے۔ بشرطیکہ یہ کوئی عاقل بالغ اپنے مال خاص سے کرے یا ترکہ سے کریں، تو سب وارث موجود و بالغ وراضی ہوں،

خانیہ وبزازیہ وتتارخانیہ وہندیہ میں ہے :ان اتخذ طعا ماللفقراء کان حسنا اذاکانت الورثۃ بالغین وان کان فی الورثہ صغیر لم یتخذوا ذلک من الترکۃ ۳؎۔اگر فقراء کے لیے کھانا پکوائے تواچھا ہے جب کہ سب ورثہ بالغ ہوں، اور اگر کوئی وارث نابالغ ہو تو یہ ترکہ سے نہ کریں۔ (ت)

(۳؎ فتاوٰی ہندیہ الباب الثانی عشرفی الہدایا والضیافات نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۳۴۴)

نیز فتاوٰی قاضی خاں میں ہے:ان اتخذ ولی المیّت طعاما للفقراء کان حسنا الاان یکون فی الورثۃ صغیر فلا یتخذ ذلک من الترکۃ ۴؎ ۔ولی میّت اگر فقراء کے لیے کھانا تیار کرائے تو اچھا ہے۔ لیکن ورثہ میں اگر کوئی نابالغ ہو تو ترکہ سے یہ کام نہ کرے۔ (ت)

(۴؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الحظروالاباحۃ منشی نولکشور لکھنؤ ۴ /۷۸۱)

ثالثا یہ عورتیں کہ جمع ہوتی ہیں افعالِ منکرہ کرتی ہیں، مثلاً چلاّ کر رونا پیٹنا ، بناوٹ سے منہ ڈھانکنا، الٰی غیر ذلک، او ر یہ سب نیاحت ہے اور نیاحت حرام ہے، ایسے مجمع کے لیے میّت کے عزیزوں اور دوستوں کو بھی جائز نہیں کہ کھانا بھیجیں کہ گناہ کی امداد ہوگی،قال تعالٰی: ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان ۵؎ (گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ ت) نہ کہ اہل میّت کا اہتمام طعام کرنا کہ سرے سے ناجائز ہے ، تواس ناجائز مجمع کے لئے ناجائز تر ہوگا،

(۵؂ القرآن ۵ /۲)

کشف الغطاء میں ہے:ساختن طعام در روز ثانی وثالث برائے اہل میّت اگر نوحہ گراں جمع باشند است زیرا کہ اعانت است ایشاں را برگناہ ۱؎ ۔اگر نوحہ کرنے والیا ں جمع ہوں تواہل میّت کے لیے دوسرے تیسرے دن کھانا پکوانا مکروہ ہے کیونکہ اس میں گناہ پر اعانت ہے۔ (ت)

(۱؎ کشف الغطاء فصل نہم تعزیت ص۷۴)

رابعاً اکثر لوگوں کواس رسم شنیع کے باعث اپنی طاقت سے زیادہ ضیافت کرنی پڑتی ہے،یہاں تک کہ میّت والے بیچارے اپنے غم کو بھول کر اس آفت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اس میلے کے لیے کھانا، پان چھالیا کہاں سے لائیں اور بار ہا ضرورت قرض لینے کی پڑتی ہے۔ ایسا تکلف شرع کو کسی امر مباح کے لیے بھی زنہار پسند نہیں، نہ کہ ایک رسم ممنوع کے لیے، پھراس کے باعث جو دقتیں پڑتی ہیں خود ظاہر ہیں پھر اگر قرض سودی ملا تو حرام خالص ہوگیا، اور معاذا ﷲ لعنت الہٰی سے پورا حصہ ملے کہ بے ضرورت شرعیہ سود دینا بھی سود لینے کے باعث لعنت ہے، جیسا کہ صحیح حدیث میں فرمایا۔ غرض اس رسم کی شناعت وممانعت میں شک نہیں، اﷲ عزوجل مسلمانوں کو توفیق بخشے کہ قطعاً ایسی رسوم شنیعہ جن سے ان کے دین ودنیا کا ضرر ہے ترک کردیں، اور طعن بیہودہ کا لحاظ نہ کریں، واﷲ الہادی۔
تنبیہ: اگر چہ صرف ایک دن یعنی پہلے ہی روز عزیزوں کوہمسایوں کو مسنون ہے کہ اہل میّت کے لیے اتنا کھانا پکوا کر بھیجیں جسے وہ دو وقت کھا سکیں اور باصرار انھیں کھلائیں، مگریہ کھانا صرف اہل میّت ہی کے قابل ہونا سنت ہے۔ اس میلے کے لیے بھیجنے کا ہر گز حکم نہیں اور ان کے لیے بھی فقط روز اول کا حکم ہے آگے نہیں،

