• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقاہاے احناف کے ما بین اختلاف

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اصل بات یہ ہے کہ جب یہ مذاہب ہی شریعت کی جگہ لے چکے ہیں تو ظاہر ہے ساری زندگی انھی کے سمجھنے سمجھانے میں گزر جاتی ہے؛ایسی صورت میں یہ بات کسی حد تک قابل فہم ہے کہ دیگر مذاہب کو سمجھنے کا وقت اور صلاحیت کہاں سے آئے گی؟؟
ویسے یہ بات بھی توضیح طلب ہے کہ کسی ایک فقہ کو سمجھنے میں کتنا وقت درکار ہے؟؟یا تمام عمر میں ایک ہی فقہ کو بہ مشکل سمجھا جا سکتا ہے؟؟اگر پہلی صورت ہے تو ایک فقہ کو سمجھنے کے بعد دوسری فقہوں کی جانب متوجہ ہونا چاہیے،تاکہ ان سے بھی استفادہ ہو سکے،کیوں کہ یہ تو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ سارا حق ایک ہی فقہ میں محدود نہیں اور نہ اس کے بانیان معصوم ہیں۔ہاں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک فقہ کے علاوہ دیگر کو سمجھنا ممکن ہی نہیں تو یہ دوسری بات ہے۔
سچ یہ ہے کہ یہ کام اتنا مشکل نہیں جتنا آپ سمجھتے ہیں ،یا سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں؛اپنے مخالفین کے قریباً نصف اصولوں کا تو آپ کو اچھی طرح علم ہوتا ہے،جب دوران تدریس و تعلیم یا بہ وقت مناظرہ آپ ان کی تردید کرتے ہیں؛ظاہر ہے ان کے استدلال کو سمجھ کر ہی ان کا رد ہوتا ہے؛اگر بغیر سمجھے کرتے ہیں ،تو یہ ناانصافی ہے؛ظاہر ہے باقی نصف اصولوں کا علم بھی حاصل کیا جا سکتا ہے،بہ شرطے کہ اتباع حق پیش نظر ہو؛کیا خیال ہے؟؟لیکن یہاں یہ حال ہے کہ بڑے فخر سے فرمایا جاتا ہے کہ میں نے دس سال کے غور و فکر کے بعد مخالف کی دلیل کا جواب تلاش کر لیا ہے!!!(غالباً علامہ انور شاہ کشمیری کا قول ہے)سوال یہ ہے کہ اگر اس عرصے میں موت آجاتی ،تو خدا کو کیا جواب دیتے؟؟
اس معاملے میں میرا اپنا نہ صرف بلکہ اکثر محققین کا یہی نظریہ ہے۔
مقلد اور محقق!ایں چہ بوالعجبی است؟
اگر کوئی شخص کسی بھی امام کا مقلد ہے اور بعض مسائل میں اس امام سے موافقت نہیں رکھتا (بشرطیکہ اتنا علم بھی رکھتا ہو) تو وہ اس امام کی تقلید سے نہیں نکلتا۔
بعض مسائل میں امام سے عدم موافقت کی کیا وجہ ہے؟دوسرے کی تقلید یا اپنا اجتہاد؟
اگر پہلی بات ہے،تو کیا دو یاا س سے زائداشخاص کی تقلید ہو سکتی ہے؟
اگر اپنا اجتہاد ہے،تو کیا باقی مسائل میں وہ بر بناے تقلید موافقت کر رہا ہے،یا از روے اجتہاد؟
اگر تقلید کی وجہ سے موافق ہے تو یہاں تقلید کا دامن کیوں چھوڑ دیا؟؟
اگر اجتہاد کی وجہ سے ہے،تو امام کی تقلید سے نہ نکلنے کی بات کا کیا مطلب؟
باقی آپ کے ہاں یہ کیا تو جاتا ہے لیکن میرے محترم معذرت کے ساتھ اکثر جگہ طریقہ استدلال اور بنیاد کو دیکھا ہی نہیں جاتا۔ بلکہ صرف اقوال دیکھ کر یہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ یہ قرآن و حدیث کے قریب تر ہے۔ حالاں کہ دوسرا قول بھی اتنا ہی قریب اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ قریب ہوتا ہے۔
یہ بات قطعی خلاف واقعہ ہے؛آپ اہل حدیث علما کی شروحات حدیث کا مطالعہ کریں،تو واضح ہو جائے گا کہ وہ بہ وقت ضرورت ان اصولوں پر بھی نقد کرتے ہیں؛بہ طور مثال فاتحۃ خلف الامام کی بحث دیکھ لیجیے؛وہاں اس قاعدے کا تذکرہ ملے گا کہ احناف کے ہاں خبر واحد سے کتاب اللہ پر اضافہ یا تخصیص نہیں ہو سکتی اور پھر اس پر نقد ہو گا۔
حلالہ کے مسئلے میں بڑی واضح طور پر اس کی مثال نظر آتی ہے۔
اس کی کچھ وضاحت فرمائیے،تا کہ اس پر مزید گفت گو ہو سکے۔
برادرعزیز ! اب تومعتدل مزاج احناف میں بھی یہ فکر پروان چڑھ رہی ہے کہ ایک ہی فقہ سے تمام مسائل حل نہیں ہو سکتے،اس لیے کاسمو پولیٹن یا آفاقی فقہ کی تشکیل ہونی چاہیے ؛ڈاکٹر محمود غازی ؒ کا یہی نظریہ تھا؛ابھی حال ہی میں بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی میں ایک سیمی نار کے دوران ڈاکٹر طاہر منصوری نے بھی یہی تجویز پیش کی اور بہ طور تائید اہل حدیث کے طرز عمل کا بھی حوالہ دیا؛سو آپ بھی حضیض تقلید سے نکلیے اور کتاب و سنت کی تفہیم و تفقہ میں سلف کے مجموعی ذخیرہ فقہ و اجتہاد سے استفادہ کرتے ہوئے امت کو در پیش مسائل کا حل پیش کیجیے؛امام ابوحنیفہؓ نے بھی چوں کہ دلیل شرعی کی پیروی کی وصیت کر رکھی ہے ،اس لیے ان شاءاللہ آپ ان کی تقلید سے بھی نہیں نکلیں گے اور تنگ نظری،جمود اور فرقہ واریت کے ناسور کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔
حافظ طاہر اسلام صاحب اگر عالم ہیں تو ان کی شان میں مجھ سے کوئی گستاخی ہو تو میں ان سے معذرت چاہتا ہوں۔
بھائی! احقر کوئی عالم نہیں ؛یہ بہت بڑا منصب ہے؛خاکسا ر دین کا ایک ادنیٰ طالب علم ہے اور شائستہ ،مہذب اور بادلائل مکالمے کے ذریعے افہام و تفہیم پر یقین رکھتا ہے کہ یہی اصحاب الحدیث کا منہاج بحث ہے؛خدا آپ کو جزاے خیر سے نوازے ؛والسلام
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
احناف کے ائمہ کے بنیادی اصولوں میں اکثر ایسے ہیں جن میں اختلاف نہیں ہے۔ میں نے اصول فقہ میں اصول الشاشی، نور الانوار، منتخب الحسامی اور توضیح مع التلویح پڑھی ہیں لیکن میں نے اصول میں امام اعظمؒ کا اور صاحبین کا اختلاف شاذ و نادر بھی شاید نہیں دیکھا۔
ہاں ان اصولوں پر قواعد کی تخریج میں اختلاف ممکن ہے اور اسی طرح مسائل کی بھی۔
اچھا اگر اصولوں میں اتفاق کے باوجود(امام عالی مقام اور صاحبین رحمہم اللہ کے مابین دو تہائی مسائل میں) اختلاف ہے،تو یہ فرمائیے کہ ان کا فائدہ ہی کیا ہوا؟؟؟
پھر یہ کون سی آیت کریمہ ،حدیث شریف یا کسی امام مجتہد کے قول ہی سے ثابت ہے کہ کسی امام کی فقہ کے اصول میں تو اختلاف ناجائز ہے،جب کہ فروع میں جتنا مرضی اختلاف کیا جائے؟؟
مکرم من! ائمہ فقہ کے اصول بھی اجتہادی ہی ہیں،فلہٰذا وہ بھی فروع ہی کی مانند محل اختلاف ہیں۔
اس کی وجہ عصبیت نہیں بلکہ عموما صلاحیت ہوتی ہے۔ میں احناف کے اصول، قواعد اور ان پر بیان کردہ مسائل مع تمام تفریعات کے سمجھ سکتا ہوں۔ ان کے طرز فکر کو سمجھ کر ان مسائل کی روح تک اتر سکتا ہوں۔ لیکن اسی وقت میں میں دوسرے فقہ جیسے شافعی کی ان تمام چیزوں کو اسی گہرائی سے حاصل کرلوں یہ اکثر کے لیے مشکل بلکہ ناممکن ہے۔
اسی پر میں نے یہ عرض کیا ہے کہ اب مذاہب فقہیہ اصل بن گئے ہیں ؛بھائی آپ کو اس کا مکلف ہی کس نے کیا ہے کہ آپ نے کسی فقہ کی تمام تر جزئیات کا احاطہ کرنا ہے؛مقصود تو مسائل ہیں؛جو مسئلہ درپیش ہو،اس سے متعلق نصوص شریعت اور بہ قدر ضرورت علما کی آرا دیکھ لیجیے اور جس پر دل مطمئن ہو جائے ،اسے اختیار کر لیجیے۔اب فرمائیے کہ اس کے لیے کتنی صلاحیت درکار ہے؟؟فقہ مقارن کا مطالعہ کیا جائے ،تو یہ مشکل بھی بہ آسانی حل ہو سکتی ہے؛قدیم کے علاوہ اب تو اصول فقہ پر جدید طرز پر بھی تقابلی کتابیں لکھی جا چکی ہیں؛اس باب میں ڈاکٹر عبدالکریم النملہ کا کام بہت وقیع ہے؛بہ ہر حال میں باوجود کوشش کے اس امر کو فہم و فکر کی گرفت میں نہیں لاسکا کہ آپ آٹھ دس سالہ تعلیم کے دوران محض ایک ہی مکتب کی کتابوں کو حل کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں کیوں صرف کرتے رہتے ہیں اور دیگر مسالک کے رد سے ہٹ کر مثبت انداز میں ان کا مطالعہ کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں؟؟
ایک بات اور ؛ دیکھیے فقہی فروعات تو لاتعداد ہیں اور ان میں ایک ہی مسلک کے علما کا اختلاف بھی بہت زیادہ ہے،بہ خلاف ازیں اصول تعداد میں کم ہیں اور ان کی کتابیں بھی زیادہ طویل نہیں ہوتیں،بنا بریں مذاہب اربعہ کی کتب اصول مدارس کے عرصہ تعلیم میں بہ آسانی پڑھی پڑھائی جا سکتی ہیں؛آخر اس میں کیا مضائقہ ہے؟
اگر آپ پھر بھی صلاحیت کی بات کریں ،تو میں یہ عرض کروں گا کہ حضرت والا یہ اصول کوئی چیستاں نہیں ،جنھیں سمجھنے کے لیے ارسطو کا دماغ درکار ہو،یہ بھی فروعات ہی کی طرح ہیں؛ان کو سمجھا جا سکتا ہے ،تو ان کو بھی پڑھیے،ان شاءاللہ سمجھ میں آ جائیں گے۔
یہاں یہ فرمایا جا سکتا ہے کہ تمام مذاہب کے اصولوں کی تفہیم اور پھر ان کی فروعات پر تطبیق بہت طویل اور مشکل عمل ہے،تو گزارش ہے کہ ہر عالم کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ ہر مذہب کے ہر اصول اور ہر فرعی مسئلے سے واقف ہو ،نہ یہ کوئی شرعی تقاضا ہے؛اس سے یہ ملکہ ضرور پیدا ہو جائے گا کہ ہ پیش آمدہ مسئلہ میں سلف کی تمام آرا سے استفادہ کر کے کسی نتیجے تک پہنچ سکے؛باقی کام ارباب تخصص کے لیے چھوڑ دیجیے۔
آپ نے ایک ہی مکتب کی چار کتب اصول کا مطالعہ کیا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ
میں احناف کے اصول، قواعد اور ان پر بیان کردہ مسائل مع تمام تفریعات کے سمجھ سکتا ہوں۔ ان کے طرز فکر کو سمجھ کر ان مسائل کی روح تک اتر سکتا ہوں۔
بھائی جان ! یہ خدا کا مطالبہ نہیں کہ آپ ایک خاص مذہب کی روح تک اتر سکیں ،بل کہ اس کا مطالبہ ہے کہ آپ کتاب و سنت کی روح تک اتریں اور اس کے لیے اگر آپ چار کے بجاے حنفیوں کی دو کتابیں پڑھ لیتے اور باقی دو کتابیں دوسروں کی بھی پڑھ لیتے ،تو شاید آپ زیادہ بہتر انداز میں منشاے شریعت تک پہنچ جاتے!
اب سنیے ؛اس احقر نے دوران طالب علمی باقاعدہ طور پر اصول کی تین ہی کتابیں پڑھی ہیں:
اصول فقہ پر ایک نظر
اصول الشاشی
الوجیز فی اصول الفقہ
گو اس کے بعد اپنے شوق کی بنا پر نورالانوار سمیت اصول کی متعدد کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ،لیکن انھی تین کتابوں کے مطالعہ ہی سے مختلف مذاہب کے اہم اصولی مسائل و تصورات سے اچھی خاصی واقفیت ہو گئی تھی اور میں کسی مسئلے میں مختلف ائمہ کے استدلال کو سمجھ سکتا تھا(اب بھی ان شاءاللہ) اور اس میں کوئی مبالغہ یا تعلی نہیں ،والحمدللہ؛مجھے یقین ہے کہ آپ مجھ سے بھی بہتر سمجھ سکتے ہیں؛اسی طرح فقہ کا بھی تقابلی مطالعہ کیا ہےاور سید سابق ؒ کی فقہ السنۃ سے لے کر ہدایہ شریف(منتخب ابواب)اور بدایۃ المجتہد کا درس لیا ہے،جس سے قرب تمام مذاہب کے علما کی آرا سے شناسائی ہو گئی ہے؛یہ انداز اختیار کیا جائے تو امید ہے کہ تعصب میں بھی کمی ہو گی اور دیگر فقہا کے قیمتی نکات سے اخذ واکتساب کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اصل بات یہ ہے کہ جب یہ مذاہب ہی شریعت کی جگہ لے چکے ہیں تو ظاہر ہے ساری زندگی انھی کے سمجھنے سمجھانے میں گزر جاتی ہے؛ایسی صورت میں یہ بات کسی حد تک قابل فہم ہے کہ دیگر مذاہب کو سمجھنے کا وقت اور صلاحیت کہاں سے آئے گی؟؟
ویسے یہ بات بھی توضیح طلب ہے کہ کسی ایک فقہ کو سمجھنے میں کتنا وقت درکار ہے؟؟یا تمام عمر میں ایک ہی فقہ کو بہ مشکل سمجھا جا سکتا ہے؟؟اگر پہلی صورت ہے تو ایک فقہ کو سمجھنے کے بعد دوسری فقہوں کی جانب متوجہ ہونا چاہیے،تاکہ ان سے بھی استفادہ ہو سکے،کیوں کہ یہ تو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ سارا حق ایک ہی فقہ میں محدود نہیں اور نہ اس کے بانیان معصوم ہیں۔ہاں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک فقہ کے علاوہ دیگر کو سمجھنا ممکن ہی نہیں تو یہ دوسری بات ہے۔
سچ یہ ہے کہ یہ کام اتنا مشکل نہیں جتنا آپ سمجھتے ہیں ،یا سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں؛اپنے مخالفین کے قریباً نصف اصولوں کا تو آپ کو اچھی طرح علم ہوتا ہے،جب دوران تدریس و تعلیم یا بہ وقت مناظرہ آپ ان کی تردید کرتے ہیں؛ظاہر ہے ان کے استدلال کو سمجھ کر ہی ان کا رد ہوتا ہے؛اگر بغیر سمجھے کرتے ہیں ،تو یہ ناانصافی ہے؛ظاہر ہے باقی نصف اصولوں کا علم بھی حاصل کیا جا سکتا ہے،بہ شرطے کہ اتباع حق پیش نظر ہو؛کیا خیال ہے؟؟لیکن یہاں یہ حال ہے کہ بڑے فخر سے فرمایا جاتا ہے کہ میں نے دس سال کے غور و فکر کے بعد مخالف کی دلیل کا جواب تلاش کر لیا ہے!!!(غالباً علامہ انور شاہ کشمیری کا قول ہے)سوال یہ ہے کہ اگر اس عرصے میں موت آجاتی ،تو خدا کو کیا جواب دیتے؟؟


