• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہی تقسیم اور تناؤ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
٭۔ نیز قرآن کی اس آیت کو ہم {واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا }کے سیاق (Context) میں ضرور پڑھیں اور سوچیں کہ جو مسلم اتفاق و اتحاد کو پارہ پارہ کرکے مختلف گروہوں میں بٹ کر جینا چاہتے ہیں روز قیامت ان کا کیا حشر ہو گا۔ آئیے! غور کریں کہ ایسی صورت میں ہم اللہ کی نظر میں کیا ہیں؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ فَأمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْ أَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ}
( آل عمران:۱۰۶)
جس دن کچھ چہرے سفید ہونگے اور کچھ کالے ۔ رہے وہ جن کے چہرے کالے ہونگے (انہیں کہا جائیگا) کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا تھا۔ لہٰذا اپنے کفر کی پاداش میں اس عذاب کوچکھو۔

سوچئے کیا عذر ہوگا ہمارے پاس اس کفر کا؟

٭۔ اسی طرح ایک مسلمان جب مرتا ہے تو بمصداق حدیث رسول ﷺ اس سے قبر میں منکر نکیر (دو فرشتے) تین سوالات کرتے ہیں جن میں ایک سوال یہ بھی ہے :

مَا دِیْنُکَ؟ تیرا دین کیا ہے؟

اگر مرنے والے کا جواب ’’دینی الإسلام‘‘ میرا دین اسلام ہے۔ تو اس کی نجات ممکن ہے۔اور اگر اس کا جواب یہ ہے کہ میرا دین شیعہ ہے، حنفی ہے، وہابی ہے یا دیو بندی، بریلوی و اہل حدیث ہے یانقشبندی ، تو تمام ائمہ اسلام کا اتفاق ہے کہ اس کی نجات نہیں ہو گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
امت کا المیہ:
امت کا انتشار جس سے عالم اسلام آج کرہ نار بنا ہوا ہے اس میں دو طرح کی گروہ بندیاں نظر آتی ہیں۔

ایک گروہ کے وہ فرقہ باز ہیں جن میں الحاد گھس آیا ہے اور تجدد کے نام پر قرآنی آیات کی من مانی تاویل اور دینی مسائل کی خود ساختہ تشریح کرتے ہیں۔ اور distortionتحریف بھی۔ رسولِ اکرم ﷺکا اسوۂ حسنہ ایک ماڈل کے طور پر انہیں ایک لحظہ پسند نہیں۔یہ اسوہ ان کے نزدیک کیا حیثیت رکھتا ہے وہ ان کے حلیوں، باتوں ، تحریروں یا مشتعل نفسیات سے بخوبی جانا جا سکتا ہے۔ اہلِ دین کو گالیاں دے کر، انہیں برا بھلا کہہ کے، ان کے مقام و مرتبہ کو گرا کر اور نفرت آمیز تحریریں پیش کر کے یہ اپنا چھوٹا قد اونچا کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف اسلام کا بڑا خیر خواہ،داعی اور بزعمِ خویش بڑا صاحب بصیرت وہمدرد بھی خود کوسمجھتے ہیں اوراپنے نفس کی شرارتوں کو چھپاتے ہیں۔ انہیں پرکھنا ہو تو ان کے حلیوں، باتوں اور عملوں کو سیرتِ رسول کے سامنے رکھ کر پرکھ لیجئے۔ بآسانی معلوم ہو جائے گا کہ یہ کس طبقے کے لوگ ہیں۔ اور کس کے لیے جد وجہد کر رہے ہیں؟

دوسرا گروہ وہ ہے جو اپنی دھڑے بندیوں اور فقہی مسالک میں منقسم ہے۔ ان میں باعمل، نیک، متقی اور متواضع بزرگوں کی کمی نہیں۔ جو خوفِ خدا بھی رکھتے ہیں۔ اور امتِ رسولؐ کا درد بھی۔ مگر دھڑے بندی کی سب سے بڑی کمزوری کو وہ اپنے لئے سب سے بڑی طاقت و حمایت سمجھتے ہیں۔ان میں بڑے قدکاٹھ کے علماء بھی شامل ہیں۔

ان مذہبی بزرگوں اوردوسرے آزاد منش طبقے سے ایک عاجزانہ سوال یہ ہے کہ ایک غیر مسلم اگر اسلام قبول کرنا چاہے تو کیا یہ مسالک اور ہماری عصبیتیں و مادر پدر آزادی اس کے اسلام کی قبولیت میں کشش کا باعث بنیں گی یا نفرت کا؟ جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ نارتھ امریکہ، جاپان ودیگر غیر مسلم ملکوں میں لوگوں کی اکثریت اسلام قبول کرنے سے اس لئے باز رہی کہ مسلکی عصبیتوں نے وہاں جو رنگ دکھائے وہ ناقابل بیان ہیں۔ اور مسلمانوں کی آزادی وبے راہ روی نے جو انہیں شرمندہ کیا وہ الگ المیہ ہے۔ ہمارے اخلاق و رویے کو دیکھ کر وہ توبہ توبہ کرتے ہوئے یہ سوال کرتے ہیں کہ کون تم میں مسلمان ہے اور کون کافر؟۔ یہ مادر پدر آزادی جو تمہارا اسلام دیتا ہے اور جوآزادی مغرب دے رہا ہے آیا ان دونوں میں کوئی فرق بھی ہے؟ اگر نہیں ہے تو ہم بھلے ہی سہی ورنہ ہمیں تو تمہارے اسلام سے شرم آتی ہے۔ بتائیے آپ کے پاس کون سا اسلام ہے؟ اللہ کا دیا ہوا دین یا اپنا حزبی مذہب؟

٭…کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان تمام فرقہ بندیوں کو خدا حافظ کہہ کے قرآن وسنت رسول کی بنیاد پر ہم ایک ہو جائیں؟ اگر حکومت وقت بھی تھوڑی سی مخلصانہ دلچسپی لے تو معتدل مزاج ، صاحب مروت، روادار ، صحیح معنوں میں عالم اور قدیم وجدید پر گہری نظر رکھنے والے علماء پر مشتمل ایک اعلی اختیاراتی بورڈ بنائے جو مدارس ، سکول وکالج اور یونیورسٹیز کا نصاب مسلکی بنیاد پر نہیں بلکہ دینی اور دنیوی واخروی بہتری کے لئے بنائے تاکہ مستقبل کی نسلیں تعصبات کی بجائے دینی محبت اور حمیت لے کر اٹھیں۔ اسی طرح یہ بورڈ ہر فقہ سے فائدہ ضرور اٹھائے مگر قرآن وسنت کو زندہ کرے۔ یہ نہ اجتہاد کی دعوت ہے اور نہ مذاہب خمسہ کے خلاف علم بغاوت۔ یوں تقریب بین المذاہب کی کوششیں کامیاب ہوسکتی ہیں اور بتدریج تعصب کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس بورڈ کو قرآن مجید کا یہ اصول بطور ایک ماٹو کے ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ:
{إِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوا دِیْنَہُمْ وَکَانُوا شِیَعاً لَسْتَ مِنْہُمْ فِی شَیْئٍ}(الانعام :۱۵۹)
بے شک جن لوگوں نے اپنے دین میں تفریق کی اور مختلف گروہوں میں بٹ گئے، تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔

٭٭٭٭٭​

فقہ اسلامی ۔ایک تعارف ، ایک تجزیہ
 
Top