• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فطرانہ کی مقدار اور مسائل

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
رفیق طاھربھائی
کتاب تو ڈاؤن لوڈ ہو گئی ہے مگر فائل کرپٹ ہونی کی وجہ سے اوپن نہیں ہورہی۔
دوسرا اگر عربی میں کوئی کتاب مل جائے تو وہ بھی کافی ہے۔
کتاب درست ہے ۔
آپ دوبارہ ڈاؤنلوڈ کریں ۔
کیونکہ
میں نے ابھی ابھی اسے ڈاؤنلوڈ کرکے چیک کیا ہے
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
صدقہ فطر صرف اناج کی صورت میں دیا جاسکتا ہے کیونکہ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے اور صحابہ کرام کا عمل ہے۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں درھم و دینار کی کرنسی موجود تھی لیکن آپ نے صرف اناج ہی کا حکم دیا۔ اس پر کبار علماء کرام کے فتاوی بھی موجود ہیں:

1. الشيخ محمد بن صالح العثيمين:
السؤال: هل يجوز إخراج زكاة الفطر نقداً؟ وإذا كان الجواب بالنفي فما العلة في ذلك؟ مع ذكر الأدلة في هذه المسألة علماً أن بعضهم يفتي بالجواز في بلد قلّ فيها العلماء المحققون؟
الإجابة: لا يجزئ إخراج قيمة الطعام، لأن ذلك خلاف ما أمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد ثبت عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو رد". وفي رواية: "من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد" (رواه مسلم وأصله في الصحيحين)، ومعنى رد أي مردود. ولأن إخراج القيمة مخالف لعمل الصحابة رضي الله عنهم، حيث كانوا يخرجونها صاعاً من طعام، وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم: "عليكم بسنتي، وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي". ولأن زكاة الفطر عبادة مفروضة من جنس معين فلا يجزئ إخراجها من غير الجنس المعين، كما لا يجزئ إخراجها في غير الوقت المعين، ولأن النبي صلى الله عليه وسلم عينها من أجناس مختلفة وأقيامها مختلفة غالباً، فلو كانت القيمة معتبرة لكان الواجب صاعاً من جنس، وما يقابل قيمته من الأجناس الأخرى. ولأن إخراج القيمة يخرج الفطرة عن كونها شعيرة ظاهرة إلى كونها صدقة خفية، فإن إخراجها صاعاً من طعام يجعلها ظاهرة بين المسلمين، معلومة للصغير والكبير، يشاهدون كيلها، وتوزيعها، ويتعارفونها بينهم، بخلاف ما لو كانت دراهم يخرجها الإنسان خفية بينه وبين الآخذ.
مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين المجلد الثامن عشر - كتاب زكاة الفطر

2. الشيخ عبدالعزيز بن عبدالله بن باز:
السؤال: أنا أعرف بأن زكاة الفطر لا يجوز إخراجها نقداً, وقلت لوالدي ذلك ولكنه لم يقبل مني, وقال: إنه لا ينكر الحديث عن الرسول -صلى الله عليه وسلم-، ولكن البلد تخرج نقداً, فعلينا أن نفعل مثل بعض الناس أن نخرج نقداً, ولكنني أخرجت عن نفسي بدون أن أنوي, هل تقبل مني؟
الإجابة: الواجب إخراجها طعاماً، هذا الذي عليه جمهور أهل العلم، صاعاً من قوت البلد، من تمر أو شعير، أو أزر، من قوت البلد، صاع، هذا هو الواجب عن كل نفس، عن الرجل والأنثى والصغير والكبير، وقال جماعة من أهل العلم: يجوز إخراجها نقداً، ولكنه قول ضعيف، والصواب أن الواجب إخراجها طعاماً عند جمهور أهل العلم، أكثر أهل العلم، كما جاء في ذلك الأحاديث عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وإذا نصحتِ والدك ولم يفعل فأنت أخرجيه عن نفسك ولو ما درى، أخرجيها طعاماً ولو ما أعجب أبوكِ.
فتاوى نور على الدرب