ایک بات کو سوچنا یا کہنا بہت آسان اور قابل عمل ہوتا ہے لیکن کرتے وقت وہ کام نہیں ہو سکتا، یا شاید ہو تو سکتا ہو لیکن مشکل ہو۔ آپ ماشاء اللہ کافی علم رکھتے ہیں جیسا کہ آپ نے کتابوں کا بتایا تو آپ اس کام کی ابتدا کیوں نہیں کرتے؟ مجھے اس سے تو اختلاف نہیں کہ یہ کام جائز ہے بلکہ اگر ہو سکے تو مناسب بھی ہے لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔ ظاہر ہے آپ ایک اصول کو بالکل درست سمجھیں گے لیکن دوسرا نہیں سمجھے گا۔
پھر اس پر مستزاد ذہن میں یہ بات بیٹھی ہو کہ فلاں فقہ کے علماء درست نہیں تو یہ تو ناقابل عمل ہی ہو جائے گا۔
آپ نے انور شاہ کشمیریؒ کے ایک قول کا حوالہ دیا۔ حالاں کہ یہ انتہائی واضح ہے۔ اگر آپ ایک مسئلہ کی ایک دلیل کو راجح سمجھتے ہیں اور اس کے مطابق مسئلہ بیان کرتے ہیں لیکن اس کے خلاف بھی ایک دلیل موجود ہے تو آپ اس مخالف دلیل کا کیا کریں گے؟ ظاہر ہے جواب ہی تلاش کریں گے۔ ایک ہی وقت میں دونوں جانب تو عمل نہیں ہو سکتا۔ اگر اس عرصے میں موت آجاتی تو خدا کو یہی جواب دیتے کہ میں فلاں کی دلیل کو مضبوط سمجھ کر عمل کر رہا تھا اور مخالف کے پاس بھی دلیل تھی لیکن مجھے اس کا جواب نہیں معلوم۔ میں نے جس دلیل کو مضبوط سمجھا اس پر عمل کیا۔
اب اگر انسان اس انداز میں سوچ رہا ہو تو وہ اصول یا مسائل کو قرآن و حدیث پر کیا خاک پیش کرے گا؟ اور اگر کوئی اس قدر واضح بات کو نہ پہنچ سک رہا ہو تو وہ یہ مشکل کام کیا کرے گا؟ میرا مقصود آپ پر طنز یا آپ کی شان میں گستاخی نہیں ایک سیدھی سی بات عرض کرنا ہے وگرنہ آپ مجھ سے زیادہ علم و عقل رکھتے ہوں گے۔

