کسی کی موت کے تعلق سے ،کسی قسم کی دعوت ،اور کھانے ،پینے کی تقریب شرعاً جائز نہیں ؛
کہ امام احمد اپنے مسند اور ابن ماجہ سنن میں بہ سند صحیح جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ؛؛ نے صحابہ کرام کا ایسی دعوت حرام ہونا بیان کیا ہے؛؛
عن جرير بن عبد الله البجلي قال:"كنا نرى الاجتماع إلى اهل الميت وصنعة الطعام من النياحة".(سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر: 1612 )
باب : ما جاء في النهي عن الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام
باب: میت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونا اور کھانا تیار کرنا منع ہے۔
ترجمہ :
جناب جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم صحابہ، میت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونے اور ان کے لیے ان کے گھر کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے۔
(قال الشيخ الألباني: صحيح)
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ۳۲۳۰، ومصباح الزجاجة : ۵۸۶)، مسند احمد (۲/۲۰۴) (صحیح)
’‘ یعنی صحابہ کرام ؓ میت والوں کے ہاں کھانا کھانے کو نوحہ جیسا حرام سمجھتے تھے ’‘
جزاک اللہ خیرا برادر
اسی سے متعلق ایک سوال ہے۔ یہ تو درست ہے کہ اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت تیار کرنا منع ہے۔ تاہم میت والے گھر میں کھانا بھجوانے کی تاکید آئی ہے کہ وہ غم میں ہوتے ہیں اور انہیں اپنے لئے کھانا تیار کرنے کا ہوش نہیں ہوتا
اکثر بڑے شہروں بلکہ دیہات میں بھی یہ ہوتا ہے کہ دور دور سے سفر کرکے عزیز و اقارب میت کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں شرکت کے لئے آتے ہیں۔ اس سارے کام میں عموماًچار پانچ گھنٹے بلکہ کبھی اس سے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں۔ میت گھر میں آنے والے اس دوران بھوکے پیاسے رہتے ہیں کہ کھانا پینا اچھا بھی نہیں لگتا۔
اسی دوران (میت کے گھر والے نہیں بلکہ) پاس پڑوس یا عزیز و اقارب میں سے کوئی اپنی طرف سے از خود بازار سے کھانے پینے کی اشیا منگوا کر میت کے گھر والوں اور تدفین میں شرکت کے لئے آئے ہوئے افراد کو کھلا دے تو اس میں شرعاً کیا کوئی مضائقہ ہے؟ اور جب اکثر لوگ اس قسم کے کھانے میں شریک ہوں تو اس کھانے سے انکار کرنا مناسب ہے یا اس میں شریک ہوجانا۔