کشف الغطاء میں ہے:مستحب است خویشاں وہمسایہائے میّت راکہ اطعام کنندطعام رابرائے اہل وے کہ سیر کند ایشاں رایک شبانہ روز والحاح کنند تابخورند ودرخوردن غیر اہل میّت ایں طعام رامشہور آنست کہ مکروہ است ۲؎ اھ ملخصاًمیّت کے عزیزوں، ہمسایوں کے لیے مستحب ہے کہ اہل میّت کے لیے اتنا کھانا پکوائیں جسے ایک دن رات وہ سیر ہوکر کھاسکیں، اور اصرار کر کے کھلائیں، غیر اہل میّت کے لیے یہ کھانا قول مشہور کی بنیاد پر مکروہ ہے اھ ملخصا! (ت)

(۲؎ کشف الغطاء فصل نہم تعزیت ص۷۴)

عالمگیری میں ہے:حمل الطعام الی صاحب المصیبۃ والاکل معھم فی الیوم الاول جائز لشغلھم بالجھاز وبعدہ یکرہ کذافی التتار خانیۃ ۱؎ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔اہل میّت کے یہاں پہلے دن کھانا لے جانا اور ان کے ساتھ کھانا جائز ہے کیونکہ وہ جنازے میں مشغول رہتے ہیں اور اس کے بعد مکروہ ہے۔ ایسا ہی تتارخانیہ میں ہے: واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔ (ت)

(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ الباب الثانی عشرفی الہدایا والضیافات نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۳۴۴)
فتویٰ رضویہ سوفٹ وئیر جلد 9 کتاب الجنائز صفحہ 161۔164
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اور جہاں تک بات ہے چہلم وغیرہ کرنے کی تو امام اہل سنت امام احمد رضا خان سے جب اس بارے سوال کیا گیا کہ
مسئلہ۲۶۹: از کلی ناگر ۔ پرگنہ پورن پور، ضلع پیلی بھیت ، مکان علن خاں نمبردار، مرسلہ اکبر علی شاہ ۱۶جمادی الاولٰی ۱۳۱۱ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی شخص مرے ا وراس کے گھر والے چہلم کا کھاناپکائیں اور جو برادر یا غیر ہوں ان سے کہیں کہ تمھاری دعوت ہے تووہ دعوت قبول کی جائے یانہیں؟ اور کھانا کیساہے؟ بینوتوجروا
الجواب
اللھم ہدایۃ الحق والصواب۔عرف پر نظر شاہد کہ چہلم وغیرہ کے کھانے پکانے سے لوگوں کا اصل مقصود میّت کوثواب پہنچانا ہوتا ہے، اسی غرض سے یہ فعل کرتے ہیں، ولہٰذا اسے فاتحہ کا کھانا چہلم کی فاتحہ وغیرہ کہتے ہیں، شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر فتح العزیز میں فرماتے ہیں:وارد ست کہ مردہ دریں حالت مانند غریقے است کہ انتظار فریادرسی مے بردو صدقات وادعیہ وفاتحہ درین وقت بسیار بکار اومی آید ازیں ست کہ طوائف بنی آدم تایک سال وعلی الخصوص تایک چلہ بعد موت درین نوع امداد کوشش تمام می نمایند۔۱؎وار د ہے کہ مردہ اس حالت میں کسی ڈوبنے والے کی طرح فریاد رسی کا منتظر ہوتا ہے اور اس وقت میں صدقے، دعائیں اور فاتحہ اسے بہت کام آتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ لوگ مرنے سے ایک سال تک خصوصاً چالیس دن تک اس طرح مدد پہنچانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں (ت)

(۱؎ تفسیر عزیزی زیر آیۃ والقمر اذ اتسق الخ مسلم بک ڈپو۔ لال کُنواں دہلی ص۶۰۲)

اور شک نہیں کہ اس نیت سے جو کھانا پکایا جائے مستحسن ہے اور عند التحقیق صرف فقراء ہی پر تصدق میں ثواب نہیں بلکہ اغنیاء پر بھی مورث ثواب ہے، حضور پر نور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : فی کل ذات کبد رطبۃ اجر ۲؎ ہر گرم جگر میں ثواب ہے، یعنی زندہ کو کھانا کھلائے گا، پانی پلائے گا ثواب پائے گا۔اخرجہ البخاری ومسلم عن ابی ھریرۃ واحمد عن عبداﷲ بن عمروہ ابن ماجۃ عن سراقۃ بن مالک رضی اﷲ عنہم (اسے بخاری ومسلم نے حضرت ابو ہریرہ سے ، امام احمد نے حضرت عبداﷲ بن عمرو سے، اور ابن ماجہ نے حضرت سراقہ بن مالک سے روایت کیا رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔ ت)

(۲؎ سنن ابن ماجہ باب فضل صدقہ الماء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۷۰)

