• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ علیہ اسلام کو ہبہ کر دیا تھا۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
مجھے اعتراف ہےکہ میرا علم بہت ہی کم ہے مگر میری تحقیق میں فدک کے سلسلہ میں حسب ذیل کچھ عرض ہے:
فدک
قال ابو یوسف الکلبی محمد بن السائب حدثنی عن أبی صالح عن ابن عباس ان الخمس کان عہد رسول اﷲ ﷺ علٰی خمسۃ سھم ﷲ والرسول سھم و لذی القربی سھم والیتامی و للمساکین وابن سبیل ثلثۃ سھم ثم قسمہ ابوبکر الصدیق و عمر الفاروق و عثمان ذوا؛نورین علی ثلثۃ سھم و سقط سھم الرسول و سھم ذوالقربی وقسم علی الثلٰثۃ الباقین۔ ازلالۃ الخفاء ج ۳ ص ۴۶۹شرح الوقایۃ کتاب الجھاد
کہا ابو یوسف نے کہ محمد بن السائب الکلبی نے مجھ سے حدیث بیان کی ابو صالح کی روایت ہے کہ وہ ابن عباس ؓ سے کہ رسول اﷲﷺ وآلہٖ کے زمانے میں خمس کے پانچ(۵) حصے کئے جاتے تھے، اﷲ اور رسول ؐ کا ایک حصہ اور ذوالقربیٰ کا ایک حصہ اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے ایک ایک حصہ۔ پھر خمس کو ابوبکر اور عمر اور عثمان نے صرف تین حصے میں تقسیم کیا اور رسول ؐ اﷲ کا حصہ اور ذوی القربیٰ کا حصہ ساقط کردیا گیا۔ازالۃ الخفاء شاہ ولی اﷲ اردو جلد سوم ص ۴۶۹۔شرح الوقایہ کتاب الجھاد۔
أخبرنا عن جعفر بن محمد عن ابیہ ان حسنا و حسینا و ابن عباس و عبداﷲ ابن جعفرسالوا علیا نصیبھم من الخمس ، فقال ہو لکم حق ولکنی محارب معاویۃ فان شئتم ترکتم حقکم فیہ:السنن الکبری البیھقی ج۶ ص ۳۷۳؛ کتاب الأم امام شافعی ج۴ ص ۱۵۵۔



جناب میر صاحب اگر آپ بات کرنا چاہتے ہیں تو پھر کچھ جوابات عنایت کردیں تو کچھ بات کر سکتے ہین باقی علماء اکرام آپ کو جواب عنایت کرین گے۔
جناب میر صاحب اس حدیث میں دیکھیں خمس سے کیا مراد ہے فدک یا مال غنیمت کا خمس ۔
پھر یہ حدیث اسناد سے بھی ضعیف ہی ہے۔ اور پھر حضرت علی رضہ معاویہ رضہ سے جنگ کرتے وقت کون سے خمس کی بات کرہے ہین ۔ کلئر کریں۔اور پھر براء کرم کوئی صحیح احادیث سے دلیل دیں


اس سلسلے میں یہ دو احادیث قابل غور ہیں:
۱۔ حدثنا عبد اللہ حدثني أبي ثنا يحيی بن آدم ويحيی بن أبي بکير مولی البراء وأثنی عليہ خيرا قالا ثنا زہير عن مطرف قال بن أبي بکير ثنا مطرف يعنی الحارثي عن أبي الجہم قال بن أبي بکير عن خالد بن وہبان أو وہبان عن أبي ذر قال قال صلی اللہ عليہ وسلم کيف أنت وأئمۃ من بعدي يستأثرون بہذا الفيء قال قلت إذا والذي بعثک بالحق أضع سيفی علی عاتقي ثم أضرب بہ حتی ألقاک أو ألحق بک قال أولا أدلک علی ما ہو خير من ذلک تصبر حتی تلقاني
۲۔ حدثنا عبد اللہ حدثني أبي ثنا أبو جعفر أحمد بن محمد بن أيوب ثنا أبو بکر يعنی بن عياش عن مطرف عن أبي الجہم عن خالد بن وہبان عن أبي ذر أن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم قال يا أبا ذر کيف أنت عند ولاۃ يستأثرون عليک بہذا الفيء قال والذي بعثک بالحق أضع سيفی علی عاتقي فاضرب بہ حتی ألحقک قال أفلا أدلک علی خير لک من ذلک تصبر حتی تلقاني ۔مسند امام احمد بن حنبل جلد۵ ؛۲۱۵۹۹ سلسلہ ابی داؤود ج۲ ص۴۲۷ سلسلہ ۴۷۵۹؛ مشکاۃ مصبح جلد ۲ ص ۷۸، اردو جلد ۲ ص ۱۹۲۔
حضرتِ ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہا رسول اﷲ ﷺ وآلہٖ نے فرمایا : میرے بعد تم ایسے اماموں سے(یعنی سربراہ سے) کیا سلوک کروگے جو مال فئی کو اپنا اختیار کرلیں گے۔ ابوذر ؓ نے کہا اُس ذات کی قسم جس نے آپ ؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں تلوار کندھے پر رکھ لوں گا پھر اُن کو قتل کروں گا یہاں تک کہ آپ ؐ سے آملوں ۔ آپ ؐ نے فرمایا میں تجھ کو اس سے بہتر بات بتلاتا ہوں وہ یہ کی تو صبر کر یہاں تک مجھ سے آملے۔


