محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ۹۷ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللہَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ۹۸ وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ اٰيٰتٍؚبَيِّنٰتٍ۰ۚ وَمَا يَكْفُرُ بِہَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ۹۹ اَوَكُلَّمَا عٰھَدُوْا عَہْدًا نَّبَذَہٗ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ۰ۭ بَلْ اَكْثَرُھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۱۰۰
۲؎ قرآن حکیم کے متعدد نام قرآن میں مذکور ہیں۔ ان میں سے آیات بینات بھی ہے یعنی واضح اور روشن آیات ۔ جو لوگ اللہ کی اس کتاب کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس کے دلائل، اس کاطرز بیان، اس کا پیغام سب واضح ہیں اور روشن۔ یہ حقائق ومعارف کا وہ سمندر بے ساحل ہے کہ جس کی ہرموج صد ہزار موتی اپنے دامانِ گہربار میں لیے ہوئے ہے۔ ہمہ آفادہ اور ہمہ خوبی اگر کوئی کتاب ہوسکتی ہے تو وہ یہ قرآن حکیم ہے۔ اس کے وضوح پر درخشندہ مثال یہ ہے کہ اس طویل عرصے کے بعد بھی یہ ویسی ہی سمجھی جاسکتی ہے جیسے قرونِ اولیٰ میں۔ نفس تعلیم میں کوئی تحریف نہیں ۔ حالانکہ انجیل دوسوسال کے بعد بالکل بدل گئی اور وید چند صدیاں بھی حوادث کا مقابلہ نہ کرسکا۔
۳؎ بنی اسرائیل ایک آنے والے نبی کے منتظر تھے اور انھوں نے اس کی اعانت ونصرت کاعہد کررکھاتھا لیکن جب وہ آگیا جس کا انتظار تھا تو منکر ہوگئے۔ وجہ یہ تھی کہ ان کے دل دولت ایمان سے محروم تھے۔ مال ودولت کے سوا ان کی زندگی کا اور کوئی مقصد نہ تھا۔
{بُشْریٰ}خوش خبری۔ (اَکْثَرُھُم) کہہ کر قرآن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کچھ لوگ یہودیوں میں ایسے بھی تھے جو نیک سرشت تھے۔ یہ حالت اکثریت کی نہ تھی۔
۱؎ جہلائے یہود جبرائیل علیہ السلام کے نام سے بہت پریشان ہوتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہی فرشتہ ہماری بربادی وبدبختی کا باعث ہوا ہے ۔ اس لیے اب اس کے لائے ہوئے پیغام کو ہم کبھی نہ مانیں گے ۔ یہ ایک ضد اور جاہلانہ خیال تھا۔ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا۔ وہ جوکچھ لاتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کا انکار پیغام خدا کے نظام وحی وتنزیل کا انکار ہے ۔تو کہہ جوکوئی جبرئیل (علیہ السلام) کا دشمن ہے سو اس نے اللہ کے حکم سے یہ کلام تیرے دل پر اتارا ہے جو اس (کلام) کو جو اس کے سامنے ہے سچ بتاتا ہے اور راہ دکھاتا ہے اور ایمان داروں کے لیے خوشخبری ہے۔(۹۷) جوکوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے رسولوں کا اور جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہوگا۔ تو خدا ان کافروں کا دشمن ۱؎ ہوگا۔(۹۸)ہم نے تیری طرف واضح آیتیں (نشانیاں) اتاری ہیں۔ فاسقوں(بے حکموں نافرمانوں) کے سو اان کا کوئی منکر نہ ہوگا۔۲؎ (۹۹) آیا کیا جب بھی وہ خدا سے کوئی عہد باندھیں گے تو ایک فرقہ ان میں سے اس (عہد) کو پھینک دے گا۔ (نہیں) بلکہ ان میںسے اکثر ایمان نہیں لاتے۔۳؎
۲؎ قرآن حکیم کے متعدد نام قرآن میں مذکور ہیں۔ ان میں سے آیات بینات بھی ہے یعنی واضح اور روشن آیات ۔ جو لوگ اللہ کی اس کتاب کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس کے دلائل، اس کاطرز بیان، اس کا پیغام سب واضح ہیں اور روشن۔ یہ حقائق ومعارف کا وہ سمندر بے ساحل ہے کہ جس کی ہرموج صد ہزار موتی اپنے دامانِ گہربار میں لیے ہوئے ہے۔ ہمہ آفادہ اور ہمہ خوبی اگر کوئی کتاب ہوسکتی ہے تو وہ یہ قرآن حکیم ہے۔ اس کے وضوح پر درخشندہ مثال یہ ہے کہ اس طویل عرصے کے بعد بھی یہ ویسی ہی سمجھی جاسکتی ہے جیسے قرونِ اولیٰ میں۔ نفس تعلیم میں کوئی تحریف نہیں ۔ حالانکہ انجیل دوسوسال کے بعد بالکل بدل گئی اور وید چند صدیاں بھی حوادث کا مقابلہ نہ کرسکا۔
۳؎ بنی اسرائیل ایک آنے والے نبی کے منتظر تھے اور انھوں نے اس کی اعانت ونصرت کاعہد کررکھاتھا لیکن جب وہ آگیا جس کا انتظار تھا تو منکر ہوگئے۔ وجہ یہ تھی کہ ان کے دل دولت ایمان سے محروم تھے۔ مال ودولت کے سوا ان کی زندگی کا اور کوئی مقصد نہ تھا۔
حل لغات