حدیث میں ہے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:فیما یاکل ابن آدم اجر وفیما یاکل السبع اوالطیر اجر ۱؎۔ رواہ الحاکم عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما وصحح سندہ۔جو کچھ آدمی کھا جائے اس میں ثواب ہے اور جودرندہ کھا جائے اس میں ثواب ہے جو پرند کو پہنچے ا س میں ثواب ہے (حاکم نے اسے حضرت جا بر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا اور اس کی سند کو صحیح کہا۔ ت)

(۱؎ مستدرک علی الصحیحین کتاب الاطعمہ دارالفکر بیروت ۴ /۱۳۳)

بلکہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:مااطعمت زوجک فھو لک صدقۃ ومااطعمت ولدک فھو لک صدقۃ ومااطعمت خادمک فھو لک صدقۃ وما اطعمت نفسک فھو لک صدقۃ۔ ۲؎ اخرجہ الامام احمد والطبرانی فی الکبیر بسند صحیح عن المقدام بن معدی کرب رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔جو کچھ تو اپنی عورت کو کھلائے وہ تیرے لیے صدقہ ہے اور جو کچھ تو اپنے بچوں کو کھلائے وہ تیرے لیے صدقہ ہے اور جو کچھ تو خود کھائے وہ تیرے لیے ْصدقہ ہے (اسے امام احمد نے مسند میں اور طبرانی نے کبیر میں بسند صحیح حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ت)

(۲؎ المعجم الکبیر مروی از مقدام بن معدی کرب حدیث ۶۳۴ مکتبہ فیصلیہ بیروت ۲۰ /۲۶۸)
(مسند احمد بن حنبل حدیث المقدام بن معدیکرب دارالفکر بیروت ۴ /۱۳۱)

ردالمحتار میں ہے:صرح فی الذخیرۃ فیھا ولو علی غنی لان المقصود فیھا الفقیر ۳؎ ۔ذخیرہ میں صراحت ہے کہ غنی پر صدقہ کرناایک طرح کی قربت ہے جس کا درجہ فقیرپر تصدق کی قر بت سے کم ہے۔ (ت)

(۳؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۳۵۷)

درمختار میں ہے:الصدقۃ لا رجوع فیھا ولو علی غنی لان المقصود فیھا الثواب۴؎ ۔صدقہ سے رجوع نہیں ہوسکتا اگر چہ غنی پر ہو اس لیے کہ اس کا مقصود ثواب ہوتا ہے۔ (ت)

(۴؎ درمختار فصل فی مسائل متفرقہ من کتاب الھبہ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۶۶)

اسی طرح ہدایہ وغیرہ میں ہے____ مجمع بحارالانوار میں توسط شرح سنن ابی داؤد سے ہے:الصدقۃ ماتصدقت بہ علی الفقراء ای غالب انواعھا کذلک فانھا علی الغنی جائزۃ عندنا یثاب بہ بلاخلاف ۱؎ ۔صدقہ وہ ہے جو تم فقراء پر تصدق کرو، یعنی صدقہ کی اکثر قسمیں فقراء ہی پر ہوتی ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک غنی پر بھی صدقہ جائز ہے بلاخلاف ا س پر وہ مستحق ثواب ہے۔ (ت)

(۱؎ مجمع بحار الانوار تحت لفظ صدق نولکشور لکھنؤ ۲ /۲۳۸)

اور مدار کار نیت پر ہےانما الاعمال بالنیات۔تو جوکھانا فاتحہ کے لیے پکایا گیا ہے بلاتے وقت اسے بلفظ دعوت تعبیر کرنا اس نیت کوباطل نہ کرے گا، جیسے کسی نے اپنے محتاج بھائی بھتیجوں کو عید کے کچھ روپیہ دل میں زکوٰۃ کی نیت اور زبان سے عیدی کا نام لے کر کے دئے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ،عیدی کہنے سے وہ نیت باطل نہ ہوگی

کما نصوا علیہ فی عامۃ الکتب ( جیسا کہ عامہ کتب میں علماء نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ ت) معہذا اپنے قریبوں عزیزوں کے مواسات بھی صلہ رحم وموجب ثواب ہے، اگر چہ وہ اغنیاء ہوںوقد عرف ذلک فی الشرع بحیث لا یخفی الاعلٰی جاھل ( جیساکہ شریعت میں یہ ایسا معروف ہے کہ کسی جاہل ہی سے مخفی ہوگا ۔ت) او رآدمی جس امر پر خود ثواب پائے وہ فعل کوئی فعل ہو اس کا ثواب میّت کو پہنچا سکتا ہے۔ کچھ خاص تصدق ہی کی تخصیص نہیں،کما تبین ذلک فی کتب اصحابنا رحمہم اﷲ تعالٰی( جیسا کہ ہمارے علماء رحمہم اﷲ تعالٰی کی کتابوں میں یہ روشن ہوچکا ہے۔ ت)
امام عینی بنایہ میں فرماتے ہیں :الاصل ان الانسان لہ ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلٰوۃ اوصوماً اوصدقۃ اوغیرھا ش کالحج وقرا ءۃ القراٰن والاذکار وزیارۃ قبور الانبیاء والشھداء والاولیاء والصالحین وتکفین الموتی وجمیع انواع البر والعبادۃ کالزکٰوۃ والصدقۃ والعشور والکفارات ونحوھا، اوبدنیۃ کالصوم والصّلٰوۃو الاعتکاف وقراءۃ القراٰن و الذکر والدعاء اومرکبۃ منھا کالحج والجھاد وفی البدائع جعل الجھاد من البدنیات وفی المبسوط جعل المال فی الحج شرط الوجوب فلم یکن الحج مرکبا قیل ھو اقرب الی الصواب ولھذ الایشترط المال فی حق المکی اذا قدر علی المشی الی عرفات فاذا جعل شخص ثواب ماعملہ من ذلک الٰی اخر یصل الیہ وینتفع بہ حیا کان المھدی الیہ او میتا ۱؎ اھ ونقلنا عبارۃ الشرح بطولھا للمافیہا من ا لفوائد۔