آپ نے فرمایا:۔
ویسے یہ بات بھی توضیح طلب ہے کہ کسی ایک فقہ کو سمجھنے میں کتنا وقت درکار ہے؟؟یا تمام عمر میں ایک ہی فقہ کو بہ مشکل سمجھا جا سکتا ہے؟؟اگر پہلی صورت ہے تو ایک فقہ کو سمجھنے کے بعد دوسری فقہوں کی جانب متوجہ ہونا چاہیے،تاکہ ان سے بھی استفادہ ہو سکے،کیوں کہ یہ تو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ سارا حق ایک ہی فقہ میں محدود نہیں اور نہ اس کے بانیان معصوم ہیں۔ہاں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک فقہ کے علاوہ دیگر کو سمجھنا ممکن ہی نہیں تو یہ دوسری بات ہے۔
جی یقینا ہو جانا چاہیے۔ بات وہی ہے کہ شاید آپ اپنی خداداد صلاحیت کو سامنے رکھ کر یہ فرما رہے ہیں۔ میں اپنے ساتھیوں کو اکثر پڑھاتا ہوں اور یہ دیکھتا ہوں کہ سب اس قدر صلاحیت نہیں رکھتے۔ جب اس قسم کے افراد ایک فقہ کے اصول و ضوابط کو مکمل سمجھ لیں، مسائل پر دلائل سے واقفیت حاصل کرلیں اور مخالف کے دلائل کو بھی دیکھ لیں اور اپنے دلائل کو راجح بھی سمجھیں تو پھر کیا چیز اس سے مانع ہے کہ وہ اس پر عمل بھی کریں؟ کیا اس کے بعد بھی یہ درست نہیں؟

سچ یہ ہے کہ یہ کام اتنا مشکل نہیں جتنا آپ سمجھتے ہیں ،یا سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں؛اپنے مخالفین کے قریباً نصف اصولوں کا تو آپ کو اچھی طرح علم ہوتا ہے،جب دوران تدریس و تعلیم یا بہ وقت مناظرہ آپ ان کی تردید کرتے ہیں؛ظاہر ہے ان کے استدلال کو سمجھ کر ہی ان کا رد ہوتا ہے؛اگر بغیر سمجھے کرتے ہیں ،تو یہ ناانصافی ہے؛ظاہر ہے باقی نصف اصولوں کا علم بھی حاصل کیا جا سکتا ہے
آپ خود بتائیے ایک اصول کو اگر ہم دلائل کی روشنی میں رد کرچکے ہیں تو پھر آگے اس کا کیا کریں؟ اس سے حاصل ہونے والے مسئلہ کو قرآن و حدیث پر کیسے پیش کریں۔ اگر وہ مسئلہ اس انداز میں ہمارے ہاں بھی ثابت ہوتا تو اصول رد نہیں ہوتا اور اگر اصول رد ہوگیا ہے تو وہ مسئلہ کسی اور انداز فکر کے ذریعے ثابت ہو جائے تو الگ بات ہے۔
اصول ہیں کیا؟ اصول قرآن و حدیث کو سمجھنے کا ایک طریقہ ہے۔ مثال کے طور پر لفظ مشترک کے دو معنوں میں سے احناف کے نزدیک ایک معنی ایک وقت میں مراد ہوتا ہے جب کہ شوافع کے نزدیک دونوں مراد ہو سکتے ہیں تو یہ در حقیقت انداز فکر اور غور کا فرق ہے۔ اور ایک وقت میں ایک بندہ دونوں انداز میں کس طرح سوچ سکتا ہے جب کہ دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں؟
عالی جناب نے ایک مثال مرحمت فرمائی:۔
یہ بات قطعی خلاف واقعہ ہے؛آپ اہل حدیث علما کی شروحات حدیث کا مطالعہ کریں،تو واضح ہو جائے گا کہ وہ بہ وقت ضرورت ان اصولوں پر بھی نقد کرتے ہیں؛بہ طور مثال فاتحۃ خلف الامام کی بحث دیکھ لیجیے؛وہاں اس قاعدے کا تذکرہ ملے گا کہ احناف کے ہاں خبر واحد سے کتاب اللہ پر اضافہ یا تخصیص نہیں ہو سکتی اور پھر اس پر نقد ہو گا۔
اب اس اصول پر اگر آپ مجھ سے اس پر بحث کریں گے تو میں اپنے دلائل دوں گا اور آپ اپنے۔ اور امید ہے آخر میں نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ اس اعتبار سے کہ نبی ﷺ کا قول ہے اور ثقہ رواۃ سے مروی ہے تخصیص کے قائل ہوں گے۔ اور میں اس اعتبار سے کہ قرآن کریم کی طرح متواتر نہیں لہذا قرآن کے مقابلے میں ظنی ہے تخصیص کا قائل نہیں ہوں گا۔ یہ وہ آخری درجہ ہے جہاں تک ہم جا سکتے ہیں کیوں کہ میں ایک اعتبار سے سوچنے کو ترجیح دیتا ہوں اور آپ دوسرے اعتبار سے سوچنے کو۔ نہ غلط آپ اور نہ غلط میں۔ ٹھیک ہے! تو اب آپ خود سوچیں ان میں سے ایک اصول کو ترجیح آپ کیسے دے سکتے ہیں؟

مقلد اور محقق!ایں چہ بوالعجبی است؟
اس کی وضاحت کرنا مناسب سمجھیں گے؟

بعض مسائل میں امام سے عدم موافقت کی کیا وجہ ہے؟دوسرے کی تقلید یا اپنا اجتہاد؟
اگر پہلی بات ہے،تو کیا دو یاا س سے زائداشخاص کی تقلید ہو سکتی ہے؟
اگر اپنا اجتہاد ہے،تو کیا باقی مسائل میں وہ بر بناے تقلید موافقت کر رہا ہے،یا از روے اجتہاد؟
اگر تقلید کی وجہ سے موافق ہے تو یہاں تقلید کا دامن کیوں چھوڑ دیا؟؟
اگر اجتہاد کی وجہ سے ہے،تو امام کی تقلید سے نہ نکلنے کی بات کا کیا مطلب؟

ظاہر ہے دوسرے کی تقلید نہیں اپنا اجتہاد۔
جب کوئی شخص علم حاصل کرکے کسی امام سے موافقت رکھتا ہے تو درحقیقت یہ اس کی اپنی رائے ہی ہوتی ہے جو اس امام کے موافق ہو جاتی ہے۔ اس امام کے موافق ہونے کی وجہ سے وہ اس کے مسلک کے اقوال پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہے اور اختلافی اقوال میں ایک جانب کو اپنی رائے کی وجہ سے ترجیح دیتا ہے۔ وہ دوسرے امام کے اصول و قواعد سے مطمئن نہیں ہوتا تو اس کے مطابق عمل بھی نہیں کرتا۔ جس جگہ اس کی رائے اپنے امام کے خلاف ہوتی ہے تو وہ وہاں اس کے خلاف عمل کرتا ہے۔
اس ساری بات کے بعد سوال یہ ہے کہ یہ تو اس کا اپنا اجتہاد ہے یا اس کی اپنی سمجھ ہے تو امام کی تقلید سے کیوں نہیں نکلتا؟ تو ایک وجہ یہ کہ وہ کم از کم اس امام کے اصولوں کو اپنا رہا ہوتا ہے یعنی ان کی تقلید کر رہا ہوتا ہے۔ اور دوم یہ کہ کثرت موافقت کی وجہ سے اسے اسی امام کا متبع قرار دیا جاتا ہے۔
پس منظر وہی ہوتا ہے کہ وہ اس امام کی رائے پر عمل پیرا اپنا امام ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے موافقت کی وجہ سے ہوتا ہے۔
پھر کبھی تو یہ تمام مسائل میں ہوتا ہے اور کبھی بعض میں۔ اور کبھی بعض مسائل میں وہ اس امام پر اعتماد کر لیتا ہے۔ یہ اعتماد بھی اس کا اجتہاد ہوتا ہے جس سے آپ اسے نہیں روک سکتے۔

اس کی کچھ وضاحت فرمائیے،تا کہ اس پر مزید گفت گو ہو سکے۔
ایک اور تھریڈ میں اس پر گفتگو کی جا چکی ہے۔ اگر ہم اسے یہاں نہ چھیڑیں تو؟؟

برادرعزیز ! اب تومعتدل مزاج احناف میں بھی یہ فکر پروان چڑھ رہی ہے کہ ایک ہی فقہ سے تمام مسائل حل نہیں ہو سکتے،اس لیے کاسمو پولیٹن یا آفاقی فقہ کی تشکیل ہونی چاہیے ؛ڈاکٹر محمود غازی ؒ کا یہی نظریہ تھا؛ابھی حال ہی میں بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی میں ایک سیمی نار کے دوران ڈاکٹر طاہر منصوری نے بھی یہی تجویز پیش کی اور بہ طور تائید اہل حدیث کے طرز عمل کا بھی حوالہ دیا؛سو آپ بھی حضیض تقلید سے نکلیے اور کتاب و سنت کی تفہیم و تفقہ میں سلف کے مجموعی ذخیرہ فقہ و اجتہاد سے استفادہ کرتے ہوئے امت کو در پیش مسائل کا حل پیش کیجیے؛امام ابوحنیفہؓ نے بھی چوں کہ دلیل شرعی کی پیروی کی وصیت کر رکھی ہے ،اس لیے ان شاءاللہ آپ ان کی تقلید سے بھی نہیں نکلیں گے اور تنگ نظری،جمود اور فرقہ واریت کے ناسور کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔
میرے محترم بھائی! صرف اب نہیں۔ جب بھی بین المسالک معاملہ آتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں اس سے انکاری نہیں ہوں۔ لیکن وہاں ترجیح ضرورت شرعیہ کی بنیاد پر تمام مذاہب میں دی جارہی ہوتی ہے نہ کہ مضبوطی دلائل کی بنیاد پر۔ اور بلا شبہ ضرورت شرعیہ بھی ایک دلیل و قاعدہ ہے۔ اس کی مثال یمین اللجاج ہے جسے بطور "ادائیگی کی تاخیر میں جرمانہ" کے اپنایا گیا ہے اور اس میں مالکیہ کے قول کو پوری دنیا میں لیا گیا ہے۔ اس بات کو کہ معاملات میں دیگر فقہ پر فتوی دے کر حتی الامکان وسعت ہونی چاہیے تھانویؒ نے بھی لکھا ہے۔ یہ کوئی نئی چیز نہیں۔
اور مزید یہ کہ میں صرف تقلید اور وہ بھی جامد تقلید اس کا قائل نہیں ہوں۔ اگر کوئی علم رکھتا ہے تو یہ کام کرے۔ اس سے انکار نہیں۔ لیکن بات وہیں آ اٹکتی ہے کہ ہر کوئی اس کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ جو رکھتے ہیں وہ کریں تو کون منع کرتا ہے؟ ان کے قول کا علمی رد تو ہوتا ہے لیکن صحیح اہل علم لوگ ان کی ذات پر رد نہیں کرتے۔ آپ بینکاری کے موجودہ مسائل کی تمام تفصیل اٹھا کر اس سلسلے میں دیکھ سکتے ہیں۔
لہذا اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ:۔
سو آپ بھی حضیض تقلید سے نکلیے اور کتاب و سنت کی تفہیم و تفقہ میں سلف کے مجموعی ذخیرہ فقہ و اجتہاد سے استفادہ کرتے ہوئے امت کو در پیش مسائل کا حل پیش کیجیے؛امام ابوحنیفہؓ نے بھی چوں کہ دلیل شرعی کی پیروی کی وصیت کر رکھی ہے ،اس لیے ان شاءاللہ آپ ان کی تقلید سے بھی نہیں نکلیں گے اور تنگ نظری،جمود اور فرقہ واریت کے ناسور کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔
تو آپ مجھے اور معتدل علمائے احناف کو جو اس کی صلاحیت رکھتے ہیں ساتھ ہی پائیں گے۔ جہاں آپس میں اختلاف ہوا بھی تو بھی رائے کے فرق کی وجہ سے ہوگا۔
یہاں میں فقہ حنفی پر اعتراضات کا دفاع ضرور کرتا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں فقہ حنفی سے سٹک ہو کر رہنے کا بھی قائل ہوں۔ البتہ کسی کو غلط انداز سے لینے کا مخالف ضرور ہوں اور میرا دفاع صرف اسی پوائنٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔

اچھا اگر اصولوں میں اتفاق کے باوجود(امام عالی مقام اور صاحبین رحمہم اللہ کے مابین دو تہائی مسائل میں) اختلاف ہے،تو یہ فرمائیے کہ ان کا فائدہ ہی کیا ہوا؟؟؟
ان کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک ہی طرز فکر کے مختلف انداز تخریج سامنے آگئے۔ آئیندہ آنے والے جو اس طرز فکر سے مطمئن ہیں وہ ان انداز تخریج میں سے جسے دلائل کے لحاظ سے زیادہ قوی سمجھتے ہیں اس پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں اور اس کا فتوی دیتے ہیں۔
مجھے فقہ حنفی کی بعض چیزوں میں سے ایک یہ چیز بھی بہت پسند ہے کہ دلیل کے لحاظ سے اکثر ہر قسم کا قول ملتا ہے۔ جس کو دلیل کی رو میں قوی سمجھا جائے اسے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی دوسرے امام (جو بلا شبہ بر حق ہوگا لیکن اس کے انداز فکر سے موافقت نہیں ہوتی) کے مسلک کی جانب عموما نہیں جانا پڑتا۔

پھر یہ کون سی آیت کریمہ ،حدیث شریف یا کسی امام مجتہد کے قول ہی سے ثابت ہے کہ کسی امام کی فقہ کے اصول میں تو اختلاف ناجائز ہے،جب کہ فروع میں جتنا مرضی اختلاف کیا جائے؟؟
مکرم من! ائمہ فقہ کے اصول بھی اجتہادی ہی ہیں،فلہٰذا وہ بھی فروع ہی کی مانند محل اختلاف ہیں۔

محترمی! میں نے صرف یہ بتایا ہے کہ ایسا ہے نہیں۔ یہ نہیں کہ جائز بھی نہیں ہے۔

اسی پر میں نے یہ عرض کیا ہے کہ اب مذاہب فقہیہ اصل بن گئے ہیں ؛بھائی آپ کو اس کا مکلف ہی کس نے کیا ہے کہ آپ نے کسی فقہ کی تمام تر جزئیات کا احاطہ کرنا ہے؛مقصود تو مسائل ہیں؛جو مسئلہ درپیش ہو،اس سے متعلق نصوص شریعت اور بہ قدر ضرورت علما کی آرا دیکھ لیجیے اور جس پر دل مطمئن ہو جائے ،اسے اختیار کر لیجیے۔
یہ اصل محل اختلاف ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ بقدر ضرورت آرا کو ہم نہیں دیکھیں گے صرف بلکہ اس صورت میں اس رائے کے مطابق تمام مسائل کو دیکھنا ہوگا۔ ورنہ اگر ہم کسی مسئلہ میں اس رائے کے مطابق اور دوسرے میں اس کے خلاف عمل کرتے ہیں تو گویا ہم پہلے عمل کی رائے کو کمزور کہتے ہیں۔ اس لیے ایک رائے کے مطابق یا ایک اصول کے مطابق تمام مسائل کو دیکھنا ہوگا الا یہ کہ کوئی مضبوط دلیل اس کو چھوڑنے پر مجبور کر دے تو ہم اس خاص مسئلہ کی تخریج کسی دوسرے قاعدے کے مطابق سمجھیں گے۔

ایک بات اور ؛ دیکھیے فقہی فروعات تو لاتعداد ہیں اور ان میں ایک ہی مسلک کے علما کا اختلاف بھی بہت زیادہ ہے،بہ خلاف ازیں اصول تعداد میں کم ہیں اور ان کی کتابیں بھی زیادہ طویل نہیں ہوتیں
اس کی وضاحت تو میں نے کی کہ اصول درحقیقت طرز فکر ہوتے ہیں اور آپ ایک چیز کو ایک ہی انداز سے سوچ سکتے ہیں۔

آپ نے ایک ہی مکتب کی چار کتب اصول کا مطالعہ کیا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ
میں احناف کے اصول، قواعد اور ان پر بیان کردہ مسائل مع تمام تفریعات کے سمجھ سکتا ہوں۔ ان کے طرز فکر کو سمجھ کر ان مسائل کی روح تک اتر سکتا ہوں۔
بھائی جان ! یہ خدا کا مطالبہ نہیں کہ آپ ایک خاص مذہب کی روح تک اتر سکیں ،بل کہ اس کا مطالبہ ہے کہ آپ کتاب و سنت کی روح تک اتریں اور اس کے لیے اگر آپ چار کے بجاے حنفیوں کی دو کتابیں پڑھ لیتے اور باقی دو کتابیں دوسروں کی بھی پڑھ لیتے ،تو شاید آپ زیادہ بہتر انداز میں منشاے شریعت تک پہنچ جاتے!

اس سے مراد میں خود نہیں بطور مثال کے کہا تھا۔ میں تو طالب علم ہوں۔
البتہ اگر میں دو اپنی اور دو دوسرے مسلک کی ابتدائے طالب علمی میں پڑھ لیتا تو غالبا نہ میں یہ سمجھتا اور نہ وہ۔ البتہ ان کے بعد یا ان کے ساتھ پڑھ سکتا ہوں یقینا۔
اور استدلال ائمہ کو میں بخوبی سمجھ لیتا ہوں لیکن پھر وہی مسئلہ ہے کہ ہر ایک نہیں کرسکتا۔ جو ان کو بھی کئی سالوں میں جا کر سمجھتے ہیں وہ تو ظاہر ہے دوسروں کے استدلال کو بھی سمجھیں یہ مشکل اور وقت طلب ہے۔

اب سنیے ؛اس احقر نے دوران طالب علمی باقاعدہ طور پر اصول کی تین ہی کتابیں پڑھی ہیں:
اصول فقہ پر ایک نظر
اصول الشاشی
الوجیز فی اصول الفقہ
گو اس کے بعد اپنے شوق کی بنا پر نورالانوار سمیت اصول کی متعدد کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ،لیکن انھی تین کتابوں کے مطالعہ ہی سے مختلف مذاہب کے اہم اصولی مسائل و تصورات سے اچھی خاصی واقفیت ہو گئی تھی اور میں کسی مسئلے میں مختلف ائمہ کے استدلال کو سمجھ سکتا تھا(اب بھی ان شاءاللہ) اور اس میں کوئی مبالغہ یا تعلی نہیں ،والحمدللہ؛مجھے یقین ہے کہ آپ مجھ سے بھی بہتر سمجھ سکتے ہیں؛اسی طرح فقہ کا بھی تقابلی مطالعہ کیا ہےاور سید سابق ؒ کی فقہ السنۃ سے لے کر ہدایہ شریف(منتخب ابواب)اور بدایۃ المجتہد کا درس لیا ہے،جس سے قرب تمام مذاہب کے علما کی آرا سے شناسائی ہو گئی ہے؛یہ انداز اختیار کیا جائے تو امید ہے کہ تعصب میں بھی کمی ہو گی اور دیگر فقہا کے قیمتی نکات سے اخذ واکتساب کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔

