محترم محمدعلی صاحب ۔
آپ نے بخاری کی جس حدیث کو پیش فرماکر یہ ثابت کرنے کی نا کام کوشش کی ہے سعد بن عبادہ نے صرف مرحومہ ماں کی نذر پوری کرنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا تو آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ایک دوسرا معاملہ ہے جوکہ حضرت سعد بن عبادہ کی مرحوم والدہ کی نذر کے بارے ہے اور ایک بات اور
اس سے صاف ہوگئی کہ آپ جو قرآنی آیات سے باطل استدلال فرماکر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش فرمارہے تھے کہ کسی کے کئے گئے عمل کا فائدہ صرف ایسی کو ہوسکتا ہے کسی دوسرے کونہیں آپ کے اس باطل تخیل کا رد خود آپ کی پیش کی گئی حدیث سے ہوجاتا کہ نذر تو پوری کی بیٹے نے اور فائدہ ہوا والدہ کو
یہ تو ہوا حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ کی نذر کا معاملہ لیکن صحیح بخاری ہی میں ایک حدیث بیان ہوئی جس میں کہا گیا ہے امام بخاری کہتے ہیں کہ
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی ، انہیں ابن جریج نے خبر دی ، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم نے خبر دی ، انہوں نے عکرمہ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ ہمیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی ماں عمرہ بنت مسعود کا انتقال ہوا تو وہ ان کی خدمت میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! میری والدہ کا جب انتقال ہوا تو میں ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھا۔ کیا اگر میں کوئی چیز صدقہ کروں تو اس سے انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔
اردو ترجمہ داؤد راز
صحيح البخاري
الصفحة أو الرقم: 2756
فائدہ
سنن نسائی کی روایت سے معلوم ہوا کہ سعد بن عبادہ نے اپنی والدہ کے ایصال ثواب کے لئے صدقہ کرنے بارے میں معلوم کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں کرو تو انھوں نے ایک کنواں اللہ کی نذر کیا اور صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت سعد بن عبادہ نے اپنے والدہ کی مانی ہوئی نذر کو پورا کیا اور صحیح بخاری کی حدیث ایک دوسری حدیث سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرض کیا کہ اگر میں کوئی چیز صدقہ کروں تو اس سے میری مرحومہ والدہ فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا تو حضرت سعد بن عبادہ نے اپنے باغ کو اپنی والدہ کے ایصال ثواب کے لئے اللہ کی نذر کیا
اس سے کیا ثابت ہوا ؟
1۔ وفات شدہ لوگوں کی نذر پوری کی جائے گی
2۔ وفات شدہ لوگوں کو ایصال ثواب کیا جائے
3۔ اس ایصال ثواب کا فائدہ مرحوم مسلمانوں پہنچتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتنے واضح فرمامین کے ہوتے ہوئے اگر کوئی اپنے گمراہ امام کی پیروی میں ایصال ثواب کو ناجائز اور بدعت کہے تو یہ اس کی مرضی ہے کیونکہ ہمارا کام صرف حق کو بیان کردینا ہے ھدایت عطاء کرنا اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے ۔
والسلام
محترم -
آپ نے پھر ایک مرتبہ حضرت سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کی اس روایت کو ایصال ثواب کے اثبات میں ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے -
’’حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہم جو بنی ساعدہ میں سے تھے، ان کی والدہ فوت ہو گئیں۔ اس موقع پر وہ ان کے پاس نہیں تھے۔ (جب واپس پہنچے)تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا : یا رسول اللہ، میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور میں ان کے پاس نہیں تھا۔ کیا کوئی چیز جو میں ان کی طرف سے صدقہ کروں، انھیں فائدہ دے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس پر انھوں نے کہا: آپ گواہ رہیے، یہ میرا مخراف (نامی باغ) ان (کے نام) پر صدقہ ہے‘‘ (بخاری )
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد کو اپنی والدہ کی طرف سے کسی وصیت کی توقع تھی۔ انھیں یہ توقع کیوں تھی، اس کا جواب بخاری ہی کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہو جاتا ہے:
عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما أن سعد بن عبادۃ رضی اﷲ عنہ استفتی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ، فقال: ان أمی ماتت وعلیہا نذر. فقال: اقضہ عنہا.
