طاہر اسلام
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 07، 2011
- پیغامات
- 843
- ری ایکشن اسکور
- 732
- پوائنٹ
- 256
اصل بات یہ ہے کہ جب یہ مذاہب ہی شریعت کی جگہ لے چکے ہیں تو ظاہر ہے ساری زندگی انھی کے سمجھنے سمجھانے میں گزر جاتی ہے؛ایسی صورت میں یہ بات کسی حد تک قابل فہم ہے کہ دیگر مذاہب کو سمجھنے کا وقت اور صلاحیت کہاں سے آئے گی؟؟
ویسے یہ بات بھی توضیح طلب ہے کہ کسی ایک فقہ کو سمجھنے میں کتنا وقت درکار ہے؟؟یا تمام عمر میں ایک ہی فقہ کو بہ مشکل سمجھا جا سکتا ہے؟؟اگر پہلی صورت ہے تو ایک فقہ کو سمجھنے کے بعد دوسری فقہوں کی جانب متوجہ ہونا چاہیے،تاکہ ان سے بھی استفادہ ہو سکے،کیوں کہ یہ تو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ سارا حق ایک ہی فقہ میں محدود نہیں اور نہ اس کے بانیان معصوم ہیں۔ہاں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک فقہ کے علاوہ دیگر کو سمجھنا ممکن ہی نہیں تو یہ دوسری بات ہے۔
سچ یہ ہے کہ یہ کام اتنا مشکل نہیں جتنا آپ سمجھتے ہیں ،یا سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں؛اپنے مخالفین کے قریباً نصف اصولوں کا تو آپ کو اچھی طرح علم ہوتا ہے،جب دوران تدریس و تعلیم یا بہ وقت مناظرہ آپ ان کی تردید کرتے ہیں؛ظاہر ہے ان کے استدلال کو سمجھ کر ہی ان کا رد ہوتا ہے؛اگر بغیر سمجھے کرتے ہیں ،تو یہ ناانصافی ہے؛ظاہر ہے باقی نصف اصولوں کا علم بھی حاصل کیا جا سکتا ہے،بہ شرطے کہ اتباع حق پیش نظر ہو؛کیا خیال ہے؟؟لیکن یہاں یہ حال ہے کہ بڑے فخر سے فرمایا جاتا ہے کہ میں نے دس سال کے غور و فکر کے بعد مخالف کی دلیل کا جواب تلاش کر لیا ہے!!!(غالباً علامہ انور شاہ کشمیری کا قول ہے)سوال یہ ہے کہ اگر اس عرصے میں موت آجاتی ،تو خدا کو کیا جواب دیتے؟؟
اگر پہلی بات ہے،تو کیا دو یاا س سے زائداشخاص کی تقلید ہو سکتی ہے؟
اگر اپنا اجتہاد ہے،تو کیا باقی مسائل میں وہ بر بناے تقلید موافقت کر رہا ہے،یا از روے اجتہاد؟
اگر تقلید کی وجہ سے موافق ہے تو یہاں تقلید کا دامن کیوں چھوڑ دیا؟؟
اگر اجتہاد کی وجہ سے ہے،تو امام کی تقلید سے نہ نکلنے کی بات کا کیا مطلب؟
برادرعزیز ! اب تومعتدل مزاج احناف میں بھی یہ فکر پروان چڑھ رہی ہے کہ ایک ہی فقہ سے تمام مسائل حل نہیں ہو سکتے،اس لیے کاسمو پولیٹن یا آفاقی فقہ کی تشکیل ہونی چاہیے ؛ڈاکٹر محمود غازی ؒ کا یہی نظریہ تھا؛ابھی حال ہی میں بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی میں ایک سیمی نار کے دوران ڈاکٹر طاہر منصوری نے بھی یہی تجویز پیش کی اور بہ طور تائید اہل حدیث کے طرز عمل کا بھی حوالہ دیا؛سو آپ بھی حضیض تقلید سے نکلیے اور کتاب و سنت کی تفہیم و تفقہ میں سلف کے مجموعی ذخیرہ فقہ و اجتہاد سے استفادہ کرتے ہوئے امت کو در پیش مسائل کا حل پیش کیجیے؛امام ابوحنیفہؓ نے بھی چوں کہ دلیل شرعی کی پیروی کی وصیت کر رکھی ہے ،اس لیے ان شاءاللہ آپ ان کی تقلید سے بھی نہیں نکلیں گے اور تنگ نظری،جمود اور فرقہ واریت کے ناسور کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔
ویسے یہ بات بھی توضیح طلب ہے کہ کسی ایک فقہ کو سمجھنے میں کتنا وقت درکار ہے؟؟یا تمام عمر میں ایک ہی فقہ کو بہ مشکل سمجھا جا سکتا ہے؟؟اگر پہلی صورت ہے تو ایک فقہ کو سمجھنے کے بعد دوسری فقہوں کی جانب متوجہ ہونا چاہیے،تاکہ ان سے بھی استفادہ ہو سکے،کیوں کہ یہ تو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ سارا حق ایک ہی فقہ میں محدود نہیں اور نہ اس کے بانیان معصوم ہیں۔ہاں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک فقہ کے علاوہ دیگر کو سمجھنا ممکن ہی نہیں تو یہ دوسری بات ہے۔