3. الشيخ صالح بن فوزان الفوزان:
السؤال: كثر الجدل مؤخرًا بين علماء بعض الدول الأخرى حول المشروع في زكاة الفطر، وإمكانية إخراج القيمة، فما رأي فضيلتكم‏؟
الإجابة: المشروع في زكاة الفطر أن تؤدى على الوجه المشروع الذي أمر به النبي صلى الله عليه وسلم، بأن يدفع المسلم صاعًا من قوت البلد وتُعطى للفقير في وقتها، أما إخراج القيمة فإنه لا يجزئ في زكاة الفطر؛ لأنه خلاف ما أمر به النبي صلى الله عليه وسلم وما عمل به صحابته الكرام من إخراج الطعام، ولم يكونوا يخرجون القيمة وهم أعلم منا بما يجوز وما لا يجوز، والعلماء الذين قالوا بإخراج القيمة قالوا ذلك عن اجتهاد، والاجتهاد إذا خالف النص فلا اعتبار به‏.‏ قيل للإمام أحمد بن حنبل رحمه الله‏:‏ قوم يقولون‏:‏ عمر بن عبد العزيز كان يأخذ القيمة في الفطرة‏؟‏ قال‏:‏ يَدَعون قول رسول الله صلى الله عليه وسلم ويقولون‏:‏ قال فلان؟!!، وقد قال ابن عمر‏:‏ فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر صاعًا‏.‏‏.‏‏.‏ انتهى‏.

4. الشيخ محمد ناصر الدين الألباني:
السؤال: حكم إخراج زكاة الفطر نقداً؟
الإجابة: الذين يقولون بجواز إخراج صدقة الفطر نقودا هم مخطئون لأنهم يخالفون النص : حديث الرسول عليه السلام الذي يرويه الشيخان في صحيحيهما من حديث عبد الله ابن عمر ابن الخطاب رضي الله عنهما قال :" فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم صدقة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير أو صاعا من أقط " فعين رسول الله هذه الفريضة التي فرضها الرسول عليه السلام ائتمارا بأمر ربه إليه ليس نقودا وإنما هو طعام مما يقتاته أهل البلد في ذلك الزمان.
سلسلة الهدى والنور لفضيلة الشيخ محمد ناصر الدين الألباني رحمه الله ( شريط رقم 274 الدقيقة : 55 )