’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور ان پر ایک نذر کا ادا کرنا واجب تھا۔ آپ نے جواب میں کہا: ان کی طرف سے نذر پوری کردو۔‘‘ (بخاری)
اس روایت سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے اضطراب کی وجہ سامنے آتی ہے۔ ان کو معلوم تھا کہ ان کی والدہ نے نذر مانی ہوئی تھی۔ انھیں یہ اندازہ تھا کہ وہ یہ نذر پوری نہیں کر سکیں۔ انھیں یہ خیال آیا کہ اگر وہ والدہ کے پاس ہوتے تو وہ فوت ہونے سے پہلے اپنی نذر کے بارے میں ضرور بات کرتیں۔ میرے نہ ہونے کی وجہ سے وہ بات نہ کرسکیں، پھر لوگوں نے انھیں بتایا کہ وہ کوئی وصیت اس لیے نہیں کر سکیں کہ ان کے اپنے پاس کچھ نہیں تھاتواس چیز نے انھیں اورمضطرب کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشورے کے لیے چلے آئے۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی والدہ کی تمنا کی تکمیل کی اجازت دے دی۔ یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ مرنے والے پر اللہ تعالیٰ کا اسی طرح ایک قرض تھا، جس طرح اس پر انسانوں کا قرض ہوتا ہے اور جس طرح اولاد انسانوں کا قرض ادا کرتی ہے، اسی طرح اللہ کا یہ قرض بھی ادا کر ے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات بیان بھی کی ہے- یہاں یہ بات ذین میں رہے کہ
صالح اولاد جب اپنے والدین کے اعمال خیر کی تکمیل کرتی ہے یا انھیں جاری رکھتی ہے تو یہ چیز، چونکہ انھی (والدین) کے عمل کا تسلسل ہے۔ چنانچہ اس کا اجران کے مرنے کے بعد بھی ان کو ملتا رہتا ہے۔ حقیقی طور پر یہ ان کا اپنا عمل تھا جس کی تکمیل اولاد نے کی- اس کا ایصال ثواب کے تصور سے کوئی تعلق نہیں - ایصال ثواب کا مطلب ہے ایک شخص کا اپنے ذاتی عمل کا ثواب ایک مرنے والے شخص کو پہنچانا - یہ تصور قرآن کی رو سے باطل ہے -
اگر ہم اپنی طرف سے ایصال ثواب کے پارسل قرآن خوانیوں ، تیجہ ، چالیسواں ، برسی ، میلاد کی صورت میں مردوں کو پہنچانا شروع کردیں -یہ سوچ کر کہ اس سے مردہ بخشا جائے گا - تو اس سے قرآن کا اصول انصاف متزلزل ہو جائے گا - ہر شخص جو جی میں آے اس دنیا میں کرے اور کرے اور اپنے عزیز اقارب کو مرتے ہوے وصیت کر جائے کہ میرے مرنے کے بعد قران خوانیوں اور چالیسویں اور برسی کی صورت میں مجھے ثواب کے پارسل ضرور بھیجتے رہنا -تا کہ میں الله کی بارگاہ میں بخشا جاؤں -
جب کہ الله کا قانون تو کہتا ہے کہ :
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ- سوره النجم -وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ- ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ سوره النجم ٣٩-٤١
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوہشش کرتا ہے-اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب پرکھی جائے گی-پھر اسے پورا بدلہ دیا جائے گا-
وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ سوره یونس ٤١
اوراگر تجھے جھٹلائیں تو کہہ دے میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے تم میرے عمل کے جواب دہ نہیں اور میں تمہارے عمل کا جواب دہ نہیں ہوں-
فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ سوره التوبه ٨٢
سو ان کو چاہیے کہ وہ تھوڑا سا ہنسیں اور زیادہ روئیں ان کے اعمال کے بدلے جو کرتے رہے ہیں-
قرانی آیات سے بات روز روشن طرح واضح ہے کہ انسان کو صرف اسی عمل کا بدلہ ملے گا جو خود اس دنیا کر گیا - یعنی اچھے اعمال کا صلہ جنّت کی اور برے اعمال کا صلہ دوزخ کی میں- یہ بھی الله کی ثواب دید پر موخر ہے کہ الله کسی کے گناہ قیامت کے دن مٹا دے اور اسے اپنی رحمت میں شامل کرلے یا کسی پھر اس کو سزا دے - لیکن یہ انسان کا اپنا عمل ہے جس سے اس کی باز پرس ہوگی- کسی دوسرے کا عمل ایک انسان کے کھاتے میں نہیں ڈالا جائے گا
الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن رکھے (آمین)