سچ یہ ہے کہ یہ کام اتنا مشکل نہیں جتنا آپ سمجھتے ہیں ،یا سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں؛اپنے مخالفین کے قریباً نصف اصولوں کا تو آپ کو اچھی طرح علم ہوتا ہے،جب دوران تدریس و تعلیم یا بہ وقت مناظرہ آپ ان کی تردید کرتے ہیں؛ظاہر ہے ان کے استدلال کو سمجھ کر ہی ان کا رد ہوتا ہے؛اگر بغیر سمجھے کرتے ہیں ،تو یہ ناانصافی ہے؛ظاہر ہے باقی نصف اصولوں کا علم بھی حاصل کیا جا سکتا ہے،بہ شرطے کہ اتباع حق پیش نظر ہو؛کیا خیال ہے؟؟لیکن یہاں یہ حال ہے کہ بڑے فخر سے فرمایا جاتا ہے کہ میں نے دس سال کے غور و فکر کے بعد مخالف کی دلیل کا جواب تلاش کر لیا ہے!!!(غالباً علامہ انور شاہ کشمیری کا قول ہے)سوال یہ ہے کہ اگر اس عرصے میں موت آجاتی ،تو خدا کو کیا جواب دیتے؟؟
مقلد اور محقق!ایں چہ بوالعجبی است؟اس معاملے میں میرا اپنا نہ صرف بلکہ اکثر محققین کا یہی نظریہ ہے۔
بعض مسائل میں امام سے عدم موافقت کی کیا وجہ ہے؟دوسرے کی تقلید یا اپنا اجتہاد؟اگر کوئی شخص کسی بھی امام کا مقلد ہے اور بعض مسائل میں اس امام سے موافقت نہیں رکھتا (بشرطیکہ اتنا علم بھی رکھتا ہو) تو وہ اس امام کی تقلید سے نہیں نکلتا۔
اگر پہلی بات ہے،تو کیا دو یاا س سے زائداشخاص کی تقلید ہو سکتی ہے؟
اگر اپنا اجتہاد ہے،تو کیا باقی مسائل میں وہ بر بناے تقلید موافقت کر رہا ہے،یا از روے اجتہاد؟
اگر تقلید کی وجہ سے موافق ہے تو یہاں تقلید کا دامن کیوں چھوڑ دیا؟؟
اگر اجتہاد کی وجہ سے ہے،تو امام کی تقلید سے نہ نکلنے کی بات کا کیا مطلب؟
یہ بات قطعی خلاف واقعہ ہے؛آپ اہل حدیث علما کی شروحات حدیث کا مطالعہ کریں،تو واضح ہو جائے گا کہ وہ بہ وقت ضرورت ان اصولوں پر بھی نقد کرتے ہیں؛بہ طور مثال فاتحۃ خلف الامام کی بحث دیکھ لیجیے؛وہاں اس قاعدے کا تذکرہ ملے گا کہ احناف کے ہاں خبر واحد سے کتاب اللہ پر اضافہ یا تخصیص نہیں ہو سکتی اور پھر اس پر نقد ہو گا۔باقی آپ کے ہاں یہ کیا تو جاتا ہے لیکن میرے محترم معذرت کے ساتھ اکثر جگہ طریقہ استدلال اور بنیاد کو دیکھا ہی نہیں جاتا۔ بلکہ صرف اقوال دیکھ کر یہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ یہ قرآن و حدیث کے قریب تر ہے۔ حالاں کہ دوسرا قول بھی اتنا ہی قریب اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ قریب ہوتا ہے۔
اس کی کچھ وضاحت فرمائیے،تا کہ اس پر مزید گفت گو ہو سکے۔حلالہ کے مسئلے میں بڑی واضح طور پر اس کی مثال نظر آتی ہے۔
برادرعزیز ! اب تومعتدل مزاج احناف میں بھی یہ فکر پروان چڑھ رہی ہے کہ ایک ہی فقہ سے تمام مسائل حل نہیں ہو سکتے،اس لیے کاسمو پولیٹن یا آفاقی فقہ کی تشکیل ہونی چاہیے ؛ڈاکٹر محمود غازی ؒ کا یہی نظریہ تھا؛ابھی حال ہی میں بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی میں ایک سیمی نار کے دوران ڈاکٹر طاہر منصوری نے بھی یہی تجویز پیش کی اور بہ طور تائید اہل حدیث کے طرز عمل کا بھی حوالہ دیا؛سو آپ بھی حضیض تقلید سے نکلیے اور کتاب و سنت کی تفہیم و تفقہ میں سلف کے مجموعی ذخیرہ فقہ و اجتہاد سے استفادہ کرتے ہوئے امت کو در پیش مسائل کا حل پیش کیجیے؛امام ابوحنیفہؓ نے بھی چوں کہ دلیل شرعی کی پیروی کی وصیت کر رکھی ہے ،اس لیے ان شاءاللہ آپ ان کی تقلید سے بھی نہیں نکلیں گے اور تنگ نظری،جمود اور فرقہ واریت کے ناسور کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔
بھائی! احقر کوئی عالم نہیں ؛یہ بہت بڑا منصب ہے؛خاکسا ر دین کا ایک ادنیٰ طالب علم ہے اور شائستہ ،مہذب اور بادلائل مکالمے کے ذریعے افہام و تفہیم پر یقین رکھتا ہے کہ یہی اصحاب الحدیث کا منہاج بحث ہے؛خدا آپ کو جزاے خیر سے نوازے ؛والسلامحافظ طاہر اسلام صاحب اگر عالم ہیں تو ان کی شان میں مجھ سے کوئی گستاخی ہو تو میں ان سے معذرت چاہتا ہوں۔