آپ اس روایت میں خالد بن وہبان کی ترجمہ بیان کریں تو ہی کچھ بات کر سکتے ہیں ۔

( یاد رہے حضرت ابوذر ؓ نے بعد رسول اﷲ ﷺ وآلہٖ صرف تین خلفاء کا دور دیکھا اور خلافت سوم کے دوران ربذہ میں جلاوطنی کے حالت میں فوت پائے۔ اور فئی کی تعریف یہ ہے کہ یہ حق رسول ؐ تھا یعنی وہ مال غنیمت جو بغیر جنگ کے حاصل ہوا ہو ۔مرادؔ)


جناب میں عالم ت و نہیں البتہ ترجمہ سے قرآن کریم پڑھ لیتا ہوں سورہ حشر میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( 6 )
اور جو (مال) خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے

یعنی یہ مال غنیمت نہیں ہے کیوں یہ مال بغیر جنگ کے حاصل ہوا ہے (فدک بھی ایسا ہی تھا) اب پھر اگلی آیات میں قرآن کریم اس مال کی حقدار کون بتا رہا ہے ملاحضہ ہو
مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ( 7 )
جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ خدا کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے۔ تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔ سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا سخت عذاب دینے والا ہے

لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ( 8 )
(اور) ان مفلسان تارک الوطن کے لئے بھی جو اپنے گھروں اور مالوں سے خارج (اور جدا) کر دیئے گئے ہیں (اور) خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار اور خدا اور اس کے پیغمبر کے مددگار ہیں۔ یہی لوگ سچے (ایماندار) ہیں

وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ( 10 )
اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (وحسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے

جنا ب عالی ، مجھے ان آیات کی رو بتائے کیا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے حقدار تھے یا پھر دوسرے یعنی رشتہ دار غریب ، مسکین ، مسافر ، مہاجرین نکالے گئے ۔۔ حاصل مطلب یہ حضور علیہ اسلام نبی ہونے کے ساتھ ساتھ منتظم بھی تھے بس اس مین ان کو مال فی کے حقداروں کا بتایا گیا ہے اور ہم نے علماء سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فدک کا معاملہ بلکل ایسا کرتے تھے جیسا ان آیات مین ہے۔

جواب عنایت کریں
حضرت علی ؑ سے امام حسن اور امام حسین ؑ ، ابن عباس ؓ اور عبد اﷲ ابن جعفر ؓ نے خمس میں سے اپنے حصوں کا سوال کیا۔ حضرت علی ؑ نے جواب دیا: وہ تمہارا حق ہے لیکن اس وقت معاویہ سے لڑ رہا ہوں تم اگر چاہو تو اس ضرورت کے وقت میں اپنے حق سے دست بردار ہوسکتے ہو۔ ازالۃ الخفاء جلد سوم ص ۴۷۲۔

خمس تو مال غنیمت مین سے بھی اہل بیت کو شاید ملتا تھا ، شاہ صاحب کی اس بات سے فدک کیسے مطلب ہوسکتا ہے ، اس کو آپ نے ثابت کرنا ہے کہ شاہ صاحب کا یہاں مطلب فدک ہے۔
چناچہ ملاحضہ ہو
حدثنا عباس بن عبد العظيم، ثنا يحيى بن أبي بُكير، ثنا أبو جعفر الرَّازي، عن مُطرِّف، عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال: سمعت عليّاً يقول:
حضرت علی نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خمس کے پانچویں حصے (کی تقسیم) کا ذمہ دار بنایا۔ میں نے اسے رسول اللہ کی حیات طیبہ میں اس کے مخصوص مقامات پر خرچ کیا۔ پھر ابو بکر اور عمر کی زندگی میں بھی اسی طرح ہوتا رہا۔ پھر کچھ مال آیا تو عمر نے مجھے بلایا اور فرمایا: ’’لے لیجیے۔‘‘ میں نے کہا: ’’مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’لے لیجیے، آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے (کہ پہلے ہی ہمارے پاس کافی مال ہے، کسی ضرورت مند کو دے دیجیے۔)‘‘ چنانچہ انہوں نے اسے بیت المال میں جمع کر دیا۔‘‘( ابو داؤد۔ سنن۔ کتاب الخراج و الفئی و الامارہ۔ حدیث 2983
مطلب ، حضرت ابوبکر ، عمر ، و عثمان رضوان اللہ علہم اجمعین حضرت علی و اہل بیت کو مال غنیمت کا خمس یا پھر فی سے وہ حصہ جو نبی علیہ اسلام نے ان کے لئے مقرر کیا تھا خمس عطا کرتے تھے

کتاب الاذکیاء میں جو دوسری روایت ابن جوزی نے ذکر کیا ہے اس میں ابوبکر کا فدک چھین لینا لکھا ہے اس کا ترجمہ اخبار منصف میں موجود ہے۔
وروی ثعلب عن ابن الأعرابي قال أول خطبۃ خطبہا السفاح في قريۃ يقال لہا العباسيۃ فلما صار إلی موضع الشہادۃ من الخطبۃ قال رجل من آل أبي طالب في عنقہ مصحف فقال أذکرک اللہ الذي ذکرتہ إلا أنصفتني من خصمي وحکمت بيني وبينہ بما في ہذا المصحف فقال لہ ومن ظلمک قال أبو بکر الذي منع فاطمۃ فدکا قال وہل کان بعدہ أحد قال نعم من قال عمر قال علی ظلمکم قال نعم قال وہل کان بعدہ أحد قال نعم قال من قال عثمان قال وأقام علی ظلمکم قال نعم قال وہل کان بعدہ أحد قال نعم قال علي قال وأقام علی ظلمکم قال فاسکت الرجل وجعل يلتفت إلی ورائہ يطلب مخلصاً فقال لہ واللہ الذي لا إلہ إلا ہو لولا أنہ أول مقام قمتہ ثم لم أکن تقدمت إليک في ہذا قبل لأخذت الذي فيہ عيناک أقعد وأقبل علی الخطبۃ! .

اس کی مکمل سند مل جاتی تو جواب دے سکتے ہیں۔ .
صرف ایک سوال ہے کہ اگر فدک حضرت فاطمہ ؑ کا حق تھا تو اپنی دور خلافت میں حضرت علی ؑ نے حضرت فاطمہ ؑ کی اولاد کے حوالے کیوں نہ کیا۔پہلی وجہ یہ ہے کہ
حضرت علی ؑ کی خلافت کے روز اول سے ہی آپ ؑ کو سب سے عظیم مصیبت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ہے طلحہ اور زبیر کا بیعت توڑنا ،جنگ جمل میں مصروف اور اس کے بعد صفین اور اس کے بعد نہروان۔ یہ تمام کے جنگیں مدینہ سے دور کئی سو میل کے فاصلے پر ہورہیں تھیں اور ان تمام کے تمام جنگوں بنی ہاشم کا ہر فرد مصروف تھا۔ اس لئے یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی ؑ نے فدک واپس نہیں لوٹایا۔ دوسری اور اہم ترین وجہ یہ ہے حضرت عثمان نے اپنی دور خلافت میں اپنے داماد مروان ابن حکم کو عطا فرمایا تھا۔واپس لینے کے لئے حضرت علی ؑ کے لئے جنگ۔ مورخین لکھتے اپنے اور اپنے خاندان کی خاطر یہ جنگ ہوئی۔ جو حضرت علی ؑ کی شان و عظمت کے خلاف ہوتا۔
مروان کے قبضہ میں فدک تھا

حضرت امیر المومنین علی رضہ جو کام ان کو حق لگتا تھا اس مین دیر نہیں کرتے تھے گر ورنہ انہین جیسا کہ ابن عباس رضہ نے کہا تھا ابھی حضرت عثمان کی حکومت کے معاملات ہی چلنے دیں اور گورنرز کو نہ ہٹائیں آپ کا معاملہ جب پکا ہوجائے تو ایسا کیجئے گا حلانکہ یہ راء بلکل صحیح تھی لیکن آپ نے یہ کہ کر ابن عباس رضہ کو جواب دیا کہ میں دین کے معاملے میں دیر نہیں کرتا اور فورن عثمانی سسٹم کو ختم کرنا شروع کردیا جہاں آپ کو لگا کہ اصلاح کی ضرورت ہے آپ نے فورن شروع کردی تو پھر فدک کے معاملے میں کیوں دیر کی سوال بڑا وزنی ہے اور پھر آپ رضہ چھ ماہ تک مدینہ مین ہی تھے پھر کوفہ گئے تھے


مروان تو ان کا قیدی تھا جمل کے بعد اس وقت تو لے سکتے تھے فدک۔
اس کے ثبوت کے لئے ’’معتبر ‘‘ کتابوں سے ذیل میں روایتیں مذکور ہیں:-
إنما اقطع مروان فدکا في أيام عثمان ۔السنن الکبری البيہقی ج۶ صفحہ ۳۰۱
أقطعہا مروان يعني في أيام عثمان قال الخطابي إنما أقطع عثمان فدک لمروان؛ - فتح الباري ج۶ ص ۱۴۱ ابن حجر؛
قالہ القاري ( ثم أقطعہا مروان ) أي في زمن عثمان رضي اللہ عنہ ۔عون المعبود ج۸ ص ۱۳۷ العظيم آبادي
سنن أبي داود ج۲ ص ۲۴ ابن الأشعث السجستاني؛ثم أقطعہا مروان ثم صارت لعمر بن عبد العزيز - تاريخ مدينۃ دمشق ج۴۵ ص۱۷۹ ابن عساکر؛تہذيب الکمال ج۲۱ ص ۴۴۳ المزي؛ سير أعلام النبلاء ج۵ ص ۱۲۸ الذہبي؛تاريخ اليعقوبي ج۲ ص۳۰۵ اليعقوبي
فأقطعہ عثمان الحرث بن الحکم أخامر وان أقطع مروان فدک .
نيل الأطار في أحاديث سيد الأ خبار الشوکاني متوفي 1255 ہ طبع دارالجليل بيروت لبنان- ج6 ص30
المعارف أبي محمد عبداللہ بن مسلم بن قتيبۃ الدينوري المتوفی 276ہ دار الکتب العلميۃ بيروت لبنان
مروان کون تھا تاریخ کا ہر جاننے والا واقف ہے جس کو رسول اﷲ ﷺ وآلہٖ کے حدود سے باہر جلا وطن کردیا تھا اور باوجود حضرت عثمان کی کوششوں کے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے بھی مروان کو مدینہ کی سرحدوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔
میر صاحب وہ مروان نہین تھا اس کا باپ تھا اور اس کی اجازت سیدنا عثمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لی تھی بحرحال وہ مروان نہیں تھا جسے رسول اللہ نے جلاوطن کیا ۔
اور یہ بھی تاریخ میںہے کہ جب عمر ابن عبد العزیز بنی امیہ میں خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے فدک بنی ہاشم کو’’ واپس‘‘ کیا۔ملاحظہ فرمائے کہ ہر حدیث میں لفظ ’’رد‘‘ یعنی واپس کیا۔ واپس وہی شئی ہوسکتی ہے جو پہلے سے اُس کی ملکیت ہو۔