کیا کیا جائے؟ اس سلسلے میں مختلف آرا ہوتی ہیں لیکن تعلیمی نفسیات کا یہ قاعدہ ہے کہ ہمیشہ متوسط افراد کو لے کر چلا جاتا ہے۔ بعض انتہائی ذہین افراد ایک ہی انداز کو سمجھ سکتے ہیں کیوں کہ ان کا ذہن ایک ہی طرح سوچتا ہے چاہے وہ دوسرے طرز کو کتنا ہی کیوں نہ پڑھ لیں۔ اس لیے بجائے اس کے کہ کیا جائے فی الحال اسے دیکھا جائے کہ کیا ہو رہا ہے تو بہتر ہے۔ البتہ جینئس افراد کے لیے الگ طرز شروع کیا جا سکتا ہے۔
باقاعدہ تو ایسا نہیں ہوتا لیکن بے قاعدہ طور پر بہت سی جگہوں پر اساتذہ رہنمائی کرتے ہیں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
ایک بات کو سوچنا یا کہنا بہت آسان اور قابل عمل ہوتا ہے لیکن کرتے وقت وہ کام نہیں ہو سکتا، یا شاید ہو تو سکتا ہو لیکن مشکل ہو۔ آپ ماشاء اللہ کافی علم رکھتے ہیں جیسا کہ آپ نے کتابوں کا بتایا تو آپ اس کام کی ابتدا کیوں نہیں کرتے؟
اہل حدیث مدارس میں یہ کام ہو رہا ہے،الحمدللہ یہ قابل عمل بھی ہے اور بہت زیادہ مشکل بھی نہیں۔
مجھے اس سے تو اختلاف نہیں کہ یہ کام جائز ہے بلکہ اگر ہو سکے تو مناسب بھی ہے لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔
نتیجہ کیوں نہیں نکلے گا؛ضرور نکلے گا؛تعصب کم ہو گا اور ایک محدود دائرے سے نکل کر دیگر اہل علم کی آرا جاننے کا موقع مے گااور انشاءاللہ قوی دلیل کو ماننے کی توفیق بھی نصیب ہوگی۔
ظاہر ہے آپ ایک اصول کو بالکل درست سمجھیں گے لیکن دوسرا نہیں سمجھے گا۔
اختلاف تو ہر دور میں رہا ہے اور اس کا کلی خاتمہ نہ ممکن ہے نہ مطلوب،لیکن تقابلی مطالعہ کے بعد وسعت قلب وذہن تو پیدا ہو گی اور پھردلائل کے تبادلے کے بعد اتفاق محال بھی نہیں ،بل کہ عین ممکن ہے اور بہت سے مسائل میں ایسا ہوتا بھی ہے کہ اہل علم اپنی راے سے رجوع کر لیتے ہیں؛اصول کوئی قرآن و حدیث کے نصوص تو نہیں، جن میں ترمیم یا ان سے دست برداری ناممکن ہو۔
میرے محترم بھائی! صرف اب نہیں۔ جب بھی بین المسالک معاملہ آتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں اس سے انکاری نہیں ہوں۔ لیکن وہاں ترجیح ضرورت شرعیہ کی بنیاد پر تمام مذاہب میں دی جارہی ہوتی ہے نہ کہ مضبوطی دلائل کی بنیاد پر۔
یعنی ضرورت شرعیہ کی بنیاد پر ترجیح درست ہے،مضبوطی دلائل پر نہیں! اسی لیےتو شیخ الہند ؒ مضبوطی دلیل کے اعتراف کے باوجود دوسرے کے موقف کو ماننے پر تیار نہیں؛بھائی یہی تو قابل اعتراض ہے۔
اور بلا شبہ ضرورت شرعیہ بھی ایک دلیل و قاعدہ ہے۔
صرف دلیل کی بنیاد پر ترجیح ہو سکتی ہے،مضبوطی دلیل کی بنیاد پر نہیں؟کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟؟! اچھا یہ بتلائیے کہ جب امام مذہب تو دوسرے کی مضبوط دلیل کی بنیاد پر اپنا مسلک چھوڑ سکتا ہے،تو مقلدکیوں نہیں؟یہاں پھر وہی دلیل کہ مقلد اس قابل ہی نہیں،لیکن اس قابل ہے کہ دس سال بود دوسرے کی دلیل کا جواب ڈھونڈ سکے!!
اور مزید یہ کہ میں صرف تقلید اور وہ بھی جامد تقلید اس کا قائل نہیں ہوں۔ اگر کوئی علم رکھتا ہے تو یہ کام کرے۔ اس سے انکار نہیں۔ لیکن بات وہیں آ اٹکتی ہے کہ ہر کوئی اس کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ جو رکھتے ہیں وہ کریں تو کون منع کرتا ہے؟
صلاحیت پرکھنے کا پیمانہ و معیار کیا ہے؟ اپ کے نزدیک تو شیخ الہند اور حکیم الامت درجے کے لوگ بھی تقلید کرتے ہیں؛اہل حدیث علما یہ کام کرتے ہیں تو وہ قابل گردن زدنی قرار پاتے ہیں اور غیر مقلد ایک گالی کی طرح استعمال کر کے ان کو بھی تقلید شخصی کی دعوت دی جاتی ہے؛ اس کے علاوہ ان کا جرم کیا ہے؟؟
تو آپ مجھے اور معتدل علمائے احناف کو جو اس کی صلاحیت رکھتے ہیں ساتھ ہی پائیں گے۔ جہاں آپس میں اختلاف ہوا بھی تو بھی رائے کے فرق کی وجہ سے ہوگا۔
کیا آپ حضیض تقلید سے نکلنے پر آمادہ و تیار ہیں؟؟اگر ایسا ہے ،تو: چشم ما روشن دل ماشاد،لیکن میری دعوت محض چند مسائل تک نہیں ،بل کہ تمام مسائل میں ہے اور اس پر آپ غالباً تیار نہ ہوں گے۔
یہ اصل محل اختلاف ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ بقدر ضرورت آرا کو ہم نہیں دیکھیں گے صرف بلکہ اس صورت میں اس رائے کے مطابق تمام مسائل کو دیکھنا ہوگا۔ ورنہ اگر ہم کسی مسئلہ میں اس رائے کے مطابق اور دوسرے میں اس کے خلاف عمل کرتے ہیں تو گویا ہم پہلے عمل کی رائے کو کمزور کہتے ہیں۔ اس لیے ایک رائے کے مطابق یا ایک اصول کے مطابق تمام مسائل کو دیکھنا ہوگا الا یہ کہ کوئی مضبوط دلیل اس کو چھوڑنے پر مجبور کر دے تو ہم اس خاص مسئلہ کی تخریج کسی دوسرے قاعدے کے مطابق سمجھیں گے۔
یہاں پھر وہی بات کہ اصول گویا آفاقی یا کلی ہو گئے؟ایسا نہیںہے،جیسا کہ آپ نے خود ہی فرما دیا کہ مضبوط دلیل ہمیں اسے چھورنے پر آمادہ کرے،تو یہی میں نے عرض کیا تھا ؛یہ اصول تو بنے ہی بعد میں ہیں خصوصاً آپ کے؛لیکن انسان ساختہ اصول پرستی آپ پر اتنی حاوی ہے کہ پھر کسی دوسرے قاعدے کی پناہ لینا ضروری سمجھا،تو ٹھیک ہے کوئی بات نہیں،ایسا کر لیں گے،بل کہ آپ کے ہاں تو اصولوں کی کثرت کی وجہ ہی یہ ہے کہ پہلے کسی مسئلہ میں امام کی راےدیکھ کرایک اصول بنایا،اگلا مسئلہ آیا تو اصول نے ساتھ چھوڑ دیا؛اب بے اصولی(!) چوں کہ برداشت نہیں ،اس لیے دوسرے مسئلے کے لیے دوسرا اصول وضع فرما لیا،اللہ اللہ خیر سلا؛یہ طنز نہیں ،امر واقعہ ہے اور اصول فقہ کی کتابوں میں اس طرز عمل کا باقاعدہ تذکرہ موجود ہے۔
محترمی! میں نے صرف یہ بتایا ہے کہ ایسا ہے نہیں۔ یہ نہیں کہ جائز بھی نہیں ہے۔
یعنی امام کے اصولوں سے اختلاف جائز توہے،لیکن ہوا نہیں؟کیا آپ نے استیعاب کر لیا ہے؟
اچھا ایک شافعی مقلد حنفی امام مذہب سے اختلاف کرتا ہے،اسی طرح حنفی دوسرے کے امام سے؛سوال یہ ہے کہ ان کا اپنے امام سے اختلاف کیوں نہیں ہوتا؟ہرکو ہمیشہ اپنے ہی امام کے اصول کی تائید کی فکر رہتی ہے اور دوسرے کا رد وہ دس سال بعد بھی ڈھونڈ لیتا ہے ،لیکن اپنے امام کی راے پر وہ کھلے ذہن اور غیر جانب دارانہ انداز میں تنقیدی نگاہ ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتا،آخر کیوں؟؟ اسی لیے تو ہم عرض کرتے ہیں کہ بھائی تمام اماموں کو اپنا سمجھو اور سب سے ایک ہی طرز اپناو،لیکن آپ اس پر راضی نہیں،الٹا ہمیں الزام دیتے ہیں!
اس کی وضاحت تو میں نے کی کہ اصول درحقیقت طرز فکر ہوتے ہیں اور آپ ایک چیز کو ایک ہی انداز سے سوچ سکتے ہیں۔
توطرز فکر ہی میں وسعت پیدا کر لیجیے؛وہ ایک ہی رہے گا لیکن اس میں دو تین اور علما کی آرا کے لیے بھی گنجایش نکل آئے گی اور امت جو ان گروہوں میں بٹ چکی ہے اس میں نزدیکیاں پیدا ہوں گی اور اشخاص کے بجاے بہ راہ راست کتاب و سنت سے وابستگی پیدا ہو جائے گی۔
لیکن پھر وہی مسئلہ ہے کہ ہر ایک نہیں کرسکتا۔ جو ان کو بھی کئی سالوں میں جا کر سمجھتے ہیں وہ تو ظاہر ہے دوسروں کے استدلال کو بھی سمجھیں یہ مشکل اور وقت طلب ہے۔
دیکھیے بعض لوگ تمام تر حنفی مسائل کو نہیں سمجھ پاتے،تو کیا جتنے وہ نہیں سمجھتے،آپ ان کو وہ پڑھاتے بھی نہیں؟؟؟جب ان کو سارے ہی پڑھاتے ہیں ،باوجودےکہ وہ ان سب کو نہیں سمجھتے،تو دیگر ک ائمہ کے اصول بھی شامل تدریس فرما لیجیے؛جو سمجھ جائیں گے ان کو فائدہ ہو جائے ھا اور جو نہیں سمجھیں گے ان کو کوئی نقصان نہیں ہو گا،جیسا کہ بہت سے حنفی مسائل کے نہ سمجھنے سے نہیں ہوتا؛ویسے بھی شرعی اصول ہے: فاتقو االلہ ماستطعتم ،نیز:لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا
ہاں! آپ نے فرمایا یہ مشکل ہے؛گویا مشکل کام چھوڑ دیے جائیں خواہ ان میں عظیم مصالح موجود ہوں ؟ویسے بعض حنفی دوست تو بہ طور طنز اہل حدیث کو سہولت پسند کہتے ہیں ، آپ ان کے الٹ فرما رہے ہیں :کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے
کیا کیا جائے؟ اس سلسلے میں مختلف آرا ہوتی ہیں لیکن تعلیمی نفسیات کا یہ قاعدہ ہے کہ ہمیشہ متوسط افراد کو لے کر چلا جاتا ہے۔ بعض انتہائی ذہین افراد ایک ہی انداز کو سمجھ سکتے ہیں کیوں کہ ان کا ذہن ایک ہی طرح سوچتا ہے چاہے وہ دوسرے طرز کو کتنا ہی کیوں نہ پڑھ لیں۔ اس لیے بجائے اس کے کہ کیا جائے فی الحال اسے دیکھا جائے کہ کیا ہو رہا ہے تو بہتر ہے۔ البتہ جینئس افراد کے لیے الگ طرز شروع کیا جا سکتا ہے۔
جو ہو رہا ہے ،وہ تو ہو ہی رہا ہے اور اس کے نتائج بھی سامنے ہیں؛ضرورت تو اس امر کی ہے اس کی اصلاح کی تدابیر پر غور کیا جائے؛متوسط افراد کے لیے بھی تقابلی نساب تیار ہو سکتا ہے؛اس میں کیا مشکل ہے؟؟ غیر ضروری چیزیں نکالیے اور عزم مصمم کے ساتھ کام کیجیے ،تو بالکل ممکن ہے،ہاں یہ درست ہے کہ’ اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ ‘ جو سر دست آپ کرنے پر تیار نہیں لگ رہے،تو ٹھیک ہے: ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں!
وماعلینا الا البلاغ المبین
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
ان کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک ہی طرز فکر کے مختلف انداز تخریج سامنے آگئے۔ آئیندہ آنے والے جو اس طرز فکر سے مطمئن ہیں وہ ان انداز تخریج میں سے جسے دلائل کے لحاظ سے زیادہ قوی سمجھتے ہیں اس پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں اور اس کا فتوی دیتے ہیں۔
مجھے فقہ حنفی کی بعض چیزوں میں سے ایک یہ چیز بھی بہت پسند ہے کہ دلیل کے لحاظ سے اکثر ہر قسم کا قول ملتا ہے۔ جس کو دلیل کی رو میں قوی سمجھا جائے اسے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی دوسرے امام (جو بلا شبہ بر حق ہوگا لیکن اس کے انداز فکر سے موافقت نہیں ہوتی) کے مسلک کی جانب عموما نہیں جانا پڑتا۔
بھائی میرے ! اگر ایک ہی طرز فکر(ویسے یہ ترکیب اصول کے مترادف نہیں اس لیے اس کے متبادل کے طور پر اسے برتنا مناسب معلوم نہیں ہوتا) سے مسائل حل ہو سکیں ،تو اس کی کسی حد تک گنجایش ہے،لیکن جب آپ خود مانتے ہیں کہ ایک مسلک میں سارا حق موجود نہیں ،بل کہ سب میں دائروسائر ہے،تو پھر دوسرے طرز کو بھی دیکھنا ضروری ہوجاتا ہے؛دوسرے کے انداز فکر سے موافقت نہ ہونا آپ کا طبعی معاملہ ہے،یہ دین میں حجت نہیں،بل کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ اپنی خواہشات اور میلانات کے علی الرغم حق کا ساتھ دینا چاہیے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَ‌بِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرً‌ا فَاللَّـهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِ‌ضُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرً‌ا ﴿النساء: ١٣٥﴾ اس میں ظاہر ہے کہ اپنا مسلک بھی آتا ہے کہ اگر دلیل اس کے خلاف ہو ،تو اس کی گواہی دو،یعنی اس پر عمل کے ذریعے گواہ بنو ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اہل حدیث مدارس میں یہ کام ہو رہا ہے،الحمدللہ یہ قابل عمل بھی ہے اور بہت زیادہ مشکل بھی نہیں۔

