- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
از حمزہ طارق برکی
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وبعد :
بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ
﴿ وَالْعَصْرِ ٭ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ ٭ إِلَّا الَّذِینَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾ ( العصر)
قسم ہے زمانے کی ٭ یقینا انسان خسارے میں ہے ٭ سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور باہم ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرتے رہے ، اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہے ۔
سورۃ العصرقرآن مجید کی مختصر سورتوں میں سے ہے ، اور خوش قسمتی سے اس میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، وہ سب أردو میں عام طور پر استعمال ہوتے ہیں أو اور ایک عام اردو دان بھی ان سے بہت حد تک مانوس ہو سکتا ہے ، یہی وجہ سے کہ اس کا سرسری مفہوم تقریباً ہر شخص سمجھ جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کی دِقَّت محسوس نہیں کرتا لیکن اس سورت کا اگر غور وفکر ، تدبراور شوق دلی سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت پورے قرآن کریم کی تعلیمات کا خلاصہ ہے ، اور اس کی ظاہری سادگی اور سلاست کے پردوں میں علم وحکمت کے کئی خزا نے پوشیدہ ہیں ۔
سورۃ العصر کے بارے میں چند بنیادی باتیں
قارئین کرام ! اس عظیم ترین سورت کی چند بنیادی باتیں ذہن نشین کر لیجئے ۔
۱۔ یہ سورت مبارکہ ترتیب نزولی کے اعتبار سے قرآن کریم کی اوّلین سورتوں میں سے ہے ، گویا کہ یہ نبی ا کرم ﷺپر مکی دور کے بالکل آغاز میں نازل ہوئی۔
۲۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کی مختصر سورتوں میں سے ایک ہے ، اس لئے کہ یہ کل تین آیات پر مشتمل ہے اور ان میں سے بھی پہلی آیت صرف ایک لفظ پر مشتمل ہے یعنی والعصر ۔
۳۔ تیسری بات یہ کہ اپنے مضمون اور مفہوم ومعنی کے اعتبار سے قرآن حکیم کی جامع ترین سورت ہے ، اس لئے کہ قرآن مجید کتاب ہدایت ہے ﴿ہُدًی لِنَّاسِ﴾ یعنی انسان کو کامیابی اور فوز وفلاح کا راستہ دکھانے کیلئے نازل کیا گیا ہے تاکہ انسان نجات حاصل کرسکے اور واقعہ یہ ہے کہ قرآن حکیم نجات کی جس راہ کی جانب لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے وہ نہایت اختصار لیکن حد درجہ جامعین کے ساتھ اس چھوٹی سی سورت میں بیان ہوگئی ہے ، اس اعتبار سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سورۃ العصر میں پورا قرآن کریم موجود ہے ۔
۴۔ چوتھی بات یہ کہ اس سورت کے الفاظ بہت سادہ اور آسان ہیں ، آپ کو معلوم ہے کہ ہر زبان میں اس کے ادب کے شاہکار وہ ادب پارے کہلاتے ہیں جن میں مضامین اور معانی تو بہت اعلیٰ اور بلند پایہ ہوں لیکن الفاظ نہایت آسان اور عام فہم ہوں ایسے ہی ادب پاروں کو سہل ممتنع قرار دیا جاتا ہے ۔ اوّل تو قرآن مجید پورا ہی عربی زبان کا اعلیٰ ترین ادبی شاہکار ہے ، اور کل کا کل سہل ممتنع ہے ، لیکن اس میں بھی خاص طور پر یہ سورت سہل ممتنع کی اعلیٰ ترین مثال ہے ، جس میں مضامین کے اعتبار سے تو گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے لیکن ثقیل اور بھاری لفظ ایک بھی استعمال نہیں ہوا۔
والعصر کا مفہوم
قارئین کرام! سب سے پہلے لفظ والعصر کو سمجھئے جس کا سادہ ترجمہ میں نے ابھی زمانے کی قسم کیا ہے ۔