أول من رد فدکا عمر بن عبد العزيز- کتاب الأوائل
برد مأمون ہاشم فدکا---معجم البلادان
عمر ابن عبد العزيز الخلافۃ کتب إلی عاملہ بالمدينۃ يأمرہ برد فدک إلی ولد فاطمۃ معجم البلادان باب الفاء والدال ۔لأمر فدک وأنہ قدردہا إلی ما کانت- تاريخ الکامل معاويۃ مروان يقبض منہ ولم تزل فدک في يد مروان وبنيہ إلی تولی عمر ابن عبدالعزيز ورد فدک علی ولد فاطمہ بنت رسول- عقد الفريد جلد



جناب عالی کوئی مکمل حوالہ دیں اور کسی معتبر کتب سے دیں ۔ تو ہم جواب دینے کی کوشش کریں

ابو یوسف حدثنی عطاء بن السائب ان عمر ابن عبد العزیز بعث بسھم الرسول و سھم ذوی القربی الٰ بنی ہاشم
بو یوسف مجھ سے بیان کرتے ہیں کہ عطا بن السائب نے بیان کیا کہ عمر ابن عبدالعزیز نے رسول ؐ اﷲ کا حصہ اور ذوالقربیٰ کا حصہ بنی ہاشم کو بھیجا۔ازالۃ الخفاء شاہ ولی اﷲ اردو جلد سوم ص ۴۷۱۔


اس کا مطلب فدک ہے آپ ثابت کریں کہ شاہ صاحب کا مطلب یہاں فدک ہے۔

سفاح کو وہ دلیل دینا چاہئے تھا کہ جو ابوبکر نے حضرت فاطمہ ؑ کو دی تھی یعنی وہ گھڑی ہوئی حدیث کہ فرمایا رسول اﷲﷺ وآلہٖ نے (معاذ اﷲ): نحن معاشر الانیباء لا نرث ولا نورث ۔ہم انبیاء نہیں بنتے وارث اور نہ وارث بناتے ہیں۔
جس کے راوی سوائے ابوبکر کوئی اور نہیں:واختلفوا میراثہ فما وجدوا عند احد من ذلک علما۔۔جامع ترمذی اردو جلد دوم ص ۵۸۲؛طبقات ابن سعد حصہ دوم ص ۳۴۷؛ کنزالعمال جلد ۱۲ ص ۴۸۸؛ تاریخ مدینہ دمشق ابن عساکر جلد ۳۰ ص ۳۱۱۔ سیرۃ حلبیہ ج۵ ص۵۳۱


خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابی بکر الصدیق رضہ اس میں اکیلے نہیں ہیں امام جعفر صادق بھی انکے ساتھ ہیں
شیعہ محدث محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی کتاب اصول کافی میں بروایت ابوالبختری امام ابوعبداللہ جعفر صادق سے اس معنی کی روایت نقل کی ہے:
«عن ابی عبداللہ قال ان العلماء ورثة الأنبیاء و ذالک ان الانبیاء ................ دراھما ولا دینارا وانما ورثوا احادیث من احادیثھم فمن اخذ بیشئ منھا اخذ بحظ وافر» (اصول کافی:1؍32 باب صفة العلم وفضله)
حضرت جعفر صادق نے فرمایا: ہر گاہ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اس لیےکہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت درہم و دینار کی صورت میں نہیں ہوتی وہ اپنی حدیثیں وراثت میں چھوڑتے ہیں جو انہیں لے لیتا ہے اس نے پورا حصہ پالیا۔‘‘
اور یہ صرف انبیاء کی اولاد ہی کے لیے قانون نہیں بلکہ ان کی بیویوں اور دوسرے رشتہ داروں کے لیےبھی ہے کہ انبیاء کی وراثت سے انہیں کچھ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبیؐ کی وفات کے بعد امہات المؤمنینؓ نے جب آپؐ کا ترکہ کے لیے ارادہ کیا تو حضرت عائشہؓ نے منع کردیا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