اصل یہ ہے کہ انسان اپنے کسی عمل کا ثواب دوسرے کے لیے کرسکتا ہے، نماز ہو یا روزہ یا صدقہ یا اس کے علاوہ، ہدایہ۔ جیسے حج تلاوتِ قرآن، اذکار، انبیاء، شہداء ،اولیاء اور صالحین کے مزارات کی زیارت، مُردے کو کفن دینا، اور نیکی وعبادت کی تمام قسمیں جیسے زکوٰۃ، صدقہ، عشر، کفارہ اور ان کے مثل مالی عبادتیں، یابدنی جیسے روزہ، نماز اعتکاف، تلاوت قرآن، ذکر،دعا یا دونوں سے مرکب جیسے حج اور جہاد ____ اور بدائع میں جہاد کو بدنی عبادتوں سے شمار کیا ہے اور مبسوط میں مال کو حج کے وجوب کی شرط بتایا ہے تو حج مالی وبدنی سے مرکب نہیں بلکہ صرف بدنی عبادت ہوا۔ کہا گیا یہ درستی سے زیادہ قریب ہے۔ اسی لیے مکی کے حق میں مال کی شرط نہیں جبکہ وہ عرفات تک پیادہ جانے پر قادر ہو، تو جب مذکورہ عبادات میں سے اپنی ادا کی ہوئی کسی عبادت کاثواب کوئی شخص دوسرے کے لیے کردے تو وہ اسے پہنچے گا اور اس سے اس کو فائدہ ملے گا۔ جسے ہدیہ کیا ہے وہ زندہ ہو یا وفات پاچکاہو اھ بنایہ۔ ہم نے شرح کی یہ طویل عبارت اس لیے نقل کردی کہ اس میں متعدد فوائد ہیں۔ (ت)

(۱؎ البنایۃ شرح الہدایۃ باب الحج عن الغیر المکتبۃ الامدادیۃ مکۃ المکرمۃ ۲ /۱۶۱۱)

یوں بھی اس نیت محمود میں کچھ خلل نہیں اگرچہ افضل وہی تھا کہ صرف فقراء پر تصدق کرتے کہ جب مقصود ایصال ثواب تو وہی کام مناسب تر جس میں ثواب اکثر و وافر، پھر بھی اصل مقصود مفقود نہیں، جبکہ نیت ثواب پہنچانا ہے۔ہاں جسے یہ مقصود ہی نہ ہو بلکہ دعوت و مہمان داری کی نیت سے پکائے، جیسے شادیوں کا کھانا پکاتے ہیں توا سے بے شک ثواب سے کچھ علاقہ نہیں، نہ ایسی دعوت شرع میں پسند نہ اس کا قبول کرنا چاہئے کہ ایسی دعوتوں کا محل شادیاں ہیں نہ کہ غمی۔ ولہٰذا علماء فرماتے ہیں کہ یہ بدعت سیئہ ہے، جس طرح میّت کے یہاں روز موت سے عورتیں جمع ہوتی ہیں اور ان کے کھانے دانے، پان چھالیا کا اہتمام میّت والوں کو کرنا پڑتا ہے۔ وہ کھانا فاتحہ وایصال ثواب کا نہیں ہوتا بلکہ وہی دعوت ومہمان داری ہے کہ غمی میں جس کی اجازت نہیں،کما بیناہ ذلک فی فتاوٰنا(جیسا کہ اسے ہم نے اپنے فتاوٰی میں بیان کیا ہے۔ ت)