عصر کا اصل مفہوم صرف زمانہ نہیں بلکہ تیزی سے گزرنے والا زمانہ ہے ، عربی زبان میں عصر اور دہر کے دوالفاظ بہت جامع ہیں ، اور ان دونوں میں صرف زمان (Time) نہیں بلکہ زمان اور مکان کے مرکب کی جانب اشارہ ہے ۔اور حسن اتفاق سے قرآن مجید میں العصر اور الدہر دونوں ہی ناموں کی سورتیں موجود ہیں ۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ دہر میں مرکب زمان ومکان کی وسعت کا لحاظ ہے یا جدید فلسفے کی اصطلاح میں یوں کہہ لیجئے کہ زمان مطلق مراد ہے ، جبکہ لفظ عصر میں زمانہ مراد اور اس کی تیزروی کی جانب اشارہ ہے ، گویا فلسفی اصطلاح میں زمان جاری یا زمان مسلسل (Serial time) مراد ہے ۔ والعصر میں حرف واو حرف جار ہے اور اس کا مفاد قسم کا ہوتا ہے ، اور قسم سے اصل مراد شہادت اور گواہی ہے ، گویا لفظ والعصر کا حقیقی مفہوم یہ ہوا کہ تیزی سے گزرتا ہوا زمانہ شاہد ہے اور گواہی دے رہا ہے ۔
خُسران کا مفہوم
اسی طرح دوسری آیت کا سادہ ترجمہ بھی میں کرآیا ہوں کہ انسان خسارے میں ہے ، لیکن اس سے بھی اصل مفہوم ادا نہیں ہوتا، اس لیے کہ قرآن کی اصطلاح میں دو چار ہزار یا دو چار لاکھ کے گھاٹے کو نہیں بلکہ کامل تباہی اور بربادی کو کہتے ہیں ، چنانچہ کامیابی اور بامرادی کیلئے تو قرآن حکیم میں متعدد الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، جیسے فوز و فلاح، اور رشد وہدایت لیکن ان سب کی کامل ضد حیثیت سے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے اور وہ ہے خُسران، گویا دوسری آیات کا اصل مفہوم یہ ہوا کہ پوری نوع انسانی تباہی اور ہلاکت وبربادی سے دوچار ہونے والی ہے ۔
پہلی دو آیتوں کا باہمی ربط
یہ بات تو واضح ہے کہ پہلی آیت قسم پر مشتمل ہے اور دوسری جواب قسم پر یعنی دوسری آیت میں ایک حقیقت کا بیان ہے اور پہلی میں اس پر زمانے کی گواہی کی جانب اشارہ ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں کے مابین منطقی ربط کیا ہے ؟ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر یعنی زمان جاری یا زمان مسلسل ایک ایسی چادر کی مانند ہے جو ازل سے ابد تک تنی ہوئی ہے ، گویا زمانہ انسان کی تخلیق سے لیکر نہ صرف انسان کی حیات دنیوی اور اس کی پوری تاریخ بلکہ حیات اخروی اور اس کے جملہ مراحل کا چشم دیدگواہ ہے ۔ اس حقیقت ثابت پر ایک تنبیہ اور انداز کا مزید رنگ ہے جو لفظ والعصر کے استعمال سے پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انسان کی ہلاکت اور تباہی اور خسران حقیقی کا اصل سبب یہ ہے کہ اس پر غفلت طاری ہوجاتی ہے اوروہ اپنے ماحول اور اپنے فوری مسائل ومعاملات میں الجھ کر گویا گمشدگی کی سی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے ، اس حوالے سے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں آفاق
ایمان کا اصل مفہوم
اس خسران عظیم اور تباہی اور بربادی سے نجات کی شرط اول ایمان ہے ، ایمان کا لفظ امن سے بنا ہے اور اس کے لفظی دو معنی ہیں کسی کو امن دینا اور سکون بخشنا۔ لیکن اصطلاح کے معنی میں تصدیق کرنا اور یقین واعتماد کے لفظ بن جاتے ہیں ۔ایمان کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے آپ اس حقیقت پر غور کریں کہ ہر وہ انسان جو عقل اور شعور کی پختگی کو پہنچ جائے لازماً یہ سوچتا ہے کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں اور کائنات کیا ہے اور اس کی ابتداء اور انتہاء کیا ہے اور خود میرے سفر زندگی کی آخری منزل کون سی ہے لیکن آج بنی آدم ایسی تاریکی میں گم ہے کہ اپنی منزل مقصود اور اپنے مقصد حیات سے ناآشنا ہے ، اور نہ اپنے آغاز وانجام کی خبر اسے حاصل ہے نہ کائنات کی ابتداء وانتہاء کا علم۔
نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہامعلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سویہ بھی کیا معلوم
عمل صالح کا مفہوم
قارئین کرام! عمل صالح کا عام ترجمہ آپ بھی باآسانی کرسکتے ہیں لیکن خود اس کی گہرائیوں میں اتر کر دیکھئے تو مزید حقائق سے پردہ اٹھتا ہے ، اس لئے کہ ایک طرف تو اس کے باوجود کہ عمل اور فعل دو نہایت قریب المفہوم الفاظ ہیں ، ان کے معنی میں ایک باریک سا فرق ہے ، اور وہ یہ کہ فعل کسی بھی کام کو کہہ دیں گے ، لیکن عمل کا اطلاق عام طور پر محنت طلب اور مشقت بخش کام پرہوتا ہے ، اوردوسری طرف صالح کا اطلاق ہر اس چیز پرہوتا ہے جس میں ترقی نشو ونما کی صلاحیت موجود ہو ، انسان کو عمل صالح کی صلاحیت کی وجہ سے فرشتوں پر بھی فضیلت حاصل ہے کیونکہ اس میں انسان کو مشقت ومحنت کا مظاہرہ کرنا پڑ تا ہے ، اعمال صالحہ اختیار کرنے کا مقصدہے کہ شریعت کی را ہوں پر گامزن ہونا چنانچہ یہی انسان کی نجات (Salvation) ہے ۔
تواصی کے معنی
سورۃ العصر کے آخری حصہ میں دوبار جو لفظ تواصوا آیاہ ے اس کا مصدر تواصی ہے اور یہ وصیت سے بنا ہے جس کے معنی ہیں تاکید اور مدد کے ساتھ کسی بات کی تلقین ونصیحت پھر یہ مصدر باب تفاعل سے ہے ، جس کے خواص میں ایک تو باہمی اشتراک ہے اور دوسرے شدت ومبالغہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک تو یہ عمل تواصی پورے زور وشور اور پوری قوت وشدت کے ساتھ مطلوب ہے اور دوسرے اس مرحلے پر ایک اجتماعیت کا قیام ناگزیر ہوجاتا ہے جو باہم ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کے اصول پر مبنی ہو۔
حق کے معنی
لفظ حق معنی ومفہوم کے اعتبار سے بہت وسیع ہے اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پرہوتا ہے جو واقعی ہو(یعنی صرف خیالی نہ ہو) یا عقل کے نزدیک مُسلّم ہو یا اخلاقاً واجب ہو یا بامقصد اور غرض وغایت کی حاصل ہو (یعنی بیکار نہ ہو) تو معلوم ہوا کہ تواصی بالحق کے معنی ہوں گے ہر اس بات کا اقرار واعلان اور ہر اس چیز کی دعوت وتلقین جو واقعی اور حقیقی ہو عقلاً ثابت ہو یا اخلاقاً واجب ہو ، گویا حق کے دائرے میں چھوٹی سے چھوٹی صداقت سے لیکر کائنات کے بڑ ے بڑ ے حقائق وحقوق سب داخل ہوں گے اور تواصی بالحق کے ذیل میں چھوٹی سے چھوٹی اخلاقی نصیحتوں سے لیکر اس سب سے بڑ ے حق کا اعلان بھی شامل ہو گیا کہ اس کائنات کا مالک حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہے اور صرف اس کو حق پہنچاہے کہ دنیا میں اس کا حکم چلے اور اسی کا قانون نافذ ہو پھر یہ کہ اس حق کا صرف اعتراف نہ ہو بلکہ اس کی عملی تنفیذ کیلئے جدوجہد کی جائے ۔
صبر کا مفہوم
قارئین کرام! صبر کا مفہوم بہت وسعت کا حامل ہے اور اس کا اصل ماحصل یہ ہے کہ انسان اپنے طے کردہ راستے پر گامزن رہے اور اس سے اسے نہ کوئی تکلیف یا مصیبت ہٹا سکے نہ لالچ وحرص ، گویا اسے راہ سے نہ تو کسی قسم کے تشدد سے ہٹایا جا سکے نہ کسی طرح کے طمع اور لالچ سے بلکہ وہ ہر صورت میں ثابت قدم اور پختہ ارادے والا ثابت ہو ، اور استقلال اور پامردی سے حق پر خود بھی قائم رہے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتا چلا جائے ۔