«عن عائشه أن أزواج النبی صلی اللہ علیه وسلم حین توفی رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم أردن أن یبعثن عثمان إلی أبی بکر یسألنه مبراثھن فقالت عائشة ألیس قد قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا نورث ماترکنا صدقة»( صحیح بخاری کتاب الفرائض باب قول النبی لانورث ماترکنا صدقة)
’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو آپ ؐ کی بیویوں نے یہ ارادہ کیاکہ حضرت عثمانؓ کو ابوبکر صدیقؓ کے پاس بھیجیں اور اپنے ورثہ کا مطالبہ کریں تو اس وقت میں (عائشہ) ان کو کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہے: ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘


چنانچہ سیوطی نے نقل کی ہے :
سیوطی لکھتے ہیں بزاز ، ابو یعلی ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابو سعید خدری سے نقل کیا کہ :
وہ کہتے ہیں حب یہ آیت{ وآت ذي القربى حقه سورہ اسراء آیت 26}نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکو کو طلب کیا اور انھیں فدک عطا کر دیا
متن
وأخرج البزار وأبو يعلى وابن أبي حاتم وابن مردويه ، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : لما نزلت هذه الآية { وآت ذي القربى حقه } دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة فأعطاها فدك .
یہ ہی روایت ابن عباس سے بھی نقل ہوئی ہے
وأخرج ابن مردويه ، عن ابن عباس رضي الله عنهما قال : لما نزلت { وآت ذي القربى حقه }أقطع رسول الله - صلى الله عليه وسلم -فاطمة فدكا .
حوالہ
الدر المنثور /ج /6 ص 262
المؤلف : عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى : 911ه
ـ


امام السیوطی نے اس طرح نقل کیی ہے یہ روایت
وأخرج البزار وأبو يعلى وابن أبي حاتم وابن مردويه عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال لما نزلت هذه الآية وآت ذا القربى حقه دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة فأعطاها فدك * وأخرج ابن مردويه عن ابن عباس رضي الله عنهما قال لما نزلت وآت ذا القربى حقه أقطع رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة فدكا
چناچہ ہم اس کو اصل کتب مین دیکھا تو
اس طرح ملی
مسند ابی یعلی

قَرَأْتُ عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ الطَّحَّانِ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: هُوَ مَا قَرَأْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ {وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ} [الإسراء: 26] دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ وَأَعْطَاهَا فَدَكَ "
إسناده ضعيف

عطیہ بن سعد بن جنادہ ضعیف ہین

وقال الحافظ أبو بكر البزار حدثنا عباد بن يعقوب حدثنا أبو يحيى التيمي حدثنا فضيل بن مرزوق عن عطية عن أبي سعيد قال لما نزلت هذه الآية (وآت ذا القربى حقه ) دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة فأعطاها فدك
حافظ ابن کثیر اس کی تفسیر میں کہتے ہیں
وهذا الحديث مشكل لو صح إسناده لأن الآية مكية
اس حدیث کا صحیح ہونا مشکل ہے کیوں کہ یہ آیت مکی ہے
اور پھر ابو یحی التیمی کا فضیل بن مرزوق سے سننا معلوم نہیں ہے اس علاوہ اس میں خود ابو یحی (اسماعیل بن ابراہیم )اور عباد بن یعقوب الرواجنی ضعیف الحدیث ہیں

 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
آپ لوگ بھی کہاں اسماء رجال کی بحث لیکر بیٹھ گئے مسئلہ ہے باغ فدک کا اور صحیح بخاری کے مطابق فدک کو جب حضرت ابوبکر نے خاتون جنت حضرت فاطمہ کے حوالے نہ کیا تو اس بات پر خاتون جنت حضرت فاطمہ ابوبکر سے ناراض ہوگیئں اور ایسی ناراض ہوئی کہ اپنے وصال تک ابوبکر سے ناراض ہی رہیں جبکہ صحیح بخاری میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ
فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے فاطمہ کی ناراضگی میری ناراضگی ہے

اور بات بھی ثابت شدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے

اب جنت کی عورتوں کی سردار اور اہل جنت کے جوانوں کے سرداروں کی والدہ ہی اس مسئلے میں حق پر ہیں کیونکہ کسی ناحق بات پر خاتوں جنت کسی سے ناراض نہیں ہوسکتی۔
والسلام
@بہرام صاحب، کم از کم وہ حدیث تو پوری لگادیا کریں، جسمیں خاتون جنت کی ناراضگی پر اللہ کے رسول برحق ﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ (ر) کی ناراضگی میں میری ناراضگی ہے، یہ آپ کی ہی کتابوں کے حوالے سے ہے

Fatima Azeeat.jpg
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
@بہرام صاحب، کم از کم وہ حدیث تو پوری لگادیا کریں، جسمیں خاتون جنت کی ناراضگی پر اللہ کے رسول برحق ﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ (ر) کی ناراضگی میں میری ناراضگی ہے، یہ آپ کی ہی کتابوں کے حوالے سے ہے

