• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فاتحہ خوانی اور نیاز حرام ہے ؟

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
فاتحہ خوانی یعنی سورہ فاتحہ کی تلاوت وہابیہ کے نزدیک حرام ہے تو وہ نماز میں کون کی سورہ پڑھتے ہیں ؟؟؟؟
اور ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ چونکہ سورہ فاتحہ کی تلاوت وہابیہ کے نزدیک حرام ہے اس لئے نماز میں وہ حرام کام یعنی سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتے نہیں ہونگے اور نتیجے کے طور پر ان کوئی نماز نہیں ہوتی ہوگی
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فاتحہ خوانی یعنی سورہ فاتحہ کی تلاوت وہابیہ کے نزدیک حرام ہے تو وہ نماز میں کون کی سورہ پڑھتے ہیں ؟؟؟؟
اور ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ چونکہ سورہ فاتحہ کی تلاوت وہابیہ کے نزدیک حرام ہے اس لئے نماز میں وہ حرام کام یعنی سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتے نہیں ہونگے اور نتیجے کے طور پر ان کوئی نماز نہیں ہوتی ہوگی
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
دجل کم کن کہ فردا رروز محشر
میان مومنان شرمندہ باشی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس ویڈیو میں ’‘ سورہ فاتحہ ’‘نہیں ۔۔ بلکہ ’‘ مردوں کے ایصال ثواب کیلئے پڑھی جانے والی چیز کو ’‘ فاتحہ خوانی ’‘ کہا گیا ہے ،
مروجہ فاتحہ خوانی میں ۔۔کھانا سامنے رکھ کر کچھ نہ کچھ پڑھتے ہیں اور پھر دعاء کرتے ہیں کہ:
جو کچھ ہم نے پڑھا ۔۔اور جو کھانا دیا ،اس کا ثواب فلاں کی روح کو پارسل کیا جائے؛
اور اہل ایمان جانتے ہیں کہ یہ طریقہ قرآن و سنت سے ثابت نہیں ۔۔یعنی بدعت ہے
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بریلویں کے امام احمد رضا خانصاحب کے نزدیک تیجہ اور چالیسواں
سوم ساتویں او ر چالیسویں کے بارے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں(ملاحظہ کریں ،ص ۳۳۴احکام شریعت)

الجواب:۔سبحان اللہ اے مسلمان یہ پوچھتاہے،یوں پوچھ کہ یہ ناپاک رسم کتنے قبیح اورشدید گناہوں،سخت وشنیع خرابیوں پر مشتمل ہے ۔اوّلایہ دعوت خود ناجائز وبدعت شنیعہ وقبیحہ ہے کہ امام احمد اپنے مسند اور ابن ماجہ سنن میں بہ سند صحیح جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے راوی کنّانعدُّ الاجتماع الی اہل المیت وصنع الطعام ِ من النیاحۃ۔ہم گروہ صحابہؓ اہل میت کے یہاںجمع ہونے اور ان کے ہاںکھانا تیا رکرانے کومردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے۔جس کی حرمت برابر متواتر حدیثیں ناطق ہیں ،
امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر شرح ھدایہ میں فرماتے ہیں ،:
’‘ یکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من اہل المیت لانہ شُرِع فی السرور لا فی الشروروھی بدعۃ مستقبحۃ ’‘
اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت تیار کرنا منع ہے کہ شرع نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غمی میں اور یہ بدعت شنیعہ ہے ۔
۲ ۔اسی طرح علامہ شربنالی نے مراقی الفلاح میں فرمایا ’’ یکرہ الضیافۃ من اھل ا لمیت لانھا شرعت فی السرور لافی الشروروھی بدعۃ مستقبحۃ ۔
۳۔ فتاوی خلاصہ ۔۴۔فتاوٰی سراجیہ ۔۵۔فتاوٰی ظھیریہ ۔۶۔فتاوی تاتارخانیہ اور ظھیریہ سے ۔۷۔خزانۃ المفتین کتاب الکراہیہ اور تاتا رخانیہ سے ۸۔ فتاوی ھندیہ بالفاظ متقاربہ ہے واللفظ للسراجیۃ لا یباح اتخاذ الضیافۃ عند ثلاثۃ ایام فی المصیبۃ ذاد فی الخلاصۃ لان الضیافۃ یتخذ عند السرور۔۔غمی میں یہ تیسرے دن کی دعوت جائز نہیں کہ دعوت تو خوشی میں ہوتی ہے ۔
۹۔فتاوی امام قاضی خان کتاب الحظر والاباحۃ میں ہے ۔یکرہ اتخاذ الضیافۃ فی ایام المصیبۃ لانھاایام تاسف فلایلیق بھا مایکون للسرور ‘‘ غمی میں ضیافت ممنوع ہے کہ یہ افسوس کے دن ہیں تو جو خوشی میں ہوتاہے ان کے لائق نہیں
۱۰ ۔تبیین الحائق اما م زیلعی میں ہے لا بأس بالجلوس المصیبۃ الی ثلث من غیر ارتکاب محظور من فرش البسط والاطعمۃ من اھل ا لمیت ۔مصیبت کے لیے تین دن بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جبکہ کسی امر ممنوع کا ارتکاب نہ کیا جائے ،جیسے مکلف فرش بچھانے اور میت والوں کی طرف سے کھانا کھانے وغیرہ ۔
۱۱۔ امام بزاری وجیز میں فرماتے ہیں یکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الاول والثالث وبعد الاسبوع ،یعنی میت کے پہلے دن یا تیسرے دن یا ہفتہ کے بعد جو کھانے تیار کرائے جاتے ہیں سب مکروہ وحرام ہیں ۔
(ص ۳۳۴احکام شریعت از احمد رضا خانصاحب مطبوعہ نور ی کتب خانہ لاہور )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بریلوی بھائیوں ھماری نہیں تو اپنے علماء کی بات مان لو - اور ان تمام بدعات کو چھوڑ کر کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لو اسی میں ھم سب کی کامیابی ہے -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کسی کی موت کے تعلق سے ،کسی قسم کی دعوت ،اور کھانے ،پینے کی تقریب شرعاً جائز نہیں ؛
کہ امام احمد اپنے مسند اور ابن ماجہ سنن میں بہ سند صحیح جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ؛؛ نے صحابہ کرام کا ایسی دعوت حرام ہونا بیان کیا ہے؛؛