نتیجہ کیوں نہیں نکلے گا؛ضرور نکلے گا؛تعصب کم ہو گا اور ایک محدود دائرے سے نکل کر دیگر اہل علم کی آرا جاننے کا موقع مے گااور انشاءاللہ قوی دلیل کو ماننے کی توفیق بھی نصیب ہوگی۔

اختلاف تو ہر دور میں رہا ہے اور اس کا کلی خاتمہ نہ ممکن ہے نہ مطلوب،لیکن تقابلی مطالعہ کے بعد وسعت قلب وذہن تو پیدا ہو گی اور پھردلائل کے تبادلے کے بعد اتفاق محال بھی نہیں ،بل کہ عین ممکن ہے اور بہت سے مسائل میں ایسا ہوتا بھی ہے کہ اہل علم اپنی راے سے رجوع کر لیتے ہیں؛اصول کوئی قرآن و حدیث کے نصوص تو نہیں، جن میں ترمیم یا ان سے دست برداری ناممکن ہو۔

یعنی ضرورت شرعیہ کی بنیاد پر ترجیح درست ہے،مضبوطی دلائل پر نہیں! اسی لیےتو شیخ الہند ؒ مضبوطی دلیل کے اعتراف کے باوجود دوسرے کے موقف کو ماننے پر تیار نہیں؛بھائی یہی تو قابل اعتراض ہے۔

صرف دلیل کی بنیاد پر ترجیح ہو سکتی ہے،مضبوطی دلیل کی بنیاد پر نہیں؟کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟؟! اچھا یہ بتلائیے کہ جب امام مذہب تو دوسرے کی مضبوط دلیل کی بنیاد پر اپنا مسلک چھوڑ سکتا ہے،تو مقلدکیوں نہیں؟یہاں پھر وہی دلیل کہ مقلد اس قابل ہی نہیں،لیکن اس قابل ہے کہ دس سال بود دوسرے کی دلیل کا جواب ڈھونڈ سکے!!

صلاحیت پرکھنے کا پیمانہ و معیار کیا ہے؟ اپ کے نزدیک تو شیخ الہند اور حکیم الامت درجے کے لوگ بھی تقلید کرتے ہیں؛اہل حدیث علما یہ کام کرتے ہیں تو وہ قابل گردن زدنی قرار پاتے ہیں اور غیر مقلد ایک گالی کی طرح استعمال کر کے ان کو بھی تقلید شخصی کی دعوت دی جاتی ہے؛ اس کے علاوہ ان کا جرم کیا ہے؟؟

کیا آپ حضیض تقلید سے نکلنے پر آمادہ و تیار ہیں؟؟اگر ایسا ہے ،تو: چشم ما روشن دل ماشاد،لیکن میری دعوت محض چند مسائل تک نہیں ،بل کہ تمام مسائل میں ہے اور اس پر آپ غالباً تیار نہ ہوں گے۔

یہاں پھر وہی بات کہ اصول گویا آفاقی یا کلی ہو گئے؟ایسا نہیںہے،جیسا کہ آپ نے خود ہی فرما دیا کہ مضبوط دلیل ہمیں اسے چھورنے پر آمادہ کرے،تو یہی میں نے عرض کیا تھا ؛یہ اصول تو بنے ہی بعد میں ہیں خصوصاً آپ کے؛لیکن انسان ساختہ اصول پرستی آپ پر اتنی حاوی ہے کہ پھر کسی دوسرے قاعدے کی پناہ لینا ضروری سمجھا،تو ٹھیک ہے کوئی بات نہیں،ایسا کر لیں گے،بل کہ آپ کے ہاں تو اصولوں کی کثرت کی وجہ ہی یہ ہے کہ پہلے کسی مسئلہ میں امام کی راےدیکھ کرایک اصول بنایا،اگلا مسئلہ آیا تو اصول نے ساتھ چھوڑ دیا؛اب بے اصولی(!) چوں کہ برداشت نہیں ،اس لیے دوسرے مسئلے کے لیے دوسرا اصول وضع فرما لیا،اللہ اللہ خیر سلا؛یہ طنز نہیں ،امر واقعہ ہے اور اصول فقہ کی کتابوں میں اس طرز عمل کا باقاعدہ تذکرہ موجود ہے۔

یعنی امام کے اصولوں سے اختلاف جائز توہے،لیکن ہوا نہیں؟کیا آپ نے استیعاب کر لیا ہے؟
اچھا ایک شافعی مقلد حنفی امام مذہب سے اختلاف کرتا ہے،اسی طرح حنفی دوسرے کے امام سے؛سوال یہ ہے کہ ان کا اپنے امام سے اختلاف کیوں نہیں ہوتا؟ہرکو ہمیشہ اپنے ہی امام کے اصول کی تائید کی فکر رہتی ہے اور دوسرے کا رد وہ دس سال بعد بھی ڈھونڈ لیتا ہے ،لیکن اپنے امام کی راے پر وہ کھلے ذہن اور غیر جانب دارانہ انداز میں تنقیدی نگاہ ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتا،آخر کیوں؟؟ اسی لیے تو ہم عرض کرتے ہیں کہ بھائی تمام اماموں کو اپنا سمجھو اور سب سے ایک ہی طرز اپناو،لیکن آپ اس پر راضی نہیں،الٹا ہمیں الزام دیتے ہیں!