یوں ہی چہلم یا برسی یا ششماہی پرکھانا بے نیت ایصال ثواب محض ایک رسمی طور پر پکاتے اور شادیوں کی بھاجی کی طرح برادری میں بانٹتے ہیں،۔ وہ بھی بے اصل ہے، جس سے احتراز چاہئے، ایسے ہی کھانے کو شیخ محقق مولانا عبدالحق صاحب محدث دہلوی مجمع البرکات میں فرماتے ہیں:آنچہ بعد از سالے یا ششماہی یا چہل روز درین دیار پزند درمیان برادران بخشش کنند چیزے داخل اعتبار نیست بہتر آنست کہ نخورند ۲؎ اھ۔ ھکذا نقل عنہ شیخ الاسلام فی کشف الغطاء۔وہ جو اس دیارمیں ایک سال یا چھ ماہ پر پکاتے اور برادری میں بانٹتے ہیں کوئی معتبر چیز نہیں، بہتر یہ ہے کہ نہ کھائیں اھ ____ اسی طرح ان سے شیخ الاسلام نے کشف الغطاء میں نقل کیا ہے (ت)

(۲؎ مجمع البرکات)

خصوصاً جب اس کے ساتھ ریاء وتفاخر مقصود ہو کہ جب تواس فعل کی حرمت میں اصلاً کلام نہیں۔
اور حدیث صحیح میں ہے :نھی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن طعام المتباریین ان یوکل ۱؎ اخرجہ ابوداؤد والحاکم عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما باسناد صحیح۔ قال المناوی ای المتعارضین بالضیافۃ فخر ا و ریاء لانہ للریاء لاﷲ۲؎۔یعنی جو کھانے تفاخر و ریاء کے لیے پکائے جاتے ہیں ان کے کھانے سے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ (اسے ابوداؤد او رحاکم نے بسند صحیح حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنمہا سے نقل کیاہے۔ ت) امام مناوی نے کہا یعنی ضیافت کے ذریعہ ناموری اور دکھاوا مقصود ہو تو یہ اللہ تعالٰی کے لیے نہیں دکھاوے کے لیے ہے۔ (ت)

(۱؎المستدرک علی الصحیحین کتاب الاطعمۃ دارالفکر بیروت ۴ /۱۲۹)
(۲؎فیض القدیرشرح الجامع الصغیر زیرحدیث مذکور ۹۴۹۱ دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۳۳۵)
(التیسیر شرح الجامع الصغیر زیر حدیث مذکو ر مکتبۃ الامام الشافعی الریاض السعودیہ ۲ /۴۷۴)

مگر بے دلیل واضح کسی مسلمان کا یہ سمجھ لینا کہ یہ کام اس نے تفاخر و ناموری کے لیے کیا ہے جائز نہیں کہ قلب کا حال اللہ تعالٰی جانتاہے اورمسلمان پر بدگمانی حرام۔ھذا ھو بحمد اﷲ القول الوسط لاوکس فیہ ولاشطط وان خالف من فرط فی الباب و افرط، واﷲ سبحانہ، وتعالٰی اعلم۔یہ بحمد اﷲ درمیانی قول ہے جس میں نہ کمی ہے نہ زیادتی ۔ اگر چہ اس باب میں تفریط اورافراط کرنے والوں کے خلاف ہو۔ اور خدائے پاک وبرتر خوب جاننے والا ہے (ت)

مسئلہ ۲۷۰: ۳ربیع الآخر شریف ۱۳۱۱ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ میّت کے گھر کا کھانا، جو اہل میّت سوم تک بطور مہمانی کے پکاتے ہیں اور سوم کے چنوں بتاشوں کالینا کیسا ہے؟ بینوا توجروا۔

الجواب
میّت کے گھر کا وہ کھانا تو البتہ بلا شبہہ ناجائز ہے جیسا کہ فقیرنے اپنے فتوے میں مفصلاً بیان کیا، اور سوم کے چنے بتاشے کہ بغرض مہمانی نہیں منگائے جاتے بلکہ ثواب پہنچانے کے قصد سے ہوتے ہیں، یہ اس حکم میں داخل نہیں، نہ میرے اس فتوے میں ان کی نسبت کچھ ذکر ہے۔ یہ اگر مالک نے صرف محتاجوں کے دینے کے لیے منگائے اور یہی اس کی نیت ہے تو غنی کو ان کا بھی لینا نا جائز ، اور اگر اس نے حاضرین پر تقسیم کے لیے منگائے تو اگر غنی بھی لے لے گاتو گنہگار نہ ہوگا، اور یہاں بحکم عرف ورواج عام حکم یہی ہے کہ وہ خاص مساکین کے لیے نہیں ہوتے تو غنی کو بھی لینا جائز نہیں، اگر چہ احتراز زیادہ پسندیدہ ۔ اور اسی پر ہمیشہ سے اس فقیر کا عمل ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
دجل اور فریب ایسی کا نام ہے سوال لکھا نہیں لیکن جس سوال پر یہ جواب دیا گیا وہ لکھ دیا گیا سوال میں عرض کئے دیتا ہوں
دجل اور فریب کا مرتکب کون ہے اس کا فیصلہ ،،احمد رضا کے اسی فتوی سے لیتے ہیں :
امام احمد اپنے مسند اور ابن ماجہ سنن میں بہ سند صحیح حضرت جریر بن عبداللہ بجلی سے راوی:کنا نعد الاجتماع الی اھل المیّت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ ۱؎۔
ہم گروہِ صحابہ اہل میّت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے۔
(۱؎ مسند احمد بن حنبل مروی از مسند عبداللہ بن عمرو دارالفکر بیروت ۲ /۲۰۴)
(سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی النہی عن الاجتماع الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۱۷)
کتنی واضح حدیث پاک ہے کہ :میت کے گھر جمع ہونا ،اور وہاں کھانے کی دعوت اڑانا ۔۔اسی طرح حرام و ممنوع ہے ،جس طرح نوحہ خوانی حرام اور قبیح ہے ؛
اب اس حدیث جسے تم نے اور احمد رضا نے دلیل بنایا ہے، اس میں پہلے دوسرے دن کی تخصیص نہیں ؛اور نہ سود سے لئے گئے پیسے سے دعوت کے کھانے کی بات ہے،میت کے ہاں سے کسی دن بھی کھاو ، وہ اس حدیث شریف کی رو سے حرام ہی ہوگا ؛

کتنا دجل اور فریب ہے کہ ظالم مولوی اور ان کے گمراہ پیروکار ۔۔مرنے والے کے گھر کو اپنے دادا جی کا ڈیرہ سمجھ کر روزانہ ،اور ہر جمعرات اور تیجے پر یتیم اور بیوہ کے مال کو اڑانے پہنچ جاتے ہیں ؛
حالانکہ بے چارہ مولوی احمد رضا صاحب، حدیث شریف کے ساتھ ساتھ ’’ اپنی فقہ شریف ‘‘سے بھی ثابت کرتے ہیں ،کہ میت کے گھر اجتماع ،اور وہاں سے کھانا کھانا سخت برا کام ہے ۔بیچاری بیوہ ،اور یتیموں کا مال مت لٹاو ۔۔اللہ سے ڈرو ان پر رحم کرو،
بے شرموں ایسا نہ کرو ۔۔

جامع الرموز آخر الکراھیۃ میں ہے :یکرہ الجلوس للمصیبۃ ثلثۃ ایام اواقل فی المسجد ویکرہ اتخاذ الضیافۃ فی ھذہ الایام وکذا اکلہا کمافی خیرۃ الفتاوی ۱؎ ۔یعنی تین دن یا کم تعزیت لینے کے لیے مسجد میں بیٹھنا منع ہے اور ان دنوں میں ضیافت بھی ممنوع اور اس کا کھانا بھی منع ہے، جیسا کہ خیرۃ الفتاوی میں تصریح کی۔
(۱؎ جامع الرموز کتاب الکراہیۃ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران ۳ /۳۲۸)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
مرنے والا اگر پسماندگان میں ۔۔بیوہ ،اور بچے ۔۔چھوڑ گیا ہے ،تو ایسی صورت میں انکے گھر سے کھانا ،کھانا دوگنا ۔۔گناہ ہوگا؛
اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے :
اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا 10؀ۧالنساء
جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں ۔ عنقریب وہ جہنم میں داخل ہوں گے ‘‘
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
السلام و علیکم و رحمت الله-

اہل بدعت سے سوال ہے کہ اگر ایصال ثواب ممکن ہے تو کیا "ایصال گناہ" بھی ممکن ہے ؟؟
گو آپ نے یہ سوال مجھ سے نہیں بلکہ کسی ”اہل بدعت“ سے کیا ہے۔ تاہم آپ کی ”اطلاع“ کے لئے عرض ہے کہ جی ہاں! یہ صرف ممکن ہی نہیں بلکہ ایسا ہوتا بھی ہے۔ مثلاً
  1. آپ کسی بے روزگار کو جیب تراشی کا ”فن“ سکھلا کر ”مارکیٹ“ میں بھیج دیجئے۔ وہ جب تک جیب تراشی کرکے گناہ کماتا رہے گا، اس کے نامہ اعمال مین گناہ جمع ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی ”ایصال گناہ“ ہوتا رہے گا۔
  2. آپ کوئی ایسا ایسا ٹی وی چینل یا اخبار شروع کریں جو فحاشی اور گناہوں کی نشر و اشاعت کرے ۔ (آج کل تو تقریباً سارا میڈٍیا یہی کام کرتا ہے) ۔ بس آپ نے اپنے نام ”گناہ جاریہ“ کی ترسیل کا مستقل اہتمام کرلیا۔ آپ مر کھپ بھی جائیں، جب تک آپ کا آغاز کردہ چینل یا اخبار نکلتا رہے گا، آپ کو گناہ ”ایصال“ ہوتا رہے گا۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
گو آپ نے یہ سوال مجھ سے نہیں بلکہ کسی ”اہل بدعت“ سے کیا ہے۔ تاہم آپ کی ”اطلاع“ کے لئے عرض ہے کہ جی ہاں! یہ صرف ممکن ہی نہیں بلکہ ایسا ہوتا بھی ہے۔ مثلاً
  1. آپ کسی بے روزگار کو جیب تراشی کا ”فن“ سکھلا کر ”مارکیٹ“ میں بھیج دیجئے۔ وہ جب تک جیب تراشی کرکے گناہ کماتا رہے گا، اس کے نامہ اعمال مین گناہ جمع ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی ”ایصال گناہ“ ہوتا رہے گا۔
  2. آپ کوئی ایسا ایسا ٹی وی چینل یا اخبار شروع کریں جو فحاشی اور گناہوں کی نشر و اشاعت کرے ۔ (آج کل تو تقریباً سارا میڈٍیا یہی کام کرتا ہے) ۔ بس آپ نے اپنے نام ”گناہ جاریہ“ کی ترسیل کا مستقل اہتمام کرلیا۔ آپ مر کھپ بھی جائیں، جب تک آپ کا آغاز کردہ چینل یا اخبار نکلتا رہے گا، آپ کو گناہ ”ایصال“ ہوتا رہے گا۔
السلام علیکم و رحمت الله