ان تمام فتاوی کا خلاصہ یہی ہے کہ صدقہ فطر صرف اناج میں سے نکالا جائے گا اور جو علماء نقد میں بھی نکالنے قائل ہیں وہ خطاء پر ہیں۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
مسکین صدقۃ الفطر کو وصول کرکے اسے بیچ سکتا ہے اور پیسے بنا سکتا ہے ‘ اس بارہ میں اہل علم کے مابین کوئی دو رائے نہیں ہیں ۔
جبتک اسلام کا غلبہ تھا تو اسلامی سکہ درہم ودینار رائج تھے یا پھر اجناس کا تبادلہ اجناس کے بدلے ہوتا تھا اور کسی بھی بائع یا مشتری کو ضرر کا اندیشہ تک نہ تھا ۔
لیکن آج کل معاملہ اسکے برعکس ہے ۔
آپ اگر مسکین کو اجناس ہی دیں گے تو وہ ان اجناس کو جو اسکے پاس ذاتی ضرورت سے زائد ہونگی فروخت کرنے کے لیے مارکیٹ میں جائے گا تو دکاندار حضرات انتہائی کم بلکہ کم ترین ریٹ پر ان سے وصول کریں گے ‘ یعنی مساکین کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
اور اسکی مثالیں سعودیہ میں بکثرت دیکھی جاسکتی ہیں ‘ کہ اناج کا ڈھیر لگا کر ایک شخص بیچنے کے لیے بیٹھا ہے لوگ اس سے غلہ خریدتے ہیں اور مساکین کو دے دیتے ہیں اور وہ مسکین اسی شخص کو جس سے وہ غلہ خریدا گیا ہوتا ہے واپس فروخت کرتا ہے تو نصف یا اسکے قریب قیمت اسے ملتی ہے ۔
اور یہی معاملہ پوری دنیا میں ہے ۔
شریعت اسلامیہ میں وکالت کا جواز موجود ہے ‘ کہ کوئی شخص اگر کوئی بھی کام خود سرانجام نہیں دے سکتا یا اسے اس کام میں نقصان کا اندیشہ ہے تو وہ کسی دوسرے کو اپنا وکیل بنا لے اور اسکا وکیل اسکی طرف سے معاملات طے کرے ۔
دین اسلام کی اسی وکالت والی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر صدقۃ الفطر دینے والا خود مسکین کی طرف سے وکالت کرتے ہوئے اسے اس جنس کے پیسے بنا کر دے دے جو کہ مسکین کو حاصل ہونے والی رقم سے کہیں زیادہ ہے تو شرعا اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔
بہر حال اگر مسکین کے پاس اناج وغلہ نہیں ہے یا مسکین حاصل ہونے والی اجناس کو فروخت نہیں کرنا چاہتا تو اسے جنس ہی فراہم کرنا اولی وافضل ہے ۔
خوب سمجھ لیں ۔
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
مسکین صدقۃ الفطر کو وصول کرکے اسے بیچ سکتا ہے اور پیسے بنا سکتا ہے ‘ اس بارہ میں اہل علم کے مابین کوئی دو رائے نہیں ہیں ۔
جبتک اسلام کا غلبہ تھا تو اسلامی سکہ درہم ودینار رائج تھے یا پھر اجناس کا تبادلہ اجناس کے بدلے ہوتا تھا اور کسی بھی بائع یا مشتری کو ضرر کا اندیشہ تک نہ تھا ۔
لیکن آج کل معاملہ اسکے برعکس ہے ۔
آپ اگر مسکین کو اجناس ہی دیں گے تو وہ ان اجناس کو جو اسکے پاس ذاتی ضرورت سے زائد ہونگی فروخت کرنے کے لیے مارکیٹ میں جائے گا تو دکاندار حضرات انتہائی کم بلکہ کم ترین ریٹ پر ان سے وصول کریں گے ‘ یعنی مساکین کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
اور اسکی مثالیں سعودیہ میں بکثرت دیکھی جاسکتی ہیں ‘ کہ اناج کا ڈھیر لگا کر ایک شخص بیچنے کے لیے بیٹھا ہے لوگ اس سے غلہ خریدتے ہیں اور مساکین کو دے دیتے ہیں اور وہ مسکین اسی شخص کو جس سے وہ غلہ خریدا گیا ہوتا ہے واپس فروخت کرتا ہے تو نصف یا اسکے قریب قیمت اسے ملتی ہے ۔
اور یہی معاملہ پوری دنیا میں ہے ۔
شریعت اسلامیہ میں وکالت کا جواز موجود ہے ‘ کہ کوئی شخص اگر کوئی بھی کام خود سرانجام نہیں دے سکتا یا اسے اس کام میں نقصان کا اندیشہ ہے تو وہ کسی دوسرے کو اپنا وکیل بنا لے اور اسکا وکیل اسکی طرف سے معاملات طے کرے ۔
دین اسلام کی اسی وکالت والی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر صدقۃ الفطر دینے والا خود مسکین کی طرف سے وکالت کرتے ہوئے اسے اس جنس کے پیسے بنا کر دے دے جو کہ مسکین کو حاصل ہونے والی رقم سے کہیں زیادہ ہے تو شرعا اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔
بہر حال اگر مسکین کے پاس اناج وغلہ نہیں ہے یا مسکین حاصل ہونے والی اجناس کو فروخت نہیں کرنا چاہتا تو اسے جنس ہی فراہم کرنا اولی وافضل ہے ۔
خوب سمجھ لیں ۔
گویا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اضطراری حالت میں یا کسی خاص عذر کے تحت صدقہ فطر رقم کی صورت میں دیا جاسکتا ہے۔ لیکن گزارش یہ ہے کہ جو مثال آپ نے پیش کی ہے اس طرح کے عذر کا امکان تو نبی علیہ السلام کے زمانے میں بھی موجود تھا یعنی اگر کوئی مسکین چاہتا تو صدقے کے اناج کو بیچ کر رقم وصول کر لیتا مگر آپ علیہ السلام نے تو صرف اناج ہی کا حکم دیا ہے پھر لینے والا اس کو استعمال کرے یا بیچے تو یہ اس کا حق ہے کیونکہ وہ اب اس اناج کا مالک ہے۔ کیا ظاھری فائدے کی خاطر واضح نص کی مخالفت ہو سکتی ہے؟ صدقہ فطر کو رقم کی صورت میں دینے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
نہیں ہرگز ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ کیونکہ رقم دینے والا مسکین کی طرف سے وکیل بن کر یہ کام کرتا ہے ۔ اور شرعا وکالت جائز ہے ۔
اس دور میں ایک تو اضرار نہیں تھا اور دوسرا غیرمعیاری کرنسی نہیں تھی ‘ اس لیے اس طرح کی وکالت کی ضرورت پیش نہیں آئی ‘ ہاں یہ ضرور ہے کہ اسلام نے اس وکالت کو دیگر دلائل میں جائز رکھا ہے ۔
اور جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ صرف جواز ہے ‘ افضلیت وأولویت جنس کو ہی حاصل ہے ۔
 
Top