- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
اپنی اپنی مجالس و مساجد ، پروگرامز ، کانفرنسز میں تو ہم فریق مخالف کے دلائل کا تیا پانچا کرتے ہی رہتے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ اس سے ہمارے ہمنوا ہی مستفید ہوتے ہیں ، فریق مخالف سے لوگ اس کو وہی اہمیت دیتے ہیں جو ہم ان کے دلائل کو دیتے ہیں .
اب اک نیا انداز ہونا چاہیے کہ جلسہ میں اپنے ہم مسلک مولوی کو بلانے کی بجائے فریق مخالف کی طرف سے عالم دین کو دعوت دی جائے ، تاکہ اندازہ ہو کہ عالم دین کے دلائل میں کتنی قوت ہے اور عوام کے اعتراضات کی کیا حقیقت ہے ؟
اپنے مداحین و ثناخوانوں میں بیٹھ کر نکتہ آفرینی الگ بات ہے ، جبکہ مخالف کی بات سن کر اس کے اعتراض کا جواب دینا الگ بات ہے .
اور پھر ایک فطری سی بات ہے جب آپ کو کسی عالم دین کے پاس بیٹھنے کا موقعہ ملتا ہے تو بہت سارے ایسے اعتراضات جو سن سناکر آپ کے ذہن میں بیٹھے ہوتے ہیں ، وہ اس عالم دین سے براہ راست ملنے سے ہی کافور ہو جاتے ہیں .
اسی طرح جب ہم اپنی اپنی کمین گاہ سے کسی کے خلاف بولتے ہیں تو اس میں پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جائے ، اور کسی نہ کسی طرح مخالف کے خلاف زبردست مقدمہ قائم کیاجائے .
لیکن جب آپ کسی کے گھر مفاہمت کی غرض سے چلے جاتے ہیں تو پھر اختلاف کی بجائے اتفاق کی راہیں ڈھونڈتے ہیں ، تلخ باتوں کو نظر انداز کرکے پیار و محبت کے اسلوب کو اپناتے ہیں .
( اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہونی چاہیے ، جو کچھ میرے ذہن میں آیا ، اس کے ذریعے ابتداء کردی ، امید ہے اہل علم اپنی آراء سے نوازیں گے ۔)
اب اک نیا انداز ہونا چاہیے کہ جلسہ میں اپنے ہم مسلک مولوی کو بلانے کی بجائے فریق مخالف کی طرف سے عالم دین کو دعوت دی جائے ، تاکہ اندازہ ہو کہ عالم دین کے دلائل میں کتنی قوت ہے اور عوام کے اعتراضات کی کیا حقیقت ہے ؟
اپنے مداحین و ثناخوانوں میں بیٹھ کر نکتہ آفرینی الگ بات ہے ، جبکہ مخالف کی بات سن کر اس کے اعتراض کا جواب دینا الگ بات ہے .
اور پھر ایک فطری سی بات ہے جب آپ کو کسی عالم دین کے پاس بیٹھنے کا موقعہ ملتا ہے تو بہت سارے ایسے اعتراضات جو سن سناکر آپ کے ذہن میں بیٹھے ہوتے ہیں ، وہ اس عالم دین سے براہ راست ملنے سے ہی کافور ہو جاتے ہیں .
اسی طرح جب ہم اپنی اپنی کمین گاہ سے کسی کے خلاف بولتے ہیں تو اس میں پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جائے ، اور کسی نہ کسی طرح مخالف کے خلاف زبردست مقدمہ قائم کیاجائے .
لیکن جب آپ کسی کے گھر مفاہمت کی غرض سے چلے جاتے ہیں تو پھر اختلاف کی بجائے اتفاق کی راہیں ڈھونڈتے ہیں ، تلخ باتوں کو نظر انداز کرکے پیار و محبت کے اسلوب کو اپناتے ہیں .
( اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہونی چاہیے ، جو کچھ میرے ذہن میں آیا ، اس کے ذریعے ابتداء کردی ، امید ہے اہل علم اپنی آراء سے نوازیں گے ۔)