توطرز فکر ہی میں وسعت پیدا کر لیجیے؛وہ ایک ہی رہے گا لیکن اس میں دو تین اور علما کی آرا کے لیے بھی گنجایش نکل آئے گی اور امت جو ان گروہوں میں بٹ چکی ہے اس میں نزدیکیاں پیدا ہوں گی اور اشخاص کے بجاے بہ راہ راست کتاب و سنت سے وابستگی پیدا ہو جائے گی۔

دیکھیے بعض لوگ تمام تر حنفی مسائل کو نہیں سمجھ پاتے،تو کیا جتنے وہ نہیں سمجھتے،آپ ان کو وہ پڑھاتے بھی نہیں؟؟؟جب ان کو سارے ہی پڑھاتے ہیں ،باوجودےکہ وہ ان سب کو نہیں سمجھتے،تو دیگر ک ائمہ کے اصول بھی شامل تدریس فرما لیجیے؛جو سمجھ جائیں گے ان کو فائدہ ہو جائے ھا اور جو نہیں سمجھیں گے ان کو کوئی نقصان نہیں ہو گا،جیسا کہ بہت سے حنفی مسائل کے نہ سمجھنے سے نہیں ہوتا؛ویسے بھی شرعی اصول ہے: فاتقو االلہ ماستطعتم ،نیز:لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا
ہاں! آپ نے فرمایا یہ مشکل ہے؛گویا مشکل کام چھوڑ دیے جائیں خواہ ان میں عظیم مصالح موجود ہوں ؟ویسے بعض حنفی دوست تو بہ طور طنز اہل حدیث کو سہولت پسند کہتے ہیں ، آپ ان کے الٹ فرما رہے ہیں :کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے

جو ہو رہا ہے ،وہ تو ہو ہی رہا ہے اور اس کے نتائج بھی سامنے ہیں؛ضرورت تو اس امر کی ہے اس کی اصلاح کی تدابیر پر غور کیا جائے؛متوسط افراد کے لیے بھی تقابلی نساب تیار ہو سکتا ہے؛اس میں کیا مشکل ہے؟؟ غیر ضروری چیزیں نکالیے اور عزم مصمم کے ساتھ کام کیجیے ،تو بالکل ممکن ہے،ہاں یہ درست ہے کہ’ اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ ‘ جو سر دست آپ کرنے پر تیار نہیں لگ رہے،تو ٹھیک ہے: ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں!
وماعلینا الا البلاغ المبین


ٹھیک ہے مجھے کبھی موقع ملا تو میں یہ کروں گا۔ ابھی آپ اگر ایک تھریڈ اسی فورم پر بنا دیں جس میں ان اصولوں کے درمیان محاکمہ فرماویں تو یقینا یہ ایک علمی کاوش ہوگی۔

یعنی امام کے اصولوں سے اختلاف جائز توہے،لیکن ہوا نہیں؟کیا آپ نے استیعاب کر لیا ہے؟
میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ فلاں فلاں کتابوں میں میں نے ایسا نہیں دیکھا۔ ویسے اگر آپ نے توضیح اور تلویح پڑھی ہوں تو معلوم ہوگا کہ ان دو بزرگوں نے (جن میں ایک کو شافعی کہا جاتا ہے) تقریبا ہر باریکی کا استیعاب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اختلافات ایک ہی مسلک کے ائمہ کے انہوں نے بھی بیان نہیں کیے۔ واللہ اعلم

یعنی ضرورت شرعیہ کی بنیاد پر ترجیح درست ہے،مضبوطی دلائل پر نہیں! اسی لیےتو شیخ الہند ؒ مضبوطی دلیل کے اعتراف کے باوجود دوسرے کے موقف کو ماننے پر تیار نہیں؛بھائی یہی تو قابل اعتراض ہے۔
محترم بھائی میری بات کو سمجھیے۔ اگر آپ پوری پوسٹ تفصیل سے پڑھیں تو واضح ہو جائے گی لیکن میں خود بھی کر دیتا ہوں۔
دلائل ہمارے نزدیک ہمارے مضبوط اور راجح ہوتے ہیں لیکن ضرورت شرعیہ دوسرے مرجوح دلائل پر عمل کرنے کا کہتی ہے تو ان کو اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ بات میں نے کرنی چاہی ہے ورنہ اگر دلائل ہی مضبوط ہوتے تو ضرورت شرعیہ کی طرف جانے کی کیا ضرورت تھی پہلے ہی اختیار کر لیتے۔

صلاحیت پرکھنے کا پیمانہ و معیار کیا ہے؟ اپ کے نزدیک تو شیخ الہند اور حکیم الامت درجے کے لوگ بھی تقلید کرتے ہیں
شاید تقلید کے سلسلے میں تفصیلا بہت کچھ عرض کر چکا ہوں۔
جب کوئی شخص علم حاصل کرکے کسی امام سے موافقت رکھتا ہے تو درحقیقت یہ اس کی اپنی رائے ہی ہوتی ہے جو اس امام کے موافق ہو جاتی ہے۔ اس امام کے موافق ہونے کی وجہ سے وہ اس کے مسلک کے اقوال پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہے اور اختلافی اقوال میں ایک جانب کو اپنی رائے کی وجہ سے ترجیح دیتا ہے۔ وہ دوسرے امام کے اصول و قواعد سے مطمئن نہیں ہوتا تو اس کے مطابق عمل بھی نہیں کرتا۔ جس جگہ اس کی رائے اپنے امام کے خلاف ہوتی ہے تو وہ وہاں اس کے خلاف عمل کرتا ہے۔
اس ساری بات کے بعد سوال یہ ہے کہ یہ تو اس کا اپنا اجتہاد ہے یا اس کی اپنی سمجھ ہے تو امام کی تقلید سے کیوں نہیں نکلتا؟ تو ایک وجہ یہ کہ وہ کم از کم اس امام کے اصولوں کو اپنا رہا ہوتا ہے یعنی ان کی تقلید کر رہا ہوتا ہے۔ اور دوم یہ کہ کثرت موافقت کی وجہ سے اسے اسی امام کا متبع قرار دیا جاتا ہے۔
پس منظر وہی ہوتا ہے کہ وہ اس امام کی رائے پر عمل پیرا اپنا امام ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے موافقت کی وجہ سے ہوتا ہے۔
پھر کبھی تو یہ تمام مسائل میں ہوتا ہے اور کبھی بعض میں۔ اور کبھی بعض مسائل میں وہ اس امام پر اعتماد کر لیتا ہے۔ یہ اعتماد بھی اس کا اجتہاد ہوتا ہے جس سے آپ اسے نہیں روک سکتے۔

ویسے آپ ہی پیمانہ بتا دیجیے جس کی بنیاد پر آپ لوگ اپنے مدارس میں پڑھاتے ہیں۔

اہل حدیث علما یہ کام کرتے ہیں تو وہ قابل گردن زدنی قرار پاتے ہیں اور غیر مقلد ایک گالی کی طرح استعمال کر کے ان کو بھی تقلید شخصی کی دعوت دی جاتی ہے؛ اس کے علاوہ ان کا جرم کیا ہے؟؟
اگر کوئی غلو میں کہتا ہے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اور اگر کوئی غلط استدلال کرکے مسائل نکالتا ہے اور اپنی بات کو اوپر رکھنے کی کوششیں کرتا ہے تو اسے اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ کوئی ایسا نہ ہو تو اسے کہا بھی نہیں جاتا۔