محترم -

ایصال ثواب کا اصل مطلب ہے کہ کسی ایک شخص کا دوسرے شخص کو اپنے عمل کا ثواب پہنچانا-

جب کہ الله کا قانون تو کہتا ہے کہ :

وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ- سوره النجم -وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ- ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ سوره النجم ٣٩-٤١
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے-اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب پرکھی جائے گی- پھر اسے پورا بدلہ دیا جائے گا-

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ سوره البقرہ ١٤١
یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی ان کے لیے ان کے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں اور تم سے ان کے اعمال کی نسبت نہیں پوچھا جائے گا-

اب اس تناظر میں سوال کو سمجھیں اور جواب پیش کریں کہ کیا ایک شخص کے ذاتی عمل کا ثواب دوسرے شخص (جو کہ مر چکا ہے) کو پہنچ سکتا ہے یا نہیں؟؟ اور اسی طرح کسی ایک شخص کے ذاتی گناہ کا عذاب دوسرے شخص (جو مر چکا ہو) کو پہنچ سکتا ہے یا نہیں ؟؟-

آپ نے جو مثالیں پیش کیں ہیں ان سے واضح ہے کہ ایک آدمی کے نامہ اعمال میں جو گناہ لکھا جائے گا وہ اس کا اپنا کیا دھرا ہے جس کی بنیاد پر اس کو عذاب ہو گا-

یعنی کسی شخص نے کسی غلط کام کی داغ بیل ڈالی اور بعد میں لوگوں نے اس پر عمل کیا تو ظاہر ہے اس کا گناہ اس غلط کام کو شروع کرنے والے کے کھاتے میں جائے گا -

میرا سوال یہ ہے کہ بالفرض اگر میری کسی سے ذاتی دشمنی ہے اور وہ شخص مر جاتا ہے اور میں رقابت کے جذبات لے کرالله سے دعا کرتا ہوں کہ میرے گناہ کا بوجھ اس شخص پر ڈال دے اور اس کو عذاب دے تو کیا اس طرح اس کے نامہ اعمال میں گناہوں کا اضافہ ہو گا ؟؟ اورکیا الله رب العزت اس بنا پر عذاب دے گا؟؟ چاہے وہ حقیقی طور پر گناہ گار ہو یا نہ ہو؟؟ - بلکل اسطرح جیسے ہمارے معاشرے میں ایصال ثواب کا تصور قائم ہے کہ اگر ہمارا کوئی عزیز مرگیا تو اس کے لئے قرآن خوانی، تیجہ ، چالیسواں، برسی اور اس طرح کو دوسری بہت سے بدعات کے ذریے ثواب کے پارسل ارسال کیے جاتے ہیں اس عقیدے پر کہ یہ ہماری ان خرافاتی اعمال سے بخشا جائے گا- چاہے دنیا میں وہ جیسے بھی اعمال کرتا رہا ہو؟؟-

کیا کہتے ہیں آپ ؟؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
کتنی واضح حدیث پاک ہے کہ :میت کے گھر جمع ہونا ،اور وہاں کھانے کی دعوت اڑانا ۔۔اسی طرح حرام و ممنوع ہے ،جس طرح نوحہ خوانی حرام اور قبیح ہے ؛
اب اس حدیث جسے تم نے اور احمد رضا نے دلیل بنایا ہے، اس میں پہلے دوسرے دن کی تخصیص نہیں ؛اور نہ سود سے لئے گئے پیسے سے دعوت کے کھانے کی بات ہے،میت کے ہاں سے کسی دن بھی کھاو ، وہ اس حدیث شریف کی رو سے حرام ہی ہوگا ؛


