• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فریق مخالف سے افہام و تفہیم ، ایک مشورہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اپنی اپنی مجالس و مساجد ، پروگرامز ، کانفرنسز میں تو ہم فریق مخالف کے دلائل کا تیا پانچا کرتے ہی رہتے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ اس سے ہمارے ہمنوا ہی مستفید ہوتے ہیں ، فریق مخالف سے لوگ اس کو وہی اہمیت دیتے ہیں جو ہم ان کے دلائل کو دیتے ہیں .
اب اک نیا انداز ہونا چاہیے کہ جلسہ میں اپنے ہم مسلک مولوی کو بلانے کی بجائے فریق مخالف کی طرف سے عالم دین کو دعوت دی جائے ، تاکہ اندازہ ہو کہ عالم دین کے دلائل میں کتنی قوت ہے اور عوام کے اعتراضات کی کیا حقیقت ہے ؟
اپنے مداحین و ثناخوانوں میں بیٹھ کر نکتہ آفرینی الگ بات ہے ، جبکہ مخالف کی بات سن کر اس کے اعتراض کا جواب دینا الگ بات ہے .
اور پھر ایک فطری سی بات ہے جب آپ کو کسی عالم دین کے پاس بیٹھنے کا موقعہ ملتا ہے تو بہت سارے ایسے اعتراضات جو سن سناکر آپ کے ذہن میں بیٹھے ہوتے ہیں ، وہ اس عالم دین سے براہ راست ملنے سے ہی کافور ہو جاتے ہیں .
اسی طرح جب ہم اپنی اپنی کمین گاہ سے کسی کے خلاف بولتے ہیں تو اس میں پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جائے ، اور کسی نہ کسی طرح مخالف کے خلاف زبردست مقدمہ قائم کیاجائے .
لیکن جب آپ کسی کے گھر مفاہمت کی غرض سے چلے جاتے ہیں تو پھر اختلاف کی بجائے اتفاق کی راہیں ڈھونڈتے ہیں ، تلخ باتوں کو نظر انداز کرکے پیار و محبت کے اسلوب کو اپناتے ہیں .
( اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہونی چاہیے ، جو کچھ میرے ذہن میں آیا ، اس کے ذریعے ابتداء کردی ، امید ہے اہل علم اپنی آراء سے نوازیں گے ۔)
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
967
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
اب اک نیا انداز ہونا چاہیے کہ جلسہ میں اپنے ہم مسلک مولوی کو بلانے کی بجائے فریق مخالف کی طرف سے عالم دین کو دعوت دی جائے ، تاکہ اندازہ ہو کہ عالم دین کے دلائل میں کتنی قوت ہے اور عوام کے اعتراضات کی کیا حقیقت ہے ؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
جہاں تک میں سمجھا ہوں آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم اگر کوئی جلسہ وغیرہ اپنے محلے یا مسجد میں رکھیں تو اب کی بار کسی دوسرے مسلک کے عالم کو مدھو کریں اور اس کو اپنی طرف سے یا وہ خود اپنی طرف سے کوئی موضوع منتخب کرے پہلے وہ صاحب اپنی تقریر کریں اس کے بعد حاضرین میں سے کوئی بھی ان سے سوالات کر سکتا ہو ؟
 
Last edited by a moderator:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ٹھیک ہے ، پھر کوشش کی جائے کہ کوئی پروگرام بنایا جائے، جہاں اہل الحدیث کی مسجد کا منبر ''شیخ االاسلام طاہر القادری'' کے سپرد کیا جائے!!
''شیخ الاسلام '' آج کل لاہور میں ہی ہیں!!
بہر حال اتنا ضرور ہونا چاہئے کہ ایک ہی مجلس میں فریقین اپنے مؤقف کو بیان اور اسے سمجھنانے کو کوشش کریں ، اور اتنا حوصلہ فریقین مین ہونا چاہئے کہ وہ تحمل سے اختلاف کو سن سکیں!!
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
967
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ٹھیک ہے ، پھر کوشش کی جائے کہ کوئی پروگرام بنایا جائے، جہاں اہل الحدیث کی مسجد کا منبر ''شیخ االاسلام طاہر القادری'' کے سپرد کیا جائے!!