سورۃ العصر سے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجعین کا طرز عمل
ابو مزینہ دارمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ا کرم ﷺ کے صحابہ میں سے دو حضرات اس وقت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوتے جب تک ان میں سے ایک دوسرے کو سورۃ العصر نہ سنا لیتا اس کے بعد ہی ان میں سے ایک دوسرے کو الوداعی سلام کہتا۔ (اخرجہ الطبرانی فی الأوسط ، والبیہقی فی شعب الإیمان)
سورۃ العصر کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے دو حکیمانہ اقوال
۱۔ لو تدبر الناسُ ہذہ السورۃ لوسعتہم ۔
اگر لوگ اس سورۃ پر غور کریں تو وہ اسی میں پوری رہنمائی اور کامل ہدایت پالیں گے ۔ (تفسیرابن کثیر)
۲۔ لَومَا اَنزَلَ اللّٰہُ حُجَّۃً عَلَی خَلقِہِ إِلاَّ ہٰذِہِ السُّورَۃَ لَکَفَتہُم (بحوالہ : تفسیر ابن کثیر، والاصول الثلاثۃ :شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ)
اگر قرآن حکیم میں سوائے اس سورۃ مبارکہ کے اور کچھ بھی نازل نہ ہوتا تو صرف یہ سورۃ ہی لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کیلئے کافی ہوتی۔
قارئین کرام!ذرا غور کیجئے کہ ہمارے پاس قرآن جیسی نعمت ہونے کے باوجودآج ہم رسوا کیوں ہیں ؟ ہم کیوں دن بدن پستی کی طرف گامزن ہیں ؟ کیونکہ آج ہم قرآن کو اپنے گھروں میں سجا کر رکھ تو دیتے ہیں ، اسے عقیدت سے چوم تو لیتے ہیں لیکن اسے پڑ ھنے اور سمجھنے سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں ، اس لیے آج ہم پستی کی طرف بڑ ھتے چلے جا رہے ہیں ۔
قارئین کرام! قرآن مجید کی عظمت دیکھئے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿لَوْ أَنْزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآَنَ عَلَی جَبَلٍ لَرَأَیْتَہُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَۃِ اللَّہِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ﴾ (سورۃ الحشر:۲۱)
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتار دیتے تو آپ اس سے (اللہ کے حضور) جھکا ہوا اور اس کے خوف سے ریزا ریزا ہوا دیکھتے ، اور ہم یہ مثالیں انسانوں کیلئے اس لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور وفکر کریں ۔
قارئین کرام! ذرا غور کیجئے کہ پہاڑ جیسی سخت ماندہ مخلوق اللہ کے کلام سے ریزہ ریزہ ہو سکتی ہے ، لیکن آج ہمارا حال دیکھئے کہ دن رات قرآن کو سنتے تو ہیں لیکن آنکھوں سے دو قطرے آنسوں باہر نہیں آتے ۔ کیونکہ آج ہم اسلامی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں اور آج ہمارے آئیڈیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم أجمعین کو چھوڑ کر فلمی اداکار (Actors) اور کھیلوں کے کھلاڑ ی بن چکے ہیں اور دنیا کی طمع نے ہمیں راستے سے بھٹکا دیا اوراندھا کر دیا ہے آج بھی دیر نہیں ہوئی ہے ابھی ہماری آنکھیں کھلی ہیں آئیے آج ہی قرآن کریم کو سیکھنا اور سمجھنا شروع کریں ، اور اس پر عمل کریں اور اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہونے کی کوشش کریں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید باغور ودقت سے مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے جیسا ہمارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ہمارے سلف صالحین رحمہم اللہ کیا کرتے تھے ۔ آمین
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین