- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
۲۔فقہاء کے میلانات:
ماضی میں کچھ فقہاء ایسے پیدا ہوئے جن کے پاس اتنی احادیث نہ تھیں جن سے وہ مسائل کا استنباط کرتے۔ بلکہ وہ اپنے اساتذہ کے بارے میں بہت خوش گمان او رمعتقد تھے اور انہی کے بتائے ہوئے قواعد و اصول کے مطابق بے دھڑک فتوے دے دیا کرتے تھے۔ اور دوسرے علماء کے اقوال دیکھنا، سننا بھی ان کوپسند نہ تھا۔ (حجۃ اللہ البالغہ) اس رجحان کا تذکرہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی درجہ بالا کتاب میں کیا ہے۔ اس سے فقہی مسائل کی حقیقت کا اور ان کے معیار کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اندلسی مورخ اور عالم علامہ ابن خلدونؒ کے مقدمہ تاریخ سے ہم پہلے روشنی ڈال چکے ہیں۔ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ:
…کچھ فقہاء قرآن وحدیث کو ہی اپنے استنباط (deduction)کا محور سمجھتے۔ ان کا زیادہ میلان حدیث کی طرف رہا۔
…بعض فقہاء، حدیث و سنت کا مزاج نہ رکھنے کے باعث عقل و رائے کے ذریعے استنباط کیا کرتے۔
…کچھ فقہاء نے ان مسائل کے بارے میں اپنی بروقت فقہیات پیش کیں۔ جو وقوع پذیر ہو چکی تھیں۔ یا ہورہی تھیں۔
…بعض فقہاء نے مفروضہ مسائل یا مستقبل میں امکانی حد تک پیش آنے والے مسائل کے بارے میں اپنی فقہیات پہلے سے ہی پیش کردیں۔ اور ہر دور میں تخریج در تخریج کرتے گئے۔
بعض فقہاء نے اس خوش گمانی میں کہ ہمارے اسلاف کے وضع کردہ فقہی قواعد واصول ہی بہتر ہیں۔ انہیں یہ درجہ دے دیا:
أَنَّ کُلَّ آیَۃٍ تُخَالِفُ قَولَ أَصْحَابِنَا فَإنَّہَا تُحْمَلُ عَلَی النَّسْخِ أَو عَلَی التَّرجِیحِ، وَالأَوْلٰی أَنْ تُحْمَلَ عَلَی التَّأوِیْلِ مِنْ جِہَۃِ التَّوفِیقِ۔ مِنْ مَسَائِلِہِ أَنَّ مَنْ تَحَرَّی عِنْدَ الاِشْتِبَاہِ وَاسْتَدْبَرَ الْکَعْبَۃَ جَازَ عِندَنَا لأِنَّ تَأویلَ قَولِہِ تَعالٰی{ فولوا وجوہکم شطرہ} إِذَا عَلِمْتُمْ بِہِ، وَإِلٰی حَیثُ وَقَعَ تَحَرِّیْکُمْ عِنْدَ الاِشْتِبَاہِ۔ اصول کرخی:۱۲ )
ہر وہ آیت قرآنیہ جو ہمارے فقہاء کے اقوال کے خلاف ہے اسے یا تو نسخ پر محمول کیا جائے گا یا ترجیح پر۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ اسے تاویل پر محمول کیا جائے تاکہ موافقت پیدا ہو جائے۔ مثلاً کوئی شخص شک کی وجہ سے کعبہ کا صحیح رخ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پشت کرکے بیٹھ جاتا ہے تو یہ بیٹھنا جائز ہوگا۔کیونکہ اللہ کے اس فرمان (اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو) کی تاویل یہی ہوگی کہ جب تم شبہ کے وقت کوشش کرکے اس کی سمت جان لو۔تو اسی طرف رخ پھیر لو۔
قیاسی مسائل اور ان کی بے محل تخریج بھی ماضی میں عام رہی۔ جس کی وجہ سے ان فقہاء کے پاس ایسا ذخیرہ جمع ہوگیا جس کا پڑھنا اور جاننا یا اس سے مستفید ہونا وقت کا ضیاع ہی محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ ایک سعی لاحاصل بھی۔
