محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل:
میں نے سنا ہے کہ فاطمہ اورعلی رضي اللہ تعالی عنہما کا حسن اورحسین رضي اللہ تعالی عنہما کے علاوہ اوربھی کوئ بچہ تھا ، لیکن مجھے اس کے متعلق کچھ علم نہیں ، آپ سے گزارش ہے کہ آپ فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کے حالات زندگی اوراگر ان کا تاريخ اسلامی میں کچھ دخل ہے تووہ بھی بتائيں ؟
الحمدللہ
فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قریشی ھاشمی خاندان سے تعلق رکھتیں اورحسن و حسین رضي اللہ تعالی عنہما کی والدہ تھیں ۔
ان کی پیدائش بعثت نبوی سے کچھ قبل کی ہے اورجنگ بدر کے بعد علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ سے شادی ہوئ ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا سے بہت زیادہ محبت اوران کی عزت کرتے تھے ، اور وہ بہت صابرہ اوردین پرچلنے والی اوربھلائ پسند پاکباز اورقناعت پسند اوربہت ہی شاکرہ خاتون تھیں ۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئ توفاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا بہت زیادہ غمگین ہوئيں اوربہت رؤئيں اورکہنے لگيں اے اباجان ہم جبریل امین سے افسوس کا اظہارکرتے ہیں اے اباجان اللہ عزوجل نےآپ کی دعا قبول فرمالی ، اے اباجان جنت الخلدمیں پکا ٹھکانہ ہو ۔
فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کلام کے اعتبارسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب لوگوں سے زيادہ مشابہت رکھتی تھیں ۔
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ :
میں نے بات چيت اورکلام کے لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کے علاوہ کسی اورکو نہیں دیکھا ، اورجب فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے اورانہیں چومتے اورخوش آمدید کہتے ، اور فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرتی تھیں ۔
فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف چھـ ماہ زندہ رہیں اورانہیں رات کے وقت دفن کیا گيا ۔
واقدی کاکہنا ہے کہ :
ہمارے پاس سب سے زیادہ پایہ ثبوت کوپہنچنے والا قول یہی ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ عباس رضي اللہ تعالی عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائ اورانہیں قبرمیں اتارنے والے عباس اورعلی اور فضل رضي اللہ تعالی عنہم تھے ۔
اوران کی اولاد میں بیٹے حسن اورحسین اور بیٹیاں ام کلثوم جن سے عمربن خطاب اور زينب جن سے عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہم نے شادی کی تھی ۔
مسروق رحمہ اللہ تعالی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سی چال چلتی ہوئ آئيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری بیٹی ( مرحبا) خوش آمدید ، پھر انہیں اپنے دائيں یا بائيں جانب بٹھایا ، پھران سے رازداری کے ساتھ کوئ بات کی تووہ رونے لگيں تومیں نے انہیں کہا کہ کیوں رو رہی ہو؟
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ رازداری کے ساتھ بات کی تووہ مسکرانے لگيں ، تومیں نے کہا آج کی طرح میں کبھی نہیں دیکھا کہ خوشی اتنی غم کے قریب ہو۔
تومیں نے ان سےسوال کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کیا کہا ، تووہ کہنے لگيں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو افشاں نہیں کروں گی ، حتی کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئ تومیں نے پھر ان سے پوچھا توانہوں نے جواب دیا :
مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رازداری سے یہ باب کہی تھی کہ میرے ساتھ جبریل علیہ السلام ہرسال ایک دفعہ قران کا دورکرتے تھے ، اوراس سال انہوں نے میرے ساتھ قرآن مجید کا دور دو بارکیا ہے ، میرا خیال ہے کہ میری موت کا وقت قریب آگیا ہے ،اورتو میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلی ہوگی جو میرے ساتھ ملے گي ، تومیں اس بنا پررونے لگی ۔
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کہا کہ کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ تو جنتی عورتوں یا مومنوں کی عورتوں کی سردار بنو تومیں مسکرانے لگی ۔ صحح بخاری حدیث نمبر ( المناقب 3353 ) ۔
اورفاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کے فضائل میں سے یہ بھی ہے :
صحیحین میں عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہا سے حدیث مروی جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے اورابوجھل اوراس کے دوسرے دوست واحباب بیٹھے ہوۓ تھے توان میں سے ایک کہنے لگا بنوفلان کے اونٹ کی اوجڑی کون لاکرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ میں جائيں توان کی پشت پررکھے گا ؟
توقوم میں سب سے زیادہ شقی اور بدبخت اٹھا اوراسے جاکرلے آیا اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گۓ توان کی پشت پردونوں کندھوں کے درمیان رکھـ دیا اورمیں یہ سب کچھ دیکھـ رہا تھا کاش میں کچھ کرسکتا اور روک سکتا ۔
ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ہنستے ہوۓ لوٹ پوٹ ہوکر ایک دوسرے کے اوپر گـرنے لگے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ميں پڑے ہوۓ اپنا سر نہیں اٹھا رہے تھے حتی کہ فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا تشریف لائيں اوراسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے دور پھینکا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سے اپنا سر اٹھایا پھرفرمانے لگے :
اے اللہ قریش کوتباہ کردے یہ تین دفعہ کہا توجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کےخلاف بددعا کی توانہیں بہت ہی مشقت محسوس ہوئ ان کا خیال تھا کہ اس جگہ پردعا قبول ہوتی ہے ۔۔۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 233 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3349 ) ۔
اورفاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کی فضیلت میں یہ حديث بھی وارد ہے :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا تواس مجھے ہی ناراض کیا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3437 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 4483 ) ۔
دیکھیں کتاب : نزھۃ الفضلاء تھذیب سیراعلام النبلاء ( 1 / 116 ) ۔ .
الشیخ محمد صالح المنجد
http://islamqa.info/ur/11787
میں نے سنا ہے کہ فاطمہ اورعلی رضي اللہ تعالی عنہما کا حسن اورحسین رضي اللہ تعالی عنہما کے علاوہ اوربھی کوئ بچہ تھا ، لیکن مجھے اس کے متعلق کچھ علم نہیں ، آپ سے گزارش ہے کہ آپ فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کے حالات زندگی اوراگر ان کا تاريخ اسلامی میں کچھ دخل ہے تووہ بھی بتائيں ؟
الحمدللہ
فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قریشی ھاشمی خاندان سے تعلق رکھتیں اورحسن و حسین رضي اللہ تعالی عنہما کی والدہ تھیں ۔
ان کی پیدائش بعثت نبوی سے کچھ قبل کی ہے اورجنگ بدر کے بعد علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ سے شادی ہوئ ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا سے بہت زیادہ محبت اوران کی عزت کرتے تھے ، اور وہ بہت صابرہ اوردین پرچلنے والی اوربھلائ پسند پاکباز اورقناعت پسند اوربہت ہی شاکرہ خاتون تھیں ۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئ توفاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا بہت زیادہ غمگین ہوئيں اوربہت رؤئيں اورکہنے لگيں اے اباجان ہم جبریل امین سے افسوس کا اظہارکرتے ہیں اے اباجان اللہ عزوجل نےآپ کی دعا قبول فرمالی ، اے اباجان جنت الخلدمیں پکا ٹھکانہ ہو ۔
فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کلام کے اعتبارسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب لوگوں سے زيادہ مشابہت رکھتی تھیں ۔
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ :
میں نے بات چيت اورکلام کے لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کے علاوہ کسی اورکو نہیں دیکھا ، اورجب فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے اورانہیں چومتے اورخوش آمدید کہتے ، اور فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرتی تھیں ۔
فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف چھـ ماہ زندہ رہیں اورانہیں رات کے وقت دفن کیا گيا ۔
واقدی کاکہنا ہے کہ :