10567 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
لیجئے آپ کی اصح ترین کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری سے آپ کی پیش کی گئی حدیث کو ملاحظہ کرتے ہیں کہ کیا حضرت علی نے خاتوں جنت حضرت فاطمہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو سننے کے بعد بھی ناراض رکھا یا حضرت علی نے فاطمہ کی ناراضگی والے عمل کو ترک کردیا
حدثنا ابو اليمان اخبرنا شعيب عن الزهري قال:‏‏‏‏ حدثني علي بن حسين ان المسور بن مخرمة قال:‏‏‏‏ إن عليا خطب بنت ابي جهل فسمعت بذلك فاطمة فاتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت:‏‏‏‏ يزعم قومك انك لا تغضب لبناتك ، وهذا علي ناكح بنت ابي جهل فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمعته حين تشهد يقول:‏‏‏‏ " اما بعد انكحت ابا العاص بن الربيع فحدثني وصدقني وإن فاطمة بضعة مني وإني اكره ان يسوءها والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وبنت عدو الله عند رجل واحد " ، فترك علي الخطبة ، وزاد محمد بن عمرو بن حلحلة عن ابن شهاب عن علي بن الحسين عن مسور سمعت النبي صلى الله عليه وسلم وذكر صهرا له من بني عبد شمس فاثنى عليه في مصاهرته إياه فاحسن قال:‏‏‏‏ " حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي ".
ترجمہ داؤد راز
ہم سے ابولیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے علی بن حسین نے بیان کیا اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں)پیغام نکاح دیا، اس کی اطلاع جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ پڑھتے سنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امابعد: میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب رضی اللہ عنہا کی، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی)شادی کرائی تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا) ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔ محمد بن عمرو بن حلحلہ نے ابن شہاب سے یہ اضافہ کیا ہے، انہوں نے علی بن حسین سے اور انہوں نے مسور رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے بنی عبدشمس کے اپنے ایک داماد کا ذکر کیا اور حقوق دامادی کی ادائیگی کی تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کہی سچی کہی اور جو وعدہ بھی کیا پورا کر دکھایا۔
صحیح بخاری حدیث نمبر
3729


یعنی اصح کتاب بعد کتاب اللہ کے مطابق حضرت علی نے دوسری شادی کا ارادہ ترک فرما کر حضرت فاطمہ کو راضی کرلیا لیکن اصح کتاب بعد کتاب اللہ کے مطابق ہی حضرت فاطمہ ابوبکر سے اپنے وصال تک ناراض رہیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
مختلف حالات میں اس کا جواب بھی مختلف ہے ، کوئی مثال پیش کریں ، یعنی کوئی بلا دلیل قول پیش کریں ۔

اس بات کی کیا دلیل ہے کہ صدیوں سے ایک راوی کو ضعیف کہنے والے علماء کے ہاں ’’ وجہ تضعیف ‘‘ کی بنیاد صرف ایسی روایت ہے ، جو خود ان کے ہاں ضعیف ہے ۔؟
وہ جو آپ نے پیش فرمایاکہ
ابن معین کی تضعیف کا حوالہ :

(234) قال رجل ليحيى: فالعوفي؟ قال: «كان ضعيفاً في القضاء ضعيفاً في الحديث» . (سؤالات ابن الجنید لابن معین ص 331 ، ط مکتبۃ الدار)

حدثنا علي بن أحمد بن سليمان، حدثنا ابن أبي مريم سألت يحيى بن معين عن عطية العوفي فقال ضعيف إلا أنه يكتب حديثه.(الکامل لابن عدی ج 7 ص 84 ط العلمیۃ ، بیروت)


اس میں دلیل کیا پیش کی گئی ہے اس راوی کے ضیف ہونے کی یہ مجھے سمجھ نہیں آیا یہ تو نرا قول امام ہے کہ فلان ضیف ہے

پھر اس وجہ تصنیف کی آپ ہی کوئی دلیل عنایت فرمادیں کیونکہ آپ تو بلا دلیل کوئی بات مانتے ہی نہیں
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
وہ جو آپ نے پیش فرمایاکہ
ابن معین کی تضعیف کا حوالہ :

(234) قال رجل ليحيى: فالعوفي؟ قال: «كان ضعيفاً في القضاء ضعيفاً في الحديث» . (سؤالات ابن الجنید لابن معین ص 331 ، ط مکتبۃ الدار)

حدثنا علي بن أحمد بن سليمان، حدثنا ابن أبي مريم سألت يحيى بن معين عن عطية العوفي فقال ضعيف إلا أنه يكتب حديثه.(الکامل لابن عدی ج 7 ص 84 ط العلمیۃ ، بیروت)