ماضی میں کچھ فقہاء ایسے پیدا ہوئے جن کے پاس اتنی احادیث نہ تھیں جن سے وہ مسائل کا استنباط کرتے۔ بلکہ وہ اپنے اساتذہ کے بارے میں بہت خوش گمان او رمعتقد تھے اور انہی کے بتائے ہوئے قواعد و اصول کے مطابق بے دھڑک فتوے دے دیا کرتے تھے۔ اور دوسرے علماء کے اقوال دیکھنا، سننا بھی ان کوپسند نہ تھا۔ (حجۃ اللہ البالغہ) اس رجحان کا تذکرہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی درجہ بالا کتاب میں کیا ہے۔ اس سے فقہی مسائل کی حقیقت کا اور ان کے معیار کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اندلسی مورخ اور عالم علامہ ابن خلدونؒ کے مقدمہ تاریخ سے ہم پہلے روشنی ڈال چکے ہیں۔ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ:
…کچھ فقہاء قرآن وحدیث کو ہی اپنے استنباط (deduction)کا محور سمجھتے۔ ان کا زیادہ میلان حدیث کی طرف رہا۔
…بعض فقہاء، حدیث و سنت کا مزاج نہ رکھنے کے باعث عقل و رائے کے ذریعے استنباط کیا کرتے۔
…کچھ فقہاء نے ان مسائل کے بارے میں اپنی بروقت فقہیات پیش کیں۔ جو وقوع پذیر ہو چکی تھیں۔ یا ہورہی تھیں۔
…بعض فقہاء نے مفروضہ مسائل یا مستقبل میں امکانی حد تک پیش آنے والے مسائل کے بارے میں اپنی فقہیات پہلے سے ہی پیش کردیں۔ اور ہر دور میں تخریج در تخریج کرتے گئے۔
بعض فقہاء نے اس خوش گمانی میں کہ ہمارے اسلاف کے وضع کردہ فقہی قواعد واصول ہی بہتر ہیں۔ انہیں یہ درجہ دے دیا:
أَنَّ کُلَّ آیَۃٍ تُخَالِفُ قَولَ أَصْحَابِنَا فَإنَّہَا تُحْمَلُ عَلَی النَّسْخِ أَو عَلَی التَّرجِیحِ، وَالأَوْلٰی أَنْ تُحْمَلَ عَلَی التَّأوِیْلِ مِنْ جِہَۃِ التَّوفِیقِ۔ مِنْ مَسَائِلِہِ أَنَّ مَنْ تَحَرَّی عِنْدَ الاِشْتِبَاہِ وَاسْتَدْبَرَ الْکَعْبَۃَ جَازَ عِندَنَا لأِنَّ تَأویلَ قَولِہِ تَعالٰی{ فولوا وجوہکم شطرہ} إِذَا عَلِمْتُمْ بِہِ، وَإِلٰی حَیثُ وَقَعَ تَحَرِّیْکُمْ عِنْدَ الاِشْتِبَاہِ۔ اصول کرخی:۱۲ )
ہر وہ آیت قرآنیہ جو ہمارے فقہاء کے اقوال کے خلاف ہے اسے یا تو نسخ پر محمول کیا جائے گا یا ترجیح پر۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ اسے تاویل پر محمول کیا جائے تاکہ موافقت پیدا ہو جائے۔ مثلاً کوئی شخص شک کی وجہ سے کعبہ کا صحیح رخ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پشت کرکے بیٹھ جاتا ہے تو یہ بیٹھنا جائز ہوگا۔کیونکہ اللہ کے اس فرمان (اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو) کی تاویل یہی ہوگی کہ جب تم شبہ کے وقت کوشش کرکے اس کی سمت جان لو۔تو اسی طرف رخ پھیر لو۔
قیاسی مسائل اور ان کی بے محل تخریج بھی ماضی میں عام رہی۔ جس کی وجہ سے ان فقہاء کے پاس ایسا ذخیرہ جمع ہوگیا جس کا پڑھنا اور جاننا یا اس سے مستفید ہونا وقت کا ضیاع ہی محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ ایک سعی لاحاصل بھی۔