عن جرير بن عبد الله البجلي قال:‏‏‏‏"كنا نرى الاجتماع إلى اهل الميت وصنعة الطعام من النياحة".(سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر: 1612 )
باب : ما جاء في النهي عن الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام
باب: میت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونا اور کھانا تیار کرنا منع ہے۔
ترجمہ :
جناب جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم صحابہ، میت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونے اور ان کے لیے ان کے گھر کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے۔
(قال الشيخ الألباني: صحيح)

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ۳۲۳۰، ومصباح الزجاجة : ۵۸۶)، مسند احمد (۲/۲۰۴) (صحیح)
’‘ یعنی صحابہ کرام ؓ میت والوں کے ہاں کھانا کھانے کو نوحہ جیسا حرام سمجھتے تھے ’‘
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله-

اہل بدعت سے سوال ہے کہ اگر ایصال ثواب ممکن ہے تو کیا "ایصال گناہ" بھی ممکن ہے ؟؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
کسی کی موت کے تعلق سے ،کسی قسم کی دعوت ،اور کھانے ،پینے کی تقریب شرعاً جائز نہیں ؛
کہ امام احمد اپنے مسند اور ابن ماجہ سنن میں بہ سند صحیح جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ؛؛ نے صحابہ کرام کا ایسی دعوت حرام ہونا بیان کیا ہے؛؛

عن جرير بن عبد الله البجلي قال:‏‏‏‏"كنا نرى الاجتماع إلى اهل الميت وصنعة الطعام من النياحة".(سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر: 1612 )
باب : ما جاء في النهي عن الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام
باب: میت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونا اور کھانا تیار کرنا منع ہے۔
ترجمہ :
جناب جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم صحابہ، میت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونے اور ان کے لیے ان کے گھر کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے۔
(قال الشيخ الألباني: صحيح)

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ۳۲۳۰، ومصباح الزجاجة : ۵۸۶)، مسند احمد (۲/۲۰۴) (صحیح)
’‘ یعنی صحابہ کرام ؓ میت والوں کے ہاں کھانا کھانے کو نوحہ جیسا حرام سمجھتے تھے ’‘
جزاک اللہ خیرا برادر
اسی سے متعلق ایک سوال ہے۔ یہ تو درست ہے کہ اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت تیار کرنا منع ہے۔ تاہم میت والے گھر میں کھانا بھجوانے کی تاکید آئی ہے کہ وہ غم میں ہوتے ہیں اور انہیں اپنے لئے کھانا تیار کرنے کا ہوش نہیں ہوتا

اکثر بڑے شہروں بلکہ دیہات میں بھی یہ ہوتا ہے کہ دور دور سے سفر کرکے عزیز و اقارب میت کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں شرکت کے لئے آتے ہیں۔ اس سارے کام میں عموماًچار پانچ گھنٹے بلکہ کبھی اس سے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں۔ میت گھر میں آنے والے اس دوران بھوکے پیاسے رہتے ہیں کہ کھانا پینا اچھا بھی نہیں لگتا۔
اسی دوران (میت کے گھر والے نہیں بلکہ) پاس پڑوس یا عزیز و اقارب میں سے کوئی اپنی طرف سے از خود بازار سے کھانے پینے کی اشیا منگوا کر میت کے گھر والوں اور تدفین میں شرکت کے لئے آئے ہوئے افراد کو کھلا دے تو اس میں شرعاً کیا کوئی مضائقہ ہے؟ اور جب اکثر لوگ اس قسم کے کھانے میں شریک ہوں تو اس کھانے سے انکار کرنا مناسب ہے یا اس میں شریک ہوجانا۔
 
Top