''شیخ الاسلام '' آج کل لاہور میں ہی ہیں!!
بہر حال اتنا ضرور ہونا چاہئے کہ ایک ہی مجلس میں فریقین اپنے مؤقف کو بیان اور اسے سمجھنانے کو کوشش کریں ، اور اتنا حوصلہ فریقین مین ہونا چاہئے کہ وہ تحمل سے اختلاف کو سن سکیں!!
بسم اللہ الر حمٰن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

تجربہ ہے نا کر کے دیکھ لیتے ہیں بھائی اس میں حرج ہی کیا ہے مشکل بات تو یہ ہے اگر میں ٹوکے والے کو بلاتا ہوں تو وہ ہاں کر ے گا ؟
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جس طرز پر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے تقابل ادیان کے موضوع پر احسن انداز میں مناظرے کئے ہیں اسی طرح تقابل مسالک پر اگر علماء چاہیں تو مناظرے کر سکتے ہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
انڈیا میں مسالک کر درمیان رواداری ابھی کچھ حد تک دیکھنے کو ملتی ہے، پاکستانیوں کا خون زیادہ جوش میں آجاتا ہے!!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جہاں تک میں سمجھا ہوں آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم اگر کوئی جلسہ وغیرہ اپنے محلے یا مسجد میں رکھیں تو اب کی بار کسی دوسرے مسلک کے عالم کو مدھو کریں اور اس کو اپنی طرف سے یا وہ خود اپنی طرف سے کوئی موضوع منتخب کرے پہلے وہ صاحب اپنی تقریر کریں اس کے بعد حاضرین میں سے کوئی بھی ان سے سوالات کر سکتا ہو ؟
دوسرے مسلک کے مقرر کو مدعو کرنے سے پہلے ۔۔اس علاقے کے قابل برداشت مسالک کے ذمہ داران کو اس مقصد کیلئے ایک دو اجلاس منعقد کر کے کچھ نکات پر
آمادہ ، متفق کیا جانا ضروری ہے ،کچھ اہم ضوابط اس کام کیلئے طے کرلیئے جائیں ،
اور اس اجلاس کے ذریعے (ذاتی ) ’‘ اجنبیت ’‘و ۔۔بیگانگی کو کم کیا جائے ،، پھر ایک دوسرے کے مقررین کو مدعو کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔
اور بہت ضروری بات یہ کہ ۔۔مقصد افہام و تفہیم ہی ہو
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ٹھیک ہے ، پھر کوشش کی جائے کہ کوئی پروگرام بنایا جائے، جہاں اہل الحدیث کی مسجد کا منبر ''شیخ االاسلام طاہر القادری'' کے سپرد کیا جائے!!
''شیخ الاسلام '' آج کل لاہور میں ہی ہیں!!
بہر حال اتنا ضرور ہونا چاہئے کہ ایک ہی مجلس میں فریقین اپنے مؤقف کو بیان اور اسے سمجھنانے کو کوشش کریں ، اور اتنا حوصلہ فریقین مین ہونا چاہئے کہ وہ تحمل سے اختلاف کو سن سکیں!!