کتنا دجل اور فریب ہے کہ ظالم مولوی اور ان کے گمراہ پیروکار ۔۔مرنے والے کے گھر کو اپنے دادا جی کا ڈیرہ سمجھ کر روزانہ ،اور ہر جمعرات اور تیجے پر یتیم اور بیوہ کے مال کو اڑانے پہنچ جاتے ہیں ؛
حالانکہ بے چارہ مولوی احمد رضا صاحب، حدیث شریف کے ساتھ ساتھ ’’ اپنی فقہ شریف ‘‘سے بھی ثابت کرتے ہیں ،کہ میت کے گھر اجتماع ،اور وہاں سے کھانا کھانا سخت برا کام ہے ۔بیچاری بیوہ ،اور یتیموں کا مال مت لٹاو ۔۔اللہ سے ڈرو ان پر رحم کرو،
بے شرموں ایسا نہ کرو ۔۔
ویسے اپنے دجل وفریب کے آشکار ہونے پر اس طرح غصے میں آنا آپ کا حق اور عین فطرت کے مطابق ہے اور مشاہدہ بھی یہی کیا جاتا کہ جب کسی کا جھوٹ پکڑا جائے تو وہ بہت غصے میں آکر شور مچاتا اور ایسے ہی موقع پر شاید یہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ " چور مچائے شور"
آپ نے سوال کچھ اس طرح تحریر کیا تھا
بریلویں کے امام احمد رضا خانصاحب کے نزدیک تیجہ اور چالیسواں
سوم ساتویں او ر چالیسویں کے بارے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں(ملاحظہ کریں ،ص ۳۳۴احکام شریعت)
جبکہ اصل میں سوال کچھ اس طرح ہے
مسئلہ ۲۶۶: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اکثر بلاد ہندیہ میں رسم ہے کہ میّت کے روز وفات سے اس کے اعزہ واقارب واحباب کی عورات اس کے یہاں جمع ہوتی ہیں، ا س اہتمام کے ساتھ جو شادیوں میں کیا جاتا ہے ۔ پھر کچھ دوسرے دن اکثر تیسرے دن واپس آتی ہیں، بعض چالیس دن تک بیٹھتی ہیں، اس مدت اقامت میں عورات کے کھانے پینے، پان چھالیا کا اہتمام اہل میّت کرتے ہیں جس کے باعث ایک صرف کثیر کے زیر بارہوتے ہیں، اگر اس وقت ان کا ہاتھ خالی ہو توا س ضرورت سے قرض لیتے ہیں، یوں نہ ملے توسودی نکلواتے ہیں، اگر نہ کریں تومطعون و بدنام ہوتے ہیں، یہ شرعاً جائز ہے کیا؟ بینوا توجروا
آپ خود ہی ملاحظہ فرمالیں کہ کتنا فرق ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
السلام و علیکم و رحمت الله-

اہل بدعت سے سوال ہے کہ اگر ایصال ثواب ممکن ہے تو کیا "ایصال گناہ" بھی ممکن ہے ؟؟
ایصال گناہ کو جواب تو یوسف ثانی صاحب نے ارشاد فرمادیا میں یہاں صرف ایصال ثواب کی دلیل عرض کئے دیتا ہوں

يا رسولَ اللهِ ! إنَّ أمي ماتت ، أفأتصدقُ عنها ؟ قال : نعم . قلتُ : فأيُّ الصدقةِ أفضلُ ؟ قال : سقْيُ الماءِ
الراوي : سعد بن عبادة | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح النسائي

الصفحة أو الرقم: 3666 | خلاصة حكم المحدث : حسن

خلاصہ یہ کہ حضرت سعد عبادہ جو کہ ایک جلیل قدر اور سخی صحابی ہیں اور یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے ابوبکر کی بعیت نہیں کی تھی انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے اپنی والدہ مرحومہ کو ایصال ثواب کرنے کےلئے ایک کنواں بنوا دیا تھا۔ جو بایں نام سے مشہور ہوگیا تھا۔ کہ کنویں کا ثواب سعد کی ماں کےلئے ہے۔

اور ایک دلیل آپ کے گھر کی بھی ہوجائے تاکہ آپ کے لئے ایسے قبول کرنے میں مزید آسانی ہوجائے
مولوی ثناء اللہ امر تسری اپنے کتاب "فتاویٰ ثنائیہ " میں لکھتے ہیں کہ
نذرا للہ کا ثواب میت کو پہنچانا جائز ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ هذا لام سعد
فتاویٰ ثنائیہ،جلد 01 ص 108
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ- سوره النجم -وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ- ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ سوره النجم ٣٩-٤١
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے-اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب پرکھی جائے گی- پھر اسے پورا بدلہ دیا جائے گا-
کلمہ حق ، مراد باطل
پھر میں جو آپ کے لئے دعا کروں یا آپ میرے لئے دعا کریں تو کیا آپکی دعا سے جو کچھ مجھے دنیا آخرت میں ملے گا کیا یہ میری کوشش کی وجہ سے ہوگا
 
Top