بریلویں کے امام احمد رضا خانصاحب کے نزدیک تیجہ اور چالیسواں
سوم ساتویں او ر چالیسویں کے بارے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں(ملاحظہ کریں ،ص ۳۳۴احکام شریعت)
دجل اور فریب ایسی کا نام ہے سوال لکھا نہیں لیکن جس سوال پر یہ جواب دیا گیا وہ لکھ دیا گیا سوال میں عرض کئے دیتا ہوں
مسئلہ ۲۶۶: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اکثر بلاد ہندیہ میں رسم ہے کہ
میّت کے روز وفات سے اس کے اعزہ واقارب واحباب کی عورات اس کے یہاں جمع ہوتی ہیں، ا س اہتمام کے ساتھ جو شادیوں میں کیا جاتا ہے ۔ پھر کچھ
دوسرے دن اکثر تیسرے دن واپس آتی ہیں، بعض چالیس دن تک بیٹھتی ہیں، اس مدت اقامت میں عورات کے کھانے پینے، پان چھالیا کا اہتمام اہل میّت کرتے ہیں جس کے باعث ایک صرف کثیر کے زیر بارہوتے ہیں، اگر اس وقت ان کا ہاتھ خالی ہو توا س ضرورت سے قرض لیتے ہیں، یوں نہ ملے تو
سودی نکلواتے ہیں، اگر نہ کریں تومطعون و بدنام ہوتے ہیں، یہ شرعاً جائز ہے کیا؟ بینوا توجروا
اب زرا ہائٹ لائٹ کئے گئے الفاظ پر غور فرمالیں یعنی میت کے پہلے روز سےتیسرے روز تک کھانا میت کے گھروالوں کی طرف سے کیا جاتا اس اہتمام سے جیسا کہ شادی بیاہ کے موقع پر کیا جاتا ہے حتی کہ کھانے پینے، پان چھالیہ کا اہتمام بھی اہل میّت کرتے ہیں اور اگر اس وقت یہ خالی ہاتھ ہوں تو قرض لیتے ہیں اگر بلاسودی قرض نہ ملے تو سودی قرض لے کر یہ اہتمام کرتے ہیں تو اس سودی قرض لے کر یہ اہتمام کرنے کے بارے فرمایا گیا کہ
سبحان اللہ اے مسلمان یہ پوچھتاہے،یوں پوچھ کہ یہ ناپاک رسم کتنے قبیح اورشدید گناہوں،سخت وشنیع خرابیوں پر مشتمل ہے
اور دوسری بات یہ کہ جواب بھی پورا نہیں لکھا گیا وہ بھی میں ہی عرض کئے دیتا ہوں
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد اﷲ الذی ارسل نبینا الرحیم الغفور بالرفق والتیسیر واعدل الامور فسن الدعوۃ عند السرور دون الشرور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وبارک علیہ وعلٰی اٰلہ الکرام وصحبہ الصدور۔
سب خوبیاں اﷲ کے لیے جس نے ہمارے رحم کرنے بخشنے والے نبی کر نرمی وآسانی کے ساتھ بھیجا اور کاموں میں اعتدال رکھا، تو دعوت کا طریقہ سرور کےوقت رکھا نہ کہ شرور کے وقت، خدائے تعالٰی ان پر ان کی معزز آل، اور مقدم اصحاب پر درود سلام اور برکت نازل فرمائے۔ (ت)
سبحان اﷲ! اے مسلمان! یہ پوچھتا ہے جائز ہے یا کیا؟ یوں پوچھو کہ یہ ناپاک رسم کتنے قبیح اور شدید گناہوں سخت وشنیع خرابیوں پرمشتمل ہے۔
اولاً یہ دعوت خود ناجائز وبدعت شنیعہ قبیحہ ہے۔ امام احمد اپنے مسند اور ابن ماجہ سنن میں بہ سند صحیح حضرت جریر بن عبداللہ بجلی سے راوی:
کنا نعد الاجتماع الی اھل المیّت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ ۱؎۔ہم گروہِ صحابہ اہل میّت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے۔
(۱؎ مسند احمد بن حنبل مروی از مسند عبداللہ بن عمرو دارالفکر بیروت ۲ /۲۰۴)
(سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی النہی عن الاجتماع الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۱۷)
جس کی حرمت پر متواتر حدیثیں ناطق___ امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں:
یکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من اھل المیّت لا نہ شرع فی السرور لافی الشرور وھی بدعۃ مستقبحۃ۲؎۔اہل میّت کی طرف سے کھانے کی ضیافت تیار کرنی منع ہے کہ شرع نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غمی میں۔ اوریہ بدعت شنیعہ ہے۔
(۲؎ فتح القدیر فصل فی الدفن مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲ /۱۰۲)
اسی طرح علامہ حسن شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں فرمایا:
ولفظہ یکرہ الضیافۃ من اھل المیّت لانھا شرعت فی السرور لا فی شرور وھی بدعۃ مستقبحۃ۳؎۔میّت والوں کی جانب سے ضیافت منع ہے اس لیے کہ اسے شریعت نے خوشی میں رکھا ہے نہ کہ غمی میں اور یہ بری بدعت ہے۔ (ت)
(۳؎ مراقی الفلاح علٰی ھامش حاشیۃ الطحطاوی فصل فی حملہا ودفنہانور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص۳۳۹)
فتاوٰی خلاصہ وفتاوٰی سراجیہ وفتاوٰی ظہیریہ وفتاوٰی تاتار خانیہ اور ظہیریہ سے خزانۃ المفتین وکتاب الکراہیۃ اور تاترخانیۃ سے فتاوٰی ہندیہ میں بالفاظ متقاربہ ہے:
والفظ للسراجیۃ لایباح اتخاذ الضیافۃ عند ثلثۃ ایام فی المصیبۃ ۱؎اھ زاد فی الخلاصہ لان الضیافۃ تتخذ عند السرور ۲؎ ۔سراجیہ کے الفاظ ہیں کہ غمی میں یہ تیسرے دن کی دعوت جائز نہیں، اھ خلاصہ میں یہ اضافہ کیا کہ دعوت تو خوشی میں ہوتی ہے (ت)
(۱؎ فتاوٰی سراجیہ کتاب الکراہیۃ باب الولیمہ منشی نولکشور لکھنؤ ص۷۵)
(۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الکراہیۃ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴ /۳۴۲)
فتاوٰی امام قاضی خاں کتاب الح و الاباحۃ میں ہے:
یکرہ اتخاذ الضیافۃ فی ایام المصیبۃ لانھا ایام تاسف فلا یلیق بھا مایکون للسرور ۳؎۔غمی میں ضیافت ممنوع ہے کہ یہ افسوس کے دن ہیں تو جو خوشی میں ہوتاہے ان کے لائق نہیں۔
(۳؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الکراہیۃ منشی نولکشور لکھنؤ ۴ /۷۸۱)
تبیین الحقائق امام زیلعی میں ہے:
لاباس بالجلوس للمصیبۃ الی ثلث من غیر ارتکاب محظور من فرش البسط والاطعمۃ من اھل المیّت ۴؎ ۔مصیبت کے لیے تین دن تک بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں جبکہ کسی امر ممنوع کا ارتکا ب نہ کیا جائے۔ جیسے مکلف فرش بچھانے اور میّت والوں کی طرف سے کھانے۔