اس میں دلیل کیا پیش کی گئی ہے اس راوی کے ضیف ہونے کی یہ مجھے سمجھ نہیں آیا یہ تو نرا قول امام ہے کہ فلان ضیف ہے
پھر اس وجہ تصنیف کی آپ ہی کوئی دلیل عنایت فرمادیں کیونکہ آپ تو بلا دلیل کوئی بات مانتے ہی نہیں
جرح و تعدیل ایک فن ہے ، جس طرح دیگر فنون میں مثلا نحو و صرف ، ادب و بلاغہ میں اس فن کی مسلمہ شخصیات کی بات معتبر ہوتی ہے اسی طرح ابن معین یا دیگر اہل فن کی بات جرح و تعدیل میں معتبر ہے ۔
علمائے جرح و تعدیل نے راویوں کے حالات کو پرکھا اور جانچا ہے ، پھر ان پر حکم لگایا ہے ، جس طرح کسوٹی سے کھوٹے کھرے کی پہچان کی جاتی ہے ، اور پھر دلائل نہیں پوچھے جاتے کہ اس کو ’’ کھرا ‘‘ اور اس کو ’’ کھوٹا ‘‘ کیوں کہا گیا ہے ، اسی طرح جرح و تعدیل کے امام راویوں کے حالات جاننے کے لیے کسوٹی کی سی حیثیت رکھتے ہیں ، اگر وجہ بیان کریں تو بہت بہتر ، نہ بیان کریں تو بھی ہمارے لیے کافی ہے ۔
بعض دفعہ جرح و تعدیل مفسر ، غیر مفسر کی بحث کرنا پڑتی ہے ، لیکن یہاں اس کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ تمام علماء اس کی تضعیف پر مجتمع ہیں ۔ سوائے ایک آدھ شاذ قول کے ۔
اور یہ اصول ’’ اہل سنت ‘‘ کے ہاں مسلمہ اصول ہیں ، اگر آپ نے بحث سنیوں کے اصولوں کے تحت کرنی ہے تو آپ کو ان کو ماننا پڑے گا ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
جرح و تعدیل ایک فن ہے ، جس طرح دیگر فنون میں مثلا نحو و صرف ، ادب و بلاغہ میں اس فن کی مسلمہ شخصیات کی بات معتبر ہوتی ہے اسی طرح ابن معین یا دیگر اہل فن کی بات جرح و تعدیل میں معتبر ہے ۔
علمائے جرح و تعدیل نے راویوں کے حالات کو پرکھا اور جانچا ہے ، پھر ان پر حکم لگایا ہے ، جس طرح کسوٹی سے کھوٹے کھرے کی پہچان کی جاتی ہے ، اور پھر دلائل نہیں پوچھے جاتے کہ اس کو ’’ کھرا ‘‘ اور اس کو ’’ کھوٹا ‘‘ کیوں کہا گیا ہے ، اسی طرح جرح و تعدیل کے امام راویوں کے حالات جاننے کے لیے کسوٹی کی سی حیثیت رکھتے ہیں ، اگر وجہ بیان کریں تو بہت بہتر ، نہ بیان کریں تو بھی ہمارے لیے کافی ہے ۔
بعض دفعہ جرح و تعدیل مفسر ، غیر مفسر کی بحث کرنا پڑتی ہے ، لیکن یہاں اس کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ تمام علماء اس کی تضعیف پر مجتمع ہیں ۔ سوائے ایک آدھ شاذ قول کے ۔
اور یہ اصول ’’ اہل سنت ‘‘ کے ہاں مسلمہ اصول ہیں ، اگر آپ نے بحث سنیوں کے اصولوں کے تحت کرنی ہے تو آپ کو ان کو ماننا پڑے گا ۔
علم فقہ بھی ایک فن ہے جس طرح دیگر فنون میں مثلا نحو و صرف ادب و بلاغہ میں اس فن کی مسلمہ اماموں کی بات معتبر ہوتی ہے اور ایسی طرح امام ابو حنیفہ یا دیگر علماء فقہ نے دین کے مسائل کو جانچ اور پرکھ کر علم فقہ کو مسلمانوں تک پہنچایا ہے اور کھرے اور کھوٹے کی پہچان کروائی ہے لیکن پھر بھی وہابی ان سے ہر مسئلے میں دلیل مانگتے ہیں جبکہ اہل سنت کے یہ ائمہ دین کو سمجھنے کے لئے کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن وہابی ان کے لئے یہ نہیں کہتے کہ اگر کسی مسئلے میں یہ ائمہ فن دلیل پیش کریں تو تو بہتر نہ پیش کریں تو ہمارے لئے کوئی بات نہیں
جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے علم اسناد دین ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
علم فقہ بھی ایک فن ہے جس طرح دیگر فنون میں مثلا نحو و صرف ادب و بلاغہ میں اس فن کی مسلمہ اماموں کی بات معتبر ہوتی ہے اور ایسی طرح امام ابو حنیفہ یا دیگر علماء فقہ نے دین کے مسائل کو جانچ اور پرکھ کر علم فقہ کو مسلمانوں تک پہنچایا ہے اور کھرے اور کھوٹے کی پہچان کروائی ہے لیکن پھر بھی وہابی ان سے ہر مسئلے میں دلیل مانگتے ہیں جبکہ اہل سنت کے یہ ائمہ دین کو سمجھنے کے لئے کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن وہابی ان کے لئے یہ نہیں کہتے کہ اگر کسی مسئلے میں یہ ائمہ فن دلیل پیش کریں تو تو بہتر نہ پیش کریں تو ہمارے لئے کوئی بات نہیں
جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے علم اسناد دین ہے
یہ اصول ’’ اہل سنت ‘‘ کے ہاں مسلمہ اصول ہیں ، اگر آپ نے بحث سنیوں کے اصولوں کے تحت کرنی ہے تو آپ کو ان کو ماننا پڑے گا ۔
آپ نے مذکورہ سطر غالبا پڑھی نہیں ، اب پڑھ لیں ، اور بلا وجہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے اصل موضوع پر بات کر لیں ۔ ورنہ خاموشی اختیار کر لیں ۔
علم فقہ اگر فن ہے تو اس کے مسلمہ امام ’’ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ہیں ۔ جن کی باتیں ہم بلا کسی چوں چراں ماننا فرض سمجھتے ہیں ۔
باقی سب کو بھی ہم مانتے ہیں مگر ’’ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کے بعد ۔
ایک حد تک ہم نے آپ کے ’’ خلط مبحث ‘‘ کو برداشت کیا ہے لیکن ہمیں مجبور نہ کریں کہ آپ کے اصول کے تحت آپ کے ’’ شیعی علم الرجال ‘‘ کو زیر بحث لانا شروع کریں تو لینے کے دینے پڑھ جائیں گے ۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
[QUOTE="علی بہرام, post: 214646, member: 3577"
یعنی اصح کتاب بعد کتاب اللہ کے مطابق حضرت علی نے دوسری شادی کا ارادہ ترک فرما کر حضرت فاطمہ کو راضی کرلیا لیکن اصح کتاب بعد کتاب اللہ کے مطابق ہی حضرت فاطمہ ابوبکر سے اپنے وصال تک ناراض رہیں [/QUOTE]
چلیں جی یہاں مانا کہ کہ ہماری اصح کتاب بعد کتاب اللہ کے مطابق سیدنا علی رض نے اپنی دوسری شادی کا ارادہ ترک کرکے سیدہ فاطمہ رض کو منا لیا تھا۔ لیکن دوسرے مقامات پر سیدہ فاطمہ رض کی ناراضگی پر آپ کیا کہیں گے پھر؟؟ ایک دفعہ پھر آپکی ہی کتابیں سے چند حوالا جات پیش خدمت ہیں۔ ذرا لنک ملاحظہ ہو
شیعوں کا کہنا ہے کہ سیدہ فاطمہ جس سے ناراض ہو جائیں وہ امت مسلمہ کا خلیفہ بننے کا مستحق نہیں ہے۔
 
