:حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت ابوبکرؓ کی صلح ہو گئی تھی جیسا کہ بہیقی نے نقل کیا ہے۔
«روى البيهقي من طريق الشعبي أن أبا بكر عاد فاطمة فقال لها علي هذا أبو بكر يستأذن عليك قالت أتحب أن آذن له قال نعم فأذنت له فدخل عليها فترضاها حتى رضيت»(حاشیہ بخاری شریف ص532ص1)
’’حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت فاطمہؓ کو راضی کر لیا اور وہ راضی ہو گئیں۔‘‘
یعنی صحیح بخاری میں جو لکھا وہ نہیں ماننا اور ایک مرسل روایت کو جو کہ بخاری کی شرح کے حاشیہ میں لکھی ہے اس کو فورا مان لینا تعجب ہوتا ہے صحابہ پرستوں کی عقل پر !!!!
علاوہ ازیں حضرت ابوبکر ؓ نے بقول شیعہ مصنف کے فدک بھی حضرت فاطمہ ؓ کو دے دیا۔( ملاحظہ ہو: اصول کافی ص 355 ) اور شیخ ابن مطہر جلی نے بھی منہاج الکرامہ میں اعتراف کیا ہے:
لما وعظت فاطمة ابابكر فى فدك – كتب لها كتابا وروها عليها اور حجاج السالکین میں ہے:
فقالت : والله تفعلن فقال والله لأفعلن فقالت اللهم اشهد فرضيت بذالك وأخذت العهد عليه . (تحفه اثنا عشريه فارسى ص279)
زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعاں کا
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حجرت فاطمہؓ کو فدک کی تحریر لکھ دی تھی۔(جلاء العيون اردو ص 151)
حوالہ دینا ابن مطہر حلی کی کتاب کا اور عبارت درج کرنی تحفہ اثنا عشریہ سے بہتر ہوتا کہ آپ ابن مطہر حلی کی مہناج الکرامہ کا مطالعہ فرما کر پھر پوری عبارت درج کرتے کہ ابوبکر نے تو باغ فدک کا پروانہ خاتون جنت کو لکھ کردے دیا تھا لیکن کسی نے یہ پھاڑ بھی دیا اور ابوبکر کے اس فیصلے کو نہیں مانا جبکہ آپ کے عقائد کے اعتبار سے حضرت ابو بکر اس وقت خلیفہ تھے
کیونکہ اگر باغ فدک حضرت فاطمہ کے پاس ہی تھا تو صحیح بخاری کی اس روایت کا کیا جائے جس میں ہے کہ حضرت علی اور حضرت عباس نےحضرت عمر کے پاس آکر پھر سے باغ فدک کا مطالبہ کیا ؟؟؟؟
آخر میں جو یہ لکھا ہے کہ ’’ حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ شیخین کو کاذب،آثم، خائن اور غادر سمجھتے تھےاور حضرت عمرؓ نے اس کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔‘‘
اس کے جواب میں گزارش ہے کہ یہ بھی کم علمی کی دلیل ہے۔ حضرت عمرؓ نے اعتراف نہیں کیا بلکہ حضرت علی ؓ اور حضرت عباسؓ کو بطور تنبیہ ایسا فرما رہے ہیں کہ جو فیصلہ حضرت ابوبکرؓ نے آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل ماتركنا صدقة صادر فرمایا اور میں نے اسی کو بحال رکھا، کیا تم لوگ مجھے اور حضرت ابوبکرؓ کو تعمیل ارشاد نبوی ﷺمیں کاذب، آثم ، غادر اور خائن سمجھتے ہو حالانکہ خدا جانتا ہے کہ میں اپنے موقف میں صادق ، بار، راشد اور متبع حق ہوں اصل الفاظ یہ ہیں۔ والله يعلم انى الصادق بار راشدتابع للحق ( صحيح مسلم ص91ج2)۔ یہ تو روزمرہ کا محاورہ ہے کہ جب کسی شریف آدمی کو ناکردہ گناہ میں دھر لیا جاتا ہے تو وہ بطور استفہام اور استعجاب کے ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔جیسے کسی کو چوری کا الزام دیا جائے تو وہ کہے گا کہ کیا تم مجھے چور سمجھتے ہو؟ اس کے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ اعتراف جرم کر رھا ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب تم جانتے ہو کہ میں ایسا ہرگز نہیں ہوں تو میرے متعلق تمہیں اسکا شبہ کیوں گزرتا ہے؟فاعهم ولا تكن من المعائدين ،
لیجئے میں پوری روایت ہی لگا دیتا ہوں پھر آپ خود ہی فیصلہ فرمالیں کہ حقیت حال کیا ہے
ترجمہ داؤد راز