(۴؎ تبیین الحقائق فصل فی تعزیۃ اہل البیت مطبعہ کبرٰی امیریہ مصر ۱ /۲۴۶)
امام بزازی وجیز میں فرماتے ہیں :یکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الاول والثالث و بعد الاسبوع ۵؎ ۔یمنی میّت کے پہلے یا تیسرے دن یا ہفتہ کے بعد جو کھانے تیار کرائے جاتے ہیں سب مکروہ و ممنوع ہیں۔
(۵؎ فتاوٰی بزازیہ علی ھامش فتاوٰی ہندیہ الخامس والعشرون فی الجنائز نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۸۱)
علامہ شامی ردالمحتا رمیں فرماتے ہیں:اطال ذلک فی المعراج وقال وھذہ الافعال کلھا للسمعۃ والریاء فیتحرز عنھا ۶؎ ۔یعنی معراج الدرایہ شرح ہدایہ نے اس مسئلہ میں بہت طویل کلام کیا اور فرمایا: یہ سب ناموری اور دکھاوے کے کام ہیں ان سے احتراز کیا جائے۔
(۶؎ ردالمحتار باب صلٰوۃ الجنائز مطلب فی کراہیۃ الضیافۃ الخ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر ۱ /۲۰۳)
جامع الرموز آخر الکراھیۃ میں ہے :
یکرہ الجلوس للمصیبۃ ثلثۃ ایام اواقل فی المسجد ویکرہ اتخاذ الضیافۃ فی ھذہ الایام وکذا اکلہا کمافی خیرۃ الفتاوی ۱؎ ۔یعنی تین دن یا کم تعزیت لینے کے لیے مسجد میں بیٹھنا منع ہے اور ان دنوں میں ضیافت بھی ممنوع اور اس کا کھانا بھی منع ہے، جیسا کہ خیرۃ الفتاوی میں تـصریح کی۔
(۱؎ جامع الرموز کتاب الکراہیۃ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران ۳ /۳۲۸)
اورفتاوٰی انقروی اور واقعات المفتین میں ہے :
یکرہ اتخاذ الضیافۃ ثلاثۃ ایام واکلہا لانہا مشروعۃ للسرور ۲تین دن ضیافت اور اس کا کھانا مکروہ ہے کہ دعوت تو خوشی میں مشروع ہوئی ہے۔
(۲؎ فتاوٰی انقرویہ کتاب الکراہیۃ والاستحسان دارالاشاعت العربیۃ قندھار ۱ /۳۰)
کشف الغطاء میں ہے :ضیافت نمودن اہل میّت اہل تعزیت راوپختن طعام برائے آنہا مکروہ ست۔ باتفاق روایات چہ ایشاں رابہ سبب اشتغال بمصیبت استعداد وتہیہ آن دشوار است۳؎۔تعزیت کرنے والوں کے لیے اہل میّت کا ضیافت کرنا اور کھانا پکانا باتفاق روایات مکروہ ہے اس لیے کہ مصیبت میں مشغولی کی وجہ سے ا س کا اہتمام ان کے لیے دشوار ہے۔ (ت)
(۳؎ کشف الغطاء فصل نہم تعزیت ص۷۴)
اسی میں ہے :پس انچہ متعارف شدہ از پختن اہل مصیبت طعام را درسوم وقسمت نمودن آن میان اہل تعزیت واقران غیر مباح ونامشروع است وتصریح کردہ بداں در خزانہ چہ شرعیت ضیافت نزد سرور ست نہ نزد شرور وھو المشہور عند الجمہور ۴؎۔تو یہ رواج پڑگیا ہے کہ تیسرے دن اہل میّت کا کھانا پکاتے ہیں اور اہل تعزیت اور دوستوں کو بانٹتے کھلاتے ہیں ناجائز وممنوع ہے۔ خزانۃ میں اس کی تصریح ہے اس لیے کہ شرع میں ضیافت خوشی کے وقت رکھی گئی ہے مصیبت کے وقت نہیں اور یہی جمہور کے نزدیک مشہور ہے۔ (ت)
(۴ کشف الغطاء فصل نہم تعزیت ص۷۴)