بھائی میرے ! اگر ایک ہی طرز فکر(ویسے یہ ترکیب اصول کے مترادف نہیں اس لیے اس کے متبادل کے طور پر اسے برتنا مناسب معلوم نہیں ہوتا) سے مسائل حل ہو سکیں ،تو اس کی کسی حد تک گنجایش ہے،لیکن جب آپ خود مانتے ہیں کہ ایک مسلک میں سارا حق موجود نہیں ،بل کہ سب میں دائروسائر ہے،تو پھر دوسرے طرز کو بھی دیکھنا ضروری ہوجاتا ہے؛دوسرے کے انداز فکر سے موافقت نہ ہونا آپ کا طبعی معاملہ ہے،یہ دین میں حجت نہیں،بل کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ اپنی خواہشات اور میلانات کے علی الرغم حق کا ساتھ دینا چاہیے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَ‌بِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرً‌ا فَاللَّـهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِ‌ضُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرً‌ا ﴿النساء: ١٣٥﴾ اس میں ظاہر ہے کہ اپنا مسلک بھی آتا ہے کہ اگر دلیل اس کے خلاف ہو ،تو اس کی گواہی دو،یعنی اس پر عمل کے ذریعے گواہ بنو ۔
میرے بھائی! عجیب سے انداز میں بات آپ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔ مجھے حیرت سی ہوتی ہے۔
بھائی جان انداز فکر سے موافقت ہونے کا مطلب ہے امام جیسے مسئلہ سمجھ رہا ہے عامل بھی اسی طرح سمجھتا ہے۔ وہ جس اصول پر مسئلہ اخذ کر رہا ہے عامل بھی اسی اصول کو اپنے فہم کے مطابق درست سمجھ رہا ہے۔ اب۔۔۔ جو وہ۔۔۔ قرآن و حدیث سے۔۔۔ سمجھے گا۔۔۔ اس کے نزدیک حق اور راجح وہی ہوگا نا؟ نہ کہ دوسرا۔۔۔ تو دوسرے کو راجح کیسے سمجھ لے؟؟ دوسرے پر گواہی کیسے دے اور دوسرے پر عمل کیسے کر لے؟؟؟ حق دوسرے مسلک میں ہو سکتا ہے لیکن اجتہادی طور پر اس کے نزدیک اپنا اور اپنے امام کا مذہب راجح ہے تو وہ دوسرے مذہب کو کیسے ترجیح دے۔ غیر راجح سمجھ کر عمل کرلے تو الگ بات ہے۔
میرے محترم ماشاء اللہ جیسا کہ آپ کی باتوں سے ظاہر ہوا کہ آپ لوگ کافی کھلا ذہن رکھتے ہیں اور تمام فقہاء کے نکات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے لیکن جب کسی مسلک کا رد کرنا چاہیں تو ان کے موقف اور ان کی باتوں کو بھی کھلا ذہن رکھ کر سوچا کیجیے۔ ورنہ صرف اقوال فقہاء میں ترجیح اپنی مرضی یا سمجھ کے مطابق دیدینا تو بہت آسان ہے بلکہ میں اگر یہ کہوں کہ میں بھی بآسانی کرسکتا ہوں تو غلط نہ ہوگا حالاں کہ میں فقط ایک مبتدی طالب علم ہوں۔ اقوال اور قائلین کے موقف اور دلائل میں ڈوب کر ایک پر فیصلہ کرنا یکسر الگ بات ہے۔ اس کے لیے ذہن کو ہر طرح کے تعصب سے پاک کر کے سوچنا پڑتا ہے اور سامنے موجود ہر قائل کو نیک، متقی اور عالم سمجھنا پڑتا ہے۔ چند برسوں سے یہ ہمارا (میرا اور میرے ایک ساتھی کا) معمول رہا ہے کہ ہم مخالفین کے اقوال میں سے یہ ڈھونڈتے ہیں کہ کس کس کو شریعت کے دائرے میں داخل سمجھ سکتے ہیں اور کس کس کی تاویل کی جا سکتی ہے حالاں کہ وہ ہمارے مخالفین ہوتے ہیں۔ ہم بریلویوں اور مماتیوں میں وہ پوائنٹس ڈھونڈتے ہیں جن پر ایک جگہ ہو سکیں اور جن پر اگر کسی کا ظاہر عمل غلط ہے تو ہم اس کے مسلمان ہونے کا کہہ سکیں۔ میں اپنی تعریف نہیں کررہا ان الفاظ سے۔ اہل حدیث گمراہ ہیں یا نہیں اس پر غالبا ہم نے چار، پانچ سال پہلے اتفاق کیا تھا کہ یہ گمراہ نہیں اس لیے مجھے آپ کبھی انہیں ایسا کہتے نہیں پائیں گے۔
تو ان کاموں کے لیے بہت ٹھنڈے مزاج اور دماغ سے اور سامنے والے کو اپنا سمجھ کر سوچنا پڑتا ہے۔
آپ کا کام بہت اچھا ہوگا لیکن اگر طرز فکر ایسا ہوا:۔
اسی لیےتو شیخ الہند ؒ مضبوطی دلیل کے اعتراف کے باوجود دوسرے کے موقف کو ماننے پر تیار نہیں
تو پھر میرے بھائی آپ کی بات لاکھ بار درست سہی لیکن نتیجہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ میں تو جہاں علماء دیوبند کی بات سے متفق نہیں ہوتا وہاں ان سے بھی اختلاف کرتا ہوں لیکن غیر کے بارے میں جب تک اس کی خیانت نہ ظاہر ہو تب تک درست ہی رائے رکھتا ہوں۔ جس طرح میں نے شیخ الہندؒ کی بات کی وضاحت کی کہ غیر راجح پر عمل کسی بھی وجہ سے ہو سکتا ہے ایکس وائے زیڈ کچھ بھی وجہ ہو اسی طرح میں دیگر کی بات میں تاویل کا موقع ہو تو کرتا ہوں۔ ان کی بات کو خیانت کے بجائے اگر ممکن ہو تو تسامح کہتا ہوں حالاں کہ میں مقلد ہوں۔ میں رد کرتا ہوں تو جہاں زبیر علی زئیؒ اور توصیف الرحمان راشدی پر کرتا ہوں وہیں مولانا الیاس گھمن پر بھی کرتا ہوں۔
اگر ترک تقلید میں انسان ایک کو چھوڑ کر دوسری مخصوص فکر کا شکار ہو جائے تو پھر اس سے تقلید ہی بہتر ہے غالبا۔

توطرز فکر ہی میں وسعت پیدا کر لیجیے؛وہ ایک ہی رہے گا لیکن اس میں دو تین اور علما کی آرا کے لیے بھی گنجایش نکل آئے گی اور امت جو ان گروہوں میں بٹ چکی ہے اس میں نزدیکیاں پیدا ہوں گی اور اشخاص کے بجاے بہ راہ راست کتاب و سنت سے وابستگی پیدا ہو جائے گی۔
دوبارہ ملاحظہ فرمائیے:۔
اصول ہیں کیا؟ اصول قرآن و حدیث کو سمجھنے کا ایک طریقہ ہے۔ مثال کے طور پر لفظ مشترک کے دو معنوں میں سے احناف کے نزدیک ایک معنی ایک وقت میں مراد ہوتا ہے جب کہ شوافع کے نزدیک دونوں مراد ہو سکتے ہیں تو یہ در حقیقت انداز فکر اور غور کا فرق ہے۔ اور ایک وقت میں ایک بندہ دونوں انداز میں کس طرح سوچ سکتا ہے جب کہ دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں؟
امام شافعیؒ کی رائے سر آنکھوں پر۔ ہم دوسری رائے سے مطمئن ہیں اور دوسرے انداز میں ہمیں زیادہ درست لگتا ہے تو ہم اسے اختیار کرتے ہیں۔ گنجائش سب کی آرا کے لیے ہے لیکن ایک بار یہ کہیں کہ مشترک سے ایک معنی ہی مراد ہوگا اور دوسری بار یہ کہ دونوں مراد ہوں گے تو کیا یہ درست ہے؟

یہاں پھر وہی بات کہ اصول گویا آفاقی یا کلی ہو گئے؟ایسا نہیںہے،جیسا کہ آپ نے خود ہی فرما دیا کہ مضبوط دلیل ہمیں اسے چھورنے پر آمادہ کرے،تو یہی میں نے عرض کیا تھا ؛یہ اصول تو بنے ہی بعد میں ہیں خصوصاً آپ کے؛لیکن انسان ساختہ اصول پرستی آپ پر اتنی حاوی ہے کہ پھر کسی دوسرے قاعدے کی پناہ لینا ضروری سمجھا،تو ٹھیک ہے کوئی بات نہیں،ایسا کر لیں گے،بل کہ آپ کے ہاں تو اصولوں کی کثرت کی وجہ ہی یہ ہے کہ پہلے کسی مسئلہ میں امام کی راےدیکھ کرایک اصول بنایا،اگلا مسئلہ آیا تو اصول نے ساتھ چھوڑ دیا؛اب بے اصولی(!) چوں کہ برداشت نہیں ،اس لیے دوسرے مسئلے کے لیے دوسرا اصول وضع فرما لیا،اللہ اللہ خیر سلا؛یہ طنز نہیں ،امر واقعہ ہے اور اصول فقہ کی کتابوں میں اس طرز عمل کا باقاعدہ تذکرہ موجود ہے۔
معذرت چاہوں گا بھائی جان۔ اصول نصوص سے اور فہم سے بنتے ہیں اور میں نے دوسرا اصول بنانے کا نہیں دوسرے بنے ہوئے قاعدے کے مطابق تخریج کا کہا ہے۔ اصول ایک دوسرے سے ٹکراتے نہیں ہیں جب کہ آپ کی بات میں ٹکراؤ لازم آ رہا ہے۔

کیا آپ حضیض تقلید سے نکلنے پر آمادہ و تیار ہیں؟؟اگر ایسا ہے ،تو: چشم ما روشن دل ماشاد،لیکن میری دعوت محض چند مسائل تک نہیں ،بل کہ تمام مسائل میں ہے اور اس پر آپ غالباً تیار نہ ہوں گے۔
اگر آپ اس میں میری معاونت کر سکیں تو میں تو تیار ہوں۔ آخر اگر حق وہ ہے جس پر اہل حدیث ہیں تو میں اس سے کیوں محروم رہوں؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ میں نے احناف کی رائے کو جتنے مسائل میں تحقیق کی ہے کمزور نہیں پایا لیکن اگر آپ کی معاونت سے ایسی جگہیں پا لوں تو جو وہاں ظاہر ہوگا وہ اپنا لوں گا۔ مجھ پر کسی کی جانب سے کوئی پابندی نہیں ہوگی اس سلسلے میں نہ ہی میرے گھر والوں کو اعتراض ہوگا۔
ہاں رائے وہی اختیار کروں گا جو میں راجح سمجھوں گا۔
اگر آپ میری معاونت کی ہامی بھرتے ہیں تو میں ان شاء اللہ کچھ عرصے میں فارغ ہو کر آپ کی زیر نگرانی یہ کام کرنے میں خوشی محسوس کروں گا۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
آپ سے یہ مکالمہ چلتا رہے گا،لیکن ایک دل چسپ بات یاد آگئی؛ہمارے استاد شیخ الحدیث حافظ الیاس صاحب اثریؔ دامت برکاتہم(تلمیذِ محدث گوندلوی ؒ،رئیس،مرکز علوم اثریہ،گوجراں والا ) فرمایا کرتے تھے کہ
علما تاویلات کے بادشاہ ہوتے ہیں
آپ کی گفت گو کے بعد یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ
برادران احناف تاویلوں کے باب میں بادشاہوں کے بادشاہ ہیں۔
(ابتسامہ)
بھائی ،ناراض نہ ہو جانا کہیں!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
آپ سے یہ مکالمہ چلتا رہے گا،لیکن ایک دل چسپ بات یاد آگئی؛ہمارے استاد شیخ الحدیث حافظ الیاس صاحب اثریؔ دامت برکاتہم(تلمیذِ محدث گوندلوی ؒ،رئیس،مرکز علوم اثریہ،گوجراں والا ) فرمایا کرتے تھے کہ
آپ کی گفت گو کے بعد یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ (ابتسامہ)
بھائی ،ناراض نہ ہو جانا کہیں!
نہیں بھائی۔
ظاہر ہے آپ کا ایک موقف دلائل سے آپ کے نزدیک ہے۔ اس کے خلاف آپ تاویل کریں گے۔ جو ہمارا موقف ہمارے سامنے واضح ہوا اس کے خلاف ہم تاویل کریں گے۔
تطبیق بھی اسی تاویل کی ہی ایک قسم ہے۔ یہ نہ کریں تو متعارض احادیث ہمیں منکرین احادیث کی صف میں شامل کر دیں گی۔
 
Top