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں مالک بن اوس نضری نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے اس سلسلہ میں ذکر کیا تھا، پھر میں مالک کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں روانہ ہوا اور عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اتنے میں ان کے دربان یرفاء آئے اور کہا کہ عثمان، عبدالرحمٰن، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں اجازت دی جائے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ سب لوگ اندر آ گئے اور سلام کیا اور بیٹھ گئے، پھر یرفاء نے آ کر پوچھا کہ کیا علی اور عباس کو اجازت دی جائے؟ ان حضرات کو بھی اندر بلایا۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین! میرے اور ظالم کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے۔ آپس میں دونوں نے سخت کلامی کی۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی جماعت نے کہا کہ امیرالمؤمنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے تاکہ دونوں کو آرام حاصل ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صبر کرو میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کی اجازت سے آسمان و زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہماری میراث تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خود اپنی ذات مراد لی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ پھر آپ علی اور عباس رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد کہا کہ پھر میں آپ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا اس مال میں سے ایک حصہ مخصوص کیا تھا جو اس نے آپ کے سوا کسی کو نہیں دیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم» الآیہ۔ تو یہ مال خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا، پھر واللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے لوگوں کو نظر انداز کر کے اپنے لیے جمع نہیں کیا اور نہ اسے اپنی ذاتی جائیداد بنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آپ لوگوں کو بھی دیا اور سب میں تقسیم کیا، یہاں تک اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کا سالانہ خرچ دیتے تھے، پھر باقی اپنے قبضے میں لے لیتے تھے اور اسے بیت المال میں رکھ کر عام مسلمانوں کے ضروریات میں خرچ کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر اس کے مطابق عمل کیا۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو اس کا علم ہے؟ صحابہ نے کہا کہ ہاں پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے کہا، میں آپ دونوں حضرات کو بھی اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگوں کو اس کا علم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ولی ہونے کی حیثیت سے اس پر قبضہ کیا اور اس میں اسی طرح عمل کیا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ آپ دونوں حضرات بھی یہیں موجود تھے۔ آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر یہ بات کہی اور
آپ لوگوں کا خیال تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس معاملے میں خطاکار ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے اور نیک اور سب سے زیادہ حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو وفات دی اور میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں اس طرح میں نے بھی اس جائیداد کو اپنے قبضے میں دو سال تک رکھا اور اس میں اسی کے مطابق عمل کرتا رہا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، پھر آپ دونوں حضرات میرے پاس آئے اور آپ لوگوں کا معاملہ ایک ہی تھا، کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ!)آئے اپنے بھائی کے لڑکے کی طرف سے اپنی میراث لینے اور یہ (علی رضی اللہ عنہ)اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کی میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔ میں نے تم سے کہا کہ یہ جائیداد تقسیم تو نہیں ہو سکتی لیکن تم لوگ چاہو تو میں اہتمام کے طور پر آپ کو یہ جائیداد دے دوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ لوگوں پر اللہ کا عہد اور اس کی میثاق ہے کہ اس کو اسی طرح خرچ کرو گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور جس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور جس طرح میں نے اپنے زمانہ ولایت میں کیا اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس معاملہ میں بات نہ کریں۔ آپ دونوں حضرات نے کہا کہ اس شرط کے ساتھ ہمارے حوالہ جائیداد کر دیں۔ چنانچہ میں نے اس شرط کے ساتھ آپ کے حوالہ جائیداد کر دی تھی۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے ان لوگوں کو اس شرط کے ساتھ جائیداد دی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں، پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے جائیداد آپ لوگوں کو اس شرط کے ساتھ حوالہ کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے کہا، کیا آپ لوگ مجھ سے اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں۔ پس اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، اس میں، اس کے سوا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔ اگر آپ لوگ اس کا انتظام نہیں کر سکتے تو پھر میرے حوالہ کر دو میں اس کا بھی انتظام کر لوں گا۔
جناب والا اسی مسلم شریف میں ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ کو ٹھوس جواب دے کر مطمئن کر دیا تو حضرت علی ؓ نے تمام رنجش اور خلش بھلا کر بیعت کر لی تھی اصل الفاظ یہ ہیں۔
«ثم قام على فعظم من حق ابى بكر وذكر فضيلته وسابقته ثم مضى الى ابى بكر فبايعه »(صحيح مسلم ص92ج2)
بخاری کے الفاظ یہ ہیں اور کافی غور طلب ہیں کہ لوگ بنو ہاشم کو پتہ نہیں کیا سمجھتے تھے
فالتمس مصالحةَ أبي بكرٍ ومبايعتِهِ، ولم يكنْ يبايعُ تلك الأشهرِ، فأرسل إلى أبي بكرٍ : أنِ ائْتِنا ولا يأتِنا أحدٌ معكَ، كراهيةً لمحضرِ عمرَ، فقال عمرُ : لا واللهِ لا تدخلُ عليهم وحدَكَ، فقال أبو بكرٍ : وما عسيتُهم أن يفعلوا بي، والله لآتيهم، فدخل عليهم أبو بكرٍ، فتشهَّد عليٌّ،
ترجمہ داؤد راز
اس وقت انہوں
(یعنی حضرت علی )نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے
صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا۔
اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ آپ صرف تنہا آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں ا
ن کو یہ منظور نہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ آئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ
اللہ کی قسم! آپ تنہا ان کے پاس نہ جائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں وہ میرے ساتھ کیا کریں گے میں تو اللہ کی قسم! ضرور ان کی پاس جاؤں گا۔ آخر آپ علی رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔
دیکھا آپ نے کہ حضرت علی کو کراھیت ہوتی تھی حضرت عمر کی موجودگی سے اور حضرت عمر کے خیالات بھی حضرت علی کے بارے کچھ زیادہ ہی شکوک و شہبات والے تھے یہ اصح کتاب بعد کتاب اللہ میں بیان ہوا
’’کیا حضرت علیؓ نے کاذب ،آثم اور غادر خائن کی بیعت کی تھی؟ جب وہ مل بیٹھے تھےتو آپ لوگوں کو کیوں اعتراض ہے؟ علاوہ ازیں ۔ مسلم شریف ج2 ص90 پر یہی الفاظ حضرت عباسؓ سے بھی مذکور ہیں جن کا حدف حضرت علی ؓ ہیں، حضرت عمر فاروقؓ کی عدالت میں حضرت عباسؓ و علیؓ دونوں پیش ہوتے ہیں۔ حضرت عباس ؓ ان القابات کے ساتھ حضرت علیؓ کے خلاف دعویٰ دائر کرتے ہیں
«فقال عباس ياامير المومنين !اقض بينى وبين هذا الكاذب الاثم الغادر الخائن »(مسلم ص90ج2بروايت مالك بن انس )
اب حضرت علیؓ کی طرف سے جو جواب ہو گا ہماری طرف سے حضرت فاروقؓ کے حض میں بھی قبول فرما لیا جائے۔
اس کے لئے اگر آپ امام نوی شارح صحیح مسلم کی شرح ہی پیش فرمادیتے تو زیادہ مناسب ہوتا میری آپ سے گذارش ہے اس روایت کی شرح ضرور دیکھ لیجئے گا آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا
والسلام