ثانیاً غالباً ورثہ میں کوئی یتیم یااور بچہ نابالغ ہوتا ہے۔ یا اور ورثہ موجود نہیں ہوتے، نہ ان سے اس کا اذن لیاجاتا ہے، جب تو یہ امر سخت حرام شدید پر متضمن ہوتا ہے۔
اللہ عزوجل فرماتا ہے:
ان الذین یاکلون اموال الیتامٰی ظلما انما یاکلون فی بطونھم نارا سیصلون سعیرا ۱؎ ۔بیشک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق کھاتے ہیں بلاشبہہ وہ اپنے پیٹوں میں انگارے بھرتے ہیں ، اور قریب ہے
کہ جہنم کے گہراؤ میں جائیں گے۔
(۱؎ القرآن ۴ /۱۰)
مال غیر میں بے اذن غیر تصرف خود ناجائز ہے،قال تعالٰی:
لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل ۲؎ (اپنے مال آپس میں ناحق نہ کھاؤ۔ ت)
(۲؎ القرآن ۲ /۱۸۸)
خصوصاً نابالغ کا مال ضائع کرنا جس کا اختیار نہ خود اسے ہے نہ اس کے باپ نہ اسے کے وصی کولان الولایۃ للنظر لاللضرر علی الخصوص (اس لیے کہ ولایت فائدے میں نظر کے لیے ہے نہ کہ معین طور پر ضرر کے لیے۔ ت) اور اگر ان میں کوئی یتیم ہوا تو آفت سخت تر ہے ،والعیاذ باﷲ رب العالمین ۔ہاں اگر محتاجوں کے دینے کو کھانا پکوائیں توحرج نہیں بلکہ خوب ہے۔ بشرطیکہ یہ کوئی عاقل بالغ اپنے مال خاص سے کرے یا ترکہ سے کریں، تو سب وارث موجود و بالغ وراضی ہوں،
خانیہ وبزازیہ وتتارخانیہ وہندیہ میں ہے :
ان اتخذ طعا ماللفقراء کان حسنا اذاکانت الورثۃ بالغین وان کان فی الورثہ صغیر لم یتخذوا ذلک من الترکۃ ۳؎۔اگر فقراء کے لیے کھانا پکوائے تواچھا ہے جب کہ سب ورثہ بالغ ہوں، اور اگر کوئی وارث نابالغ ہو تو یہ ترکہ سے نہ کریں۔ (ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ الباب الثانی عشرفی الہدایا والضیافات نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۳۴۴)
نیز فتاوٰی قاضی خاں میں ہے:
ان اتخذ ولی المیّت طعاما للفقراء کان حسنا الاان یکون فی الورثۃ صغیر فلا یتخذ ذلک من الترکۃ ۴؎ ۔ولی میّت اگر فقراء کے لیے کھانا تیار کرائے تو اچھا ہے۔ لیکن ورثہ میں اگر کوئی نابالغ ہو تو ترکہ سے یہ کام نہ کرے۔ (ت)
(۴؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الحظروالاباحۃ منشی نولکشور لکھنؤ ۴ /۷۸۱)
ثالثا یہ عورتیں کہ جمع ہوتی ہیں افعالِ منکرہ کرتی ہیں، مثلاً چلاّ کر رونا پیٹنا ، بناوٹ سے منہ ڈھانکنا، الٰی غیر ذلک، او ر یہ سب نیاحت ہے اور نیاحت حرام ہے، ایسے مجمع کے لیے میّت کے عزیزوں اور دوستوں کو بھی جائز نہیں کہ کھانا بھیجیں کہ گناہ کی امداد ہوگی،قال تعالٰی:
ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان ۵؎ (گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ ت) نہ کہ اہل میّت کا اہتمام طعام کرنا کہ سرے سے ناجائز ہے ، تواس ناجائز مجمع کے لئے ناجائز تر ہوگا،
(۵ القرآن ۵ /۲)