ہمارے پاس سب سے زیادہ پایہ ثبوت کوپہنچنے والا قول یہی ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ عباس رضي اللہ تعالی عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائ اورانہیں قبرمیں اتارنے والے عباس اورعلی اور فضل رضي اللہ تعالی عنہم تھے ۔
اوران کی اولاد میں بیٹے حسن اورحسین اور بیٹیاں ام کلثوم جن سے عمربن خطاب اور زينب جن سے عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہم نے شادی کی تھی ۔
مسروق رحمہ اللہ تعالی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سی چال چلتی ہوئ آئيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری بیٹی ( مرحبا) خوش آمدید ، پھر انہیں اپنے دائيں یا بائيں جانب بٹھایا ، پھران سے رازداری کے ساتھ کوئ بات کی تووہ رونے لگيں تومیں نے انہیں کہا کہ کیوں رو رہی ہو؟
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ رازداری کے ساتھ بات کی تووہ مسکرانے لگيں ، تومیں نے کہا آج کی طرح میں کبھی نہیں دیکھا کہ خوشی اتنی غم کے قریب ہو۔
تومیں نے ان سےسوال کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کیا کہا ، تووہ کہنے لگيں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو افشاں نہیں کروں گی ، حتی کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئ تومیں نے پھر ان سے پوچھا توانہوں نے جواب دیا :
مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رازداری سے یہ باب کہی تھی کہ میرے ساتھ جبریل علیہ السلام ہرسال ایک دفعہ قران کا دورکرتے تھے ، اوراس سال انہوں نے میرے ساتھ قرآن مجید کا دور دو بارکیا ہے ، میرا خیال ہے کہ میری موت کا وقت قریب آگیا ہے ،اورتو میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلی ہوگی جو میرے ساتھ ملے گي ، تومیں اس بنا پررونے لگی ۔
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کہا کہ کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ تو جنتی عورتوں یا مومنوں کی عورتوں کی سردار بنو تومیں مسکرانے لگی ۔ صحح بخاری حدیث نمبر ( المناقب 3353 ) ۔
اورفاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کے فضائل میں سے یہ بھی ہے :
صحیحین میں عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہا سے حدیث مروی جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے اورابوجھل اوراس کے دوسرے دوست واحباب بیٹھے ہوۓ تھے توان میں سے ایک کہنے لگا بنوفلان کے اونٹ کی اوجڑی کون لاکرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ میں جائيں توان کی پشت پررکھے گا ؟
توقوم میں سب سے زیادہ شقی اور بدبخت اٹھا اوراسے جاکرلے آیا اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گۓ توان کی پشت پردونوں کندھوں کے درمیان رکھـ دیا اورمیں یہ سب کچھ دیکھـ رہا تھا کاش میں کچھ کرسکتا اور روک سکتا ۔
ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ہنستے ہوۓ لوٹ پوٹ ہوکر ایک دوسرے کے اوپر گـرنے لگے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ميں پڑے ہوۓ اپنا سر نہیں اٹھا رہے تھے حتی کہ فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا تشریف لائيں اوراسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے دور پھینکا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سے اپنا سر اٹھایا پھرفرمانے لگے :
اے اللہ قریش کوتباہ کردے یہ تین دفعہ کہا توجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کےخلاف بددعا کی توانہیں بہت ہی مشقت محسوس ہوئ ان کا خیال تھا کہ اس جگہ پردعا قبول ہوتی ہے ۔۔۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 233 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3349 ) ۔
اورفاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کی فضیلت میں یہ حديث بھی وارد ہے :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا تواس مجھے ہی ناراض کیا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3437 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 4483 ) ۔
دیکھیں کتاب : نزھۃ الفضلاء تھذیب سیراعلام النبلاء ( 1 / 116 ) ۔ .
الشیخ محمد صالح المنجد
http://islamqa.info/ur/11787