سننے سنانے کا ماحول پیدا کرنے کا طریقہ جیسا کہ اسحاق سلفی صاحب نے فرمایا :
دوسرے مسلک کے مقرر کو مدعو کرنے سے پہلے ۔۔اس علاقے کے قابل برداشت مسالک کے ذمہ داران کو اس مقصد کیلئے ایک دو اجلاس منعقد کر کے کچھ نکات پر
آمادہ ، متفق کیا جانا ضروری ہے ،کچھ اہم ضوابط اس کام کیلئے طے کرلیئے جائیں ،
اور اس اجلاس کے ذریعے (ذاتی ) ’‘ اجنبیت ’‘و ۔۔بیگانگی کو کم کیا جائے ،، پھر ایک دوسرے کے مقررین کو مدعو کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔
اور بہت ضروری بات یہ کہ ۔۔مقصد افہام و تفہیم ہی ہو
میری نظر میں بین المسالک اختلافات اور کشیدگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے بارے غلط فہمیاں بہت زیادہ ہیں ، اور یہ غلط فہمیاں اس طرح دور ہوسکتی ہیں کہ بریلوی عامی اہل حدیث عالم پر اعتراضات کریں اور اس کا براہ راست جواب لیں ، اسی طرح اہل حدیث عامی بریلوی عالم کے سامنے اعتراضات رکھیں اور ان کا نقطہ نظر سمجھیں ۔
اس طرح اختلافات ختم تو نہیں ہوسکتے ، البتہ بہت کمی واقع ہوگی اور بنیاد غلط فہمیوں کی بجائے حقائق پر ہوگی ۔ ان شاءاللہ ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جس طرز پر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے تقابل ادیان کے موضوع پر احسن انداز میں مناظرے کئے ہیں اسی طرح تقابل مسالک پر اگر علماء چاہیں تو مناظرے کر سکتے ہیں۔
تبادلہ خیال کے لیے مناظرہ بہت اہم ذریعہ ہے ، لیکن حالیہ مناظرے جس انداز اور لب و لہجے میں ہوتے ہیں ،ان کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان سے اتفاق و اتحاد کی راہیں کھلتی ہیں یا مسدود ہوتی ہیں ، ڈاکٹر ذاکر نائیک کے انداز کے مناظرے اگر ہوسکیں ، تو یقینا یہ بھی ایک اچھی پیش رفت ہوگی ، لیکن مناظرہ بہرصورت علماء کے درمیان ہوتا ہے ، جس میں حق تک پہنچنا پیش نظر نہیں ہوتا ، بلکہ اپنے اپنے مسلک کا دفاع مد نظر رکھا جاتا ہے ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ماشاءاللہ بہت اچھی کوشش ہے اور مجھے یہاں یہ کہنا ہے کہ جو محترم خضر حیات بھائی نے کہا ہے کہ جیسے مناظرے یہاں ہوتے ہیں اس سے افہام و تفہیم کبھی بھی پیدا نہیں ہو سکتی پس یہاں محترم ڈاکٹر نائیک والا طریقہ ہی کارگر ہو سکتا ہے مگر یہ کرے گا کون
اور یہاں چند مشورے ہیں بھائی اصلاح کر دیں
1۔کیوں نہ اسکو پہلے اہل حدیث مساجد کے مابین اختلافات کو ختم کرانے کے لئے شروع کیا جائے
2۔یہاں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ انتظامی اختلافات کی بجائے منہج کے اختلافات تک بات محدود رکھی جائے گی تو بات ہو سکے گی مثلا اہل حدیث کا جمہوریت اور جہاد پر اختلاف وغیرہ
3۔پھر اگلے درجہ میًں دیوبند کے ساتھ یہ سلسلہ شروع یا جائے اس میں بھی کوشش کر کے پہلے وہ موضوع چنے جائیں جن میں قریب ہونے کے چانسز زیادہ ہیں اور کچھ غلط فہمیاں ہی بیچ میں ہیں جو اگر ختم کر دی جائیں تو وہ چند اختلافات ختم ہو سکتے ہیں
4۔اسکے بعد بریلویوں کی طرف جایا جائے

البتہ یہ خوہشات رکھنے کے باوجود میں حقیقت بھی بتاتا چلوں کہ اس طرح افہام و تفہیم والے طریقے کو اہل حدیث تو پسند کر لے مگر دیوبند یا بریلوی کو قبول نہ ہو گا اسی طرح ہو سکتا ہے اہل حدیث میں اختلاف جو جمہوریت یا جہاد پر ہے وہاں بھی یہ مسئلہ آ جائے
وجہ تو وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھی کہ وہ تو کہتے تھے کہ سب کی بات سنو کہ الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ مگر مشرکین مکہ کے پاس چونکہ دلائل نہیں تھے اسی لئے وہ حج پر آنے والوں کو کانوں میں روئی ڈال کر اندر آنے دیتے تھے جیسا کہ طفیل دوسی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ملتا ہے
 
Top