کشف الغطاء میں ہے:ساختن طعام در روز ثانی وثالث برائے اہل میّت اگر نوحہ گراں جمع باشند است زیرا کہ اعانت است ایشاں را برگناہ ۱؎ ۔اگر نوحہ کرنے والیا ں جمع ہوں تواہل میّت کے لیے دوسرے تیسرے دن کھانا پکوانا مکروہ ہے کیونکہ اس میں گناہ پر اعانت ہے۔ (ت)
(۱؎ کشف الغطاء فصل نہم تعزیت ص۷۴)
رابعاً اکثر لوگوں کواس رسم شنیع کے باعث اپنی طاقت سے زیادہ ضیافت کرنی پڑتی ہے،یہاں تک کہ میّت والے بیچارے اپنے غم کو بھول کر اس آفت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اس میلے کے لیے کھانا، پان چھالیا کہاں سے لائیں اور بار ہا ضرورت قرض لینے کی پڑتی ہے۔ ایسا تکلف شرع کو کسی امر مباح کے لیے بھی زنہار پسند نہیں، نہ کہ ایک رسم ممنوع کے لیے، پھراس کے باعث جو دقتیں پڑتی ہیں خود ظاہر ہیں
پھر اگر قرض سودی ملا تو حرام خالص ہوگیا، اور معاذا ﷲ لعنت الہٰی سے پورا حصہ ملے کہ بے ضرورت شرعیہ سود دینا بھی سود لینے کے باعث لعنت ہے، جیسا کہ صحیح حدیث میں فرمایا۔ غرض اس رسم کی شناعت وممانعت میں شک نہیں، اﷲ عزوجل مسلمانوں کو توفیق بخشے کہ قطعاً ایسی رسوم شنیعہ جن سے ان کے دین ودنیا کا ضرر ہے ترک کردیں، اور طعن بیہودہ کا لحاظ نہ کریں، واﷲ الہادی۔
تنبیہ: اگر چہ صرف ایک دن یعنی پہلے ہی روز عزیزوں کوہمسایوں کو مسنون ہے کہ اہل میّت کے لیے اتنا کھانا پکوا کر بھیجیں جسے وہ دو وقت کھا سکیں اور باصرار انھیں کھلائیں، مگریہ کھانا صرف اہل میّت ہی کے قابل ہونا سنت ہے۔ اس میلے کے لیے بھیجنے کا ہر گز حکم نہیں اور ان کے لیے بھی فقط روز اول کا حکم ہے آگے نہیں،
کشف الغطاء میں ہے:مستحب است خویشاں وہمسایہائے میّت راکہ اطعام کنندطعام رابرائے اہل وے کہ سیر کند ایشاں رایک شبانہ روز والحاح کنند تابخورند ودرخوردن غیر اہل میّت ایں طعام رامشہور آنست کہ مکروہ است ۲؎ اھ ملخصاًمیّت کے عزیزوں، ہمسایوں کے لیے مستحب ہے کہ اہل میّت کے لیے اتنا کھانا پکوائیں جسے ایک دن رات وہ سیر ہوکر کھاسکیں، اور اصرار کر کے کھلائیں، غیر اہل میّت کے لیے یہ کھانا قول مشہور کی بنیاد پر مکروہ ہے اھ ملخصا! (ت)
(۲؎ کشف الغطاء فصل نہم تعزیت ص۷۴)
عالمگیری میں ہے:
حمل الطعام الی صاحب المصیبۃ والاکل معھم فی الیوم الاول جائز لشغلھم بالجھاز وبعدہ یکرہ کذافی التتار خانیۃ ۱؎ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔اہل میّت کے یہاں پہلے دن کھانا لے جانا اور ان کے ساتھ کھانا جائز ہے کیونکہ وہ جنازے میں مشغول رہتے ہیں اور اس کے بعد مکروہ ہے۔ ایسا ہی تتارخانیہ میں ہے: واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ الباب الثانی عشرفی الہدایا والضیافات نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۳۴۴)
فتویٰ رضویہ سوفٹ وئیر جلد 9 کتاب الجنائز صفحہ 161۔164