Last edited:

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
لیکن اصح کتاب بعد کتاب اللہ کے مطابق ہی حضرت فاطمہ ابوبکر سے اپنے وصال تک ناراض رہیں
@بہرام صاحب، کیا آپ یہ بات جانتے ہیں۔
باغ فدک سے متعلق جتنی بھی روایات ہیں، ان سب کو اگر اکٹھا کر لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراضی کا ذکر صرف انہی روایات میں ملتا ہے جن کی سند میں زہری موجود ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ناراضی والی بات زہری کا ادراج (اضافہ) ہے۔ چھ ماہ تک ناراض رہنے والی بات صرف زہری ہی نے بیان کی ہے جو کہ اس واقعہ کے پچاس سال بعد پیدا ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ زہری اس واقعے کے عینی شاہد تو نہیں تھے۔ انہوں نے یہ بات کس سے سنی اور جس سے سنی، وہ کس درجے میں قابل اعتماد تھا؟ ان کے علاوہ کسی اور نے تو یہ بات بیان نہیں کی ہے۔ مشہور محدثین جیسے بیہقی اور ابن حجر عسقلانی نے بھی زہری کی اس بات کو منقطع قرار دے کر اسے مسترد کیا ہے۔( ابن حجر عسقلانی۔ فتح الباری شرح بخاری۔ 7/495۔ زیر حدیث 4240۔ ریاض: مکتبہ سلفیہ۔)

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ناراضی والی بات درایت کے نقطہ نظر سے بالکل غلط معلوم ہوتی ہے۔ اس میں تو کوئی اشکال نہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کے حصول کا خیال گزرا تو انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان سے بات کی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ، حضرت صدیق اکبر کو جائز حکمران تسلیم کرتی تھیں، تبھی ان کے پاس مقدمہ لے کر گئیں۔ حضرت ابوبکر نے وضاحت فرما دی کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام مال کو صدقہ قرار دیا تھا اور باغ فدک تو ایک سرکاری جائیداد تھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت نہ تھی بلکہ حکومت کی ملکیت تھی۔ اس کی صرف آمدنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت پر بطور تنخواہ خرچ ہوتی تھی کیونکہ آپ بطور سربراہ حکومت فل ٹائم کام کرتے تھے اور آپ کی آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہ تھا۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اس کی آمدنی بدستور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت پر خرچ ہو گی۔

حضرت ابوبکر نے دلیل سے بات کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو بطور دلیل پیش کیا تھا۔ اگرسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس سے اختلاف ہوتا تو وہ بھی جوابی دلیل پیش کرتیں لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ آپ کی بات کو سمجھ گئی تھیں۔ سیدہ کے زہد و تقوی ، اعلی کردار اور دنیا سے بے رغبتی کو مدنظر رکھا جائے تو آپ سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ آپ اس بات پر ناراض ہو جائیں گی کہ آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پیش کیا جائے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو زہری کی روایت میں کسی اور نے یہ ناراضی والا جملہ شامل کر دیا ہے یا پھر یہ جملہ خود انہوں نے کسی غلط فہمی کے سبب کہہ دیا ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top